1947ء کی واپسی

نئے سال کا آغاز ہونے کو ہے اور اتفاق سے اس سال کا کلینڈر بعینہ 1947ء والا ہو گا۔ جیسے یکم جنوری 1947ء کو بدھ کا دن تھا ویسے ہی یہ سال بھی بدھ سے شروع ہو گا۔ 2014ء کے مہینوں کا آغاز اور اختتام بھی 1947ء جیسا ہو گا یوں تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرانے چلی ہے۔

جہاں نئے سال کی 1947ء سے یکسانیت کی خبر ہوئی، اہلِ وطن طرح طرح کی خوش گمانیوں اور قیاس آرائیوں میں مشغول ہو گئے۔ ایک سے بڑھ کر ایک فال نکالی جا رہی ہے اور نئے سے نئے اندازے قائم کئے جا رہے ہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر بھی یہ موضوع ہاٹ کیک کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ بعض احباب کا خیال ہے نیا سال کشمیر کا 1947ء، یعنی سالِ آزادی قرار پائے گا، تو بعض پورے بھارت کو ہی فتح کرنے پہ تیار بیٹھے ہیں۔ گویا اگر سال لوٹ آیا ہے تو ماضی بھی واپس آ جائے گا۔

میڈیا میں بھی یہ خبر شائع ہوئی اور ایس ایم ایس کے سنگ ملک کے طول و عرض میں بھی گردش کر رہی ہے۔ ایک بات جو یکساں ہے، یہ ہے کہ اس واقعے کو انہونی سمجھا جا رہا ہے۔ حالانکہ اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ معمول کا قصہ ہے۔ ہر پانچ، دس یا پندرہ سال بعد کلینڈر لوٹ ہی آتا ہے۔ مثلا 1947ء کے بعد 1958ء، 1969ء، 1975ء، 1986ء اور 1997ء میں بھی ہوبہو وہی کلینڈر تھا۔ 2003ء میں بھی ایک بار پھر کلینڈر کی واپسی ہوئی لیکن یار لوگوں کی نگاہوں میں نہ آ سکا۔ اب جو اس کی اطلاع ہوئی، کیا کیا خوش گمانیاں اور خوش فہمیاں قائم کر لی گئیں۔ اگر صرف کلینڈر کی مناسبت سے حصولِ اہداف ممکن ہوتا، کب کا ہو چکا ہوتا۔ لیکن ہمارا مزاج ہی ایسا بن گیا ہے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے ’ہونی‘ کا انتظار فرماتے رہتے ہیں۔ ہو جائے تو بلے بلے اور جب ’ہونی‘ ہو کے نہیں دیتی تو غصے، جھنجھلاہٹ اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو ہم بحیثیت قوم اس قومِ یہود کی مانند ہو چکے ہیں جس کی قرآنِ پاک میں مثالیں دے کر ہمیں تنبیہ کی گئی تھی۔ لیکن ہم بجائے ان سے عبرت پکڑنے اور نصیحت حاصل کرنے کے، ان کے طرزِ عمل کو ہی اپنا آئیڈیل بنا بیٹھے ہیں۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو جہاد کے لئے پکارا تو ان کا جواب کیا تھا؟ یہی نا تم اور تمھارا خدا لڑو، جب جیت ہو جائے گی ہم بھی آ پہنچیں گے۔ کیا ہم بھی اسی ڈگر پر نہیں چل نکلے؟ 1947ء کا کلینڈر آن پہنچا، ایک اور جیت ہماری جھولی میں ڈال دی جائے گی۔ نہ بازو اٹھے گا، نہ خنجر چلے گا، نہ محنت نہ مشقت، بھارت پر قبضہ جما لیں گے۔ جو قدرے قناعت پسند ہیں کشمیر کی آزادی پہ اکتفا کئے بیٹھے ہیں۔ گویا کلینڈر کی مماثلت کی برکت سے کشمیر و بھارت پکے ہوئے پھل کی طرح ہماری جھولی میں آن گریں گے۔

اگر کلینڈر کے لوٹ آنے سے ماضی کا لوٹ آنا ممکن ہوتا تو 1971ء کا کلینڈر بھی کئی بار لوٹ چکا ہے۔ ہاں وہی 1971ء جب پاکستان کو دو حصوں میں کاٹ ڈالا گیا تھا۔ 1982ء، 1993ء، 1999ء اور 2010ء کے کلینڈر 1971ء کے مشابہ تھے۔ اس حساب سے تو اب تک، خاکم بدہن، پاکستان کے کئی حصے بخرے ہو چکے ہوتے۔ اور جناب احتیاط کیجئے یہ کلینڈر 2021ء میں پھر آنے والا ہے اور ہماری مست خرامیاں بھی ویسے ہی جاری ہیں۔ بنگالیوں کو جو شکوے تھے آج وہی رونا بلوچستان میں رویا جا رہا ہے۔ آج بھی بزورِ بازو کچلنے اور مسلنے کی باتیں ہو رہی ہیں اور اپنی فوج سے اپنا ہی ملک فتح کرایا جا رہا ہے۔

اس تحریر سے احبابِ خوش گمان کی دل شکنی مقصود نہیں، خاطر جمع رکھیئے اور 2014ء میں وہی کچھ ہونے کا حسنِ ظن رکھیئے جو 1947ء میں ہوا تھا۔ کشمیر کو آزاد کرا لیجئے یا بھارت پہ قبضہ جما لیجئے، جہاں تک آپ کے تخیل کی پرواز جاتی ہے، اڑا لیجئے۔ اور اگر خدانخواستہ یہ سال آپ کے خوابوں کی تعبیر نہ لا پایا تو دل گرفتہ اور افسردہ ہونے کی ضرورت نہیں، 2025ء میں یہ کلینڈر پھر آ رہا ہے، تب سہی۔ اور اگر 2025ء بھی دغا دے گیا تو 2031ء ہے نا، ورنہ 2042ء یا پھر 2053ء یا پھر ............چلیں رہنے دیں۔

میری یہ تحریر روزنامہ اسلام میں 25 دسمبر کو شائع ہوئی۔
حوالہ: http://www.dailyislam.pk/epaper/daily/2013/december/25-12-2013/page6.html
 
آخری تدوین:
x816871_50965659.jpg.pagespeed.ic.IJ7SHF2Ygz.jpg

http://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2014-01-07&edition=LHR&id=816871_50965659
 
Top