I Love U مالک۔۔۔!!

اک انسان

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
میں اس بات پر غور نہیں کرتا کہ اللہ کیوں ہے، کہاں ہے اور کیسا ہے۔ میں فقط اتنا جانتا ہوں کہ وہ کون ہے اور اتنا جاننا ہی ہمارے لئے کافی ہوتا ہے۔ میں اُس کے غفور و رحیم ہونے پر غور کرتا ہوں، پروردگار اور رزاق ہونے پر غور کرتا ہوں، میں اس کے رحمن ہونے کے بارے میں سوچتا ہوں، میں اُس کی ذات پر نہیں صفات پر غور کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر غور اور اندازے لگانے والا انسان اپنی اوقات سے باہر ہونے کی کوشش کرتا ہے، خالق مخلوق کے ذہن میں نہیں سما سکتا اور ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہم اُس کی ذاتیات میں دخل اندازی نہ کریں کہ وہ ایسا ہوگا، یوں ہوگا، اُس کے اختیار میں یہ ہے وہ ہے۔ اُس کے اختیار میں سب کچھ ہے مگر ہمارے اختیار میں یہ نہیں کہ ہم اُس پر اندازے باندھ سکیں۔
ہم بعض جگہ الفاظ کا درست استعمال نہیں کرپاتے.... جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ”کل کائنات“ کا خالق ہے۔ ہم بہت سی جگہوں پر یہ لفظ ”کل“ استعمال کرتے ہیں جو میرے حساب سے صحیح نہیں۔ مختلف جزئیات سے بننے کے باوجود کائنات ”کل“ نہیں ”جز“ ہے۔ ہم ”جز“ اُسے کہتے ہیں جو ”کل“ کا ایک حصہ ہو اسلئے یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کائنات ”جز“ ہے تو اس کا ”کل“ کیا ہے؟ میں جز اور کل کو الگ حساب سے دیکھتا ہوں، کیوں کہ اگر جز کو کل کا حصہ مان لیا جائے تو پھر وہ ”کل“ ہی کیا جس میں سے ”جز“ نکل جائے تو وہ ”کل“ ہی نہ رہے؟ مثال کے طور پر ہمارا وجود مختلف اجزاءسے بنا ہوا ہے، ہاتھ پاﺅں، ناک، کان آنکھیں وغیرہ۔ اگر ہم ایک انسان کو کل مان لیں اور پھر اُس کا ہاتھ یا پاﺅں کاٹ دیں تو کیا وہ ”کل“ کی تعریف پر پورا اُترے گا؟ عیب آجائےگا اور کل ”کامل“ نہیں رہے گا!! میری نظر میں جز اور کل کی تشریح کچھ یوں ہے کہ کل ”کامل“ ہے اور ”جز“ جزیات اور اجزاءکا مرکب....!! کائنات کا ذرہ ذرہ ”جز“ ہے، اور یہ تمام اجزاء مل کر بھی ”کل“ نہیں بنتے.... مادے کا چھوٹے سے چھوٹا ذرہ ”ایٹم“ کہ جسے مزید تقسیم نہیں کیا جاتا کیا ”کل“ ہوسکتا ہے؟ چھوٹے سے چھوٹا ذرہ بھی اپنے اندر نیوٹران، پروٹان وغیرہ رکھتا ہے اسلئے وہ بھی جزیات پر مشتمل ایک ”جز“ ہی رہتا ہے۔ ”کل“ فقط خالق ہے!! کہ جس کا کوئی ”جز“ نہیں، جزئیات اور اجزاء نہیں، بس وہی ”کل“ اور ”کامل“ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ”کل“ انسان کے ایک جز”عقل“ میں کیسے سما سکتا ہے؟ ہمارا پروردگار اتنا پاک و برتر ہے کہ انسانی عقل کی وسعتوں میں بھی مقید نہیں ہوسکتا!!
میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اُس کے بارے میں سوچا ہی نہ جائے یا بس اُسے ماننا ضروری ہے ”جاننا“ ضروری نہیں۔ ویسے اُسے فقط مان لینا بھی کافی ہے، کیوں کہ اُسے جاننا انسان کے لئے کبھی کبھار باعث اذیت بھی بن جاتا ہے!! اگر پھر بھی جاننے کا شوق ہو تو میرا مشورئہ یہی ہے کہ ”ذات“ نہیں ”صفات“ پر سوچنا، اُس کی ذاتیات میں دخل مت دینا۔ انسان بہک سکتا ہے کیوں کہ عقل کی بھی ایک ”حد“ ہوتی ہے!! اور جسے سوچا جارہا ہو وہ ہر حد سے ماورا ہے۔
میرے چند دوست میرا بہت خیال رکھتے ہیں، اُنہیں بھی بعض اوقات یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ میں زیادہ غور و فکر کے نتیجے میں پاگل نہ ہوجاﺅں، ایک بار ایسے ہی ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ ”انسانی عقل محدود ہے“ میں نے دریافت کیا کہ ”حد“ ہے کیا؟؟ تو جواب ملا ”معلوم نہیں“، مجھے کہا گیا کہ ”ہمارے پاس اتنا ”اختیار“ نہیں“ میں نے پوچھا ”کتنا“ اختیار ہے؟؟ کہا ”معلوم نہیں“.... دوست ایسے ہی ہوتے ہیں، فکر کرنے والے، ڈرپوک سے!! بعض اوقات ہمیں وہ بات سمجھا رہے ہوتے ہیں جس کے بارے میں خود نہیں جانتے، بس اپنے دوست کو ”بہکنے“ سے بچا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے دوستوں سے میں خاموشی سے بہت کچھ سیکھ لیتا ہوں اور اُنہیں پتہ بھی نہیں چلتا۔ اس خوف نے مجھ پر یہ بات عیاں کی ہے کہ ”انسان سینما گھر میں نہیں مسجد میں ہی بہک سکتا ہے!!“۔ ”بہکنا“ کہتے ہیں ”اصل راستے“ سے ہٹ جانے کو!! سینماء جانے والا اور کیا بہکے گا؟ وہاں جاتے ہی بہکے ہوئے ہیں۔ سچ کہوں تو اس ادراک نے مجھ پر مزید خوف طاری کردیا ہے کہ ہم رب کے راستے پر کیسے بے خوف چل رہے ہیں، ہمیں ڈرنا چاہئے کہ کہیں اس راستے سے بھٹک نہ جائیں.... پل صراط ہے سب!! پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔
انسانی عقل کی ”حد“ اور انسان کے ”اختیار کے حوالے سے میرا نظریہ سوال کی صورت میں کچھ یوں ہے کہ ”ایک پیاسے کو ساحل پر پھینک دیا جائے تو وہ سمندر سے کتنا پانی پی لے گا؟؟“.... اُتنا ہی جتنی پیاس ہوگی!! بس یہی ہے انسان کی حد اور اختیار۔ جتنی پیاس اُتنی حد.... جتنی شدت اُتنا اختیار!! ہر شخص کی پیاس کی شدت کا پیمانہ الگ الگ ہوسکتا ہے اور پیاس کی شدت پیاسا ہی جانے!!.... سیراب تو ہونے دو یارو!! کتنا پانی پی لوں گا؟ سمندر پر کیا اثر پڑے گا؟ جس نے کہا ”حد ہوگئی“ اُس کی واقعی حد ہوگئی!!.... جس نے کہا ”ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں“ اُس کی تو ابھی شروعات ہیں!!
فرض کریں آپ کا ایک دوست آپ کے پاس آکر بتاتا ہے کہ فلاں شخص آپ کے بارے میں اچھے خیالات رکھتا ہے تو آپ کی خوشی کا کیا حال ہوگا؟ یا پھر وہ دوست آپ کے پاس آکر یہ کہے کہ فلاں شخص آپ کے بارے میں بہت برے خیالات رکھتا ہے تو کتنا غصہ آئے گا؟.... میں جب غور کرتا ہوں رحمن و رحیم پر تو بعض اوقات بہت عجیب سا لگتا ہے کہ وہ ہر صفت میں بھی یکتا ہے!! جیسا کہ ہم اگر کسی نیک کام کا محض ارادہ ہی کریں تو وہ ہمیں فوراً اُس کا اجر دیتا ہے، ثواب لکھ دیتا ہے بے شک وہ ہماری دعاﺅں کہ صدا بننے سے پہلے ہی سن لیتا ہے، لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ ہم اگر کسی برے کام کا اِرادہ کریں تو وہ ایسے درگزر کرتا ہے جیسا اُسے معلوم ہی نہیں ہوا!!.... نیک کام کے ارادے پر بھی اجر، اور برے اِرادوں کو عمل بننے تک پکڑ نہیں۔ اللہ تعالیٰ فقط مسلمانوں کا نہیں ہے!! کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہم اُسے مانتے ہیں مگر ہم پر دنیا میں خاص انعامات کی بارشیں نہیں ہوتیں، اور جو اُسے نہیں مانتے، شرک کرتے ہیں وہ اُن کا بھی پیٹ بھرتا ہے؟ .... انسان کا اپنے خالق کو پہچاننا اور ماننا اُس پر احسان نہیں!! یہ انسان کے اپنے مفاد میں ہے۔ ہماری عبادتیں، ریاضتیں اُس کے مقام کو بلند یا مشرکوں کا کفر اُس کے مقام کو کم تر نہیں کرتا۔ ہم اللہ کو مانتے ہیں اپنے لئے!! اللہ کی عبادات کرتے ہیں اپنے لئے، یہ چیزیں اُسے فائدہ یا نقصان نہیں دیتیں ہمیں اجر ملتا ہے!! اُسے ماننا اُس کی نہیں ہماری مجبوری ہے!! ہماری عبادتوں کا محتاج وہ نہیں ہم خود ہیں!!
میرے مالک!! بہت لاچار اور بے بس ہوں، حق بھی ادا نہیں کرپاتا۔ تیری ہی دی ہوئی زبان سے تیری مدحت کرتا ہوں، میرا کیا کمال؟ تیرے ہی سکھائے ہوئے الفاظ سے تجھے پکارتا ہوں، میری کیا اوقات؟ یہ تو تیرا کرم اور عنایت ہے کہ تو اس پر بھی راضی ہے!! حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہیں ہوتا، تیری عبادت مجھ سے بڑھ کر تیرے فرشتے کرتے ہیں، مگر تو نے میری عبادت کو بعض جگہ اُن سے افضل قرار دیا ہے، تیرا ہی کرم ہے مالک، ورنہ کیا بساط میری.... بس اتنا ہے کہ تیری مدحت میں تیرے ہی دیئے ہوئے لفظوں کو تراش کر نئے پیراہن اوڑھا دیتا ہوں۔ تیری عبادت میں دو آنسو بہا لیتا ہوں، تو میری رگِ جاں سے بھی زیادہ نزدیک ہے اس لئے تجھے محسوس کرکے تجھے ہی محبوب بنا لیتا ہوں، تو میرا ایسا محبوب اور تیرا وہ مقام ہے جہاں کوئی دوسرا نہیں آسکتا!! شوخ و گستاخ ہوں اسلئے دل میں جو آئے کہہ دیتا ہوں....
میرے مالک!! I Love U​
 

فرخ منظور

لائبریرین

ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے
بتا ، کیا تو مرا ساقی نہیں ہے

سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے


(علامہ اقبال)
 

اک انسان

محفلین
اچھی تحریر ہے لیکن “کل کائنات کا خالق“ کہنے پر اعتراض اور دلیل محض بچگانہ سی ہی لگی۔

السلام علیکم، سب سے پہلے تو معذرت کے تحریر پوسٹ کرنے کے بعد ذاتی مصروفیات کی بنا پر آ نہیں سکا۔

میں نے اپنی تحریر میں کہیں بھی ’’کل کائنات کے خالق‘‘ کہنے پر اعتراض نہیں کیا، میں فقط کائنات کو ’’کل‘‘ کہنے پر معترض ہوں بلکہ کائنات ہی نہیں کسی بھی شئے کو ’’کل‘‘ تسلیم نہیں کرتا سوائے اللہ تعالٰی کے، لغت میں کیا لکھا ہے اُس کا مجھے علم ہے مگر یہ تحریر میری ذاتی رائے ہے اور لفظ ’’کل‘‘ کو جس انداز میں میں سمجھ سکا ہوں اُس حساب سے ہی میں نے اُسے بیان بھی کیا ہے، اب یہ پڑھنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ اسے یکسر مسترد کردیں کہ ہم نے ایسا نہیں ’’پڑھا‘‘ تو یہ اُن کا حق ہے اور اگر کوئی رُک کر تھوڑا غور فرمانا چاہے تو اُس کا بے حد شکریہ۔
 
Top