مقدس
لائبریرین
” فٹ پرنٹس آف گاڈ” یعنی خدا کے نقش پا! کے مطابق، یوم حساب کے وقت ایک بندے کو خدا کے حضور کے پیش کیا جاتا ہے۔ پھر خالق اور مخلوق کے بیچ کچھ اس نوعیت کی بات چیت ہوتی ہے۔
بندہ۔ ” اے اللہ! تو غفور الرّحیم ہے!”
خدا۔ ” میں ایسا ہی ہوں۔”
بندہ۔ ” تو ہر شے پر قادر ہے؟”
خدا۔ ” اس میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں۔”
بندہ۔ ” تو سب سے بڑا رازق بھی ہے؟”
خدا۔ ” میں اپنے بیان کردہ ہر وصف کے عین مطابق ہوں!”
بندہ۔ ” تو اپنے بندے سے بہت محبت کرتا ہے۔۔۔۔۔ ستر ماؤں سے بھی زیادہ؟”
خدا۔ ” میری محبت لامحدود ہے اور میں اپنی ہر تخلیق سے محبت کرتا ہوں۔
بندہ۔ ” ماں تو ذرا سی تکلیف پر بےچین ہو جایا کرتی تھی۔ اسے اس وقت تک سکون نہیں ملتا تھا جب تک وہ میری تکلیف کو رفع کر کے مجھے آرام نہیں پہنچا دیتی تھی۔”
خدا۔ ” تمہاری ماں کے اندر محبت اور اپنائیت کا یہ جذبہ میں نے ہی رکھا تھا۔ وہ میری منشا اور اشارے پر تمہاری دیکھ بھال کے لیے بےقرار ہو جایا کرتی تھی۔ دیکھا! میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں؟”
بندہ۔ ” محبت۔۔۔۔۔ اونہہ۔۔۔۔۔۔!”
خدا۔ ” کیا ہوا؟”
بندہ۔ ” کیا تو زندگی بھر میرے ساتھ رہا ہے؟”
خدا۔ ” بےشک! میں اپنے وعدے سے کبھی نہیں پھرتا۔ میں نے ہمیشہ تمہارا ساتھ دیا ہے۔”
اس کے بعد بندہ اپنی زندگی کے چند نہایت ہی ناخوشگوار اور مصائب بھرے واقعات کا ذکر کرتا ہے اور آخر میں شکایتی لہجے میں کہتا ہے۔
بندہ۔ ” آزمائش کے ان مواقع پر تو نے مجھے بےیار و مددگار چھوڑ دیا تھا!”
خدا۔ ” بالکل نہیں۔۔۔۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔”
بندہ۔ ” پھر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟”
اس موقعے پر خدا ایک جلیل القدر فرشتے کو حکم دیتا ہے کہ وہ ” فٹ پرنٹس” کا ریکارڈ بندے کو دکھائے۔ فرشتہ پلک جھپکتے میں حکم خداوندی کی تعمیل کر دیتا ہے۔ ایک بڑے اسکرین پر خدا اور بندے کے فٹ پرنٹس ابھرنے لگتے ہیں۔
یہ گویا اس بندے کی پہلی سانس سے آخری سانس تک کی دستاویزی فلم تھی۔ ہر جگہ اور ہر موقع پر چار چار قدموں کے نشانات دکھائی دے رہے تھے۔ دو خدا کے اور دو بندے کے۔۔ پھر تین چار ایسے مقامات بھی آئے جہاں پر صرف دو قدموں کے نشانات نظر آ رہے تھے۔ بندہ یہ دیکھ کر احتجاجی انداز میں چلّا اٹھا۔
بندہ۔ ” میں انہی مواقع کا حوالہ دے رہا ہوں جہاں تو نے میرا ساتھ چھوڑ دیا تھا اور میں بالکل اکیلا رہ گیا تھا۔”
خدا۔ ” یہ تمہاری بھول ہے۔ میں ان نازک لمحات میں بھی تمہارے ساتھ تھا۔
بندہ۔ ” پھر۔۔۔۔۔۔۔ پھر تیرے فٹ پرنٹس کہاں ہیں؟”
خدا۔ ” یہ نظر آنے والے فٹ پرنٹس میرے ہی ہیں۔”
بندہ۔ ” اور میرے فٹ پرنٹس۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟”
خدا۔ ” زندگی کی ان کٹھن اور مشکل گھڑیوں میں، میں نے تمہیں اپنی گود میں اٹھا لیا تھا۔ میں نے کہا نا، میں اپنے بندوں کے ساتھ ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہوں۔۔ اگر ان سنگین لمحات میں، میں نے تمہیں اپنی آغوش میں نہ چھپایا ہوتا تو تمہارے ساتھ برا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت برا۔۔۔!”
بندے کی ایک چیخ نکل گئی اور وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ یہ رونا ایک ندامت اور پچھتاوے کا مظہر تھا کہ اس نے اپنے خالق حقیقی سے شکوہ کیا۔ انسان کی یہ عادت ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی محرومیوں کی شکایت کرتے وقت اس حقیقت کو یکسر فراموش کر دیتا کہ کیا اس نے ان تمام نعمتوں کا شکر ادا کر دیا جو اسے بن مانگے اور بغیر کوشش کے میسر ہیں۔۔۔۔۔!
ماخذ: http://meem1.wordpress.com/2011/01/24/foot-prints-of-god/
بندہ۔ ” اے اللہ! تو غفور الرّحیم ہے!”
خدا۔ ” میں ایسا ہی ہوں۔”
بندہ۔ ” تو ہر شے پر قادر ہے؟”
خدا۔ ” اس میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں۔”
بندہ۔ ” تو سب سے بڑا رازق بھی ہے؟”
خدا۔ ” میں اپنے بیان کردہ ہر وصف کے عین مطابق ہوں!”
بندہ۔ ” تو اپنے بندے سے بہت محبت کرتا ہے۔۔۔۔۔ ستر ماؤں سے بھی زیادہ؟”
خدا۔ ” میری محبت لامحدود ہے اور میں اپنی ہر تخلیق سے محبت کرتا ہوں۔
بندہ۔ ” ماں تو ذرا سی تکلیف پر بےچین ہو جایا کرتی تھی۔ اسے اس وقت تک سکون نہیں ملتا تھا جب تک وہ میری تکلیف کو رفع کر کے مجھے آرام نہیں پہنچا دیتی تھی۔”
خدا۔ ” تمہاری ماں کے اندر محبت اور اپنائیت کا یہ جذبہ میں نے ہی رکھا تھا۔ وہ میری منشا اور اشارے پر تمہاری دیکھ بھال کے لیے بےقرار ہو جایا کرتی تھی۔ دیکھا! میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں؟”
بندہ۔ ” محبت۔۔۔۔۔ اونہہ۔۔۔۔۔۔!”
خدا۔ ” کیا ہوا؟”
بندہ۔ ” کیا تو زندگی بھر میرے ساتھ رہا ہے؟”
خدا۔ ” بےشک! میں اپنے وعدے سے کبھی نہیں پھرتا۔ میں نے ہمیشہ تمہارا ساتھ دیا ہے۔”
اس کے بعد بندہ اپنی زندگی کے چند نہایت ہی ناخوشگوار اور مصائب بھرے واقعات کا ذکر کرتا ہے اور آخر میں شکایتی لہجے میں کہتا ہے۔
بندہ۔ ” آزمائش کے ان مواقع پر تو نے مجھے بےیار و مددگار چھوڑ دیا تھا!”
خدا۔ ” بالکل نہیں۔۔۔۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔”
بندہ۔ ” پھر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟”
اس موقعے پر خدا ایک جلیل القدر فرشتے کو حکم دیتا ہے کہ وہ ” فٹ پرنٹس” کا ریکارڈ بندے کو دکھائے۔ فرشتہ پلک جھپکتے میں حکم خداوندی کی تعمیل کر دیتا ہے۔ ایک بڑے اسکرین پر خدا اور بندے کے فٹ پرنٹس ابھرنے لگتے ہیں۔
یہ گویا اس بندے کی پہلی سانس سے آخری سانس تک کی دستاویزی فلم تھی۔ ہر جگہ اور ہر موقع پر چار چار قدموں کے نشانات دکھائی دے رہے تھے۔ دو خدا کے اور دو بندے کے۔۔ پھر تین چار ایسے مقامات بھی آئے جہاں پر صرف دو قدموں کے نشانات نظر آ رہے تھے۔ بندہ یہ دیکھ کر احتجاجی انداز میں چلّا اٹھا۔
بندہ۔ ” میں انہی مواقع کا حوالہ دے رہا ہوں جہاں تو نے میرا ساتھ چھوڑ دیا تھا اور میں بالکل اکیلا رہ گیا تھا۔”
خدا۔ ” یہ تمہاری بھول ہے۔ میں ان نازک لمحات میں بھی تمہارے ساتھ تھا۔
بندہ۔ ” پھر۔۔۔۔۔۔۔ پھر تیرے فٹ پرنٹس کہاں ہیں؟”
خدا۔ ” یہ نظر آنے والے فٹ پرنٹس میرے ہی ہیں۔”
بندہ۔ ” اور میرے فٹ پرنٹس۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟”
خدا۔ ” زندگی کی ان کٹھن اور مشکل گھڑیوں میں، میں نے تمہیں اپنی گود میں اٹھا لیا تھا۔ میں نے کہا نا، میں اپنے بندوں کے ساتھ ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہوں۔۔ اگر ان سنگین لمحات میں، میں نے تمہیں اپنی آغوش میں نہ چھپایا ہوتا تو تمہارے ساتھ برا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت برا۔۔۔!”
بندے کی ایک چیخ نکل گئی اور وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ یہ رونا ایک ندامت اور پچھتاوے کا مظہر تھا کہ اس نے اپنے خالق حقیقی سے شکوہ کیا۔ انسان کی یہ عادت ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی محرومیوں کی شکایت کرتے وقت اس حقیقت کو یکسر فراموش کر دیتا کہ کیا اس نے ان تمام نعمتوں کا شکر ادا کر دیا جو اسے بن مانگے اور بغیر کوشش کے میسر ہیں۔۔۔۔۔!
ماخذ: http://meem1.wordpress.com/2011/01/24/foot-prints-of-god/