Umar Draz
محفلین
اہلِ جنت کے سب سے کم درجہ والے شخص کا حال کیا ہوگا؟ وہ واقعہ آپ بھی جانئے جو رسول کریم ﷺ بیان کرتے ہوئے ہنس دیا کرتے تھے
رسول کریم ﷺ کے مزاج مبارک کے بارے میں متعدد احادیث مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ انتہائی شگفتہ مزاج تھے اور نرمی و محبت سے اور مسکرا کر بات کیا کرتے تھے تاہم کئی بار آپﷺ بے اختیار ہنس بھی دیتے مگر یہ اس وقت ہوتا جب آپﷺ آخرت کے حالات بیان فرما رہے ہوتے تھے ۔امام عسقلانیؒ نے فرماتے ہیں ” یہ کہا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف آخرت کے امور میں ہنسا کرتے تھے۔ اگر کوئی معاملہ دنیا سے متعلق ہوتا تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف تبسم فرمایا کرتے تھے“
آپﷺ نے ایک بار صحابہ کرام ؓ کو یہ آگاہ کیا کہ روزمحشر جب کسی کو جہنم سے نکال کر جنت میں بھیجا جائے گا تو اسکی حالت کیا ہوگی ۔اس پر آپﷺ نے ہنس کر واقعہ کا احوال بیان کیا۔بخاری شریف اور مسلم شریف میں یہ متفق علیہ حدیث مبارک یوں بیان کی گئی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا” مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ سب سے آخر میں جہنم سے کون نکالا جائے گا یا سب سے آخر میں کون جنت کے اندر داخل ہو گا۔ یہ آدمی اپنے جسم کو گھسیٹتا ہوا جہنم سے باہر نکلے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا” جا، جنت میں داخل ہو جا“ وہ جنت میں داخل ہو گا تو اسے گمان گزرے گا کہ شاید یہ بھری ہوئی ہے، چنانچہ وہ واپس لوٹ کر عرض گزار ہو گا” اے ربّ! وہ تو بھری ہوئی ہے“ پس اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا” جا، جنت میں چلا جا“ لہٰذا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ جنت میں جا کر اے پھر گمان گزرے گا کہ شاید یہ بھری ہوئی ہے۔ پس وہ واپس لوٹ کر پھر عرض کرے گا” اے ربّ! میں نے تو وہ بھری ہوئی پائی ہے“ چنانچہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا” جا اور جنت میں داخل ہو کیونکہ تیرے لیے جنت میں دنیا کے برابر بلکہ اس سے دس گنا زیادہ حصہ ہے، یا فرمایا: تیرے لیے دس دنیاوں کے برابر حصہ ہے“ وہ عرض کرے گا” (اے اللہ!) کیا مجھ سے مزاح کرتا ہے یا مجھ پر ہنستا ہے؟ حالانکہ تو حقیقی مالک ہے۔“ حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ اِس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندانِ مبارک نظر آنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے” یہ اہلِ جنت کے سب سے کم درجہ والے شخص کا حال ہے۔“
رسول کریم ﷺ کے مزاج مبارک کے بارے میں متعدد احادیث مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ انتہائی شگفتہ مزاج تھے اور نرمی و محبت سے اور مسکرا کر بات کیا کرتے تھے تاہم کئی بار آپﷺ بے اختیار ہنس بھی دیتے مگر یہ اس وقت ہوتا جب آپﷺ آخرت کے حالات بیان فرما رہے ہوتے تھے ۔امام عسقلانیؒ نے فرماتے ہیں ” یہ کہا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف آخرت کے امور میں ہنسا کرتے تھے۔ اگر کوئی معاملہ دنیا سے متعلق ہوتا تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف تبسم فرمایا کرتے تھے“
آپﷺ نے ایک بار صحابہ کرام ؓ کو یہ آگاہ کیا کہ روزمحشر جب کسی کو جہنم سے نکال کر جنت میں بھیجا جائے گا تو اسکی حالت کیا ہوگی ۔اس پر آپﷺ نے ہنس کر واقعہ کا احوال بیان کیا۔بخاری شریف اور مسلم شریف میں یہ متفق علیہ حدیث مبارک یوں بیان کی گئی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا” مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ سب سے آخر میں جہنم سے کون نکالا جائے گا یا سب سے آخر میں کون جنت کے اندر داخل ہو گا۔ یہ آدمی اپنے جسم کو گھسیٹتا ہوا جہنم سے باہر نکلے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا” جا، جنت میں داخل ہو جا“ وہ جنت میں داخل ہو گا تو اسے گمان گزرے گا کہ شاید یہ بھری ہوئی ہے، چنانچہ وہ واپس لوٹ کر عرض گزار ہو گا” اے ربّ! وہ تو بھری ہوئی ہے“ پس اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا” جا، جنت میں چلا جا“ لہٰذا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ جنت میں جا کر اے پھر گمان گزرے گا کہ شاید یہ بھری ہوئی ہے۔ پس وہ واپس لوٹ کر پھر عرض کرے گا” اے ربّ! میں نے تو وہ بھری ہوئی پائی ہے“ چنانچہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا” جا اور جنت میں داخل ہو کیونکہ تیرے لیے جنت میں دنیا کے برابر بلکہ اس سے دس گنا زیادہ حصہ ہے، یا فرمایا: تیرے لیے دس دنیاوں کے برابر حصہ ہے“ وہ عرض کرے گا” (اے اللہ!) کیا مجھ سے مزاح کرتا ہے یا مجھ پر ہنستا ہے؟ حالانکہ تو حقیقی مالک ہے۔“ حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ اِس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندانِ مبارک نظر آنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے” یہ اہلِ جنت کے سب سے کم درجہ والے شخص کا حال ہے۔“