12مئی

جیا راؤ

محفلین
جانتی ہوں کہ اس نظم میں فنی لحاظ سے بہت سی غلطیاں ہونگی مگر بس دل سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں سوچا محفل کی نذر کئے جائیں۔

12 مئی

شہر جلتا رہا
روح تڑپتی رہی
دل کے ٹکڑے ہوئے
آس مرتی رہی
سسکیاں لے کے روتا رہا تھا جنوں
اے میرے رحمٰں
اب تو رحمت دکھا
میرے شہرِپناہ میں
نہ اب ہو فغاں
اے میرے یزداں
اے میرے یزداں
اب تو دے دے اماں
اے مرے مہرباں
ظلم جو تھا نہاں
ہو گیا ہے عیاں
دے شعورِذہن
جس سے ہم جان لیں
منزلوں کے نشاں
مالکِ دو جہاں
میرا "روحِ وطن "
ایسے جلتے ہوئے
اب نہ منظور ہے
روز اجڑے چمن
یہ کیا دستور ہے
کیوں یہ “فخرِ وطن "
آج مجبور ہے
روشنی کا نگر
آج کیوں ظلمتوں کا ہے مسکن بنا
میرے مہ تاب کو کیوں ہے گرہن لگا
اے میرے مہرباں
وحشیوں سے رِہا
کر دے اب آشیاں
کہ یہ سب کی محبت کی ہے
کہکشاں !
 

مغزل

محفلین
[FONT="Urdu_Umad_Nastaliq"]بہت خوب جیا رائو صاحبہ
خوبصوت لب و لہجہ ہے واہ۔۔
یہ آزاد نظم کی ہیّت پرلکھی گئی سانحہ کراچی کے تناظر میں ایک اچھی تحریر ہے ۔
بس یہ گزارش ہے کہ آزاد نظم کا باقائدہ ایک ردھم ہوتا ہے ۔
جو کہیں کہیں مفقود نظر آتا ہے۔۔ امید ہے آپ نظرِ ثانی کی زحمت گواراکیجے گا
والسلام
ارادت کیش
م۔م۔مغل
[/FONT]
 

الف عین

لائبریرین
ذرا فرصت سے رائے دوع گا اس کے بارے میں۔ مغل کی کچھ باتیں درست ہیں۔ ویسے 12 مئی کو کیا ہوا تھا؟؟؟؟
 

خاور بلال

محفلین
کیا بات ہے جیا راؤ صاحبہ۔ بارہ مئ کی درست ترجمانی کی ہے۔

اعجاز صاحب بارہ مئ کو پاکستان کے حاضر چیف جسٹس کو کراچی بار میں ایک تقریب کے مہمان خصوصی کے طور پر آنا تھا۔ پاکستان کے عوام کو اس چیف جسٹس سے محبت تھی اس لیے ہزاروں اہلیان کراچی اپنے چیف جسٹس کا استقبال کرنے اور اسے چشم ماہ روشن، دل ماشاد کہنے ائیر پورٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ ائیر پورٹ کے راستوں پر ایک شر پسند تنظیم ایم کیو ایم نے اپنے پیشہ ور دہشت گرد مقرر کردیے جنہوں نے گولیوں سے "عوامی طاقت" کا استقبال کیا جس کے نتیجے میں‌ تقریبا پچاس سے زائد افراد جاں بحق ہوئے اور چیف جسٹس ائیر پورٹ سے ہی لوٹا دیے گئے۔ اس طرح کی شرپسند تنظیمیں شاید انڈیا میں بھی نہ ہوں کہ جن کے نزدیک انسانی جان کی قیمت کچھ بھی نہیں۔
 
Top