anwarjamal
محفلین
میں اور علی تاصف کمپیوٹر مارکیٹ میں داخل ہوئے تو پیچھے پریڈی پولیس والوں نے ہماری گاڑی اٹھا لی,, ان کا موقف تھا کہ گاڑی نو پارکنگ ایریا میں کھڑی تھی,, میرے اس سوال کے جواب میں کہ پہلے آپ شہر میں پارکنگ ایریاز تو بنائیں پھر نو پارکنگ کا گلہ کی جیے گا کہا کہ پانچ سو روپے نکالو اور گاڑی لے جاؤ فضول گفتگو کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہے وہ جو سیٹ پر بیٹھ کر مونچھیں مروڑ رہا تھا سلمان خان کی طرح دبنگ تھا اس کے برابر میں اس جیسے تین اور تھے جو عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنے میں بری طرح مصروف تھے,,
میں نے تاصف سے کہا,, دے یار اسے پچاس روپے,, یہ سننا تھا کہ وہ آگ بگولہ ہوگیا,, کیا کہا ذرا پھر سے کہہ کے دکھا ابھی تم دونوں کو لتر پڑے ناں تو ساری شوخی نکل جائے گی,,
ہم دور جا کر کھڑے ہو گئے اور سوچ بچار کرنے سے زیادہ پولیس والوں کو برا بھلا کہنے لگے کہ وہاں سینکڑوں گاڑیاں کھڑی تھیں اور کہیں بھی نوپارکنگ کا بورڈ نہیں لگا تھا
تھوڑی دیر بعد میں ہمت کر کے دوبارہ اس دبنگ خان کے پاس گیا اور لجاجت سے سو کا نوٹ اسے یوں پیش کیا جیسے یہی میری کل کائنات ہے گر قبول افتد زہے عزو شرف
اس نے سمجھا کہ یہ چڑی مار کی اولاد میرے قدموں میں آکر جھک گیا ہے لہذا بڑے پیار سے سمجھانے لگا کہ پاکستان کے قانون کے مطابق کونسی دفعہ کے تحت کتنا جرمانہ ہے اور کونسی کے تحت کتنا,, میں نے کہا دفعہ کر یار ساری دفاعوں کو تو شہنشاہ آدمی ہے لے لے سو روپیہ کہا نہیں بھائی قانون کا معاملہ ہے پانچ سو سے کم نہیں ہوں گے,,
تو دوستو ایک طرف صدر کراچی کی پریڈی پولیس تھی تو دوسری طرف دو شاعر اور ادیب جو واقعی ادیب ہوتے تو قانون کے مطابق اپنا چالان کٹواتے مگر وہ دونوں بھی اندھیر نگری اور چوپٹ راج کے باسی تھے,, وہ قانون جو صرف کمزوروں کے لیے بنایا گیا تھا اس کی دھجیاں انہوں نے ایک با اثر شخصیت کو فون کر کے بکھیر دیں,,
با اثر شخصیت نے ایس او کو فون کیا ایس او نے فورا دبنگ خان کی مونچھیں کاٹیں,, اور ہم دو انگلیوں سے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوئے,,
یہ واقعہ کئی روز پہلے کا ہے آج قاید اعظم کی تاریخ پیدائش پر اچانک یاد آ گیا
کیا قائد اعظم کی روح ہم پر لعنت بھیج رہی ہے ؟
میں نے تاصف سے کہا,, دے یار اسے پچاس روپے,, یہ سننا تھا کہ وہ آگ بگولہ ہوگیا,, کیا کہا ذرا پھر سے کہہ کے دکھا ابھی تم دونوں کو لتر پڑے ناں تو ساری شوخی نکل جائے گی,,
ہم دور جا کر کھڑے ہو گئے اور سوچ بچار کرنے سے زیادہ پولیس والوں کو برا بھلا کہنے لگے کہ وہاں سینکڑوں گاڑیاں کھڑی تھیں اور کہیں بھی نوپارکنگ کا بورڈ نہیں لگا تھا
تھوڑی دیر بعد میں ہمت کر کے دوبارہ اس دبنگ خان کے پاس گیا اور لجاجت سے سو کا نوٹ اسے یوں پیش کیا جیسے یہی میری کل کائنات ہے گر قبول افتد زہے عزو شرف
اس نے سمجھا کہ یہ چڑی مار کی اولاد میرے قدموں میں آکر جھک گیا ہے لہذا بڑے پیار سے سمجھانے لگا کہ پاکستان کے قانون کے مطابق کونسی دفعہ کے تحت کتنا جرمانہ ہے اور کونسی کے تحت کتنا,, میں نے کہا دفعہ کر یار ساری دفاعوں کو تو شہنشاہ آدمی ہے لے لے سو روپیہ کہا نہیں بھائی قانون کا معاملہ ہے پانچ سو سے کم نہیں ہوں گے,,
تو دوستو ایک طرف صدر کراچی کی پریڈی پولیس تھی تو دوسری طرف دو شاعر اور ادیب جو واقعی ادیب ہوتے تو قانون کے مطابق اپنا چالان کٹواتے مگر وہ دونوں بھی اندھیر نگری اور چوپٹ راج کے باسی تھے,, وہ قانون جو صرف کمزوروں کے لیے بنایا گیا تھا اس کی دھجیاں انہوں نے ایک با اثر شخصیت کو فون کر کے بکھیر دیں,,
با اثر شخصیت نے ایس او کو فون کیا ایس او نے فورا دبنگ خان کی مونچھیں کاٹیں,, اور ہم دو انگلیوں سے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوئے,,
یہ واقعہ کئی روز پہلے کا ہے آج قاید اعظم کی تاریخ پیدائش پر اچانک یاد آ گیا
کیا قائد اعظم کی روح ہم پر لعنت بھیج رہی ہے ؟