شفاعت قرآن و سنت کی روشنی میں
مصنف: ریحان احمد یوسفی
شفاعت کا لفظ شفع سے نکلا ہے جس کے معنی ایک چیز کو دوسری سے جوڑنے کے ہیں اور اسی مفہوم سے یہ ترقی کرکے کسی بات کی تائید و حمایت یا کسی کے حق میں سفارش کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ (تدبر 2/349) لغوی معنی سے قطع نظر اس کے اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ قیامت کے دن حساب کتاب کے وقت کسی فرد کا کسی خاص مذہب یا شخصیت سے وابستہ ہونا اور اس شخصیت کی سفارش کا مل جانا، اس کی نجات کا سبب بن جائے گا۔ اس کی سب سے بڑی مثال اس وقت مسیحیت ہے جو دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے۔ عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق ایک شخص جب سیدنا مسیح پر ایمان لے آتا ہے تو مسیحی عقائد پر اس کا یقین اور مسیح سے اس کی وابستگی اس کی نجات کے لیے کافی ہے۔
قرآن کے اولین مخاطب یعنی مشرکین عرب کی پوری مذہبیت اسی شفاعت کے عقیدے پر قائم تھی۔ ان کے نزدیک ان کے دیوی دیوتا خدا کے حضور ان کے حمایتی اور سفارشی تھے۔یہ بات صرف سفارش اور حمایت ہی پر نہیں رکتی بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہی چیز لوگوں کے شرک میں مبتلا ہوجانے کا سبب بن جاتی ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر مسیحیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا کا بیٹا بنا دیا اور مشرکین عرب معاذ اللہ اپنے دیوی دیوتاؤں کو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دے کر ان کی پرستش اور عبادت کیا کرتے تھے۔
یہ کوئی ایسی عجیب بات نہیں ہے۔ اس دنیا میں بھی یہ ہوتا ہے کہ جب ہم کسی مصیبت میں پھنس جاتے ہیں اور کوئی شخص ہماری مدد کرتا ہے تو ہم اس کے تا عمر شکرگزار رہتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جو ہستی خدا کے حضور، انسان کے سارے گناہوں کے باجود اس کی نجات کا سبب بن رہی ہو، انسان اپنے دل میں اس کی غیر معمولی عقیدت اور محبت محسوس کرتا ہے۔ یہ محبت بڑھتی ہے، عظمت میں بدلتی ہے اور آخرکار معاملہ باقاعدہ پرستش اور خدا کے شریک بنانے تک پہنچ جاتا ہے۔ انسان اس ہستی کے گن گاتے گاتے ،انہیں خوش کرنے کے لیے ان کے حضور نذر ونیاز پیش کرتے،دنیا کے معاملات میں بھی ان سے مدد مانگتے اور ان سے دعا کرنے لگتے ہیں۔ یہی کچھ عیسائی اور مشرکین عرب کیا کرتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ قرآن نہ صرف جگہ جگہ ان کے شرک کی مذمت کرتا ہے بلکہ ان کے اس عقیدہ شفاعت کی بھی بھرپور تردیدکرتا ہے۔
سورہ مائدہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قیامت کے دن ہونے والا ایک ڈائیلاگ بڑی تفصیل سے نقل کر کے یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول نہ کسی غلط عقیدے کی تعلیم دیتے ہیں اور نہ وہ اللہ کے حضور کسی کی غلط سفارش کرتے ہیں۔ اسی طرح مشرکین عرب کے شرک اور شفاعت دونوں قسم کے نظریات کی بھی قرآن میں جگہ جگہ تردید کی گئی ہے مثلاً سورہ یونس میں فرمایا:
یہ اللہ کو چھوڑ کر ان ہستیوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں نفع دیتی ہیں اور نہ نقصان۔ اور وہ کہتے ہیں کہ یہ خدا کے حضور ہمارے سفارشی ہیں۔ان سے کہو کیا تم اللہ کو وہ بتاتے ہو جسے نہ وہ آسمان میں جانتا ہے اور نہ زمین میں ۔ یہ لوگ جو شرک کررہے ہیں اللہ کی ذات اس سے پاک ہے۔ (یونس 10:1
ایک سوال
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن اس معاملے میں ایک فیصلہ کن بات کہہ چکا ہے تو پھر کیا سبب ہے کہ مسلمانوں کے اندراس مسئلے میں اتنا غلو پایا جاتا ہے۔ میرے نزدیک اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ ہمارے ہاں لوگوں میں قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کا رواج نہیں اور نہ انہیں یہ معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا کچھ فرمایا ہے۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ قرآن نے ہر چند کے مختلف طریقوں سے قیامت کے دن ہر طرح کی شفاعت کی نفی کی ہے مگر بعض مقامات پر کچھ استثنا بھی دیا ہے۔ اسی استثنا کی وضاحت مختلف احادیث میں کی گئی ہے۔ مگر جب ان احادیث کو قرآن پاک کی روشنی میں نہیں سمجھا جاتا اور پھر ان کے ساتھ ضعیف و موضوع روایات میں گھڑے ہوئے قصے، واعظوں کی داستانیں اور لوگوں کی خواہشات شامل ہوتی ہیں تو عوام الناس کی سطح پر معاملہ کی نوعیت وہی کچھ ہوجاتی ہے جس کی تردید پورے قرآن کا موضوع ہے۔ اس لیے ضرور ی ہے کہ شفاعت کے حوالے سے دین کا موقف عام فہم انداز میں پوری طرح واضح کردیا جائے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ چند بنیادی باتوں کو سمجھ لیا جائے ۔ یہ باتیں درج ذیل ہیں۔
دین کی بنیادی دعوت اور شفاعت
اس سلسلے میں پہلی بات یہ واضح ہونی چاہیے کہ دین کی بنیادی دعوت کیا ہے۔ دین کی بنیادی دعوت توحید و آخرت کی دعوت ہے جو مختلف نبی اور رسول اپنے اپنے زمانوں میں لے کر آئے۔ اس دعوت کی تفصیل یہ ہے کہ انسانوں کا ایک پروردگار ہے۔ انسانوں پر لازمی ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے احکام کی پیروی کریں۔ کیونکہ ایک دن وہ سارے انسانوں کو جمع کرکے ان کے تمام اعمال کا جائزہ لے گا اور پھر عدل کے ساتھ لوگوں کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کردے گا۔ پورا قرآن اس بات کی دعوت سے بھرا پڑا ہے کہ ایمان و عمل صالح کو اختیار کرو اور نجات پاجاؤ۔ قرآن نہ صرف یہ دعوت دیتا ہے بلکہ نجات کے معاملے میں انسان کی ہر دوسری امید صاف الفاظ میں توڑ دیتا ہے۔
اور ڈرو اس دن سے جب کوئی آدمی کسی دوسرے کے کام نہ آئے گا اور نہ اس سے کوئی بدلہ قبول کیا جائے گا نہ اس کے حق میں کسی کی سفارش کام آئے گی اور نہ ہی اسے کہیں سے مدد مل سکے گی۔‘‘(البقرہ 2:123 )
(اس دن) کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور انسان کو وہی ملے گا جس کے لیے اس نے محنت کی ہوگی۔ اور اس کی یہ محنت بہت جلد دیکھی جائے گی۔ پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ (النجم 53:38-41)۔
مسیحی اور یہودی اپنے اپنے نبیوں کو اللہ کی اولاد اور اس کا چہیتا کہتے تھے اور اسی بنیاد پر نجات کے امیدوار تھے۔ قرآن نے شفاعت اور نسلی وابستگی کی بنیاد پر نجات کی نفی صرف ان ہی کے لیے نہیں کی بلکہ اس کے ساتھ مسلمانوں کو بھی بتادیا گیا ہے کہ ہر مجرم کو اپنے جرائم کی سزا بہرحال بھگتنی ہوگی۔فرمایا:
’’ نہ تمھاری آرزووں سے کچھ ہونے کا ہے نہ اہل کتاب کی۔ جو کوئی برائی کرے گا، اس کا بدلہ پائے گا اور وہ اپنے لیے اللہ کے مقابل کوئی کارساز اور مددگار نہیں پائے گا۔‘‘(النسا 4:123 )
قرآن پاک اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ شفاعت کی اگر کچھ حقیقت ہے بھی، اور جسے ہم آگے چل کر واضح کریں گے، تب بھی اس پر تکیہ کرنے کی کوئی گنجائش کسی معقول انسان کے پاس نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیا اس لیے نہیں آئے تھے کہ لوگوں کو شفاعت کی بنیاد پر نجات کی امید دلائیں بلکہ وہ ایمان و عمل صالح کی بنیاد پر نجات کی دعوت دیتے تھے اور جہاں تک شفاعت کے اس مروجہ تصور کا سوال ہے جس میں انسان ساری زندگی رب کی نافرمانی کرتا ہے اور پھر کسی ’’بزرگ‘‘ کے بھروسے پر یہ امید بھی رکھتا ہے کہ شفاعت کے ذریعے سے اسے نجات مل جائے گی تو یہ تصور دین کی بنیادی دعوت ہی سے متصادم ہے۔
اللہ تعالیٰ کی صفات اور شفاعت
ایک دوسری بات یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ شفاعت کا مروجہ تصور اللہ تعالیٰ کی بہت سی صفات کے ساتھ ٹکراجاتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم اس دنیا میں لوگوں کی سفارش کب اور کن وجوہ کی بنا پر کرتے ہیں۔ اس دنیا میں سفارش کی پہلی بنیاد یہ ہے کہ کسی معاملے میں ہم کوئی اختیار رکھتے ہیں یا کسی عہدیدار پر ہمارا کوئی اثر و رسوخ یا احسان ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس شخص کے پاس کسی کا مسئلہ آجاتا ہے۔ ایسی صورت میں ہم اپنے اختیار، عہدے، اثر و رسوخ اور تعلقات کو استعمال کرکے اس شخص کا مسئلہ حسب منشا حل کراتے ہیں۔ سرکاری دفاتر میں بہت سے معاملات اسی اصول پر چلتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے معاملے میں اس صورت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی شخص کسی قسم کا اختیار رکھتا ہے نہ اس پر کسی کا اثر و رسوخ ہے اور نہ اس پر کسی کا احسان۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس کائنات کی ہر شے خدا کی ملکیت ہے۔ پورا قرآن 'لہ مافی السموات و الارض' یعنی ’جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ ہی کی ملکیت ہے‘ کی یاد دہانی سے بھرا ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی کسی حیثیت یا مقام کی بنیاد پر کسی کی کوئی سفارش کرسکے۔ لہٰذا اس پہلو سے شفاعت کا عقیدہ رکھنا ممکن نہیں ہے۔
سفارش کی ایک دوسری بنیاد یہ ہوتی ہے کہ ایک منصف کے پاس معاملہ آئے وہ اپنے علم کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کرنے جارہا ہو اور ہم یہ محسوس کرتے ہوں کہ اس شخص کو بہت سے حقائق اور واقعات کا علم ہی نہیں تو پھر ہم اس شخص پر صحیح صورتحال واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ حقیقت جان لیتا ہے تو اسی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے۔ ہمارے ہاں مقدمات میں فیصلے بارہا اسی بنیاد پر ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے معاملے میں اس کا بھی کوئی سوال نہیں ہے۔ چنانچہ خاص اسی شفاعت کے مسئلے میں گفتگو کرتے ہوئے جس طرح اللہ تعالیٰ نے آیت الکرسی میں یہ بیان کیاہے کہ آسمان و زمین کی ہر شے اللہ کی ملکیت ہے، ٹھیک اسی طرح اسی مقام پر یہ بھی بتادیا ہے کہ یعلم ما بین ایدیھم وما خلفھم یعنی کوئی سفارش کرنے والا اسے لوگوں کے احوال کیا بتائے گا۔ وہ تو ان کے سامنے کے بھی اور پیچھے پیش آنے والے حالات ومعاملات سے بھی واقف ہے۔ اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ لاعلمی میں کوئی غلط فیصلہ کرجائے۔ اسی لیے شفاعت کی یہ بنیاد بھی خدا کے معاملے میں موجود نہیں ہوسکتی ۔
شفاعت کی ایک تیسری بنیاد یہ ہوسکتی ہے کہ منصف مغلوب الغضب ہو یعنی اس کا غصہ اس پر غالب آچکا ہو۔ ایسے میں کوئی ایسا فرد آگے بڑھتا ہے جس کے دل میں ہمدردی اور خیر خواہی پائی جاتی ہو ۔ پھر وہ سفارش کرکے لوگوں کی مدد کرتا ہے۔ گھروں میں عام طور پر جب باپ بچے پر غصہ ہوتا ہے تو ماں اسی بنیاد پر آگے بڑھ کر اس کی حمایت کرتی اور باپ سے اسے بچالیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف یہ کہ مغلوب الغضب نہیں بلکہ یہ اس کی رحمت ہے جو ہمیشہ ان کے غصے پر حاوی رہتی ہے۔ اس کی صفت الرحمن، الرحیم، الرؤف ہے۔ ان سے زیادہ مخلوق کی محبت کس کے دل میں ہوسکتی ہے۔چنانچہ سفارش کی یہ بنیاد بھی اللہ تعالیٰ کے معاملے میں ممکن نہیں ہے۔
سفارش کی ایک اور قسم وہ ہوتی ہے جس میں ہم جائز ناجائز طور پر کبھی کسی کا مسئلہ حل کرتے ہیں اور کبھی کوئی دوسرا ہر اصول کو بالائے طاق رکھ کر ہمارا مسئلہ حل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں اس بات کا بھی کوئی سوال نہیں۔ اس لیے کہ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت عدل کے بالکل خلاف ہوگا۔ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن نجات کے لیے ایمان و عمل صالح کا ایک قطعی ضابطہ مقرر کردیا ہے۔اسے دین کی دعوت کے طور پر پیش کردیا ہے۔ اس کے بعد یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اس ضابطے کو کسی وجہ سے خود ہی پامال کردیں۔
عقلی سوالات
شفاعت کا مروجہ نظریہ صرف دین اور پروردگار کی صفات ہی کے خلاف نہیں بلکہ اس پر بہت سے عقلی سوالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اگر شفاعت کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم ہمیں صرف اس بنیاد پر خدا کے عذاب سے بچا لیں گے کہ ہم ا ن کے امتی ہیں تو سوال یہ ہے کہ حضور کا امتی ہونے میں ہماری کیا خوبی ہے۔ ہماری غالب ترین اکثریت صرف اس وجہ سے مسلمان ہے کہ وہ مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوگئی ہے۔ دین کبھی ہماری معرفت نہیں بنتا، ذاتی دریافت نہیں بنتا بلکہ تاعمر ہمارا تعصب بنا رہتا ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اگر کسی یہودی یا ہندو کے ہاں پیدا ہوجاتے تو ساری زندگی ہندو اور یہودی بنے رہتے۔
ہماری خوبی سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ پھر دیگر مذاہب کے پیروکاروں کا جرم کیا ہے؟ انہوں نے اپنے آپ کو ہندو یا عیسائی نہیں پیدا کیا۔ غور کیجیے کہ یہ خدا کا کون سا عدل ہے کہ قیامت میں مسلمان تو صرف اس لیے بخشے جائیں کہ وہ مسلمانوں کے ہاں پیدا ہوئے اور غیر مسلم اس لیے پکڑے جائیں کہ انہوں نے غیر مسلم گھرانوں میں جنم لیا ۔ کسی غیر مسلم نے اگر خدا سے یہ سوال کر لیا کہ میں تو اپنی مرضی سے کسی غیر مسلم کے ہاں پیدا نہیں ہوا تھا، تونے پیدا کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ مجھے کیوں پکڑا جارہا ہے اور مسلمانوں کو کیوں چھوڑا جارہا ہے، تو اندازہ کرلیجیے کہ یہ خدا کے عدل پر کتنا شدید حملہ ہوگا۔
یہودی ہمارے جیسے ہی غلط تصورات کا شکار تھے۔ انہیں یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ اول تو انہیں عذاب دیں گے نہیں اور اگر اپنے عدل کی لاج رکھنے اور مخلوق خدا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اگر آگ میں ڈالا گیا تو چند دن بعد انہیں باہر نکال لیا جائے گا ۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے اپنا دو ٹوک فیصلہ سنادیا۔ فرمایا:
وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ أَيَّاماً مَعْدُودَةً قُلْ أَاتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً فَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لا تَعْلَمُونَ۔ بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ۔ (البقرہ 2:80-81)
اور وہ کہتے ہیں کہ ان کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف گنتی کے چند دن۔ پوچھو: کیا تم نے اللہ کے پاس اس کے لیے کوئی عہد کرالیا ہے کہ اللہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا یا تم اللہ پر ایک ایسی تہمت باندھ رہے ہو جس کے بارے میں تمھیں کچھ علم نہیں۔ کیوں نہیں،جس نے کوئی بدی کمائی اور اس کے گناہ نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا وہی لوگ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
قرآن میں شفاعت کا تصور
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ مندرجہ بالا بنیادوں پر شفاعت کا مروجہ تصور ناقابل قبول ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ اصل بات کیا ہے جو اس ضمن میں قرآن نے بیان کی ہے۔ہمارے نزدیک شفاعت کے ضمن میں اصل بات وہی ہے جو ذیل کی آیات سے ظاہر ہے۔
يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفّاً لا يَتَكَلَّمُونَ إِلاَّ مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَقَالَ صَوَاباً۔ (النبا 78:3
جس دن جبرئیل اور فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے۔کوئی بات نہیں کرے گا مگر جس کو رحمن اجازت دے اور وہ بالکل ٹھیک بات کہے۔
يَوْمَئِذٍ لا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلاَّ مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلاً ۔ (طہ 20:109)
اس دن شفاعت نفع نہ دے گی۔ سوائے خدائے رحمان جس کو اجازت دے اور جس کے لیے کوئی بات کہنے کو پسند کرے۔
ان آیات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ یعنی روزِ قیامت اللہ کے حضور کسی کے بارے میں کسی قسم کی سفارش کی کوئی گنجائش نہیں سوائے اس کے کہ رحمن اس بات کی اجازت دے ۔خدا کے اذن کے بعد دوسری چیز یہ ہے کہ بات کہنے والا بھی وہ بات کہے جو خلافِ عدل نہ ہو۔ تیسرے یہ کہ ہر کسی کے حق میں سفارش نہیں ہوسکتی بلکہ جس کے حق میں اجازت ہو گی صرف اسی کے بارے میں بات ہوگی۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا بنیاد ہے جس پر اللہ تعا لیٰ کسی کے حق میں سفارش کی اجازت دیں گے۔ قرآن نے اس بنیاد کو خود ہی واضح کردیا ہے۔ یہ بنیاد کسی مذہب، نسل یا شخصیت سے وابستگی نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف توحید سے وابستگی ہے۔ اس قانون کو اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء میں دو مقامات پر بالکل کھول کر بیان کردیا ہے۔ فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ افْتَرَى إِثْماً عَظِيماً ۔ (النساء 4:4
بے شک اللہ تعالیٰ اس چیز کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے، اس کے سوا جو کچھ ہے، جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔
اس قانون میں تین چیزیں بیان ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ شرک کسی صورت میں نہیں بخشا جائے گا۔ دوسرے یہ کہ شرک سے ہلکے جرائم چاہے ان کی نوعیت کچھ بھی ہو معاف کیے جاسکتے ہیں۔ تیسری بات اللہ تعالیٰ نے خالص انسانی نفسیات کے پس منظر میں کی ہے ۔ وہ یہ کہ یہ معافی ہر شخص کے لیے نہیں ہوگی۔ اس تیسری بات کا مطلب سمجھ لیجیے۔ انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جیسے ہی رعایت کا سنتا ہے فوراً گناہوں پر جری ہوجاتا ہے۔ یعنی ایک عام شخص اس آیت سے یہ مطلب لے سکتا ہے کہ اگر میں شرک نہیں کرتا تو کوئی حرج نہیں، قتل اور زنا تو کر سکتا ہوں کیوں کہ اس کی معافی ہوجائے گی۔
اللہ تعالیٰ نے تیسری بات سے یہ امید بھی توڑدی۔ یعنی کس کو معاف کرنا ہے اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ خود کریں گے۔ ہر شخص معافی کی یہ امید نہ رکھے۔ اوپر سورہ بقرہ میں یہود کے حوالے سے جو کچھ کہا گیا ہم اسے دہرا دیتے ہیں کیونکہ اسی سے یہ بات واضح ہے کہ یہ معافی کن کے لیے ہے اور کن کے لیے نہیں۔
اور وہ کہتے ہیں کہ ان کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف گنتی کے چند دن۔ پوچھو: کیا تم نے اللہ کے پاس اس کے لیے کوئی عہد کرالیا ہے کہ اللہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا یا تم اللہ پر ایک ایسی تہمت باندھ رہے ہو جس کے بارے میں تمھیں کچھ علم نہیں۔ کیوں نہیں،جس نے کوئی بدی کمائی اور اس کے گناہ نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا وہی لوگ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (البقرہ 2:80-81)
ان آیات کو سورہ نساء کی آیت کے ساتھ ملاکر جیسے ہی پڑھا جاتا ہے اصل بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ معافی توحید پر قائم رہنے والے ان لوگوں کے لیے ہوگی جن کے گناہوں نے ان کا احاطہ نہیں کرلیا ہوگا۔یعنی ان کے نامہ اعمال میں بالفرض بڑے بڑے جرائم ہوے بھی مگر یہ گناہ ان کے دن رات کا شغل اور زندگی کا معمول نہیں ہوں گے ۔تواس کی شفاعت کی امید کی جا سکے گی -
شفاعت کی اصل حقیقت
شفاعت کے دو پہلو ہیں۔ ایک کسی مجرم کے گناہوں کی معافی اور دوسرے شفاعت کرنے والے کی حیثیت۔ معافی کے متعلق تو سارا قانون ہم نے اوپر بیان کردیا ہے۔ البتہ یہ مسئلہ ہنوز تشنہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر لوگوں کو اپنے ایک قانون کے تحت معاف کریں گے تو پھر اس میں دوسروں کی سفارش کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ یہی وہ بات ہے جو اصل میں سمجھ لینی چاہیے اور جسے نہ سمجھنے کی بنا پر ساری غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔
شفاعت میں دراصل اللہ تعالیٰ کی دو صفات کا اظہار ہوتا ہے ۔ ایک اس کا عدل جس کے تحت جب ایک شخص معافی کا مستحق ہوجاتا ہے تو اسے معاف کرنے کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے۔ دوسری صفت جس کا شفاعت میں ظہور ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ یہ رحمت دو طرفہ ہوگی ایک طرف مجرم کے ذرہ برابر ایمان کو بھی قبول کرکے جنت میں داخل کردیا جائے گا اور دوسری طرف خدا چاہے گا کہ اس موقع پر عزت کا تاج وہ اپنے کسی نیک بندے کے سر پررکھے۔ چنانچہ اس مجرم کے حق میں لوگوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔اور اس میں بھی شرط وہی ہوگی کہ پہلے اللہ تعالیٰ اجازت دیں گے اور پھر کہنے والا اللہ تعالیٰ کے قانون عدل کے مطابق ہی معافی کی درخواست کرے گا۔ معافی کا فیصلہ تو اللہ تعالیٰ پہلے ہی کرچکے ہوں گے اس لیے اس شفاعت کو قبول کرلیا جائے گا۔ یوں اس مجرم کو جنت میں داخل کردیا جائے گا اور اس سفارش کرنے والے کی ہر جگہ تعریف ہوگی۔
مقام محمود اور یار لوگوں کا کمال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری رسول اور نبی ہیں۔ آپ کی امت تعداد میں سب سے زیادہ ہے۔ آپ ہی نے دنیا سے شرک کے غلبے کو ختم کرکے توحید کو عام کیا تھا۔ آپ ہی کے ذریعے سے توحید کا پیغام سب سے زیادہ پھیلا ہے۔ یہی وہ سبب ہے جس کی بنا پر آپ کے ذریعے سے قیامت کے دن سب سے زیادہ لوگوں کی شفاعت ہوگی ۔ لیکن ۔ ۔ ۔ اور یہ ایک بہت بڑا ’لیکن‘ ہے۔ ۔ ۔ یہ شفاعت وہ نہیں ہوگی جو لوگ سمجھتے ہیں بلکہ وہ شفاعت ہوگی جو قرآن کے بیان کردہ حدود و قیود کے ساتھ اوپر بیان ہوئی ہے۔جس میں ہر مجرم کو اپنے کیے کی بدترین سزا بھگتنی ہوگی۔ جس میں کسی مشرک، سرکش اور گناہوں میں غرق کسی مجرم کی معافی کا کوئی امکان نہیں۔
بہرحال نبی کریم کی یہ شفاعت ہوگی اور اسی کو قرآن پاک نے مقام محمود (بنی اسرائیل 17:79) کہا ہے۔چونکہ حضور کی بے پناہ قربانیوں کی وجہ سے دنیا میں توحید غالب ہوگئی اور لوگ توحید پر قائم ہوگئے،اس لیے توحید پر قائم رہنے والے مجرمین کی معافی کا سارا کریڈٹ اللہ تعالیٰ حضور کو دے دیں گے اور یہی چیز قیامت کے دن حضور کی مدح و تعریف کا سبب بن جائے گی ۔
ہم بیان کرچکے ہیں کہ شفاعت حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی دعوت نہیں تھی۔ یہ اصل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور کی خدمات کا ایک بدلہ ہے۔ شفاعت حضور کا اعزاز ہے جس میں آپ کو دیگر انبیا پر فضیلت دی گئی ہے۔ اسی لیے حضور نے ہر اذان کے بعد مسلمانوں کو اپنے لیے دعا کے لیے کہا ہے۔ اذان نماز کا اعلان ہے اور نماز چونکہ توحید کا سب سے بڑا اظہار ہے، اس لیے یہ ایک مناسب موقع ہے کہ اس وقت حضور کے لیے مقام محمود کی دعا کی جائے۔ مگر یار لوگوں کا یہ کمال ہے کہ اس دعا میں لوگوں نے زبردستی اپنے لیے شفاعت کی دعا کا اضافہ کردیا ہے۔ حالانکہ حضور نے اس کی تعلیم نہیں دی تھی۔
حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم شفاعت کی تعلیم دینے نہیں بلکہ ایمان و عمل صالح کی دعوت دینے آئے تھے۔ شفاعت حضور کو ملنے والا ایک اعزاز ہے، اس کا کسی مجرم کے گناہوں کی معافی سے کوئی تعلق نہیں۔ معافی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ایک قانون ہے جو قرآن نے خود بیان کردیا ہے اور جس کی تفصیل ہم اوپر کرچکے ہیں۔
عقیدۂ شفاعت اور احادیث
میں نے اس موضوع پر لکھتے وقت قرآن کے ساتھ ساتھ اس موضوع سے تمام احادیث، اور سلف و خلف کی آراء کو دیکھ لیا ہے۔ اس کے بعد مجھ پر دوچیزیں بہت اچھی طرح واضح ہوگئی ہیں۔ ایک یہ کہ جب قرآن پاک لوگوں کے علم و عمل کا محور نہیں رہتا تو دینی علم میں کتنے سنگین مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ شفاعت کے حوالے سے زیادہ تر غلط فہمی ضعیف روایات، گھڑی ہوئی داستانوں اور سب سے بڑھ اس انسانی خواہش سے پھیلی ہے کہ ہم دنیا میں گناہ کرتے رہیں اور قیامت کے دن ہمیں بغیر سزا کے چھوڑ دیا جائے۔ لیکن میرا یہ یقین ہے کہ قرآن پاک ایک بالکل دوسری جگہ کھڑا ہوا ہے۔ شفاعت کے حوالے سے جو کچھ صحیح احادیث ہیں، انہیں بھی قرآن کے اس ضابطے کی ہی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔
قرآن پاک کی طرح صحیح احادیث میں بھی یہ بات بالکل واضح کردی گئی ہے کہ کسی مجرم کو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے آسرے پر نہیں رہنا چاہیے۔قیامت کے دن حضور اس کی کوئی مدد نہیں کریں گے۔ اس موضوع کی بکثرت روایات کتب احادیث میں آئی ہیں۔ طوالت سے بچنے کے لیے میں یہاں صرف ایک روایت بیان کررہا ہوں۔
’’سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور خیانت کے بارے میں گفتگو فرمائی اور (آخرت کے نتائج کے اعتبار سے) اُسے غیر معمولی اہمیت کا حامل گناہ قرار دیا۔
آپ نے فرمایا: قیامت کے دن میں تم میں سے کسی شخص سے اِس حال میں ہر گز نہ ملوں کہ اُس کی گردن پر کوئی بکری لدی ہوئی ہو اور وہ پکار رہی ہو یا اُس کی گردن پر کوئی گھوڑا لدا ہوا ہو اور وہ آواز دے رہا ہو۔ (پھر)وہ شخص کہے: اے اللہ کے رسول! میری مدد فرمائیے۔ جس پر میں کہوں گا :مجھے تمہارے معاملے میں اللہ کی طرف سے کوئی اختیار نہیں ہے۔ میں تو (جو حق پہنچانا تھا) تمہیں پہنچا چکا ہوں۔
یا میں تم میں سے کسی شخص سے اِس حال میں ہر گز نہ ملوں کہ اُس کی گردن پر کوئی اونٹ لدا ہوا ہواور وہ کچھ بتا رہا ہو۔ (پھر) وہ شخص کہے:اے اللہ کے رسول! میری مدد فرمائیے۔جس پر میں کہوں گا :مجھے تمہارے معاملے میں اللہ کی طرف سے کوئی اختیار نہیں ہے۔میں تو(جو حق پہنچانا تھا) تمہیں پہنچا چکا ہوں۔
یا اُس کی گردن پر کوئی ایسی شے ہو جو خاموش ہو۔ پھروہ شخص کہے:اے اللہ کے رسول! میری مدد فرمائیے۔ جس پر میں کہوں گا :مجھے تمہارے معاملے میں اللہ کی طرف سے کوئی اختیار نہیں ہے۔ میں تو (جو حق پہنچانا تھا) تمہیں پہنچا چکا ہوں۔
یا اُس کی گردن پر چمڑے کے ٹکڑے ہوں ۔پھر وہ شخص کہے: اے اللہ کے رسول! میری مدد فرمائیے۔ جس پر میں کہوں گا: مجھے تمہارے معاملے میں اللہ کی طرف سے کوئی اختیار نہیں ہے۔میں تو (جو حق پہنچانا تھا) تمہیں پہنچا چکا ہوں۔ (بخاری، رقم 2908
شفاعت: کیا بھروسہ کرنے کی چیز ہے؟
ہم شروع میں بیان کرچکے ہیں کہ شفاعت قرآن کی دعوت نہیں ہے بلکہ لوگوں کی غلط فہمیوں کی تردید میں برسبیل تذکرہ اس کا ذکر آگیا ہے ۔اور اب آپ کو سمجھ میں آگیا ہوگا کہ کیوں یہ قرآن کی دعوت نہیں ہے۔ یہ نیک لوگوں کا ایک اعزاز ہے نہ کہ گناہ گاروں کی بخشش کا ذریعہ۔ ان کی بخشش تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون اور ضابطہ کے مطابق کریں گے۔
شفاعت کے اس پورے تصور پر جو قرآن پاک کی روشنی میں سامنے آتا ہے ذرا غور کیجیے۔ اس میں مجرموں کے لیے کون سی امید اور خوشی کی بات ہے۔ کون سا معقول آدمی چاہے گا کہ اس شفاعت پر وہ بھروسہ کرے جس میں بہت سی خواری جھیلنے اور بدترین سزا بھگتنے کے بعدآدمی جنت میں جائے گا۔ کیا بہتر نہیں ہے کہ انسان ایمان، اخلاق اور عمل صالح کے میدان میں ترقی کی کوشش کرے۔ اپنے گناہوں پر معافی مانگتا رہے اور خدا سے صراط مستقیم پر چلنے کی درخواست کرے۔ تاکہ قیامت کے دن انسان پہلے مرحلے پر ہی نجات حاصل کر لے۔وگرنہ کوئی اور سزا نہ ملے صرف میدان حشر کے 50 ہزار برس کی خواری بھی دنیا کی صرف 50 سالہ زندگی کے ہر مزے کو خراب کرنے کے لیے کافی ہے۔
پھر سورہ طہٰ کی جو آیت اوپر نقل کی گئی ہے اس سے یہ بالکل واضح ہے کہ شفاعت کی اجازت دینے یا نہ دینے کا سارا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ کسی کے حق میں اجازت نہ دے تو کس کی مجال ہوگی کہ وہ کچھ کہہ سکے۔ یہ اجازت اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی بنیاد پر دیں گے نہ کہ کسی انسان کی عظمت کی بنا پر۔ سورہ نبا اور سورہ طہٰ کی جو آیات ہم نے نقل کی ہیں وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک نام ’الرحمن‘ استعمال کرکے اسے بالکل واضح کردیا۔ پھر سورہ نساء کی آیت 48 اور 116 جو اوپر نقل کی گئی ہیں یہ صاف بتاتی ہیں کہ اس شفاعت کا سبب توحید پر ایمان ہوگا۔اس لیے اس قسم کی شفاعت کو یقینی بھی بنانا ہے تو شرک کے شائبے سے بھی آدمی کو بھاگنا چاہیے۔ کیونکہ شرک کے بعد ہر قسم کی شفاعت کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ۔ ۔ ۔
اصل مسئلہ یہ نہیں کہ شفاعت دین کی دعوت ہے اور اسی لیے اس کا ہمارے ہاں اتنا چرچا ہے۔ اصل میں یہ تصور عام لوگوں کو عمل صالح کی محنت سے بے نیاز کردیتا ہے۔ لوگ ساری زندگی اپنی خواہش نفسانی کی پیروی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کوئی ’’بزرگ‘‘ قیامت کے دن سینہ تان کر اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوجائے گا کہ جناب یہ میرا آدمی ہے آپ اس کو چھوڑ دیں۔ روز حشر اس چیز کا کوئی امکان نہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دین کی دعوت شفاعت کا تصور نہیں ہے بلکہ ایمان و عمل
صالح ہے۔روزِ قیامت جس شخص کے پاس یہ سرمایہ نہیں، اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ اسے کوئی نجات نہیں دلا سکتا۔
الله ہم سب کو اپنے سیدھے راستے کی طرف گامزن کرے -آمین
مصنف: ریحان احمد یوسفی
شفاعت کا لفظ شفع سے نکلا ہے جس کے معنی ایک چیز کو دوسری سے جوڑنے کے ہیں اور اسی مفہوم سے یہ ترقی کرکے کسی بات کی تائید و حمایت یا کسی کے حق میں سفارش کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ (تدبر 2/349) لغوی معنی سے قطع نظر اس کے اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ قیامت کے دن حساب کتاب کے وقت کسی فرد کا کسی خاص مذہب یا شخصیت سے وابستہ ہونا اور اس شخصیت کی سفارش کا مل جانا، اس کی نجات کا سبب بن جائے گا۔ اس کی سب سے بڑی مثال اس وقت مسیحیت ہے جو دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے۔ عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق ایک شخص جب سیدنا مسیح پر ایمان لے آتا ہے تو مسیحی عقائد پر اس کا یقین اور مسیح سے اس کی وابستگی اس کی نجات کے لیے کافی ہے۔
قرآن کے اولین مخاطب یعنی مشرکین عرب کی پوری مذہبیت اسی شفاعت کے عقیدے پر قائم تھی۔ ان کے نزدیک ان کے دیوی دیوتا خدا کے حضور ان کے حمایتی اور سفارشی تھے۔یہ بات صرف سفارش اور حمایت ہی پر نہیں رکتی بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہی چیز لوگوں کے شرک میں مبتلا ہوجانے کا سبب بن جاتی ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر مسیحیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا کا بیٹا بنا دیا اور مشرکین عرب معاذ اللہ اپنے دیوی دیوتاؤں کو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دے کر ان کی پرستش اور عبادت کیا کرتے تھے۔
یہ کوئی ایسی عجیب بات نہیں ہے۔ اس دنیا میں بھی یہ ہوتا ہے کہ جب ہم کسی مصیبت میں پھنس جاتے ہیں اور کوئی شخص ہماری مدد کرتا ہے تو ہم اس کے تا عمر شکرگزار رہتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جو ہستی خدا کے حضور، انسان کے سارے گناہوں کے باجود اس کی نجات کا سبب بن رہی ہو، انسان اپنے دل میں اس کی غیر معمولی عقیدت اور محبت محسوس کرتا ہے۔ یہ محبت بڑھتی ہے، عظمت میں بدلتی ہے اور آخرکار معاملہ باقاعدہ پرستش اور خدا کے شریک بنانے تک پہنچ جاتا ہے۔ انسان اس ہستی کے گن گاتے گاتے ،انہیں خوش کرنے کے لیے ان کے حضور نذر ونیاز پیش کرتے،دنیا کے معاملات میں بھی ان سے مدد مانگتے اور ان سے دعا کرنے لگتے ہیں۔ یہی کچھ عیسائی اور مشرکین عرب کیا کرتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ قرآن نہ صرف جگہ جگہ ان کے شرک کی مذمت کرتا ہے بلکہ ان کے اس عقیدہ شفاعت کی بھی بھرپور تردیدکرتا ہے۔
سورہ مائدہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قیامت کے دن ہونے والا ایک ڈائیلاگ بڑی تفصیل سے نقل کر کے یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول نہ کسی غلط عقیدے کی تعلیم دیتے ہیں اور نہ وہ اللہ کے حضور کسی کی غلط سفارش کرتے ہیں۔ اسی طرح مشرکین عرب کے شرک اور شفاعت دونوں قسم کے نظریات کی بھی قرآن میں جگہ جگہ تردید کی گئی ہے مثلاً سورہ یونس میں فرمایا:
یہ اللہ کو چھوڑ کر ان ہستیوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں نفع دیتی ہیں اور نہ نقصان۔ اور وہ کہتے ہیں کہ یہ خدا کے حضور ہمارے سفارشی ہیں۔ان سے کہو کیا تم اللہ کو وہ بتاتے ہو جسے نہ وہ آسمان میں جانتا ہے اور نہ زمین میں ۔ یہ لوگ جو شرک کررہے ہیں اللہ کی ذات اس سے پاک ہے۔ (یونس 10:1
ایک سوال
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن اس معاملے میں ایک فیصلہ کن بات کہہ چکا ہے تو پھر کیا سبب ہے کہ مسلمانوں کے اندراس مسئلے میں اتنا غلو پایا جاتا ہے۔ میرے نزدیک اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ ہمارے ہاں لوگوں میں قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کا رواج نہیں اور نہ انہیں یہ معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا کچھ فرمایا ہے۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ قرآن نے ہر چند کے مختلف طریقوں سے قیامت کے دن ہر طرح کی شفاعت کی نفی کی ہے مگر بعض مقامات پر کچھ استثنا بھی دیا ہے۔ اسی استثنا کی وضاحت مختلف احادیث میں کی گئی ہے۔ مگر جب ان احادیث کو قرآن پاک کی روشنی میں نہیں سمجھا جاتا اور پھر ان کے ساتھ ضعیف و موضوع روایات میں گھڑے ہوئے قصے، واعظوں کی داستانیں اور لوگوں کی خواہشات شامل ہوتی ہیں تو عوام الناس کی سطح پر معاملہ کی نوعیت وہی کچھ ہوجاتی ہے جس کی تردید پورے قرآن کا موضوع ہے۔ اس لیے ضرور ی ہے کہ شفاعت کے حوالے سے دین کا موقف عام فہم انداز میں پوری طرح واضح کردیا جائے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ چند بنیادی باتوں کو سمجھ لیا جائے ۔ یہ باتیں درج ذیل ہیں۔
دین کی بنیادی دعوت اور شفاعت
اس سلسلے میں پہلی بات یہ واضح ہونی چاہیے کہ دین کی بنیادی دعوت کیا ہے۔ دین کی بنیادی دعوت توحید و آخرت کی دعوت ہے جو مختلف نبی اور رسول اپنے اپنے زمانوں میں لے کر آئے۔ اس دعوت کی تفصیل یہ ہے کہ انسانوں کا ایک پروردگار ہے۔ انسانوں پر لازمی ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے احکام کی پیروی کریں۔ کیونکہ ایک دن وہ سارے انسانوں کو جمع کرکے ان کے تمام اعمال کا جائزہ لے گا اور پھر عدل کے ساتھ لوگوں کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کردے گا۔ پورا قرآن اس بات کی دعوت سے بھرا پڑا ہے کہ ایمان و عمل صالح کو اختیار کرو اور نجات پاجاؤ۔ قرآن نہ صرف یہ دعوت دیتا ہے بلکہ نجات کے معاملے میں انسان کی ہر دوسری امید صاف الفاظ میں توڑ دیتا ہے۔
اور ڈرو اس دن سے جب کوئی آدمی کسی دوسرے کے کام نہ آئے گا اور نہ اس سے کوئی بدلہ قبول کیا جائے گا نہ اس کے حق میں کسی کی سفارش کام آئے گی اور نہ ہی اسے کہیں سے مدد مل سکے گی۔‘‘(البقرہ 2:123 )
(اس دن) کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور انسان کو وہی ملے گا جس کے لیے اس نے محنت کی ہوگی۔ اور اس کی یہ محنت بہت جلد دیکھی جائے گی۔ پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ (النجم 53:38-41)۔
مسیحی اور یہودی اپنے اپنے نبیوں کو اللہ کی اولاد اور اس کا چہیتا کہتے تھے اور اسی بنیاد پر نجات کے امیدوار تھے۔ قرآن نے شفاعت اور نسلی وابستگی کی بنیاد پر نجات کی نفی صرف ان ہی کے لیے نہیں کی بلکہ اس کے ساتھ مسلمانوں کو بھی بتادیا گیا ہے کہ ہر مجرم کو اپنے جرائم کی سزا بہرحال بھگتنی ہوگی۔فرمایا:
’’ نہ تمھاری آرزووں سے کچھ ہونے کا ہے نہ اہل کتاب کی۔ جو کوئی برائی کرے گا، اس کا بدلہ پائے گا اور وہ اپنے لیے اللہ کے مقابل کوئی کارساز اور مددگار نہیں پائے گا۔‘‘(النسا 4:123 )
قرآن پاک اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ شفاعت کی اگر کچھ حقیقت ہے بھی، اور جسے ہم آگے چل کر واضح کریں گے، تب بھی اس پر تکیہ کرنے کی کوئی گنجائش کسی معقول انسان کے پاس نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیا اس لیے نہیں آئے تھے کہ لوگوں کو شفاعت کی بنیاد پر نجات کی امید دلائیں بلکہ وہ ایمان و عمل صالح کی بنیاد پر نجات کی دعوت دیتے تھے اور جہاں تک شفاعت کے اس مروجہ تصور کا سوال ہے جس میں انسان ساری زندگی رب کی نافرمانی کرتا ہے اور پھر کسی ’’بزرگ‘‘ کے بھروسے پر یہ امید بھی رکھتا ہے کہ شفاعت کے ذریعے سے اسے نجات مل جائے گی تو یہ تصور دین کی بنیادی دعوت ہی سے متصادم ہے۔
اللہ تعالیٰ کی صفات اور شفاعت
ایک دوسری بات یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ شفاعت کا مروجہ تصور اللہ تعالیٰ کی بہت سی صفات کے ساتھ ٹکراجاتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم اس دنیا میں لوگوں کی سفارش کب اور کن وجوہ کی بنا پر کرتے ہیں۔ اس دنیا میں سفارش کی پہلی بنیاد یہ ہے کہ کسی معاملے میں ہم کوئی اختیار رکھتے ہیں یا کسی عہدیدار پر ہمارا کوئی اثر و رسوخ یا احسان ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس شخص کے پاس کسی کا مسئلہ آجاتا ہے۔ ایسی صورت میں ہم اپنے اختیار، عہدے، اثر و رسوخ اور تعلقات کو استعمال کرکے اس شخص کا مسئلہ حسب منشا حل کراتے ہیں۔ سرکاری دفاتر میں بہت سے معاملات اسی اصول پر چلتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے معاملے میں اس صورت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی شخص کسی قسم کا اختیار رکھتا ہے نہ اس پر کسی کا اثر و رسوخ ہے اور نہ اس پر کسی کا احسان۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس کائنات کی ہر شے خدا کی ملکیت ہے۔ پورا قرآن 'لہ مافی السموات و الارض' یعنی ’جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ ہی کی ملکیت ہے‘ کی یاد دہانی سے بھرا ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی کسی حیثیت یا مقام کی بنیاد پر کسی کی کوئی سفارش کرسکے۔ لہٰذا اس پہلو سے شفاعت کا عقیدہ رکھنا ممکن نہیں ہے۔
سفارش کی ایک دوسری بنیاد یہ ہوتی ہے کہ ایک منصف کے پاس معاملہ آئے وہ اپنے علم کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کرنے جارہا ہو اور ہم یہ محسوس کرتے ہوں کہ اس شخص کو بہت سے حقائق اور واقعات کا علم ہی نہیں تو پھر ہم اس شخص پر صحیح صورتحال واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ حقیقت جان لیتا ہے تو اسی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے۔ ہمارے ہاں مقدمات میں فیصلے بارہا اسی بنیاد پر ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے معاملے میں اس کا بھی کوئی سوال نہیں ہے۔ چنانچہ خاص اسی شفاعت کے مسئلے میں گفتگو کرتے ہوئے جس طرح اللہ تعالیٰ نے آیت الکرسی میں یہ بیان کیاہے کہ آسمان و زمین کی ہر شے اللہ کی ملکیت ہے، ٹھیک اسی طرح اسی مقام پر یہ بھی بتادیا ہے کہ یعلم ما بین ایدیھم وما خلفھم یعنی کوئی سفارش کرنے والا اسے لوگوں کے احوال کیا بتائے گا۔ وہ تو ان کے سامنے کے بھی اور پیچھے پیش آنے والے حالات ومعاملات سے بھی واقف ہے۔ اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ لاعلمی میں کوئی غلط فیصلہ کرجائے۔ اسی لیے شفاعت کی یہ بنیاد بھی خدا کے معاملے میں موجود نہیں ہوسکتی ۔
شفاعت کی ایک تیسری بنیاد یہ ہوسکتی ہے کہ منصف مغلوب الغضب ہو یعنی اس کا غصہ اس پر غالب آچکا ہو۔ ایسے میں کوئی ایسا فرد آگے بڑھتا ہے جس کے دل میں ہمدردی اور خیر خواہی پائی جاتی ہو ۔ پھر وہ سفارش کرکے لوگوں کی مدد کرتا ہے۔ گھروں میں عام طور پر جب باپ بچے پر غصہ ہوتا ہے تو ماں اسی بنیاد پر آگے بڑھ کر اس کی حمایت کرتی اور باپ سے اسے بچالیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف یہ کہ مغلوب الغضب نہیں بلکہ یہ اس کی رحمت ہے جو ہمیشہ ان کے غصے پر حاوی رہتی ہے۔ اس کی صفت الرحمن، الرحیم، الرؤف ہے۔ ان سے زیادہ مخلوق کی محبت کس کے دل میں ہوسکتی ہے۔چنانچہ سفارش کی یہ بنیاد بھی اللہ تعالیٰ کے معاملے میں ممکن نہیں ہے۔
سفارش کی ایک اور قسم وہ ہوتی ہے جس میں ہم جائز ناجائز طور پر کبھی کسی کا مسئلہ حل کرتے ہیں اور کبھی کوئی دوسرا ہر اصول کو بالائے طاق رکھ کر ہمارا مسئلہ حل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں اس بات کا بھی کوئی سوال نہیں۔ اس لیے کہ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت عدل کے بالکل خلاف ہوگا۔ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن نجات کے لیے ایمان و عمل صالح کا ایک قطعی ضابطہ مقرر کردیا ہے۔اسے دین کی دعوت کے طور پر پیش کردیا ہے۔ اس کے بعد یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اس ضابطے کو کسی وجہ سے خود ہی پامال کردیں۔
عقلی سوالات
شفاعت کا مروجہ نظریہ صرف دین اور پروردگار کی صفات ہی کے خلاف نہیں بلکہ اس پر بہت سے عقلی سوالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اگر شفاعت کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم ہمیں صرف اس بنیاد پر خدا کے عذاب سے بچا لیں گے کہ ہم ا ن کے امتی ہیں تو سوال یہ ہے کہ حضور کا امتی ہونے میں ہماری کیا خوبی ہے۔ ہماری غالب ترین اکثریت صرف اس وجہ سے مسلمان ہے کہ وہ مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوگئی ہے۔ دین کبھی ہماری معرفت نہیں بنتا، ذاتی دریافت نہیں بنتا بلکہ تاعمر ہمارا تعصب بنا رہتا ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اگر کسی یہودی یا ہندو کے ہاں پیدا ہوجاتے تو ساری زندگی ہندو اور یہودی بنے رہتے۔
ہماری خوبی سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ پھر دیگر مذاہب کے پیروکاروں کا جرم کیا ہے؟ انہوں نے اپنے آپ کو ہندو یا عیسائی نہیں پیدا کیا۔ غور کیجیے کہ یہ خدا کا کون سا عدل ہے کہ قیامت میں مسلمان تو صرف اس لیے بخشے جائیں کہ وہ مسلمانوں کے ہاں پیدا ہوئے اور غیر مسلم اس لیے پکڑے جائیں کہ انہوں نے غیر مسلم گھرانوں میں جنم لیا ۔ کسی غیر مسلم نے اگر خدا سے یہ سوال کر لیا کہ میں تو اپنی مرضی سے کسی غیر مسلم کے ہاں پیدا نہیں ہوا تھا، تونے پیدا کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ مجھے کیوں پکڑا جارہا ہے اور مسلمانوں کو کیوں چھوڑا جارہا ہے، تو اندازہ کرلیجیے کہ یہ خدا کے عدل پر کتنا شدید حملہ ہوگا۔
یہودی ہمارے جیسے ہی غلط تصورات کا شکار تھے۔ انہیں یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ اول تو انہیں عذاب دیں گے نہیں اور اگر اپنے عدل کی لاج رکھنے اور مخلوق خدا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اگر آگ میں ڈالا گیا تو چند دن بعد انہیں باہر نکال لیا جائے گا ۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے اپنا دو ٹوک فیصلہ سنادیا۔ فرمایا:
وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ أَيَّاماً مَعْدُودَةً قُلْ أَاتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً فَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لا تَعْلَمُونَ۔ بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ۔ (البقرہ 2:80-81)
اور وہ کہتے ہیں کہ ان کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف گنتی کے چند دن۔ پوچھو: کیا تم نے اللہ کے پاس اس کے لیے کوئی عہد کرالیا ہے کہ اللہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا یا تم اللہ پر ایک ایسی تہمت باندھ رہے ہو جس کے بارے میں تمھیں کچھ علم نہیں۔ کیوں نہیں،جس نے کوئی بدی کمائی اور اس کے گناہ نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا وہی لوگ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
قرآن میں شفاعت کا تصور
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ مندرجہ بالا بنیادوں پر شفاعت کا مروجہ تصور ناقابل قبول ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ اصل بات کیا ہے جو اس ضمن میں قرآن نے بیان کی ہے۔ہمارے نزدیک شفاعت کے ضمن میں اصل بات وہی ہے جو ذیل کی آیات سے ظاہر ہے۔
يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفّاً لا يَتَكَلَّمُونَ إِلاَّ مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَقَالَ صَوَاباً۔ (النبا 78:3
جس دن جبرئیل اور فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے۔کوئی بات نہیں کرے گا مگر جس کو رحمن اجازت دے اور وہ بالکل ٹھیک بات کہے۔
يَوْمَئِذٍ لا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلاَّ مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلاً ۔ (طہ 20:109)
اس دن شفاعت نفع نہ دے گی۔ سوائے خدائے رحمان جس کو اجازت دے اور جس کے لیے کوئی بات کہنے کو پسند کرے۔
ان آیات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ یعنی روزِ قیامت اللہ کے حضور کسی کے بارے میں کسی قسم کی سفارش کی کوئی گنجائش نہیں سوائے اس کے کہ رحمن اس بات کی اجازت دے ۔خدا کے اذن کے بعد دوسری چیز یہ ہے کہ بات کہنے والا بھی وہ بات کہے جو خلافِ عدل نہ ہو۔ تیسرے یہ کہ ہر کسی کے حق میں سفارش نہیں ہوسکتی بلکہ جس کے حق میں اجازت ہو گی صرف اسی کے بارے میں بات ہوگی۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا بنیاد ہے جس پر اللہ تعا لیٰ کسی کے حق میں سفارش کی اجازت دیں گے۔ قرآن نے اس بنیاد کو خود ہی واضح کردیا ہے۔ یہ بنیاد کسی مذہب، نسل یا شخصیت سے وابستگی نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف توحید سے وابستگی ہے۔ اس قانون کو اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء میں دو مقامات پر بالکل کھول کر بیان کردیا ہے۔ فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ افْتَرَى إِثْماً عَظِيماً ۔ (النساء 4:4
بے شک اللہ تعالیٰ اس چیز کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے، اس کے سوا جو کچھ ہے، جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔
اس قانون میں تین چیزیں بیان ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ شرک کسی صورت میں نہیں بخشا جائے گا۔ دوسرے یہ کہ شرک سے ہلکے جرائم چاہے ان کی نوعیت کچھ بھی ہو معاف کیے جاسکتے ہیں۔ تیسری بات اللہ تعالیٰ نے خالص انسانی نفسیات کے پس منظر میں کی ہے ۔ وہ یہ کہ یہ معافی ہر شخص کے لیے نہیں ہوگی۔ اس تیسری بات کا مطلب سمجھ لیجیے۔ انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جیسے ہی رعایت کا سنتا ہے فوراً گناہوں پر جری ہوجاتا ہے۔ یعنی ایک عام شخص اس آیت سے یہ مطلب لے سکتا ہے کہ اگر میں شرک نہیں کرتا تو کوئی حرج نہیں، قتل اور زنا تو کر سکتا ہوں کیوں کہ اس کی معافی ہوجائے گی۔
اللہ تعالیٰ نے تیسری بات سے یہ امید بھی توڑدی۔ یعنی کس کو معاف کرنا ہے اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ خود کریں گے۔ ہر شخص معافی کی یہ امید نہ رکھے۔ اوپر سورہ بقرہ میں یہود کے حوالے سے جو کچھ کہا گیا ہم اسے دہرا دیتے ہیں کیونکہ اسی سے یہ بات واضح ہے کہ یہ معافی کن کے لیے ہے اور کن کے لیے نہیں۔
اور وہ کہتے ہیں کہ ان کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف گنتی کے چند دن۔ پوچھو: کیا تم نے اللہ کے پاس اس کے لیے کوئی عہد کرالیا ہے کہ اللہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا یا تم اللہ پر ایک ایسی تہمت باندھ رہے ہو جس کے بارے میں تمھیں کچھ علم نہیں۔ کیوں نہیں،جس نے کوئی بدی کمائی اور اس کے گناہ نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا وہی لوگ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (البقرہ 2:80-81)
ان آیات کو سورہ نساء کی آیت کے ساتھ ملاکر جیسے ہی پڑھا جاتا ہے اصل بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ معافی توحید پر قائم رہنے والے ان لوگوں کے لیے ہوگی جن کے گناہوں نے ان کا احاطہ نہیں کرلیا ہوگا۔یعنی ان کے نامہ اعمال میں بالفرض بڑے بڑے جرائم ہوے بھی مگر یہ گناہ ان کے دن رات کا شغل اور زندگی کا معمول نہیں ہوں گے ۔تواس کی شفاعت کی امید کی جا سکے گی -
شفاعت کی اصل حقیقت
شفاعت کے دو پہلو ہیں۔ ایک کسی مجرم کے گناہوں کی معافی اور دوسرے شفاعت کرنے والے کی حیثیت۔ معافی کے متعلق تو سارا قانون ہم نے اوپر بیان کردیا ہے۔ البتہ یہ مسئلہ ہنوز تشنہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر لوگوں کو اپنے ایک قانون کے تحت معاف کریں گے تو پھر اس میں دوسروں کی سفارش کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ یہی وہ بات ہے جو اصل میں سمجھ لینی چاہیے اور جسے نہ سمجھنے کی بنا پر ساری غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔
شفاعت میں دراصل اللہ تعالیٰ کی دو صفات کا اظہار ہوتا ہے ۔ ایک اس کا عدل جس کے تحت جب ایک شخص معافی کا مستحق ہوجاتا ہے تو اسے معاف کرنے کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے۔ دوسری صفت جس کا شفاعت میں ظہور ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ یہ رحمت دو طرفہ ہوگی ایک طرف مجرم کے ذرہ برابر ایمان کو بھی قبول کرکے جنت میں داخل کردیا جائے گا اور دوسری طرف خدا چاہے گا کہ اس موقع پر عزت کا تاج وہ اپنے کسی نیک بندے کے سر پررکھے۔ چنانچہ اس مجرم کے حق میں لوگوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔اور اس میں بھی شرط وہی ہوگی کہ پہلے اللہ تعالیٰ اجازت دیں گے اور پھر کہنے والا اللہ تعالیٰ کے قانون عدل کے مطابق ہی معافی کی درخواست کرے گا۔ معافی کا فیصلہ تو اللہ تعالیٰ پہلے ہی کرچکے ہوں گے اس لیے اس شفاعت کو قبول کرلیا جائے گا۔ یوں اس مجرم کو جنت میں داخل کردیا جائے گا اور اس سفارش کرنے والے کی ہر جگہ تعریف ہوگی۔
مقام محمود اور یار لوگوں کا کمال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری رسول اور نبی ہیں۔ آپ کی امت تعداد میں سب سے زیادہ ہے۔ آپ ہی نے دنیا سے شرک کے غلبے کو ختم کرکے توحید کو عام کیا تھا۔ آپ ہی کے ذریعے سے توحید کا پیغام سب سے زیادہ پھیلا ہے۔ یہی وہ سبب ہے جس کی بنا پر آپ کے ذریعے سے قیامت کے دن سب سے زیادہ لوگوں کی شفاعت ہوگی ۔ لیکن ۔ ۔ ۔ اور یہ ایک بہت بڑا ’لیکن‘ ہے۔ ۔ ۔ یہ شفاعت وہ نہیں ہوگی جو لوگ سمجھتے ہیں بلکہ وہ شفاعت ہوگی جو قرآن کے بیان کردہ حدود و قیود کے ساتھ اوپر بیان ہوئی ہے۔جس میں ہر مجرم کو اپنے کیے کی بدترین سزا بھگتنی ہوگی۔ جس میں کسی مشرک، سرکش اور گناہوں میں غرق کسی مجرم کی معافی کا کوئی امکان نہیں۔
بہرحال نبی کریم کی یہ شفاعت ہوگی اور اسی کو قرآن پاک نے مقام محمود (بنی اسرائیل 17:79) کہا ہے۔چونکہ حضور کی بے پناہ قربانیوں کی وجہ سے دنیا میں توحید غالب ہوگئی اور لوگ توحید پر قائم ہوگئے،اس لیے توحید پر قائم رہنے والے مجرمین کی معافی کا سارا کریڈٹ اللہ تعالیٰ حضور کو دے دیں گے اور یہی چیز قیامت کے دن حضور کی مدح و تعریف کا سبب بن جائے گی ۔
ہم بیان کرچکے ہیں کہ شفاعت حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی دعوت نہیں تھی۔ یہ اصل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور کی خدمات کا ایک بدلہ ہے۔ شفاعت حضور کا اعزاز ہے جس میں آپ کو دیگر انبیا پر فضیلت دی گئی ہے۔ اسی لیے حضور نے ہر اذان کے بعد مسلمانوں کو اپنے لیے دعا کے لیے کہا ہے۔ اذان نماز کا اعلان ہے اور نماز چونکہ توحید کا سب سے بڑا اظہار ہے، اس لیے یہ ایک مناسب موقع ہے کہ اس وقت حضور کے لیے مقام محمود کی دعا کی جائے۔ مگر یار لوگوں کا یہ کمال ہے کہ اس دعا میں لوگوں نے زبردستی اپنے لیے شفاعت کی دعا کا اضافہ کردیا ہے۔ حالانکہ حضور نے اس کی تعلیم نہیں دی تھی۔
حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم شفاعت کی تعلیم دینے نہیں بلکہ ایمان و عمل صالح کی دعوت دینے آئے تھے۔ شفاعت حضور کو ملنے والا ایک اعزاز ہے، اس کا کسی مجرم کے گناہوں کی معافی سے کوئی تعلق نہیں۔ معافی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ایک قانون ہے جو قرآن نے خود بیان کردیا ہے اور جس کی تفصیل ہم اوپر کرچکے ہیں۔
عقیدۂ شفاعت اور احادیث
میں نے اس موضوع پر لکھتے وقت قرآن کے ساتھ ساتھ اس موضوع سے تمام احادیث، اور سلف و خلف کی آراء کو دیکھ لیا ہے۔ اس کے بعد مجھ پر دوچیزیں بہت اچھی طرح واضح ہوگئی ہیں۔ ایک یہ کہ جب قرآن پاک لوگوں کے علم و عمل کا محور نہیں رہتا تو دینی علم میں کتنے سنگین مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ شفاعت کے حوالے سے زیادہ تر غلط فہمی ضعیف روایات، گھڑی ہوئی داستانوں اور سب سے بڑھ اس انسانی خواہش سے پھیلی ہے کہ ہم دنیا میں گناہ کرتے رہیں اور قیامت کے دن ہمیں بغیر سزا کے چھوڑ دیا جائے۔ لیکن میرا یہ یقین ہے کہ قرآن پاک ایک بالکل دوسری جگہ کھڑا ہوا ہے۔ شفاعت کے حوالے سے جو کچھ صحیح احادیث ہیں، انہیں بھی قرآن کے اس ضابطے کی ہی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔
قرآن پاک کی طرح صحیح احادیث میں بھی یہ بات بالکل واضح کردی گئی ہے کہ کسی مجرم کو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے آسرے پر نہیں رہنا چاہیے۔قیامت کے دن حضور اس کی کوئی مدد نہیں کریں گے۔ اس موضوع کی بکثرت روایات کتب احادیث میں آئی ہیں۔ طوالت سے بچنے کے لیے میں یہاں صرف ایک روایت بیان کررہا ہوں۔
’’سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور خیانت کے بارے میں گفتگو فرمائی اور (آخرت کے نتائج کے اعتبار سے) اُسے غیر معمولی اہمیت کا حامل گناہ قرار دیا۔
آپ نے فرمایا: قیامت کے دن میں تم میں سے کسی شخص سے اِس حال میں ہر گز نہ ملوں کہ اُس کی گردن پر کوئی بکری لدی ہوئی ہو اور وہ پکار رہی ہو یا اُس کی گردن پر کوئی گھوڑا لدا ہوا ہو اور وہ آواز دے رہا ہو۔ (پھر)وہ شخص کہے: اے اللہ کے رسول! میری مدد فرمائیے۔ جس پر میں کہوں گا :مجھے تمہارے معاملے میں اللہ کی طرف سے کوئی اختیار نہیں ہے۔ میں تو (جو حق پہنچانا تھا) تمہیں پہنچا چکا ہوں۔
یا میں تم میں سے کسی شخص سے اِس حال میں ہر گز نہ ملوں کہ اُس کی گردن پر کوئی اونٹ لدا ہوا ہواور وہ کچھ بتا رہا ہو۔ (پھر) وہ شخص کہے:اے اللہ کے رسول! میری مدد فرمائیے۔جس پر میں کہوں گا :مجھے تمہارے معاملے میں اللہ کی طرف سے کوئی اختیار نہیں ہے۔میں تو(جو حق پہنچانا تھا) تمہیں پہنچا چکا ہوں۔
یا اُس کی گردن پر کوئی ایسی شے ہو جو خاموش ہو۔ پھروہ شخص کہے:اے اللہ کے رسول! میری مدد فرمائیے۔ جس پر میں کہوں گا :مجھے تمہارے معاملے میں اللہ کی طرف سے کوئی اختیار نہیں ہے۔ میں تو (جو حق پہنچانا تھا) تمہیں پہنچا چکا ہوں۔
یا اُس کی گردن پر چمڑے کے ٹکڑے ہوں ۔پھر وہ شخص کہے: اے اللہ کے رسول! میری مدد فرمائیے۔ جس پر میں کہوں گا: مجھے تمہارے معاملے میں اللہ کی طرف سے کوئی اختیار نہیں ہے۔میں تو (جو حق پہنچانا تھا) تمہیں پہنچا چکا ہوں۔ (بخاری، رقم 2908
شفاعت: کیا بھروسہ کرنے کی چیز ہے؟
ہم شروع میں بیان کرچکے ہیں کہ شفاعت قرآن کی دعوت نہیں ہے بلکہ لوگوں کی غلط فہمیوں کی تردید میں برسبیل تذکرہ اس کا ذکر آگیا ہے ۔اور اب آپ کو سمجھ میں آگیا ہوگا کہ کیوں یہ قرآن کی دعوت نہیں ہے۔ یہ نیک لوگوں کا ایک اعزاز ہے نہ کہ گناہ گاروں کی بخشش کا ذریعہ۔ ان کی بخشش تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون اور ضابطہ کے مطابق کریں گے۔
شفاعت کے اس پورے تصور پر جو قرآن پاک کی روشنی میں سامنے آتا ہے ذرا غور کیجیے۔ اس میں مجرموں کے لیے کون سی امید اور خوشی کی بات ہے۔ کون سا معقول آدمی چاہے گا کہ اس شفاعت پر وہ بھروسہ کرے جس میں بہت سی خواری جھیلنے اور بدترین سزا بھگتنے کے بعدآدمی جنت میں جائے گا۔ کیا بہتر نہیں ہے کہ انسان ایمان، اخلاق اور عمل صالح کے میدان میں ترقی کی کوشش کرے۔ اپنے گناہوں پر معافی مانگتا رہے اور خدا سے صراط مستقیم پر چلنے کی درخواست کرے۔ تاکہ قیامت کے دن انسان پہلے مرحلے پر ہی نجات حاصل کر لے۔وگرنہ کوئی اور سزا نہ ملے صرف میدان حشر کے 50 ہزار برس کی خواری بھی دنیا کی صرف 50 سالہ زندگی کے ہر مزے کو خراب کرنے کے لیے کافی ہے۔
پھر سورہ طہٰ کی جو آیت اوپر نقل کی گئی ہے اس سے یہ بالکل واضح ہے کہ شفاعت کی اجازت دینے یا نہ دینے کا سارا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ کسی کے حق میں اجازت نہ دے تو کس کی مجال ہوگی کہ وہ کچھ کہہ سکے۔ یہ اجازت اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی بنیاد پر دیں گے نہ کہ کسی انسان کی عظمت کی بنا پر۔ سورہ نبا اور سورہ طہٰ کی جو آیات ہم نے نقل کی ہیں وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک نام ’الرحمن‘ استعمال کرکے اسے بالکل واضح کردیا۔ پھر سورہ نساء کی آیت 48 اور 116 جو اوپر نقل کی گئی ہیں یہ صاف بتاتی ہیں کہ اس شفاعت کا سبب توحید پر ایمان ہوگا۔اس لیے اس قسم کی شفاعت کو یقینی بھی بنانا ہے تو شرک کے شائبے سے بھی آدمی کو بھاگنا چاہیے۔ کیونکہ شرک کے بعد ہر قسم کی شفاعت کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ۔ ۔ ۔
اصل مسئلہ یہ نہیں کہ شفاعت دین کی دعوت ہے اور اسی لیے اس کا ہمارے ہاں اتنا چرچا ہے۔ اصل میں یہ تصور عام لوگوں کو عمل صالح کی محنت سے بے نیاز کردیتا ہے۔ لوگ ساری زندگی اپنی خواہش نفسانی کی پیروی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کوئی ’’بزرگ‘‘ قیامت کے دن سینہ تان کر اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوجائے گا کہ جناب یہ میرا آدمی ہے آپ اس کو چھوڑ دیں۔ روز حشر اس چیز کا کوئی امکان نہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دین کی دعوت شفاعت کا تصور نہیں ہے بلکہ ایمان و عمل
صالح ہے۔روزِ قیامت جس شخص کے پاس یہ سرمایہ نہیں، اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ اسے کوئی نجات نہیں دلا سکتا۔
الله ہم سب کو اپنے سیدھے راستے کی طرف گامزن کرے -آمین