ام اویس
محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم والحمدوللہ وصلی اللہ علی محمد وعلی اٰلہ وسلم۔
فرمایا اللہ سبحانہ و تعالٰی نے سورہ الحجر آیت نمبر 9 میں کہ:
"اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ
ہم نے اس ذکر (نصیحت) کو نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔"
پھر سورہ النحل آیت 44 میں فرمایا کہ:
"وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیّن لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ
اور ہم نے یہ ذکر (نصیحت) تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو ان کے لیے اتاری گئی ہے"
اس فرمان الٰہی سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی رسالت کا مقصد عظیم قرآن محکم کے معانی و مراد کا بیان اور وضاحت ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے اس فرض کو اپنے قول و فعل وغیرہ سے کس طور پر پورا فرمایا، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اسے ایک مختصر مگر انتہائی بلیغ جملہ میں یوں بیان کیا ہے۔
”کان خلقہ القرآن“
(مسند احمد:24601)
یعنی آپ کی برگزیدہ ہستی مجسم قرآن تھی۔
لہٰذا اگر قرآن حجت ہے (اور بلا ریب وشک حجت ہے) تو پھر اس میں بھی کوئی تردد و شبہ نہیں ہے کہ اس کا بیان بھی حجت ہوگا، آپ نے جو بھی کہا ہے،جو بھی کیا ہے، وہ حق ہے، دین ہے، ہدایت ہے،اور نیکی ہی نیکی ہے، اس لئے آپ کی زندگی جو مکمل تفسیر کلام ربانی ہے آنکھ بند کرکے قابل اتباع ہے۔
”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَة حَسَنَةٌ“
(احزاب:21)
اللہ کا رسول تمہارے لئے بہترین نمونہٴ عمل ہے، علاوہ ازیں آپ صلى الله عليه وسلم کو خداے علی وعزیز کی بارگاہ بے نہایت سے رفعت وبلندی کا وہ مقام بلند نصیب ہے کہ ساری رفعتیں اس کے آگے سرنگوں ہیں حتی کہ آپ کے چشم وابرو کے اشارے پر بغیر کسی تردد وتوقف کے اپنی مرضی سے دستبردار ہوجانا معیار ایمان و اسلام ٹھہرایا گیا ہے۔
اللہ نے اپنا وعدہ قرآن کی شکل میں ایک غیر متنازعہ کتاب کی شکل میں پورا فرمایا۔ جس کے خلاف کوئی ایسا ثبوت موجود نہیں کہ یہ وہ کتاب نہیں ہے جو چودہ سو سال پہلے نازل ہوئی تھی۔
لیکن مسلمانوں کی اکثریت نے اس بات کو نظر انداز کر دیا ہوا ہے کہ نبی ﷺ کا اسوہ اور سنت بھی اس وعدے میں شامل ہے۔ کیونکہ قرآنی تعلیمات کا صحیح مفہوم اخذ کرنا ممکن ہی نہیں جب تک انکی عملی شکل یعنی نبی ﷺ کے اسوہ سے رجوع نہ کیا جائے۔
ابتداء میں اللہ نے قرآن کی حفاظت اس کو لوگوں کے سینوں میں محفوظ فرما کر کی۔ پھر جب حفاظ کرام مختلف جنگوں میں جام شہادت نوش فرمانے لگے تو اللہ کی توفیق سے خلفائے راشدین اور گرانقدر صحابہ کے مکمل اجماع کے بعد ایک ایک آیت کو ایک نسخے کی شکل میں محفوظ کر لیا گیا۔ اب یہ لاکھوں ایمان والوں کے سینوں میں بھی محفوظ ہے اور لاتعداد کتابی نسخوں میں بھی جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔
ہر دور میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جنہوں نے قرآن کی تعلیمات کو گہرائی میں جا کر سیکھا اور اپنے اپنے دور کے لوگوں کو سکھایا۔ یوں یہ آفاقی کلام بغیر کسی تحریف و ترمیم کے اپنی اصل شکل میں سینہ در سینہ منتقل ہوتا رہا اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک اللہ تبارک و تعالٰی چاہیں گے۔
بالکل ایسے ہی اللہ نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین کے ذریعے اپنے نبی ﷺ کی سنت اور اسوہ کی بھی حفاظت فرمائی۔ کچھ کی یاداشت میں ہر بات محفوظ رہی وہ جب تک زندہ رہے نبی ﷺ کے اسوہ پر سختی سے قائم رہے اور دوسروں کو بھی بتاتے رہے۔ کچھ نے کتابت قرآن کا عمل مکمل ہو جانے کے بعد نبی ﷺ کے اسوہ ، تعلیمات اور مختلف معاملات میں رسول اللہ ﷺ کے اقوال کو لکھنا بھی شروع کر دیا۔
حدیث کے لغوی معانی خبر کے ہیں۔ تو اللہ کے نبی ﷺ کی طرف سے یہ باتیں کسی کو بتانا حدیث پہنچانا کہلایا۔ یعنی اللہ کے نبی ﷺ کی طرف سے خبر پہنچانا کہ فلاں معاملہ یوں اور فلاں چیز یوں ہے۔
پھر ایک وقت ایسا آیا کہ سنت یا احادیث جو مکمل طور پر کسی کتاب کی شکل میں موجود نہیں تھیں ان میں مفاد پرستوں اور اللہ کے خوف سے عاری لوگوں نے دنیا کے فائدے اٹھانے کے لیے ملاوٹ شروع کر دی اور اس میں اپنی طرف سے باتیں گھڑنی شروع کر دیں۔
چونکہ اس زمانے میں جس کو نبی ﷺ کی چند باتیں یاد ہوتی تھیں اس کا معاشرے میں ایک مقام ہوتا تھا لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے تو بہت سارے دنیا داروں نے جھوٹی عزت کی خاطر خود سے ہی باتیں گھڑنی شروع کر دیں۔
کئی اقوال رسول ﷺ میں لوگوں کی کمزور یاداشت کی وجہ سے ملاوٹ ہونے لگی۔ کچھ لوگوں نے ان روایات کو آگے پھیلانے میں احتیاط سے کام نہ لیا اور سنی سنائی بھی آگے پھیلانے لگے۔
تو اللہ نے اپنے اس ذکر (نصیحت) کی حفاظت کے وعدے کو قائم رکھنے کی خاطر اس امت میں ایسے لوگوں کو پیدا فرمایا جو ناقابل یقین حد تک بہترین یاداشت کے مالک تھے۔ ان کے تقویٰ اور انکی تجزیاتی صلاحیتوں کا زمانہ گواہ تھا۔ انہوں نے بلا تکان سفر پر سفر کیے اور لاکھوں کی تعداد میں اپنے نبی ﷺ کی تعلیمات کو اکٹھا کیا اور پھر ان میں سے اپنے نبی ﷺ کی سچی باتوں کو من گھڑت اور کمزور روایات سے الگ کیا۔
پھر نبی ﷺ کی اپنی باتوں میں جو مختلف علماء ، صحابہ اکرام ، تابعین اور تبع تابعین کے اپنے اقوال کی ملاوٹ ہو چکی تھی اس کو علیحدہ علیحدہ کیا۔ یہ سب روایت کے الفاظ اور متن پر خاص توجہ ، گہری عرق ریزی اور احادیث کو نبی ﷺ سے منسوب کرنے والے ہزاروں لوگوں کی سوانح حیات کے بغور مطالعے سے ممکن ہوا۔
جس میں قابل اعتراض متن والی ، الفاظ میں مماثلت نہ رکھنے والی ، اچھی شہرت نہ رکھنے والے لوگوں کی طرف سے بیان کی گئی تمام احادیث وغیرہ وغیرہ کو صحیح اور قبولیت کے درجے سے ہٹا دیا گیا۔
عصر حاضر میں حدیث کی قبولیت میں کئی طرح کی انتہائی آراء پائی جاتی ہیں۔
ایک تو وہ لوگ جو درجات احادیث سے قطع نظر سرے سے ہی احادیث کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن کے ہوتے ہمیں کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں۔
دوسرے وہ جن کے لیے ہر حدیث قابل قبول ہے چاہے اس کا درجہ صحیح یا ضعیف کچھ بھی ہو۔
پھر کچھ لوگ اپنی محدود عقل و علم کو حدیث کی تصدیق کی کسوٹی بناتے ہیں اور حدیث میں بیان کردہ حقائق کو زمانہ حاضر کے مطابق پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں ان کا دل مطمئن ہو اسی حدیث کو مان لیتے ہیں جہاں نہ ہو اس کو رد کر دیتے ہیں۔
یہ تمام آراء ہی درست نہیں ہیں۔ صحیح راستہ یہی ہے کہ حدیث کو اس کے درجے کے مطابق قبول یا رد کرنا چاہیئے۔ اور جس اصول کے تحت حدیث جمع کی گئی ہیں اسی پر جرح کرنی چاہیئے اور اگر اس اصول یا طریقہ میں کسی سقم کے ثبوت مل جائیں تو ہی اس حدیث کی قبولیت میں کلام ہو سکتا ہے نہ کہ محض اپنی عقل اور دور حاضر کے معاشرتی اصولوں سے مطابقت نہ ہونے کی بنا پر یکسر حدیث کا رد کردیا جانا چاہیئے۔
(جاری ہے)
ہم آنے والی پوسٹس میں ان شاء اللہ احادیث کے درجات اور جن اصولوں کی بنیاد پر یہ درجات طے کیے گئے پر ایک تفصیلی نگاہ ڈالیں گے۔
فرمایا اللہ سبحانہ و تعالٰی نے سورہ الحجر آیت نمبر 9 میں کہ:
"اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ
ہم نے اس ذکر (نصیحت) کو نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔"
پھر سورہ النحل آیت 44 میں فرمایا کہ:
"وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیّن لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ
اور ہم نے یہ ذکر (نصیحت) تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو ان کے لیے اتاری گئی ہے"
اس فرمان الٰہی سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی رسالت کا مقصد عظیم قرآن محکم کے معانی و مراد کا بیان اور وضاحت ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے اس فرض کو اپنے قول و فعل وغیرہ سے کس طور پر پورا فرمایا، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اسے ایک مختصر مگر انتہائی بلیغ جملہ میں یوں بیان کیا ہے۔
”کان خلقہ القرآن“
(مسند احمد:24601)
یعنی آپ کی برگزیدہ ہستی مجسم قرآن تھی۔
لہٰذا اگر قرآن حجت ہے (اور بلا ریب وشک حجت ہے) تو پھر اس میں بھی کوئی تردد و شبہ نہیں ہے کہ اس کا بیان بھی حجت ہوگا، آپ نے جو بھی کہا ہے،جو بھی کیا ہے، وہ حق ہے، دین ہے، ہدایت ہے،اور نیکی ہی نیکی ہے، اس لئے آپ کی زندگی جو مکمل تفسیر کلام ربانی ہے آنکھ بند کرکے قابل اتباع ہے۔
”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَة حَسَنَةٌ“
(احزاب:21)
اللہ کا رسول تمہارے لئے بہترین نمونہٴ عمل ہے، علاوہ ازیں آپ صلى الله عليه وسلم کو خداے علی وعزیز کی بارگاہ بے نہایت سے رفعت وبلندی کا وہ مقام بلند نصیب ہے کہ ساری رفعتیں اس کے آگے سرنگوں ہیں حتی کہ آپ کے چشم وابرو کے اشارے پر بغیر کسی تردد وتوقف کے اپنی مرضی سے دستبردار ہوجانا معیار ایمان و اسلام ٹھہرایا گیا ہے۔
اللہ نے اپنا وعدہ قرآن کی شکل میں ایک غیر متنازعہ کتاب کی شکل میں پورا فرمایا۔ جس کے خلاف کوئی ایسا ثبوت موجود نہیں کہ یہ وہ کتاب نہیں ہے جو چودہ سو سال پہلے نازل ہوئی تھی۔
لیکن مسلمانوں کی اکثریت نے اس بات کو نظر انداز کر دیا ہوا ہے کہ نبی ﷺ کا اسوہ اور سنت بھی اس وعدے میں شامل ہے۔ کیونکہ قرآنی تعلیمات کا صحیح مفہوم اخذ کرنا ممکن ہی نہیں جب تک انکی عملی شکل یعنی نبی ﷺ کے اسوہ سے رجوع نہ کیا جائے۔
ابتداء میں اللہ نے قرآن کی حفاظت اس کو لوگوں کے سینوں میں محفوظ فرما کر کی۔ پھر جب حفاظ کرام مختلف جنگوں میں جام شہادت نوش فرمانے لگے تو اللہ کی توفیق سے خلفائے راشدین اور گرانقدر صحابہ کے مکمل اجماع کے بعد ایک ایک آیت کو ایک نسخے کی شکل میں محفوظ کر لیا گیا۔ اب یہ لاکھوں ایمان والوں کے سینوں میں بھی محفوظ ہے اور لاتعداد کتابی نسخوں میں بھی جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔
ہر دور میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جنہوں نے قرآن کی تعلیمات کو گہرائی میں جا کر سیکھا اور اپنے اپنے دور کے لوگوں کو سکھایا۔ یوں یہ آفاقی کلام بغیر کسی تحریف و ترمیم کے اپنی اصل شکل میں سینہ در سینہ منتقل ہوتا رہا اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک اللہ تبارک و تعالٰی چاہیں گے۔
بالکل ایسے ہی اللہ نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین کے ذریعے اپنے نبی ﷺ کی سنت اور اسوہ کی بھی حفاظت فرمائی۔ کچھ کی یاداشت میں ہر بات محفوظ رہی وہ جب تک زندہ رہے نبی ﷺ کے اسوہ پر سختی سے قائم رہے اور دوسروں کو بھی بتاتے رہے۔ کچھ نے کتابت قرآن کا عمل مکمل ہو جانے کے بعد نبی ﷺ کے اسوہ ، تعلیمات اور مختلف معاملات میں رسول اللہ ﷺ کے اقوال کو لکھنا بھی شروع کر دیا۔
حدیث کے لغوی معانی خبر کے ہیں۔ تو اللہ کے نبی ﷺ کی طرف سے یہ باتیں کسی کو بتانا حدیث پہنچانا کہلایا۔ یعنی اللہ کے نبی ﷺ کی طرف سے خبر پہنچانا کہ فلاں معاملہ یوں اور فلاں چیز یوں ہے۔
پھر ایک وقت ایسا آیا کہ سنت یا احادیث جو مکمل طور پر کسی کتاب کی شکل میں موجود نہیں تھیں ان میں مفاد پرستوں اور اللہ کے خوف سے عاری لوگوں نے دنیا کے فائدے اٹھانے کے لیے ملاوٹ شروع کر دی اور اس میں اپنی طرف سے باتیں گھڑنی شروع کر دیں۔
چونکہ اس زمانے میں جس کو نبی ﷺ کی چند باتیں یاد ہوتی تھیں اس کا معاشرے میں ایک مقام ہوتا تھا لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے تو بہت سارے دنیا داروں نے جھوٹی عزت کی خاطر خود سے ہی باتیں گھڑنی شروع کر دیں۔
کئی اقوال رسول ﷺ میں لوگوں کی کمزور یاداشت کی وجہ سے ملاوٹ ہونے لگی۔ کچھ لوگوں نے ان روایات کو آگے پھیلانے میں احتیاط سے کام نہ لیا اور سنی سنائی بھی آگے پھیلانے لگے۔
تو اللہ نے اپنے اس ذکر (نصیحت) کی حفاظت کے وعدے کو قائم رکھنے کی خاطر اس امت میں ایسے لوگوں کو پیدا فرمایا جو ناقابل یقین حد تک بہترین یاداشت کے مالک تھے۔ ان کے تقویٰ اور انکی تجزیاتی صلاحیتوں کا زمانہ گواہ تھا۔ انہوں نے بلا تکان سفر پر سفر کیے اور لاکھوں کی تعداد میں اپنے نبی ﷺ کی تعلیمات کو اکٹھا کیا اور پھر ان میں سے اپنے نبی ﷺ کی سچی باتوں کو من گھڑت اور کمزور روایات سے الگ کیا۔
پھر نبی ﷺ کی اپنی باتوں میں جو مختلف علماء ، صحابہ اکرام ، تابعین اور تبع تابعین کے اپنے اقوال کی ملاوٹ ہو چکی تھی اس کو علیحدہ علیحدہ کیا۔ یہ سب روایت کے الفاظ اور متن پر خاص توجہ ، گہری عرق ریزی اور احادیث کو نبی ﷺ سے منسوب کرنے والے ہزاروں لوگوں کی سوانح حیات کے بغور مطالعے سے ممکن ہوا۔
جس میں قابل اعتراض متن والی ، الفاظ میں مماثلت نہ رکھنے والی ، اچھی شہرت نہ رکھنے والے لوگوں کی طرف سے بیان کی گئی تمام احادیث وغیرہ وغیرہ کو صحیح اور قبولیت کے درجے سے ہٹا دیا گیا۔
عصر حاضر میں حدیث کی قبولیت میں کئی طرح کی انتہائی آراء پائی جاتی ہیں۔
ایک تو وہ لوگ جو درجات احادیث سے قطع نظر سرے سے ہی احادیث کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن کے ہوتے ہمیں کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں۔
دوسرے وہ جن کے لیے ہر حدیث قابل قبول ہے چاہے اس کا درجہ صحیح یا ضعیف کچھ بھی ہو۔
پھر کچھ لوگ اپنی محدود عقل و علم کو حدیث کی تصدیق کی کسوٹی بناتے ہیں اور حدیث میں بیان کردہ حقائق کو زمانہ حاضر کے مطابق پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں ان کا دل مطمئن ہو اسی حدیث کو مان لیتے ہیں جہاں نہ ہو اس کو رد کر دیتے ہیں۔
یہ تمام آراء ہی درست نہیں ہیں۔ صحیح راستہ یہی ہے کہ حدیث کو اس کے درجے کے مطابق قبول یا رد کرنا چاہیئے۔ اور جس اصول کے تحت حدیث جمع کی گئی ہیں اسی پر جرح کرنی چاہیئے اور اگر اس اصول یا طریقہ میں کسی سقم کے ثبوت مل جائیں تو ہی اس حدیث کی قبولیت میں کلام ہو سکتا ہے نہ کہ محض اپنی عقل اور دور حاضر کے معاشرتی اصولوں سے مطابقت نہ ہونے کی بنا پر یکسر حدیث کا رد کردیا جانا چاہیئے۔
(جاری ہے)
ہم آنے والی پوسٹس میں ان شاء اللہ احادیث کے درجات اور جن اصولوں کی بنیاد پر یہ درجات طے کیے گئے پر ایک تفصیلی نگاہ ڈالیں گے۔