سیما علی
لائبریرین
آج - 21؍فروری 1829
داغؔ دہلوی کے ہم عصر، ماہرِ علمِ نجوم، کلام میں صحت زباں اور فنی پختگی نمایاں اور مسلمُ الثبوت استاد شاعر ”#حضرتِ_امیرؔ_مینائی صاحب“ کا یومِ ولادت...
نام #امیر_احمد_مینائی اور تخلص #امیرؔ تھا۔
21؍فروری 1829ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ مخدوم شاہ مینا کے خاندان سے تعلق تھا اس لیے مینائی کہلائے۔ طب،جفر اور نجوم سے واقف تھے۔ اپنے علم وفضل اور قابلیت میں اپنے معاصرین سے ممتاز تھے۔ شعروسخن کا شوق بچپن سے تھا۔ مظفر علی اسیرؔ سے تلمذ حاصل تھا۔ 1852ء میں واجد علی شاہ کے دربار سے تعلق قائم ہوا اور ان کے حکم سے دو کتابیں ’’ارشادُ السلطان‘‘ اور ’’ہدایتُ السلطان‘‘ تصنیف کیں۔ 1857ء کے ہنگامے کے بعد رام پور چلے گئے اور نواب یوسف علی خاں والئ رام پور کے انتقال کے بعد نواب کلب علی خاں نے انھیں اپنا استاد مقرر کیا۔ رام پور میں 43 برس بڑی عزت وآرام سے زندگی بسر کی اور تصنیف وتالیف میں مشغول رہے۔ نواب کے انتقال کے بعد داغؔ کے ایما پر امیرؔ مینائی حیدر آباد (دکن) گئے اور وہیں 13؍اکتوبر 1900ء کو انتقال ہوا۔
’’مرآۃ الغیب‘‘ اور ’’صنم خانۂ عشق‘‘ دو دیوان ان کی یادگار ہیں۔ تیسرا دیوان ’’محامد خاتمُ النبیین‘‘ نعت کا مجموعہ ہے۔ ’’امیر اللغات‘‘ کی صرف دوجلدیں الف ممدودہ اور الف مقصورہ شائع ہوئیں۔ اس کے علاوہ ان کی نثرونظم میں معتدد تصانیف ہیں۔
ریاضؔ خیرآبادی، جلیلؔ مانک پوری، مضطرؔ خیرآبادی اور حفیظؔ جونپوری ان کے مشہور شاگرد ہیں۔ وہ ایک مسلم الثبوت استاد تھے۔ ان کے کلام میں صحت زباں اور فنی پختگی بہت نمایاں ہے۔ ان کے کلام میں سقم مشکل ہی سے ملے گا۔
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
💐🎊 مقبول ممتاز شاعر امیرؔ مینائی صاحب کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت... 🎊💐
آفت تو ہے وہ ناز بھی انداز بھی لیکن
مرتا ہوں میں جس پر وہ ادا اور ہی کچھ ہے
---
ابھی آئے ابھی جاتے ہو جلدی کیا ہے دم لے لو
نہ چھوڑوں گا میں جیسی چاہے تم مجھ سے قسم لے لو
---
گاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی ہے امیرؔ
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
---
باقی نہ دل میں کوئی بھی یا رب ہوس رہے
چودہ برس کے سن میں وہ لاکھوں برس رہے
---
فراقِ یار نے بے چین مجھ کو رات بھر رکھا
کبھی تکیہ ادھر رکھا کبھی تکیہ ادھر رکھا
---
ہنس کے فرماتے ہیں وہ دیکھ کے حالت میری
کیوں تم آسان سمجھتے تھے محبت میری
---
کون سی جا ہے جہاں جلوۂ معشوق نہیں
شوقِ دیدار اگر ہے تو نظر پیدا کر
---
جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ
حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ
---
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
---
شبِ فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو
کبھی فرصت میں کر لینا حساب آہستہ آہستہ
---
تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر
سرفروشی کی تمنا ہے تو سر پیدا کر
---
بے سبب سیر شبِ ماہ نہیں ہے یہ امیرؔ
ہو گئے تم بھی کسی رشکِ قمر کے عاشق
---
آہوں سے سوزِ عشق مٹایا نہ جائے گا
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
---
اور تھوڑی سی شبِ وصل بڑھا دے یارب
صبحِ نزدیک ہمیں ان سے ہے کیا کیا کہنا
---
اب تک آتی ہے صدا تربت لیلیٰ سے امیرؔ
ساربان اب تو خدا کے لیے محمل ٹھہرا
---
وصل کی شب بھی خفا وہ بت مغرور رہا
حوصلہ دل کا جو تھا دل میں بدستور رہا
---
لیلۃ القدر ہے وصلت کی دعا مانگ امیرؔ
اس سے بہتر ہے کہاں کوئی مناجات کی رات
---
وہ دشمنی کریں تو کریں اختیار ہے
ہم تو عدو کے دوست ہیں دشمن کے یار ہیں
---
سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
---
کوئی آتا ہے عدم سے تو کوئی جاتا ہے
سخت دونوں میں خدا جانے سفر کس کا ہے
---
اے ضبط دیکھ عشق کی ان کو خبر نہ ہو
دل میں ہزار درد اٹھے آنکھ تر نہ ہو
---
موقوف جرم ہی پہ کرم کا ظہور تھا
بندے اگر قصور نہ کرتے قصور تھا
---
سو شعر ایک جلسے میں کہتے تھے ہم امیرؔ
جب تک نہ شعر کہنے کا ہم کو شعور تھا ●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
داغؔ دہلوی کے ہم عصر، ماہرِ علمِ نجوم، کلام میں صحت زباں اور فنی پختگی نمایاں اور مسلمُ الثبوت استاد شاعر ”#حضرتِ_امیرؔ_مینائی صاحب“ کا یومِ ولادت...
نام #امیر_احمد_مینائی اور تخلص #امیرؔ تھا۔
21؍فروری 1829ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ مخدوم شاہ مینا کے خاندان سے تعلق تھا اس لیے مینائی کہلائے۔ طب،جفر اور نجوم سے واقف تھے۔ اپنے علم وفضل اور قابلیت میں اپنے معاصرین سے ممتاز تھے۔ شعروسخن کا شوق بچپن سے تھا۔ مظفر علی اسیرؔ سے تلمذ حاصل تھا۔ 1852ء میں واجد علی شاہ کے دربار سے تعلق قائم ہوا اور ان کے حکم سے دو کتابیں ’’ارشادُ السلطان‘‘ اور ’’ہدایتُ السلطان‘‘ تصنیف کیں۔ 1857ء کے ہنگامے کے بعد رام پور چلے گئے اور نواب یوسف علی خاں والئ رام پور کے انتقال کے بعد نواب کلب علی خاں نے انھیں اپنا استاد مقرر کیا۔ رام پور میں 43 برس بڑی عزت وآرام سے زندگی بسر کی اور تصنیف وتالیف میں مشغول رہے۔ نواب کے انتقال کے بعد داغؔ کے ایما پر امیرؔ مینائی حیدر آباد (دکن) گئے اور وہیں 13؍اکتوبر 1900ء کو انتقال ہوا۔
’’مرآۃ الغیب‘‘ اور ’’صنم خانۂ عشق‘‘ دو دیوان ان کی یادگار ہیں۔ تیسرا دیوان ’’محامد خاتمُ النبیین‘‘ نعت کا مجموعہ ہے۔ ’’امیر اللغات‘‘ کی صرف دوجلدیں الف ممدودہ اور الف مقصورہ شائع ہوئیں۔ اس کے علاوہ ان کی نثرونظم میں معتدد تصانیف ہیں۔
ریاضؔ خیرآبادی، جلیلؔ مانک پوری، مضطرؔ خیرآبادی اور حفیظؔ جونپوری ان کے مشہور شاگرد ہیں۔ وہ ایک مسلم الثبوت استاد تھے۔ ان کے کلام میں صحت زباں اور فنی پختگی بہت نمایاں ہے۔ ان کے کلام میں سقم مشکل ہی سے ملے گا۔
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
💐🎊 مقبول ممتاز شاعر امیرؔ مینائی صاحب کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت... 🎊💐
آفت تو ہے وہ ناز بھی انداز بھی لیکن
مرتا ہوں میں جس پر وہ ادا اور ہی کچھ ہے
---
ابھی آئے ابھی جاتے ہو جلدی کیا ہے دم لے لو
نہ چھوڑوں گا میں جیسی چاہے تم مجھ سے قسم لے لو
---
گاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی ہے امیرؔ
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
---
باقی نہ دل میں کوئی بھی یا رب ہوس رہے
چودہ برس کے سن میں وہ لاکھوں برس رہے
---
فراقِ یار نے بے چین مجھ کو رات بھر رکھا
کبھی تکیہ ادھر رکھا کبھی تکیہ ادھر رکھا
---
ہنس کے فرماتے ہیں وہ دیکھ کے حالت میری
کیوں تم آسان سمجھتے تھے محبت میری
---
کون سی جا ہے جہاں جلوۂ معشوق نہیں
شوقِ دیدار اگر ہے تو نظر پیدا کر
---
جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ
حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ
---
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
---
شبِ فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو
کبھی فرصت میں کر لینا حساب آہستہ آہستہ
---
تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر
سرفروشی کی تمنا ہے تو سر پیدا کر
---
بے سبب سیر شبِ ماہ نہیں ہے یہ امیرؔ
ہو گئے تم بھی کسی رشکِ قمر کے عاشق
---
آہوں سے سوزِ عشق مٹایا نہ جائے گا
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
---
اور تھوڑی سی شبِ وصل بڑھا دے یارب
صبحِ نزدیک ہمیں ان سے ہے کیا کیا کہنا
---
اب تک آتی ہے صدا تربت لیلیٰ سے امیرؔ
ساربان اب تو خدا کے لیے محمل ٹھہرا
---
وصل کی شب بھی خفا وہ بت مغرور رہا
حوصلہ دل کا جو تھا دل میں بدستور رہا
---
لیلۃ القدر ہے وصلت کی دعا مانگ امیرؔ
اس سے بہتر ہے کہاں کوئی مناجات کی رات
---
وہ دشمنی کریں تو کریں اختیار ہے
ہم تو عدو کے دوست ہیں دشمن کے یار ہیں
---
سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
---
کوئی آتا ہے عدم سے تو کوئی جاتا ہے
سخت دونوں میں خدا جانے سفر کس کا ہے
---
اے ضبط دیکھ عشق کی ان کو خبر نہ ہو
دل میں ہزار درد اٹھے آنکھ تر نہ ہو
---
موقوف جرم ہی پہ کرم کا ظہور تھا
بندے اگر قصور نہ کرتے قصور تھا
---
سو شعر ایک جلسے میں کہتے تھے ہم امیرؔ
جب تک نہ شعر کہنے کا ہم کو شعور تھا ●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●