زرقا مفتی
محفلین
بہت دن بعد ایک سادہ سی نظم آپ کی بصارتوں کی نذر
ٰٰان ڈور پلانٹ
میں کسی سرمائی پودے کی طرح
تیرے ہی سائے تلے رہتی ہوں
روشنی مجھ سے گریزاں کب سے ہے
کب سے محرومِ صبا ہے تن مرا
کب سے ساون میں نہیں بھیگا بدن
چاند کھڑکی سے بھی تکتا ہی نہیں
تارے آنگن میں اُترتے ہی نہیں
دیکھ اب سانسیں مری رکنے لگیں
اب نہیں باقی مرے تن میں لچک
زرد چہرہ ، ڈھل چکا ہے جوبن
جل رہی ہیں میرے تن کی شاخیں
جھڑ گئے ہیں برگ جتنے تھے ہرے
اپنے سائے کو ہٹا لے اب تو
آخری سانسیں ہوا میں لے لوں
پھول کی خوشبو کودل میںبھر لوں
اک نظر میں آسماں کو چھو لوں
چاند تاروں سے دو باتیں کر لوں
اب مجھے آزاد کرہی دے تُو
زرقامفتی
ٰٰان ڈور پلانٹ
میں کسی سرمائی پودے کی طرح
تیرے ہی سائے تلے رہتی ہوں
روشنی مجھ سے گریزاں کب سے ہے
کب سے محرومِ صبا ہے تن مرا
کب سے ساون میں نہیں بھیگا بدن
چاند کھڑکی سے بھی تکتا ہی نہیں
تارے آنگن میں اُترتے ہی نہیں
دیکھ اب سانسیں مری رکنے لگیں
اب نہیں باقی مرے تن میں لچک
زرد چہرہ ، ڈھل چکا ہے جوبن
جل رہی ہیں میرے تن کی شاخیں
جھڑ گئے ہیں برگ جتنے تھے ہرے
اپنے سائے کو ہٹا لے اب تو
آخری سانسیں ہوا میں لے لوں
پھول کی خوشبو کودل میںبھر لوں
اک نظر میں آسماں کو چھو لوں
چاند تاروں سے دو باتیں کر لوں
اب مجھے آزاد کرہی دے تُو
زرقامفتی