یونس
محفلین
22جون ۔۔۔
یہ دن اس خطہ میں summer solistice کہلاتا ہے۔ یعنی یہ سال کاسب سے بڑا دن ہوتا ہے ۔اس دن کے بعد دن بتدریج چھوٹے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
ہاں! ۔۔۔ ایسا ہی تو ہے۔۔۔ یہ بہت بڑا اور کڑا دن تھا۔
اس کے بعددن چھوٹے ہی تو ہوتے چلے گئے۔ ان کی وقعت‘ حیثیت ہی کچھ نہ رہی کہ۔۔۔ اسی روز۔۔۔ آج سے کئی برس پہلے۔۔۔ میری امی جان اس دنیا سے اُٹھ گئیں تھیں۔
وہ ماں ‘
جس نے مجھے جنا تو نہیں تھا ۔۔۔
لیکن‘
مجھے پاؤں پاؤں چلناسکھایا تھا‘ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے لکھنا بتا یا تھا‘ اچھے برے کی تمیز سمجھائی تھی۔
اُٹھنے بیٹھنے ‘ کھانے پینے‘ سونے جاگنے کے آداب اور دعائیں یاد کروائی تھیں۔
مسدس حالی‘ احوال الآخرت اور شاہنامہ اسلام کے اشعار کی صورت میں لوریاں دی تھیں۔
ایک عالم دین کی بیٹی ہونے کے ناطے دین سے رغبت ‘ زہد وتقویٰ‘ روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں اوامر و نواہی‘ جائز و ناجائز کے حوالے سے گہری توجہ جس کی سرشت میں داخل تھا۔
جس کی وجہ سے ہمارا چھوٹا سا گھر‘ جنت ارضی سے کم نہیں تھا۔
جس محلے میں بھی وہ رہیں‘ اس محلے کی بچیوں کو قرآن کی تعلیم دینا خود پر قرض گردانتی تھیں۔اور یوں سینکڑوں گھرانوں کی تربیت میں حصہ دارٹھہرتی تھیں۔
گھر کی منڈیروں پر پرندوں کے لئے دانا دنکا اور پانی رکھناجس کے محبوب مشغلوں میں شامل تھا۔
جھلستی دوپہر میں دور سکول سے پیدل آنے والے کمہلائے ہوئے پھول سے بچوں کیلئے پانی لئے کھڑے رہنا اور اپنے ہاتھوں سے پلانا جس کی عادت تھی۔
جس کی غلاف کعبہ پکڑ پکڑ کر ‘ ملتزم سے لپٹ لپٹ کر‘ میزاب رحمت کے نیچے رو رو کر‘ اولاد کے لئے مانگی گئی دعاؤں کا صلہ اللہ نے اس دنیا کی بجائے آخرت میں دینا پسند کیا‘ تو اس صابر و شاکر خاتون نے خوداپنے محبوب شوہر کو دوسری شادی پر آمادہ کیاتھا۔
جس کی اپنے مجازی خدا سے محبت ‘ بے تکان خدمت‘ رفاقت اوروفا شعاری شاید اللہ کو اتنی پسند آگئی تھی کہ شوہر کی وفات کے محض بارہ روز بعدہی اسے جنت میں اس کے ابدی گھر میں بلا لیا گیا۔
جس کی دین سے محبت‘ اخلاق‘ سلیقہ شعاری‘ حسن سلوک‘ ایثار و قربانی‘ رحم دلی‘ صبر و شکر آج بھی مجھے یاد دلاتے ہیں کہ:
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں‘ نا یاب ہیں ہم !
آج مجھ میں اگر کہیں کوئی خوبی ہے تو اللہ کے فضل وکرم اورپھر ان کی تعلیم وتربیت کی بدولت ہے۔ اورخامیوں کی طویل فہرست میری ذات اور نفس امارہ کی وجہ سے ہے۔اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے۔
آئیے سب میرے ساتھ اس دعا میں شامل ہو جائیں کہ
اللہ تعالیٰ ان کی بشری لغزشوں کو معاف فرما کر انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
ان کی قبر کو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ بنا دے۔
یا اللہ ان کی نیکیوں میں اضافہ فرما‘ اور خامیوں سے درگزر فرما۔
ان کی بخشش فرما‘ ان پر رحم فرما‘ ان کی قبر تا حد نظر کشادہ فرما‘ ان کو عذاب قبر سے محفوظ فرما‘ اور جنت الفرودوس کے اعلیٰ ترین درجہ میں داخل فرما۔
آمین
یہ دن اس خطہ میں summer solistice کہلاتا ہے۔ یعنی یہ سال کاسب سے بڑا دن ہوتا ہے ۔اس دن کے بعد دن بتدریج چھوٹے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
ہاں! ۔۔۔ ایسا ہی تو ہے۔۔۔ یہ بہت بڑا اور کڑا دن تھا۔
اس کے بعددن چھوٹے ہی تو ہوتے چلے گئے۔ ان کی وقعت‘ حیثیت ہی کچھ نہ رہی کہ۔۔۔ اسی روز۔۔۔ آج سے کئی برس پہلے۔۔۔ میری امی جان اس دنیا سے اُٹھ گئیں تھیں۔
وہ ماں ‘
جس نے مجھے جنا تو نہیں تھا ۔۔۔
لیکن‘
مجھے پاؤں پاؤں چلناسکھایا تھا‘ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے لکھنا بتا یا تھا‘ اچھے برے کی تمیز سمجھائی تھی۔
اُٹھنے بیٹھنے ‘ کھانے پینے‘ سونے جاگنے کے آداب اور دعائیں یاد کروائی تھیں۔
مسدس حالی‘ احوال الآخرت اور شاہنامہ اسلام کے اشعار کی صورت میں لوریاں دی تھیں۔
ایک عالم دین کی بیٹی ہونے کے ناطے دین سے رغبت ‘ زہد وتقویٰ‘ روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں اوامر و نواہی‘ جائز و ناجائز کے حوالے سے گہری توجہ جس کی سرشت میں داخل تھا۔
جس کی وجہ سے ہمارا چھوٹا سا گھر‘ جنت ارضی سے کم نہیں تھا۔
جس محلے میں بھی وہ رہیں‘ اس محلے کی بچیوں کو قرآن کی تعلیم دینا خود پر قرض گردانتی تھیں۔اور یوں سینکڑوں گھرانوں کی تربیت میں حصہ دارٹھہرتی تھیں۔
گھر کی منڈیروں پر پرندوں کے لئے دانا دنکا اور پانی رکھناجس کے محبوب مشغلوں میں شامل تھا۔
جھلستی دوپہر میں دور سکول سے پیدل آنے والے کمہلائے ہوئے پھول سے بچوں کیلئے پانی لئے کھڑے رہنا اور اپنے ہاتھوں سے پلانا جس کی عادت تھی۔
جس کی غلاف کعبہ پکڑ پکڑ کر ‘ ملتزم سے لپٹ لپٹ کر‘ میزاب رحمت کے نیچے رو رو کر‘ اولاد کے لئے مانگی گئی دعاؤں کا صلہ اللہ نے اس دنیا کی بجائے آخرت میں دینا پسند کیا‘ تو اس صابر و شاکر خاتون نے خوداپنے محبوب شوہر کو دوسری شادی پر آمادہ کیاتھا۔
جس کی اپنے مجازی خدا سے محبت ‘ بے تکان خدمت‘ رفاقت اوروفا شعاری شاید اللہ کو اتنی پسند آگئی تھی کہ شوہر کی وفات کے محض بارہ روز بعدہی اسے جنت میں اس کے ابدی گھر میں بلا لیا گیا۔
جس کی دین سے محبت‘ اخلاق‘ سلیقہ شعاری‘ حسن سلوک‘ ایثار و قربانی‘ رحم دلی‘ صبر و شکر آج بھی مجھے یاد دلاتے ہیں کہ:
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں‘ نا یاب ہیں ہم !
آج مجھ میں اگر کہیں کوئی خوبی ہے تو اللہ کے فضل وکرم اورپھر ان کی تعلیم وتربیت کی بدولت ہے۔ اورخامیوں کی طویل فہرست میری ذات اور نفس امارہ کی وجہ سے ہے۔اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے۔
آئیے سب میرے ساتھ اس دعا میں شامل ہو جائیں کہ
اللہ تعالیٰ ان کی بشری لغزشوں کو معاف فرما کر انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
ان کی قبر کو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ بنا دے۔
یا اللہ ان کی نیکیوں میں اضافہ فرما‘ اور خامیوں سے درگزر فرما۔
ان کی بخشش فرما‘ ان پر رحم فرما‘ ان کی قبر تا حد نظر کشادہ فرما‘ ان کو عذاب قبر سے محفوظ فرما‘ اور جنت الفرودوس کے اعلیٰ ترین درجہ میں داخل فرما۔
آمین