علی وقار
محفلین
ہر شے جہاں کی گرد و غبار خیال ہے
آشوب گاہ دہر میں جینا محال ہے
یہ گلشن یقیں بھی بجز وہم کچھ نہیں
عالم جسے کہیں وہ طلسم خیال ہے
نیرنگئی نظر کے سوا اور کچھ نہیں
دود فراق جلوۂ شام وصال ہے
یہ نغمۂ وجود کسی راگنی کی راکھ
اک چیخ ساز عمر ابد کا مآل ہے
ہر موج ہے کہ ہاتھ سے چھٹتی ہوئی عناں
وہ جست و خیز ہے کہ سنبھلنا محال ہے
تپتے دنوں کی آگ میں جینے کی آرزو
شبنم بروئے گل عرق انفعال ہے
تنہائیوں میں بیٹھ کے خود کو شکار کر
یہ دشت دل بھی دشت ختن کی مثال ہے
آشوب گاہ دہر میں جینا محال ہے
یہ گلشن یقیں بھی بجز وہم کچھ نہیں
عالم جسے کہیں وہ طلسم خیال ہے
نیرنگئی نظر کے سوا اور کچھ نہیں
دود فراق جلوۂ شام وصال ہے
یہ نغمۂ وجود کسی راگنی کی راکھ
اک چیخ ساز عمر ابد کا مآل ہے
ہر موج ہے کہ ہاتھ سے چھٹتی ہوئی عناں
وہ جست و خیز ہے کہ سنبھلنا محال ہے
تپتے دنوں کی آگ میں جینے کی آرزو
شبنم بروئے گل عرق انفعال ہے
تنہائیوں میں بیٹھ کے خود کو شکار کر
یہ دشت دل بھی دشت ختن کی مثال ہے