ظہور احمد سولنگی
محفلین
یہ معلومات ریڈیو تھران کی ویب سائٹ سے اٹھائی گئی ہے۔
29جون سنہ 1976 ع کو مشرقی افریقہ اور بحر ہند کے درمیان میں واقع چند جزیروں پر مشتمل ملک سشلیز آزاد ہوا ۔18 ویں صدی عیسوی کے اواسط تک کہ جب اس ملک پر پرتگالیوں کا تسلط تھا ۔سشلیزکے بیشتر جزائر کی دریافت نہیں ہوئی تھی اور وہ غیر آباد تھے ، اسی درمیان یہاں فرانسیسیوں کے تسلط کا آغاز ہوا اور 18 ویں صدی عیسوی کے اواخر میں انقلاب فرانس کے عروج کے وقت ، افریقہ میں موجود برطانوی فوج نے سشلز پر قبضہ کرلیا ۔سنہ 1960 ع کے بعد سشلیز کی تحریک آزادی نے زور پکڑا اور سولہ سال بعد سشلیز کو آزادی ملی اور وہاں جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا ۔
29 جون 1991 ع کو سابق سوویت یونین کے زوال کے بعد مشرقی بلاک کے اقتصادی تعاون کی کونسل " کومکن " کے رکن ممالک نے ہنگری کے دارالحکومت بڈاپسٹ میں منعقدہ اجلاس میں اس کونسل کو توڑنے کا اعلان کیا ۔
یہ ادارہ 1949 ع میں سابق سوویت یونین کی قیادت میں مشرقی بلاک کے ممالک کی معیشت میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی غرض سے قائم کیا گیا تھا ،تا ہم اپنی سرگرمیوں کے دور میں کومکن کو یورپ کی مشترکہ منڈی کے مقابلے میں خاص کامیابی حاصل نہ ہوسکی اور اس کا کردار زیادہ تر کمیونسٹ ممالک کے اقتصادی منصوبہ بندی کے ادارے تک محدود تھا ۔
کومکن کے رکن ممالک میں پولینڈ ، رومانیہ ، ہنگری ، چیکوسلواکیہ ، بلغاریہ ، ویتنام ، کیوبا ، منگولیا اور سابق سوویت یونین شامل تھے ۔بڈاپسٹ اجلاس میں کومکن کے رکن ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کرکے اس کی تمام دستاویزات کو منسوخ قرار دیا ۔
29 جون 1913 ع کو دوسری جنگ بلقان شروع ہوئی یہ جنگ صربیہ ، یونان ، مونٹے نیگرو ، رومانیہ اور سلطنت عثمانیہ کے اتحاد اور بلغاریہ کے درمیان لڑی گئی تھی ۔
اس سے تقریبا" ایک سال قبل بلقان کی پہلی جنگ سلطنت عثمانیہ کے خلاف بلغاریہ ، صربیہ ، یونان اور مونٹے نیگرو نے مل کر لڑی تھی ، یہ ممالک اس وقت سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں تھے اس لئے اس کے خلاف انہوں نے علم بغاوت بلند کیا اور وہ عثمانیوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھاکر آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔اس طرح یورپ میں عثمانی سلطنت کی قلمرو کا 80 ٪ حصّہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا ۔
دوسری طرف سلطنت عثمانیہ سے آزادی حاصل کرنے والے ممالک مفتوحہ علاقوں کی تقسیم کے کسی فارمولے پر اتفاق نہ کرسکے جس کی وجہ سے ان میں جنگ چھڑگئی اور چونکہ بلغاریہ اکیلا دوسرے ممالک کے مدّ مقابل تھا ، اس لئے اس نے صلح کی پیش کش کردی اور صلح بخارست کی رو سے اس نے ، سلطنت عثمانیہ سے چھینے گئے بعض علاقوں کو صربیہ ، یونان ، رومانیہ اور مونٹے نیگرو کے حوالے کیا ۔بلقان کی جنگيں در حقیقت پہلی عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں ۔
29جون سنہ 1976 ع کو مشرقی افریقہ اور بحر ہند کے درمیان میں واقع چند جزیروں پر مشتمل ملک سشلیز آزاد ہوا ۔18 ویں صدی عیسوی کے اواسط تک کہ جب اس ملک پر پرتگالیوں کا تسلط تھا ۔سشلیزکے بیشتر جزائر کی دریافت نہیں ہوئی تھی اور وہ غیر آباد تھے ، اسی درمیان یہاں فرانسیسیوں کے تسلط کا آغاز ہوا اور 18 ویں صدی عیسوی کے اواخر میں انقلاب فرانس کے عروج کے وقت ، افریقہ میں موجود برطانوی فوج نے سشلز پر قبضہ کرلیا ۔سنہ 1960 ع کے بعد سشلیز کی تحریک آزادی نے زور پکڑا اور سولہ سال بعد سشلیز کو آزادی ملی اور وہاں جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا ۔
29 جون 1991 ع کو سابق سوویت یونین کے زوال کے بعد مشرقی بلاک کے اقتصادی تعاون کی کونسل " کومکن " کے رکن ممالک نے ہنگری کے دارالحکومت بڈاپسٹ میں منعقدہ اجلاس میں اس کونسل کو توڑنے کا اعلان کیا ۔
یہ ادارہ 1949 ع میں سابق سوویت یونین کی قیادت میں مشرقی بلاک کے ممالک کی معیشت میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی غرض سے قائم کیا گیا تھا ،تا ہم اپنی سرگرمیوں کے دور میں کومکن کو یورپ کی مشترکہ منڈی کے مقابلے میں خاص کامیابی حاصل نہ ہوسکی اور اس کا کردار زیادہ تر کمیونسٹ ممالک کے اقتصادی منصوبہ بندی کے ادارے تک محدود تھا ۔
کومکن کے رکن ممالک میں پولینڈ ، رومانیہ ، ہنگری ، چیکوسلواکیہ ، بلغاریہ ، ویتنام ، کیوبا ، منگولیا اور سابق سوویت یونین شامل تھے ۔بڈاپسٹ اجلاس میں کومکن کے رکن ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کرکے اس کی تمام دستاویزات کو منسوخ قرار دیا ۔
29 جون 1913 ع کو دوسری جنگ بلقان شروع ہوئی یہ جنگ صربیہ ، یونان ، مونٹے نیگرو ، رومانیہ اور سلطنت عثمانیہ کے اتحاد اور بلغاریہ کے درمیان لڑی گئی تھی ۔
اس سے تقریبا" ایک سال قبل بلقان کی پہلی جنگ سلطنت عثمانیہ کے خلاف بلغاریہ ، صربیہ ، یونان اور مونٹے نیگرو نے مل کر لڑی تھی ، یہ ممالک اس وقت سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں تھے اس لئے اس کے خلاف انہوں نے علم بغاوت بلند کیا اور وہ عثمانیوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھاکر آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔اس طرح یورپ میں عثمانی سلطنت کی قلمرو کا 80 ٪ حصّہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا ۔
دوسری طرف سلطنت عثمانیہ سے آزادی حاصل کرنے والے ممالک مفتوحہ علاقوں کی تقسیم کے کسی فارمولے پر اتفاق نہ کرسکے جس کی وجہ سے ان میں جنگ چھڑگئی اور چونکہ بلغاریہ اکیلا دوسرے ممالک کے مدّ مقابل تھا ، اس لئے اس نے صلح کی پیش کش کردی اور صلح بخارست کی رو سے اس نے ، سلطنت عثمانیہ سے چھینے گئے بعض علاقوں کو صربیہ ، یونان ، رومانیہ اور مونٹے نیگرو کے حوالے کیا ۔بلقان کی جنگيں در حقیقت پہلی عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں ۔