چوتھا باب - 4
گیسی اور برفیلے دیو
زحل
شاندار حلقوں کا مالک زحل مشتری کی چوتھائی شمسی توانائی حاصل کرتا ہے (زمین کے مقابلے میں سو گنا کم)۔ تحقیق بتاتی ہے کہ اس کے موسم مشتری کے مقابلے میں کم قوّت والے ہونے چاہئیں کیونکہ یہ کم شمسی توانائی حاصل کرتا ہے۔ اپنی دوربینوں کے ذریعہ دیکھنے والوں کو بے حس پٹیاں اور علاقے مشتری کا مدھم سا انداز دکھاتے ہیں۔ لیکن وائیجر نے زحل کے موسموں کو بھی فتنہ و فساد انگیز اور منفرد انداز والا پایا۔ قریباً تین عشروں بعد زحل کے گرد مدار میں چکر لگانے والے کیسینی نے سنہری اجنبی خلائی دنیا کو اپنے ہم مادر پدر برجیس جیسا ہی پایا۔ اس کے کہر اور بادلوں کی طویل عمر کی خاصیت زمین کے متلون مزاج موسم پر تحقیق کے برخلاف تھی۔ یہ ایک سبق تھا کہ بیرونی سیارے بار بار نئی چیزیں سکھا رہے ہیں۔ زمین کی تشبیہ کا اطلاق ہمیشہ دیوہیکل سیاروں پر نہیں ہوتا۔
ایک سنہری کہر زحل کے رفیع الشان روپ اور دھیمے خد و خال کی ذمہ دار ہے۔ کہر تب بنتی ہے جب سورج کی بالائی بنفشی روشنی ہائیڈرو کاربن مثلاً ايسيٹيلِيَن یا ایتھین کو بناتی ہے۔ یہ لمبی زنجیر والے ہائیڈرو کاربن بننے کے بعد بتدریج ایک کہر میں تکثیف ہو جاتے ہیں جو پٹیوں اور علاقوں کے اوپر تیرتی ہے۔
سیارے کی ہوائیں نظام شمسی کی سب سے غضب ناک ہوائیں ہیں۔ زحل ایک ایسی دنیا ہے جو فوق صوتی ہوا کے جھکڑوں کے ساتھ چیری جاتی ہے، جہاں پیلے - سفید بادل گہرے پٹیوں میں اس طرح لٹتے ہیں جیسے کہ اولمپک دوڑنے والے پرچم کو لوٹتے ہیں۔ جس وقت کیسینی لمبے عرصے کی چھان پھٹک کے لئے مدار میں اتر ا تھا اس وقت ایک طاقتور گرجنے والے طوفانوں نے جنوبی نصف کرہ کو جنوبی خط استواء سے ٣٧ درجے پر محدود علاقے میں گھیر لیا تھا۔ اس "طوفانی پٹی" نے لمبے عرصے تک قائم رہنے والے روشن بادل بنائے جو برق کو چھوڑ رہے تھے۔
عام طور پر آسمانی بجلی کا تعلق پانی سے ہوتا ہے، اور پانی کے بادل زحل میں کافی گہرائی میں دفن تھے۔ پانی پہلے ٢٠ باد پیما پر تکثیف ہوتا ہے، نظر آنے والے بادلوں کے اوپری حصّے سے کچھ ٢٠٠ کلومیٹر نیچے۔ اندرونی حرارت ان کو اوپر کی جانب ایک ٧٠ کلومیٹر کے عمودی سفر پر اٹھاتی ہے اور پانی کو دس باد پیما ارتفاع پر پہنچا دیتی ہے۔ اس سطح پر یہ برف بن جاتا ہے۔ زمین پر آسمانی بجلی اس بلندی پر بنتی ہے جہاں پانی برف بن رہا ہوتا ہے۔ برف کے ذرّات اور مائع پانی آپس میں ٹکراتے ہیں جو بار کو الگ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ نمونے بتاتے ہیں کہ زحل پر بجلی دس باد پیما کی سطح پر قریباً بادلوں کی چوٹی سے ١٠٠ کلومیٹر نیچے بننا شروع ہو جاتی ہے۔
گرج چمک کو اس مرتکز علاقے تک محدود کرنے کی حقیقت نے محققین کو چکرا کر رکھا ہوا ہے۔ لیکن تحقیق جوں جوں آگے بڑھتی رہی، نمونہ بتدریج آہستہ سا ظاہر ہوتا گیا اور کچھ محققین کو شبہ ہوا کہ شاید یہ صرف ایک دفعہ کا مسئلہ تھا۔ زمین کے ماحول پر ابتری پھیلنے کا وقت کا پیمانہ دنوں سے لے کر ہفتوں تک چلتا ہے۔ گیسی اور برفیلے دیو اتنے بڑے ہیں کہ وہ اس رخ کے کچھ حصّے کو کو نا پیش بین(ناقابلِ پیشگوئی) برتاؤ کی طرح دکھاتے ہیں ، لیکن ممکن ہے کہ وہ لمبے عرصے میں جا کر بنتے ہوں۔ کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ اس طوفان کی روش کچھ خاص تھی؟
بدلتے موسم کے ساتھ جواب مل گیا۔ جب خزاں شمالی کرہ کی جانب آئی تو طوفانی پٹی میں موجود طوفان کمزور پڑ گیا ، اور شمال میں بادلوں کے پھٹنے کا سب سے ڈرامائی عمل نظر آنا شروع ہو گیا۔ پانی کے بادل اوپری کرہ میں ابلنے لگے، اور ایک ہی ہفتے میں انہوں نے مکمل طور پر پورے کرہ کو گھیرے میں لے لیا۔ اور شاندار طوفان شمال کے خط استواء سے بالکل اتنے ہی فاصلہ پر ظاہر ہوا جتنا گرج چمک کا طوفان جنوب کے خط استواء سے دور تھا۔ زحل کے عظیم بارش کے طوفان ایسا لگتا ہے کہ موسمی ہیں۔
زحل کا موسم ایک اور خوبصورت للچا دینے والے جیومیٹری کی شکل کو پیش کرتا ہے جس نے قطبین کو گھیرے میں لیا ہوا ہے، ایک عظیم بھنور بادلوں کے بیج سے جھانک رہا ہے۔ طوفان کا نشیبی کنارہ ارد گرد کے بھنور سے ٤٠-٦٤ میل اوپر ہے۔ ٥٥٠ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں کے باوجود طوفان جنوبی قطب کے درمیان میں مرکز میں براہ راست ٹھہرا رہتا ہے۔ زحل کے شمالی قطب کے مخالف ، ایک شاندار شش پہلوی کناروں والا زمین کے قطر کا دوگنا موجود ہے۔ ١٩٨٠ء کے عشرے میں وائیجر سے دیکھی جانے والی حیرت انگیز ہوا کی رومستحکم اور لمبی عرصے تک کی تھی۔ کچھ لوگوں کے مطابق وائیجر سے حاصل کردہ تصاویر اس بات کی جانب اشارہ کر رہی ہیں کہ یہ شش پہلو طوفان تھوڑی عرصے رہنے والی بیکلی ہے جس کو کچھ متصل گردابوں یا دھبوں نے زبردستی بنا دیا ہے۔ لیکن کیسینی سے حاصل کردہ تصاویر نے یہ بات عیاں کی کہ شش پہلو اب بھی وہیں ہے اور حیرت انگیز طور پر یہ اب بھی اسی حجم اور ہئیت کا ہے۔
خاکہ 4.5 زحل کی "طوفانی پٹی" اپنے خط استواء سے ٣٧ ڈگری درجے پر گھومتے ہوئے گردابوں کا ایک سلسلہ دکھا رہی ہے۔ ٢٠١١ء میں ایک عظیم طوفان اس وقت نمودار ہوا جب شمالی نصف کرہ میں بہار شروع ہوئی۔
زحل کی ایک اور منفرد خاصیت اس کے قطبی علاقوں کے رنگ ہیں۔ جب کیسینی وہاں پہنچا، زحل پر شمالی کرہ میں سردی ختم ہو رہی تھی۔ حلقوں کے سائے نے شمالی کرہ کو کئی برسوں تک اندھیرے میں رکھا تھا، اور باقی سیارے کی نسبت وہاں بادل زیادہ نیلے تھے۔ کیسینی امیجنگ ٹیم پائی کیرولن پورکو وضاحت کرتی ہیں، " حلقوں کے پڑنے والے سائے ماحول کو حقیقت میں سرد کر دیتے ہیں ۔ ایک خیال یہ تھا کہ شاید بادل ڈوب رہے ہیں کیونکہ ہوا اتنی ٹھنڈی ہو گئی ہے کہ کرہ فضائی کی وہ سطح جہاں بادل بنتے ہیں نیچے سے نیچے ہو رہی تھی۔ بادلوں سے اوپر کرہ فضائی صاف سے صاف ہو رہا تھا اور آپ کو وہاں زیادہ اشعاع نظر آ رہی تھیں۔ جب زحل نقطہ اعتدال (جب دن اور رات برابر ہو) کو پار کرتا ہے تو حلقوں کے سائے خط استواء کی طرف سکڑ جاتے ہیں اور شمال گرم ہونا شروع ہوتا ہے، اور زحل کی سنہری چمک وہاں واپس آ جاتی ہے۔ حلقوں کے سائے جب جنوبی کرہ کی طرف منتقل ہوتے ہیں، تو بادل واضح طور پر نیلے ہونا شروع ہو جاتے ہیں ، جو ایک زحل کا منفرد موسمی مظہر ہے۔
خاکہ 4.6 طوفان ازابیل کی آنکھ (بائیں) زحل کے شمالی قطبی بھنور کے سامنے پدی سی لگے گی۔
خاکہ 4.7 عظیم شش پہلو طوفان چار زمینوں کو گھیر سکتا ہے۔ اوپر والے منظر میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ حلقے فریم کے اوپر سیارے کے پیچھے ہیں ۔ اس کے نیچے ایک کونے پر نفیس بادلوں کی تشکیل کی تفصیلات ہیں ۔
تمام دیوہیکل سیاروں میں سب سے عظیم حلقے زحل کے ہیں۔ اندرونی کنارے سے لے کر بیرونی کنارے تک، ٦٧ ریاست ہائے متحدہ کے براعظم اس میں سما سکتے ہیں ۔ اس وسیع قطر کے باوجود، ان کی موٹائی زیادہ تر جگہوں پر صرف تین منزلہ عمارت جتنی ہے۔ بنیادی طور پر یہ برف سے بنے ہوئے لگتے ہیں ، ہرچند کہ کچھ حصّہ میں برف میں لپٹی ہوئی چٹانیں بھی ہیں۔ حلقے کے اندر کئی چھوٹے مہتاب بھی موجود ہیں جو ممکنہ طور پر حلقوں کے بننے کے دور کی باقیات ہیں۔ ماہرین فلکیات نے حلقوں کے نام حروف تہجی میں ان کی دریافت کی ترتیب کے حساب سے رکھے ہیں۔ سب سے روشن مرکزی حلقے کا نام "بی" ہے؛ یہ اپنے ارد گرد موجود "اے" اور "سی" حلقوں کے ساتھ ہی دریافت ہو گیا تھا۔ "ایف" اور دوسرے مدھم حلقوں کو دریافت اس وقت ہوئی جب خلائی جہاز وہاں پہنچا۔
باریک لہریں، موجیں پورے نظام میں بہتی رہتی ہیں، جن کو چھوٹے چاند کی قوّت ثقل پھیلاتی ہے۔ بڑے چاند ذرّات کے ساتھ گمگ پیدا کرتے ہیں اور حلقے میں موجود درزوں کو بھرتے ہیں۔
ساؤتھ ویسٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈین دردا جو سیارچوں اور نظام شمسی کے چھوٹے مہتابوں کے ماہر ہیں وہ کہتے ہیں کہ حلقوں کے پاس ہمیں بتانے کو بہت کچھ ہے۔" تمام چھوٹی موجیں اور مرغولہ نما کمیتی لہریں، ہر وہ چیز جو ہم دیکھتے ہیں وہ آئزک نیوٹن کے کھیل کا میدان ہے۔ یہ قوّت ثقل کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ ذرّات کے درمیان یہ صرف نیوٹنی قوّت ثقل ہے اور اس قدر وسیع ہزار ہا مظاہر کا مظاہرہ جو اس سے بن سکتے ہیں وہ بہت ہی حیرت انگیز بات ہے۔ زحل کے حلقوں کا نظام شاید قدرت کی سب سے بہترین تجربہ گاہ ہیں جہاں ہم ان مظاہر کو دیکھ سکتے ہیں۔" دو چاند جن کی تصاویر کافی قریب سے لی گئی ہیں وہ پین اور اٹلس ہیں اور دونوں میں ایک عجیب چیز مشترک ہے کہ ان کے خط استواء سے واضح ابھار سے نکل رہے ہیں ۔ یہ ابھار حلقوں کا مادّہ لگتے ہیں اور یہ چیز ہمیں ان کے ارتقاء کے بارے میں کچھ بتاتی ہے۔ پورکو کہتی ہیں :
آپ کو انہیں بنانے کے لئے شروعات میں موٹی قرص میں پیوست کرنا ہی ہوگا۔ ایک ایسا دور ضرور ہوگا جب چاند اتنا بڑا نہیں ہوگا کہ وہ بڑے شگاف کو بنا سکے، لہٰذا وہ اس دور میں حلقوں سے ہمیشہ ٹکراتا رہے گا۔ میں اس بات کا تصوّر کر سکتی ہوں کہ ان ذرّات کے چاند پر جمع اور دور ہونے کی شرح ایک ہی ہوگی ۔ لیکن فرض کریں کہ چاند بڑے سے بڑا ہو رہا ہے، اور اس کے ارد گرد بننے والا شگاف بھی بڑے سے بڑا ہو رہا ہے اور بالآخر وہ ٣٦٠ درجے کے علاقے کو صاف کر دیتا ہے۔ ایک مرتبہ جب وہ ایسا کر لیتا ہے، تو اس کے بعد بھی وہ اپنے آپ میں مادّے کو جمع کرنے میں لگا رہتا ہے اور وہ مادّہ جمع کرتا رہے گا بشرطیکہ اس کے گرد حلقوں کا نظام چپٹا ہو چکا ہو۔ یہ بنیادی احتیاج ہے کہ جس حلقے کے نظام سے وہ مادّہ کو کھینچ رہا ہے لازمی طور پر جمع کرنے والے حلقے کے مقابلے میں چپٹا ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ کے پاس چاند پر مادّہ بچنا چاہئے، میرے خیال میں ایسا اس وقت ہوتا ہے جب شگاف بنتے ہیں۔ خالص نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قوّت ثقل مادّے کو خط استواء کے آس پاس جمع کر دیتی ہے اور اس کے کچھ عرصے کے بعد جب چاند شگاف کو کھول دیتا ہے تو جمع شدہ مادّہ چھٹ جاتا ہے۔
خاکہ 4.8 حلقوں کے سائے سیارے کے تمام نصف کرہ کو ٹھنڈا کر دیتے ہیں، اس وجہ سے بادل نیچے ڈوب جاتے ہیں اور قطبی علاقے میں نیلے نظر آتے ہیں۔ کیسینی کی اس تصویر میں اس نے جنوبی قطب کی اس وقت منظر کشی کی ہے جب سردی بڑھ رہی تھی۔
خاکہ 4.9 چھوٹے مہتابوں اٹلس (دائیں) اور پین کے حیرت انگیز ابھار ان کے خط استواء پر موجود ہیں ۔
یہ عمل شاید کافی عرصے پہلے رک گیا تھا کیونکہ دور حاضر میں مہتابوں کے مدار مادّے کو اس کے ارد گرد جمع ہو کر اپنی سطح پر آنے سے روک دیتے ہیں۔ اس دور کو نظام شمسی میں موجود ایک اور مثال سے تقویت ملتی ہے، پورکو کہتی ہیں۔ "آیا پیٹس کے ابھار دیکھیں: یہ پرانے لگتے ہیں، لہٰذا یہ ابھار کچھ وقت تک باقی رہ سکتے ہیں۔ اگر نیپچون کے کمان نما حلقے ماضی کے وسیع حلقوں کے نظام کی باقیات ہیں، تو ہمیں اسی قسم کے ابھار خط استواء پر وہاں پر کچھ دوسرے مہتابوں میں بھی نظر آنے چاہئیں۔"
ٹلمان ڈینک ، جو کیسینی امیجنگ ٹیم کے ایک رکن اور فری یونیورسٹی آف برلن میں کام کرتے ہیں، وہ زحل کے حلقوں کو ایک دوسری نظر سے دیکھتے ہیں: "میں اکثر سوچتا ہوں، اگر بنی نوع انسان زحل کی طرف رخت سفر باندھے گی، تو وہ وہاں کیا کرے گی؟ عوام الناس سے بات کرتے ہوئے، میں اکثر اس بات کا ذکر کرتا ہوں کہ زحل کے نظام میں حلقوں والے مہتابوں پین اور اٹلس کے شمالی اور جنوبی قطب پر بنے ہوٹلوں میں چھٹیاں گزار نا سب سے مزیدار بات ہوگی۔ آپ حلقے کی سطح سے صرف دس سے بیس کلو میٹر اپر ہوں گے، اور یہ انتہائی بڑی قرص گھنٹوں میں (تبدیلی دن کی وجہ سے ) بدلتی رہے گی ایک اور ہوٹل سے دوسرے ہوٹل کی طرف جاتے ہوئے آپ روشن حصّے کو بھی دیکھ سکتے ہیں یا حلقے کے دوسری طرف بھی دیکھ سکتے ہیں۔"
ڈینک اس جانب بھی توجہ دلاتے ہیں کہ بیرونی بے قاعدہ مہتاب عارضی رکنے کی جگہ فراہم کرتے ہیں۔ ان پر آسانی کے ساتھ پہنچا جا سکتا ہے، وہاں سے زحل کے نظام کا اچھا نظارہ کیا جا سکتا ہے، اور ان کے مستقل برتاؤ کو قابو کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ وہاں سے یومیہ کھوجوں کی ابتداء کرکے انہیں مربوط بھی کیا جا سکتا ہے۔"
بہرحال حلقے میں کچھ جگہیں اب بھی نئے مہتابوں کو بنا رہی ہیں۔ ایک ایسا ہی علاقہ ، سیاروی سائنس دان کارل مررے
[1] نے اپریل ٢٠١٣ میں دیکھا، ١٢٠٠ کلومیٹر سے زیادہ لمبا حصّہ الگ اور روشن نظر آ رہا تھا۔ مررے اور دوسرے محققین نے اندازہ لگایا کہ یہ چاند ایک کلومیٹر سے کم پھیلا ہوا ہے، اور یہ کیسینی کی آنکھوں سے اس وقت تک چھپا رہا جب تک کوئی چیز اس سے ٹکرائی نہیں، اس ٹکر کے نتیجے میں اس کے گرد حلقے میں موجود مادّہ میں کافی بے کلی پھیلی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ چاند حال ہی میں بنا ہو ، دسیوں برس سے لے کر کچھ لاکھوں برس کے اندر لیکن اس کا مقدر معلوم نہیں ہے۔ مادّہ کے ڈھیر کو بطور سیارچہ زندہ رہنے کے لئے اتنے عرصے لے لئے مستحکم رہنا ہوگا کہ وہ حلقے سے نکل کر اپنے واضح اور صاف مدار میں پہنچ جائے۔ سائنس دان دیکھ رہے ہیں اور مستقبل میں وہاں کیسینی کو مزید قریب بھیجنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ وہ ایک ایسا منظر دیکھیں گے جو نظام شمسی کی ٤ ارب برسوں پر محیط تاریخ میں بار بار دہرایا جا رہا ہوگا یعنی نئے چاند کی پیدائش۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔