4 – جب پاکستان بدل گیا

صرف علی

محفلین
سنہ 1979 ایک فیصلہ کن سال تھا- اگر کسی کو ایک سال کا انتخاب کرنا پڑے جس میں پاکستان کی سیاست اور ثقافت کا جھکاؤ مذہبی ذہنی خلل کی طرف ہوا، تو وہ یقیناً سنہ 1979 کو ہی چنے گا-

اس فیصلہ کن سال کا آغاز، سنہ 1977 میں ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف ان کے اپنے منتخبہ جنرل ضیاء الحق کی فوجی بغاوت سے ہوا-

جو کچھ سامنے آیا وہ دیکھ کر پاکستانی دم بخود رہ گئے- تو، اصل میں ہوا کیا تھا؟

20 نومبر سنہ 1979 کو مسلح شدت پسندوں کا ایک گروہ مکہ میں مسجد الحرام میں داخل ہوا- اس گروہ کی قیادت جہیمن بن محمد کر رہا تھا- نائب کی حیثیت سے اس کے ساتھ ایک محمد عبدللہ تھا-

اس گروہ میں 100 آدمی تھی جن میں زیادہ تر سعودی تھے لیکن ان کے علاوہ اس میں مصری، یمنی، شامی، سوڈانی، پاکستانی، لیبیانی اور نو مسلم افریقی امریکن بھی شامل تھے-

وہ سب سعودی عرب کے بڑے مفتی، عبدالعزیز بن باز کے پیروکار تھے- باز، مرحوم شاہ فیصل کی معتدل اصلاحات سے کافی خفا تھے جو ریاست میں پہلے ٹیلی ویژن سٹیشن کے قیام کی وجہ بنیں-

شاہ فیصل نے ریاست کی خواتین کو دفتروں میں کام کرنے کی مشروط اجازت بھی دے دی تھی- اپنے جمعہ کے جذباتی خطبوں میں، باز نے بادشاہت پر یہ الزام لگایا کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کے بنائے ہوئے راستوں سے دور جا رہی ہے- خاص طور سے شاہ سعود (1953)-

حالانکہ شاہ سعود کے راج میں ہی برطانوی اور امریکی کمپنی کی مدد سے سعودی عرب میں تیل کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے تھے- لیکن شاہ سعود جانتے تھے کہ اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے انھیں طاقتور مذہبی علماء کی دائیں جانب رہنا ہوگا-

یہی وجہ تھی کہ تیل کی فراوانی کے باوجود، وہ اصلاحات نافذ کرنے میں تکلیف دہ حد تک سست تھے- اس کے بجائے وہ کٹر اسلامی قدامت پسند اصولوں کے ساتھ ریاست کو چلاتے رہے- یہ حیرانی کی بات نہیں، کیوں کہ جہیمن اور اس کے آدمیوں نے وہی کیا جو انہیں سعودی اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا گیا تھا، جھوٹے مسلمانوں اور ملحدوں سے اسلام کو پاک کر دیا جائے-

سنہ 1960 کی دہائی میں سیکولر عرب نیشنل ازم اور عرب سوشل ازم کے عروج کا مقابلہ کرنے کے لئے، جن کی ابتدا مصر، الجزائر، عراق، شام اور لیبیا کی حکومتوں نے کی تھی، شاہ سعود کے جانشین شاہ فیصل نے کچھ ہلکی سماجی اصلاحات کا نفاذ شروع کیا-

ریاست کے عالموں نے، شاہ فیصل پر اس بات کا الزام لگایا کہ وہ سعودی عرب کو ایک آزاد ملک میں تبدیل کر رہے ہیں- حالانکہ تقریباً تمام علماء، ریاست کے تنخواہ دار اور مراعات لیتے تھے-

سنہ 1975 میں شاہ فیصل کو انہی کے خاندان کے فرد نے قتل کر دیا، وہ بھی باز کا پیروکار تھا-

باز کے شعلہ فشاں خطبوں نے آخر کار نوجوان بنیاد پرستوں کے ایک گروہ کو جنم دیا، جنہوں نے جہیمن کے ساتھ عبدل محمد کو حضرت مہدی (اسلام کے ایک خیالی نجات دہندہ) ثابت کرنے کے لئے ایک مشکوک حدیث کا حوالہ دینا شروع کر دیا- اس حدیث میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ مہدی کے پیروکاروں اور ملحدوں کے درمیان معرکہ، مکہ کی مسجد الحرام میں ہو گا-

مسجد پر حملہ اس وقت کیا گیا جب وہاں حاجی موجود تھے- افراتفری مچ گئی- کئی دنوں تک دہشت پسند، سعودی فوجوں کے ساتھ خونریز جنگ لڑتے رہے-

اس افواہ کے زیر اثر کہ مسجد پر قبضہ امریکی/یہودی سازش کا شاخسانہ ہے، پاکستان، بنگلہ دیش اور لیبیا میں مشتعل ہجوم نے اپنے ملکوں میں موجود امریکی سفارت خانوں کو آگ لگا دی-

آخرکار کئی دنوں کی لڑائی کے بعد، سعودی فوج نے فرنچ ملٹری ماہرین کی مدد سے مسجد پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا- اس لڑائی میں 900 افراد مارے گئے جن میں دہشتگرد، زائرین اور سعودی مسلح افواج کے ارکان شامل تھے-

پھر دسمبر 1979 کے آخر میں، روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہو گئیں- اورایک دم پلٹا کھا کر، امریکی حکومت نے پاکستان اور اپنے درمیان بگڑتے تعلقات کو بہتر کرنے کا فیصلہ کیا-

فوجی حکومت کے اپنے مخالفین کے خلاف انسانی حقوق کے قبیح ریکارڈ اور ‘ظالمانہ قوانین’ (جیسے کوڑے مارنا اور ہاتھ کاٹ دینا) رائج کرنے کے فیصلے پر امریکی حکومت کے تحفظات یکسر غائب ہو گئے کیوں کہ ضیاء الحق یہ چاہتے تھے کہ اگر امریکا، سوویت یونین کے خلاف پراکسی وار میں پاکستان کو استعمال کرنا چاہتا ہے تو اسے ریاست کی فوجی حکومت کو غیر مشروط طور پر قبول کرنا ہوگا-

اور پھر سنہ 1980 کے اوائل میں جب آہستہ آہستہ امریکی امداد آنا شروع ہوئی تو تین سال میں پہلی مرتبہ ضیاءالحق کی آمرانہ حکومت کو اس بات کا یقین ہوا کہ وہ کسی مقام تک پہنچ گئی ہے-

یہی وہ لمحہ تھا جب پاکستان کی شہری مڈل کلاس نے وہ اہم سماجی، سیاسی اور ثقافتی موڑ لیا-

ابتدا میں اس تبدیلی کے پیچھے صرف ایک ترقی یافتہ اور جمہوری نظام کی چاہت تھی، ایک حسرت جو سنہ 1970 کی دہائی کے اختتام تک، حکومت اور اقتصادیت کے ایک جدید اسلامی نظام کے سراب میں تبدیل ہو گئی-

بہرحال، مڈل کلاس اچانک اس وقت جمود اور غیر یقینی کا شکار ہو گئی جب آخر الذکر کے مطالبے پر شروع ہونے والی شورشوں کے نتیجے میں فوجی آمریت آگئی اور ایسے قوانین کا نفاذ ہونے لگا جو بر صغیر کے مسلمان معاشرے کے لئے بالکل اجنبی تھے-

لیکن سنہ 1980 کی صبح جب نمودار ہوئی تو پاکستان کی شہری مڈل کلاس اپنے جمود سے باہر نکل آئی اور پھر سے متحرک ہو گئی-

لیکن انکی یہ تحریک، اب ایک اجنبی ماحول میں تھی- عوامی، معاشرتی اور سیاسی اظہار کا زمانہ ختم ہو گیا تھا اور اسکی جگہ ایک قدامت پسند، خود پرستی نے لے لی تھی جس کا اظہار رائے سے بہت کم تعلق تھا- ایک ایسا زمانہ شروع ہو گیا تھا جہاں مذہبی تبلیغ کھلی تھی اور جہاں ایسے قوانین رائج تھے جو سنہ 1970 کے عوامی ورثے کے مخالف تھے، جس میں لوگوں کو اپنا سماجی اور سیاسی وجود چھپا کر رکھنا ضروری ہو گیا-

ایک سال (1979) کے اندر اندر، ملک کی معاشرتی اور سیاسی قدریں اور جوش، بڑی تیزی کے ساتھ دائیں رخ کو مڑ گیا- ایک ایسا موڑ، جہاں سے ہمیں ابھی واپس آنا ہے-

ندیم ایف. پراچہ ایک ثقافتی نقاد اور ڈان نیوز پیپر اور ڈان ڈاٹ کوم کے سینئر کالم نگار ہیں-

ترجمہ: ناہید اسرار
http://urdu.dawn.com/2013/08/30/catch-79-nfp-aq-4/
 

ابن جمال

محفلین
۔ عبدالعزیز بن باز کے تعلق سے جوباتیں کہی گئی ہیں وہ درست نہیں ہیں۔اگرخانہ کعبہ میں شورش برپاکرنے والے ابن باز کے پیروکار ہوتے توحکومت ابن باز کو اس طرح آسانی سے نہیں چھوڑسکتی تھی اورنہ ہی وہ اس کے بعدتاحیات مفتی اعظم برقراررہتے۔
 
Top