(۳) سالانہ سرپرائز
’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!‘‘ معاذ نے موبائل پر حنظلہ کے سلام کا جواب دیا۔
’’معاذ! میں نے ایک نئی تفریح سوچی ہے۔‘‘ حنظلہ نے بڑے فخر سے معاذ، انس اور الیاس کو بتایا۔
آپ یہ سوچ کر پریشان نہ ہوں کہ ایک ساتھ تین کو موبائل پر کیسے بتایا؟ بھئی! یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے، ’’ٹرنگواسنیکس‘‘ کے ساتھ ساتھ کانفرنس کال بھی طبیعت کی خوش حالی کا سبب بنی ہوئی ہے۔
’’لو اور سنو، نئی تفریح سوچی ہے انھوں نے، مجھے یقین ہے کوئی اوٹ پٹانگ بات ہی سوچی ہوگی۔‘‘ الیاس نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
’’اونٹ پٹانگ۔۔۔ یعنی اس نے سوچا ہوگا کہ اونٹ پہ ٹانگ رکھ کر زمین پر کھڑا رہے گا۔۔۔ واقعی یہ تو نئی تفریح ہوگی ہمارے لیے۔‘‘ انس نے شرارت بھرے لہجے میں کہا تو چاروں خوب زور زور سے ہنسنے لگے۔
’’اوہو۔۔۔ بھئی! حنظلہ کو اپنی بات تو مکمل کرلینے دو۔‘‘ معاذ ان میں قدرے سنجیدہ تھا، اس کی یہ بات سن کر حنظلہ کو کچھ حوصلہ ملا تو وہ گویا ہوا:
’’میں نے سوچا ہے کہ تم تینوں آج شام میرے گھر آجاؤ، تمھارے لیے ’’سالانہ سرپرائز‘‘ ہے۔‘‘ حنظلہ نے جلدی جلدی اپنی بات مکمل کرڈالی۔
’’سرپرائز۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ ارے یار! تمھارے گھر کے باہر تو صرف ایک دکان ہے، اس میں بھی بچوں کی ٹافیاں وغیرہ ہی ملتی ہیں۔‘‘ الیاس نے مذاق اڑانا چاہا، مگر معاذ بولا:
’’نہیں الیاس! کسی کا اس طرح مذاق نہیں اڑانا چاہیے، ممکن ہے حنظلہ کا کوئی اور پروگرام ہو۔‘‘
’’مگر یہ ’’سالانہ سرپرائز‘‘ کیا ہوتا ہے؟‘‘ انس حیرت سے بولا۔ ’’بظاہر تو ایسا لگ رہا ہے کہ حنظلہ ہمیں ہر سال ایک سرپرائز دیتا ہے۔‘‘
’’مگر مجھے تو یاد نہیں کہ اس نے ہمیں کبھی سرپرائز دیا ہو۔‘‘ الیاس کہنے لگا۔
’’میرے خیال میں حنظلہ نے نیت کرلی ہے کہ اب ہمیں یہ ہر سال سرپرائز دے گا۔‘‘
’’جو چاہو اندازہ لگالو، مگر آج شام میرے گھر آجانا شرافت سے۔‘‘ حنظلہ نے مسکراتے ہوئے کہا اور سلام کرکے فون بند کردیا۔
شام کو وہ تینوں حنظلہ کے گھر آگئے۔
’’بھئی حنظلہ! میں تو تھک گیا ہوں سوچ سوچ کر تمھارے اس ’’سالانہ سرپرائز‘‘ کے متعلق۔‘‘معاذ نے بے چینی سے کہا۔
’’اور میرے خیال میں انس نے ’’سالانہ سرپرائز‘‘ کے اب تک سو ڈیڑھ سو مطلب تو سوچ ہی لیے ہوں گے۔‘‘ الیاس نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’تمھاری بات ڈیڑھ سو فی صد غلط ہے، جب مجھے سمجھ میں آگیا ہے کہ وہ سرپرائز کیا ہے تو میں مزید کیوں سوچوں گا؟‘‘ انس مسکراتے ہوئے بولا۔
’’بتانا ذرا کیا سوچا تم نے؟‘‘
’’بھئی! صاف سی بات ہے، تم نے ہمارے لیے ’’ذوق و شوق‘‘ کا ایک ایک عدد خاص نمبر منگوالیا ہے۔‘‘
’’یہ ۔۔۔ یہ تو پھر۔۔۔‘‘ الیاس نے گھبرا کر کہا۔
’’ارے بھئی! پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ سرپرائز کا تعلق کھانے سے ہے۔‘‘ حنظلہ کی بات سن کر الیاس کی جان میں جان آئی۔
حنظلہ انھیں ڈرائنگ روم میں ہنستا مسکراتا چھوڑ کر باورچی خانے کی طرف چلاگیا۔ تینوں کافی دیر تک ہنسی مذاق میں مصروف رہے، پھر انھیں حیرت کا جھٹکا اس وقت لگا جب انھوں نے حنظلہ کی رونی صورت دروازے پر دیکھی، اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
’’حنظلہ۔۔۔!‘‘ معاذ نے پریشان لہجے میں کچھ پوچھنا چاہا، مگر حنظلہ نے اشارے سے اسے اپنے پاس بلایا تووہ اٹھ کر دوڑتا ہوا حنظلہ کے پاس جا پہنچا، حنظلہ اسے لے کر باورچی خانے کی جانب بڑھ گیا، جب کہ الیاس اور انس ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگے، تقریباً دس منٹ بعد حنظلہ اور معاذ مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے، حنظلہ کے ہاتھ میں ٹرے تھی، ٹرے میں چار چائے کے کپ اور کچھ پیکٹس رکھے ہوئے تھے۔
حنظلہ نے وہ ٹرے دسترخوان پر رکھی، تینوں کے آگے چائے کا کپ رکھا اور ہر ایک کو ایک ایک پیکٹ تھمانے لگا، انھوں نے دیکھا کل آٹھ پیکٹ تھے، یعنی ہر ایک کے دو دو۔
’’واہ۔۔۔ کیا ذائقہ ہے یار! ان اسنیکس کا۔‘‘ انس نے الیاس کی طرف دیکھا، مگر اسے جواب دینے کی فرصت ہی نہیں تھی۔
’’ٹرنگو اسنیکس۔‘‘ انس اپنے خالی پیکٹ کو غور سے دیکھتے ہوئے زیر لب بڑبڑانے لگا۔ ’’ماشاء اللہ بھئی! اس کا ذائقہ تو بہت عمدہ ہے، کہاں سے ملتا ہے یہ؟‘‘
’’وہ نیچے ہمارے علاقے میں جو اکلوتی دکان ہے نا۔۔۔ وہاں سے۔‘‘ حنظلہ نے فخر سے بتایا۔
’’ویسے ایک بات سمجھ میں نہیں آئی حنظلہ!‘‘ انس نے حنظلہ کی طرف دیکھا۔
’’کیا۔۔۔!‘‘ حنظلہ مسکرایا، کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ اب انس کیا سوال کرے گا۔
’’تم دروازے پر آکر گھبراہٹ کی ایکٹنگ کرکے معاذ کو اپنے ساتھ باورچی خانے کیوں لے گئے تھے؟‘‘
’’میں بتاتا ہوں۔‘‘ معاذ کہنے لگا۔ ’’اصل میں یہ وہ سرپرائز نہیں جو حنظلہ نے ہمارے لیے تیار کیا تھا، بل کہ ’’سالانہ سرپرائز‘‘ تو کچھ اور تھا۔‘‘
’’کیا۔۔۔!!‘‘ انس اور الیاس حیران رہ گئے۔
’’جی ہاں۔۔۔ واقعہ یہ ہوا کہ حنظلہ نے ہمارے لیے سالانہ سرپرائز کے طور پر آم سوچے تھے، مگر چوں کہ آم کا نیا نیا موسم ہے، اس لیے یہ حضرت دھوکا کھاگئے، جب انھوں نے ہمارے لیے آم کاٹے تو وہ سب کے سب کھٹے نکلے، تب ان کی ہوگئی سٹی گم اور انھوں نے مجھے بلالیا، میں نے تمام صورتِ حال کو سمجھ کر ان کا ہاتھ تھاما اور علاقے کی اکلوتی دکان کی طرف اللہ کا نام لے کر چل پڑا، مگر وہاں ہمیں کچھ نہیں ملا، ہم دونوں کا موڈ خراب ہوگیا، اپنا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے ہم نے اس دکان سے ’’ٹرنگواسنیکس‘‘ یہ سوچ کر خریدلیے کہ گھر آکر تم دونوں کی جلی کٹی سننے سے پہلے کچھ کھا پی لیں، مگر جب ہم نے ’’ٹرنگواسنیکس‘‘ چکھے تو یہ اتنے لاجواب تھے کہ ۔۔۔، اس طرح یہی سالانہ سرپرائز ہو گیا۔‘‘
تفصیل سن کر سب کے لبوں پر مسکراہٹ ناچنے لگی۔