22 دسمبر

عمر سیف

محفلین
22 دسمبر
یاد ہے مجھ کو سال کا سب سے چھوٹا دن تھا
دھوپ کی چادر پر کُہرے نے یخ بستہ گُلکاری کی تھی
یاد ہے مجھ کو!
اُس دن تم کو آنے میں تاخیر ہوئی تھی
اِتنی سی تاخیر کے جس میں صدیوں جتنے لمبے پل تھے
میں ہر پل میں جیتا مرتا سوچ رہا تھا
تم آؤگی؟
تم آئیں تھیں!
یاد ہے مجھ کو تم آئیں تھیں
سال کا سب سے چھوٹا دن تھا
دھوپ کی چادر اُوڑھے تم نے مجھ سے ڈھیروں باتیں کیں تھیں
بےمعنی سی ایسی باتیں!
ایسے قصّے! جن کو یاد کیا توہنستے ہنستے آنکھیں بھیگ گئیں تھیں
تم نے اپنی آنکھوں کے بہتے کاجل سے
سورج کو پیغام دیا تھا
سورج پل میں ڈوب گیا تھا
یاد ہے مجھ کو سال کے سب سے چھوٹے دن کی ڈھلتی شام کے گہرے سائے
جب تم نے میری جانب جی بھر دیکھا تھا
جانے سے کچھ پہلے تم نے خاموشی سے
میرے ہاتھ پہ کچھ پل اپنا ہاتھ رکھا تھا
اور تمھارے لمس کی خوشبو آج بھی ویسے تازہ ہی ہے
یاد ہے مجھ کو!
سال کے سب سے چھوٹے دن نے
مجھ کو تم سے چھین لیا تھا
عاطف سعید
 
Top