پطرس بخاری ” وہ کیوں؟ “ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( اقتباس)

سید فصیح احمد

لائبریرین
میں تو خدا سے یہی چاہتا تھا کہ وہ مجھے عرض و معروض کا موقع دیں۔ میں نے کہا۔ “دیکھئے نا۔ مثلاً ایک طالب علم ہے، وہ کالج میں پڑھتا ہے۔ اب ایک تو اس کا دماغ ہے دوسرا اس کا جسم ہے۔ جسم کی صحت بھی ضروری ہے۔ اور دماغ کی صحت تو ضروری ہے ہی۔ لیکن ان کے علاوہ ایک اور بات بھی ہوتی ہے جس سے آدمی کو پہچانا جاتا ہے۔ میں اس کو شخصیت کہتا ہوں۔ اس کا تعلق نہ جسم سے ہوتا ہے نہ دماغ سے، ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی کی جسمانی صحت بالکل خراب ہو اور اس کا دماغ بھی بالکل بیکار ہو، لیکن پھر بھی اس کی شخصیت۔۔۔ نہ خیر دماغ تو بیکار نہیں ہونا چاہئے ورنہ انسان خبطی ہوتا ہے لیکن پھر بھی اگر ہو بھی۔ تو بھی۔۔۔ گویا شخصیت ایک ایسی چیز ہے۔۔۔ ٹھہرئیے، میں ابھی ایک منٹ میں آپ کو بتاتا ہوں۔”

ایک منٹ کی بجائے والد نے مجھے آدھ گھنٹے کی مہلت دی جس کے دوران میں وہ خاموشی کے ساتھ میرے جواب کا انتظار کرتے رہے، اس کے بعد وہاں سے اُٹھ کر چلا آیا۔

تین چار دن کے بعد مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا، مجھے شخصیت نہیں سیرت کہنا چاہئے۔ شخصیت ایک بے رنگ سا لفظ ہے۔ سیرت کے لفظ سے نیکی ٹپکتی ہے۔ چنانچہ میں نے سیرت کو اپنا تکیہ کلام بنا لیا۔ لیکن یہ بھی مفید ثابت نہ ہوا۔ والد کہنے لگے۔ “کیا سیرت سے تمہارا مطلب چال چلن ہے یا کچھ اور؟” میں نے کہا “چال چلن کہہ لیجئے۔”

“تو گویا دماغی اور جسمانی صحت کے علاوہ چال چلن بھی اچھا ہونا چاہئے۔”

میں نے کہا۔ “بس یہی تو میرا مطلب ہے۔”

“اور یہ چال چلن ہاسٹل میں رہنے سے بہت اچھا ہو جاتا ہے!”

میں نسبتاً نحیف آواز سے کہا۔ “جی ہاں۔”

“یعنی ہاسٹل میں رہنے والے طالب علم نماز، روزے کے زیادہ پابند ہوتے ہیں، ملک کی زیادہ خدمت کرتے ہیں ، سچ زیادہ بولتے ہیں، نیک زیادہ ہوتے ہیں۔”

میں نے کہا۔ “جی ہاں”۔

کہنے لگے۔ “وہ کیوں؟”

اس سوال کا جواب ایک دفعہ پرنسپل صاحب نے تقسیم انعامات کے جلسے میں نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا تھا، اے کاش میں نے اس وقت توجہ سے سنا ہوتا!

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
(پطرس کے مضامین سے اقتباس)
 
Top