سید زبیر
محفلین
۴ جنوری ۱۹۶۷ کا دن ،جب برصغیر کی ایک نابغہ روزگار ، دانشور ، محترمہ عطیہ فیضی انتقال کرگئیں۔عطیہ فیضی ۱۸۷۶میں ترکی کے شہر استنبول میں پیدا ہوئیں جہاں ان کے والد حسن علی فیضی کاروبار کی غرض سے مقیم تھے ۔ عطیہ فیضی کا خاندان، جس کا تعلق سلیمانی بوہرہ جماعت سے تھا اور ان کے ننھیال یعنی طیب جی کا خاندان ،بمبئی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بااثر روشن خیال خاندانوں میں شمار کیا جاتا تھا تھاا اس خاندان نے اپنے تمام بچوں کواپنے زمانے کی مسلم خواتین کے برخلاف پردے کی پابندی بھی نہیں کی اور اسی سبب سے انہیں مجلسی زندگی کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔ پردے کی پابندی نہ ہونے کے سبب وہ مردوں سے ملاقات اور گفت و شنید بھی کرتی تھیں جس نے ایک طرف ان کی معلومات کو وسعت دی اور دوسری طرف ان کے شخصی اعتماد میں بھی اضافہ ہوا۔ وہ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی تھیں اور تعلیمِ نسواں کی تحریک کو ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلتا ہوا دیکھنے کی خواہش مند بھی تھیں
عطیہ ۱۹۰۶ میں سرکاری وظیفے پر انگلستان گئیں اس دوران آپ نے اٹلی ،جرمنی ،چین ،جاپان کے علاوہ کئی ممالک کی سیاحت کی ۔عطیہ کی شادی فیضی رحیمین جو ایک نامی گرامی مصور تھے سے ہوئی ۱۹۴۷ میں قائد اعظم کی دعوت پر بمبئی میں اپنا خوبصورت محل نما گھر ایوان رفعت بیچ کر آپ کراچی منتقل ہوگئیں اور یہان ایوان ر فعت کے نام سے اپنا گھر بنایا۔ یہ گھر مقامی دانشوروں اور فن کے دلداہ کے لیے ہر وقت کھلارہتا آپ نے موسیقی پر دو کتابیں بھی لکھیں بیرون ملک سفر نے آپ کی سوچ کو مزید وسعت عطا کی آپ کے اپنے دور کے متعدد سیاسی رہنماؤں ،دانشوروں سے خط و کتابت تھی جن میں مولانا عبدالکلام آزاد،مولانا شبلی ،جگر مرادابادی ، سروجنی نائیڈو،مولانا شوکت علی ، مولانا محمد علی جوہر ، جارج برنارڈشا،اور اقبال جیسے دانشور شامل تھے ۔ اقبال کے حوالے سے عطیہ فیضی کو بہت شہرت ملی مگر اس کو زیا ہ ہوا رفیق زکریا اور خشونت سنگھ نے دی ورنہ ان کی خط وکتابت میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی
علامہ اقبال کی عطیہ فیضی سے لندن میں بہت ملاقاتیں رہیں زندہ رود میں جاوید اقبال نے اس کا تذکرہ کیا ہےعطیہ فیضی کا تحریر کردہ سفر نامہ ’’سیرِیورپ‘‘ اردو میں خواتین کے لکھے گئے اوّلین سفر ناموں میں شمار کیا جاتا ہے عطیہ فیضی کی خودنوشت ”زمانہ تحصیل“ کا شمار نادر تصانیف میں ہوتا ہے۔ ’’زمانۂ تحصیل‘‘ ایک ایسا دلچسپ روزنامچہ ہے جس میں ایک طرف سادگی اور بے ساختہ پن موجود ہے تو دوسری جانب اس میں جابہ جا یورپ کی تہذیب و معاشرت اور خانگی و مجلسی زندگی کے دلچسپ مرقعے دکھائی دیتے ہیں۔ ’’زمانۂ تحصیل‘‘ کی اہمیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے خواتین میں حصولِ علم کے لیے کوشش اور جدوجہد کا ایک جذبہ بیدار ہوا اور تعلیمِ نسواں کے علم برداروں کو ایک اچھی مثال میّسر آئی
گو کہ عطیہ فیضی انتقال کر چکی ہیں مگر تاریخ میں ان کا کردار زندہ رہے گا
عطیہ فیضی کا خاندانی تعارف صفحہ نمبر ۱۹۱ http://www.iiu.edu.pk/mayar.php?action=prev
۔ http://www.iiu.edu.pk/mayar-vol-2.php?action=next عطیہ فیضی کی ڈائری’’زمانۂ تحصیل‘‘ سے متعلق صفحہ نمبر ۱۰۳