100 واں یوم ولادت ۔۔۔۔ عبدالحئی ساحر لدھیانوی ۔۔

مومن فرحین

لائبریرین
شاعر بے باک کہ جس کے لہجے میں تلخیاں بولتی تھیں پر آج بھی اس کے گیتوں کی مٹھاس لوگوں کے دلوں میں موجود ہے ۔۔۔
100 واں یوم ولادت کے موقع پر ۔۔۔

مانا کہ اس زمیں کو نہ گلزار کر سکے
کچھ خار کم تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
تاج محل

تاج تیرے لیے اک مظہرِ الفت ہی سہی
تجھ کو اس وادیِٔ رنگیں سے عقیدت ہی سہی
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

بزمِ شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
ثبت جس راہ میں ہوں سطوتِ شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی

میری محبوب پسِ پردہِ تشہیرِ وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا
مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے

یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
سینۂِ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں

میری محبوب انہیں بھی تو محبت ہوگی
جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکلِ جمیل
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل

یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
 
آخری تدوین:

فاخر

محفلین
تاج محل

تاج تیرے لیے اک مظہرِ الفت ہی سہی
تجھ کو اس وادیِٔ رنگیں سے عقیدت ہی سہی
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

بزمِ شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
ثبت جس راہ میں ہوں سطوتِ شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی

میری محبوب پسِ پردہ تشہیرِ وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا
مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے

یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
سینۂِ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں

میری محبوب انہیں بھی تو محبت ہوگی
جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکلِ جمیل
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل

یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

آج اردو کے عظیم شاعر ساحر لدھیانوی کا 100 ویں یومِ ولادت ہے۔ مجھے ساحر بطور نغمہ نگار اور شاعر پسند بھی ہیں۔ لیکن تاج محل کے متعلق یہ نظم مجھے پسند نہیں ہے۔ تاج محل عشق و محبت کی لازوال نشانی ہے، اسے اس طرح تحقیر اور کم نظری کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے، یہ عشق کی توہین ہے۔میری نظر میں آپ تاج محل کی تعریف نہیں کرسکتے، نہ کریں، کم سے کم اس طرح اس کی توہین بھی نہ کریں۔ یہ قسمت قسمت کی بات ہے کہ کسی شاہجہاں کو ’’تاج محل‘‘ بنانے کی توفیق مل جاتی ہے، تو کوئی اس توفیق سے تہی دامن رہتا ہے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
آج اردو کے عظیم شاعر ساحر لدھیانوی کی 100 ویں یومِ ولادت ہے۔ مجھے ساحر بطور نغمہ نگار اور شاعر پسند بھی ہیں۔ لیکن تاج محل کے متعلق یہ نظم مجھے پسند نہیں ہے۔ تاج محل عشق و محبت کی لازوال نشانی ہے، اسے اس طرح تحقیر اور کم نظری کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے، یہ عشق کی توہین ہے۔میری نظر میں آپ تاج محل کی تعریف نہیں کرسکتے، نہ کریں، کم سے کم اس طرح اس کی توہین بھی نہ کریں۔ یہ قسمت قسمت کی بات ہے کہ کسی شاہجہاں کو ’’تاج محل‘‘ بنانے کی توفیق مل جاتی ہے، تو کوئی اس توفیق سے تہی دامن رہتا ہے۔
میرے خیال میں یہ ایک خاص کیفیت کی نظم ہے جو بسا اوقات ہم جیسوں پر بھی طاری ہوتی ہے
 

مومن فرحین

لائبریرین
جس طرح ہم تاج کی اہمیت و برتری سے انکار نہیں کر سکتے اسی طرح اس نظم کی خوبصورتی اپنی جگہ قائم ہے ۔۔۔ اس سے بھی ہم منہ نہیں موڑ سکتے ۔۔۔ یہ اپنے آپ میں ایک شاہ کار ہے ۔۔۔:)
 

سیما علی

لائبریرین
شاعر بے باک کہ جس کے لہجے میں تلخیاں بولتی تھیں پر آج بھی اس کے گیتوں کی مٹھاس لوگوں کے دلوں میں موجود ہے ۔۔۔
100 واں یوم ولادت کے موقع پر ۔۔۔

مانا کہ اس زمیں کو نہ گلزار کر سکے
کچھ خار کم تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
 

سیما علی

لائبریرین
ہر طرح کے جذبات کا اعلان ہیں آنکھیں
شبنم کبھی شعلہ کبھی طوفان ہیں آنکھیں

آنکھوں سے بڑی کوئی ترازو نہیں ہوتی
تلتا ہے بشر جس میں وہ میزان ہیں آنکھیں

آنکھیں ہی ملاتی ہیں زمانے میں دلوں کو
انجان ہیں ہم تم اگر انجان ہیں آنکھیں

لب کچھ بھی کہیں اس سے حقیقت نہیں کھلتی
انسان کے سچ جھوٹ کی پہچان ہیں آنکھیں

آنکھیں نہ جھکیں تیری کسی غیر کے آگے
دنیا میں بڑی چیز مری جان! ہیں آنکھیں
 

سیما علی

لائبریرین
ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی
ہوتی ہے دلبروں کی عنایت کبھی کبھی

شرما کے منہ نہ پھیر نظر کے سوال پر
لاتی ہے ایسے موڑ پہ قسمت کبھی کبھی

کھلتے نہیں ہیں روز دریچے بہار کے
آتی ہے جان من یہ قیامت کبھی کبھی

تنہا نہ کٹ سکیں گے جوانی کے راستے
پیش آئے گی کسی کی ضرورت کبھی کبھی

پھر کھو نہ جائیں ہم کہیں دنیا کی بھیڑ میں
ملتی ہے پاس آنے کی مہلت کبھی کبھی
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین

مومن فرحین

لائبریرین
# دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

# چند کلیاں نشاط کی چن کر
مدتوں محو یس رہتا ہوں
تجھ سے ملنا خوشی کی بات سہی
تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں

# لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم

# پھر نہ کیجئے مری گستاخ نگاہی کا گلہ
دیکھیے آپ نے پھر پیار سے دیکھا مجھ کو

# ان کے رخسار پہ ڈھلکے ہوئے آنسو توبہ
میں نے شبنم کو بھی شعلوں پہ مچلتے دیکھا

# ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

#تجھ کو خبر نہیں مگر اک سادہ لوح کو
برباد کر دیا ترے دو دن کے پیار نے

#ٹوٹا طلسم عہد محبت کچھ اس طرح
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے

ہر شے قریب آ کے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاج شوق گریزاں نہ کر سکے

کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کر سکے
 

مومن فرحین

لائبریرین

سیما علی

لائبریرین
نور جہاں‌کے مزار پر

پہلوئے شاہ میں‌یہ دخترِ جمہور کی قبر
کتنے گم گشتہ فسانوں کا پتہ دیتی ہے
کتنے خوں‌ریز حقائق سے اٹھاتی ہے نقاب
کتنی کچلی ہوئی جانوں‌کا پتہ دیتی ہے

کیسے مغرور شہنشاہوں کی تسکیں کے لئے
سالہاسال حسیناؤں کے بازار لگے
کیسے بہکی ہوئی نظروں کے تعیش کے لئے
سرخ محلوں ‌میں ‌جواں جسموں‌کے انبار لگے

کیسے ہر شاخ سے منہ بند، مہکتی کلیاں
نوچ لی جاتی ہیں تزینِ حرم کی خاطر
اور مرجھا کے بھی آزاد نہ ہو سکتی تھیں
ظلِ سبحان کی اُلفت کے بھرم کی خاطر

کیسے اک فرد کے ہونٹوں کی ذرا سی جنبش
سرد کرسکتی تھی بے لوث وفاؤں کے چراغ
لوٹ سکتی تھی دمکتے ہوئے ماتھوں‌کا سہاگ
توڑ سکتی تھی مئے عشق سے لبریز ایاغ

سہمی سہمی سی فضا میں یہ ویران مرقد
اتنا خاموش ہے، فریاد کناں‌ ہو جیسے
سرد شاخوں میں ہوا چیخ‌ رہی ہے ایسے
روحِ تقدیس و وفا مرثیہ خواں ہو جیسے

تو مری جاں! مجھے حیرت و حسرت سے نہ دیکھ
ہم میں‌ کوئی بھی جہاں نور و جہانگیر نہیں
تو مجھے چھوڑ کے، ٹھکرا کے بھی جا سکتی ہے
تیرے ہاتھوں میں‌مرے ہاتھ ہیں زنجیر نہیں
 

سیما علی

لائبریرین
کبھی کبھی

کبھی کبھی مرے دل میں‌یہ خیال آتا ہے

کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاؤں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیری جو مری زیست کا مقدر ہے
تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی

عجب نہ تھا کہ میں بیگانہ الم رہ کر
ترے جمال کی رعنائیوں میں‌کھو رہتا
ترا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں
انہی حسین فسانوں‌ میں‌ محو ہو رہتا

پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی!
ترے لبوں‌سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں
گھنیری زلفوں‌کے سائے میں چھپ کے جی لیتا

مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں، ترا غم، تیری جستجو بھی نہیں
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں

زمانے بھر کے دکھوں‌ کو لگا چکا ہوں‌گلے
گزر رہا ہوں کچھ انجانی راہگزاروں سے
مہیب سائے مری سمت بڑھتے چلے آتے ہیں
حیات و موت کے پر ہول خارزاروں سے

نہ کوئی جادہ، نہ منزل، نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے خلاؤں میں زندگی میری
انہی خلاؤں میں‌رہ جاؤں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں‌مری ہم نفس مگر یونہی

کبھی کبھی مرے دل میں‌ خیال آتا ہے
 

سیما علی

لائبریرین
یہ ہمارا بے حد پسندیدہ ہے !!!!!

جانے وہ کیسے لوگ تھے

جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
ہم نے تو جب کلیاں‌مانگیں، کانٹوں‌کا ہار ملا

خوشیوں‌کی منزل ڈھونڈی تو غم کی گرد ملی
چاہت کے نغمے چاہے تو آہِ سرد ملی

دل کے بوجھ کو دونا کر گیا جو غم خوار ملا

بچھڑ گیا ہر ساتھی دے کر پل دو پل کا ساتھ
کس کو فرصت ہے جو تھامے دیوانوں کا ہاتھ

ہم کو اپنا سایہ تک اکثر بیزار ملا

اس کو ہی جینا کہتے ہیں تو یوں ہی جی لیں گے
اُف نہ کریں‌گے، لب سی لیں‌گے، آنسو پی لیں‌گے

غم سے اب گھبرانا کیسا، غم سو بار ملا
 

سیما علی

لائبریرین
اے میری زہرہ جبیں
تجھے معلوم نہیں
تُو ابھی تک ہے حسیں
اور میں جواں
تجھ پہ قربان میری جان میری جان
اے میری ۔۔۔

یہ شوخیاں یہ بانکپن
جو تجھ میں ہے کہیں نہیں
دلوں کو جیتنے کا فن
جو تجھ میں ہے کہیں نہیں
میں تیری
میں تیری آنکھوں میں پا گیا دو جہاں
اے میری ۔۔۔

تُو میٹھے بول جانِ من
جو مسکرا کے بول دے
تو دھڑکنوں میں آج بھی
شراب رنگ گھول دے
او صنم
او صنم میں میں تیرا عاشقِ جاوداں
اے میری ۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
نہ منہ کو چھپا کے جئے ہم، نہ سر جھکا کے جئے
ستمگروں کی نظر سے نظر ملا کے جئے

اب ایک رات اگر کم جئے، تو کم ہی سہی
یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں‌جلا کے جئے
 

سیما علی

لائبریرین
وجہہ بے رنگی گلزار کہوں تو کیا ہو
کون ہے کتنا گہنگار کہوں تو کیا ہو

تم نے جو بات سربزم نہ سننا چاہی
میں وہی بات سردارِ کہوں تو کیا ہو
 

مومن فرحین

لائبریرین
کبھی کبھی

کبھی کبھی مرے دل میں‌یہ خیال آتا ہے

کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاؤں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیری جو مری زیست کا مقدر ہے
تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی

عجب نہ تھا کہ میں بیگانہ الم رہ کر
ترے جمال کی رعنائیوں میں‌کھو رہتا
ترا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں
انہی حسین فسانوں‌ میں‌ محو ہو رہتا

پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی!
ترے لبوں‌سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں
گھنیری زلفوں‌کے سائے میں چھپ کے جی لیتا

مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں، ترا غم، تیری جستجو بھی نہیں
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں

زمانے بھر کے دکھوں‌ کو لگا چکا ہوں‌گلے
گزر رہا ہوں کچھ انجانی راہگزاروں سے
مہیب سائے مری سمت بڑھتے چلے آتے ہیں
حیات و موت کے پر ہول خارزاروں سے

نہ کوئی جادہ، نہ منزل، نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے خلاؤں میں زندگی میری
انہی خلاؤں میں‌رہ جاؤں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں‌مری ہم نفس مگر یونہی

کبھی کبھی مرے دل میں‌ خیال آتا ہے
اور یہ ہمارا پسندیدہ ہے ۔۔۔
 
Top