محمد اظہر نذیر
محفلین
کیا نظارا تھا مجسم تھی حیا، دیکھ آیا
اُس کی آنکھوں میں جو اُترا ہوں، وفا دیکھ آیا
ہوش بھی گُم ہوئے، دیوانہ بنا پھرتا ہوں
اک نظر میں ہی خدا جانے میں کیا دیکھ آیا
زلف پھیلا کے کہا اُس نے کہ آو جاناں
پھر برستی ہوئی چاہت کی گھٹا دیکھ آیا
گنگ رہتا تھا، ملاقات ہوئی تھی پل کی
کیا تھا اُس بت میں خدا جانے، جدا دیکھ آیا
بزم تھی، لوگ تھے، رونق تھی، چراغاں کتنا
سب تھا بیکار کہ سب اُس کے سوا دیکھ آیا
دیکھنے کی جو تمنا تھی کہ مکہ دیکھوں
اُس میں شامل ہوئی مولی کی رضا، دیکھ آیا
سبز گنبد کی زیارت کو گیا تھا اظہر
پاس بازو میں ہی رہتا تھا خدا دیکھ آیا