گینی میڈ پر دن میں درجہ حرارت ہمارے زمینی تجربے کے مقابلے میں کافی شدید ہیں ۔ یہ اوسطاً منفی ١٤٠ ڈگری ہوتا ہے۔ لیکن قطبین پر چاند کا درجہ حرارت اور گر جاتا ہے۔ یہاں پر برف کی گرد گڑھوں اور وادیوں کو ڈھانپ کر ایک پتلے پردے سے ڈھانک دیتی ہے۔ محققین کو شبہ ہے کہ یہ برف پانی کی ہے لیکن اس میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی برف بھی ملی ہوئی ہے، یہ بات برفیلے سیارچوں کے ماہر جیف مور کہتے ہیں۔"گینی میڈ میں اس کے مقامی پہاڑیوں کے ساتھ باالخصوص پرانے گڑھوں سے پر تاریک علاقوں میں برف کے کچھ ذخائر موجود ہوں گے جو چند میٹر ہی گہرے ہوں گے۔ لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان پہاڑیوں پر برف باری ہوئی ہو۔ یہاں پر یعنی قطبی علاقوں پر ہم کافی مقدار میں برف کے ذخائر کو دیکھتے ہیں۔[گلیلیو خلائی جہاز کے ساتھ] ہم نے کم از کم ایک پٹی کو پکڑا جو بلند شمالی ارتفاع کے ساتھ چل رہی تھی اور ہم نے دیکھا کہ ٹھنڈی ڈھلانوں میں کافی مقدار میں برف کے ذخائر موجود ہیں۔ اسی وجہ سے گینی میڈ کی روشن قطبی ٹوپیاں ہیں۔"
درجہ حرارت کے علاوہ ایک اور اجنبی عامل بھی ہے جو ان قطبین پر عمل کار ہے۔ قطبی برف ان علاقوں میں بنتی ہے جو گینی میڈ کے مقناطیسی خطوط کے ساتھ خالی جگہوں پر موجود ہیں۔ ان قطبی علاقوں میں گینی میڈ کے مقناطیسی میدان اس کی سطح کی حفاظت مشتری سے آنے والی خطرناک تابکاری سے نہیں کرتے۔ اصل میں گینی میڈ کے مقناطیسی میدان اس کی سطح پر موجود ارضیات پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ یوروپا کی طرح گینی میڈ کے اندر بھی ایک سمندر گھات لگائے بیٹھا ہے۔ یوروپا میں سمندر چٹان کے فرش پر موجود ہے جہاں معدنیات اور شاید آتش فشاں حیات کی نمو کو شروع کرنے والے عناصر کو بنا رہے ہیں۔ لیکن گینی میڈ پر ایسا نہیں ہے۔ چاند کے تحریصی مقناطیسی میدان اس بات کا پتہ دے رہے ہیں کہ جمی ہوئی پرت کے نیچے ایک اندرونی سمندر موجود ہے جو شاید اپنے اوپر اور نیچے دو برف کی پرتوں کے درمیان سطح سے ١٧٠ کلومیٹر کے نیچے غرق ہے۔ اس کا رابطہ معدنیات سے بھرپور چٹانی قلب سے ٹوٹا ہوا ہے لہٰذا اس کی حیات کو سہارا دینے کی کیا امید ہو سکتی ہے؟ کچھ حالیہ تحقیق سے حاصل کردہ نتائج نے فلکیاتی حیاتیات دانوں کو خاموش کرا دیا ہے۔ نمونے بتا رہے ہیں کہ برف/ چٹان میں موجود نمکین پانی اوپر کی طرف ٹپک رہا ہے اور برف سے قید سمندر کی طرف ہجرت کر رہا ہے۔ راستے میں پانی تالابوں میں بھی جمع ہو رہا ہے۔ گینی میڈ میں پائے جانے والے درجہ حرارت اور دباؤ تجربہ گاہوں میں بنانا کافی مشکل ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ چٹان اور سمندر کے درمیان برف کی دیوار کچھ ایسی بھی رکاوٹ نہیں ہے۔ اگرچہ انھیں وہاں پر کوئی بازار تو نہیں ملے ہیں لیکن فلکی حیاتیات دانوں نے گینی میڈ پر بھی حیات کے ممکن ہونے کے امکان پر غور و فکر شروع کر دیا ہے۔ خاکہ5.21 چرمی کاغذ میمفس فکولا برف کا ایک روشن تالاب پھیلا رہا ہے جو ٣٥٠ کلومیٹر گینی میڈ کے قدیم سطح پر پھیلا ہوا ہے۔ غور سے دیکھیں کہ کھانچے دار سطح کناروں کے قریب ہے۔ وسطی بائیں جانب : گینی میڈ پر چھوٹے گڑھوں میں مرکزی چوٹی بھی ہوتی ہے جو اکثر اٹھے ہوئے ستون پر رکھی ہوئی ہوتی ہے۔ مرکزی دائیں طرف: بڑے گڑھوں میں بیچ میں تالاب اور گنبد سے بن جاتے ہیں۔ اسی طرح سے گڑھے کیلسٹو میں بھی بنتے ہیں۔ دائیں بعید : منور شگاف تازہ برف کو پرانے تاریک سطح کی طرف پھیلا دیتے ہیں۔
برفیلے چاندوں میں گینی میڈ میں ایک منفرد خاصیت بھی موجود ہے- ایک جبلی مقناطیسی میدان جو اس کے پگھلے ہوئے قلب نے پیدا کی ہے۔" یہ گینی میڈ سے متعلق سب سے دلچسپ بات ہے۔ اس کے اپنے مقناطیسی میدان ہیں ۔ اصل میں اس کو کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے مقناطیسی میدان کو خود سے پیدا کرے۔ نظام شمسی میں موجود صرف دو جگہیں ایسی ہیں ( دیو ہیکلوں کو چھوڑ کر) جن کے اپنے مقناطیسی میدان ہیں یعنی زمین اور عطارد۔ لہٰذا گینی میڈ چاند ہونے کے باوجود حیران کن طور پر اپنے اندرون میں اس قدر متحرک ہے کہ یہ برجیسی مقناطیسی میدان کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ یہ بات اس کو ایک بہت ہی غیر معمولی جسم بناتی ہے۔" لوئیس پراکٹر کہتی ہیں۔ انسانی تلاش کے لئے یہ بہت ہی اہم بات ہے۔ گینی میڈ کے مقناطیسی میدان کا بلبلہ کم از کم قریبی مشتری کے ہیبت ناک تابکاری سے تو بچائے گی، اس طرح سے بسائے جانی والی بستی کو حفاظتی ڈھال، تابکاری سے بچاؤ والے آلات اور بھاری لباسوں سے نجات مل جائے گی۔ جیوف کولنس تصوّر کرتے ہیں کہ مستقبل میں مسافر اس طرح یہاں آئیں گے جیسے کہ وہ گینی میڈ کی ڈھلوانوں پر چڑھ رہے ہوں۔ "تاریک علاقے چاند کے بلند علاقوں کے جیسے ہو سکتے ہیں، بس فرق اتنا ہے کہ ان حیران کن روشن برفیلی ڈھلانوں اور تاریک مٹی والا مادّہ شگافوں اور ریخوں کے نیچے موجود ہے۔ روشن سطح نئی ہونے کے باوجود بھی ارب ہا برس پرانی ہے لہٰذا اس کے کنارے ختم ہو گئے ہیں۔ میں اپالو کی ان تصاویر کے بارے میں سوچتا ہوں - وہ نرم نظر آنے والے پہاڑ اور گینی میڈ پر کچھ نظر آنے والی چیزیں شاید کچھ ایک دوسرے سے قریب ہیں۔ میری دیوار پر ہیڈلے ریل کی تصویر موجود ہے جب اپالو ١٥ وہاں پہنچا تھا۔ فاصلے سے ہیڈلے ریل کافی نوکیلی لگتی ہے؛ وہاں پر یہ اچھے چپٹے میدان موجود ہیں اور پھر یہ یکایک اس وادی میں غوطہ لگا دیتی ہے۔ لیکن جب خلا نورد اس سے قریب ہوئے تو وہاں پر شاید کناروں پر موجود چھوٹی سے چٹان نظر آ رہی تھی، لیکن اس کا زیادہ تر حصّہ روڑوں ، ملبے اور دھول سے ڈھکا ہوا تھا۔ میں بھی اسی طرح سے گینی میڈ کا تصوّر کرتا ہوں۔" جیوف کولنس ناسا کے کافی سارے منصوبوں میں شامل ہیں مثلاً مشتری کی جانب جانے والی گلیلیو مہم اور زحل کی طرف جانے والی کیسینی۔ دیکھیں کہ وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں کہ وہ بیرونی نظام شمسی میں قریب سے کیا دیکھنا چاہئیں گے:
میرا تعلق ارضیات سے ہے، ارضیات میری پہلی محبت ہے اور میری ہمیشہ سے شگافوں اور پہاڑی سلسلوں میں اور ان کے بننے کے عمل کو جاننے میں دلچسپی رہی ہے۔ ١٩٧٩ء میں جب وائیجر سے حاصل کردہ گینی میڈ کے روشن علاقوں کی تصاویر کو دیکھا تو مجھے سیاروی مسئلے میں ارضیاتی شگافوں کے علم کو اس برفیلے سطح پر منطبق کرکے دیکھنے میں کافی دلچسپی پیدا ہو گئی۔ یہ تب سے مجھے مسحور کئے ہوئے ہے اور میں ہمیشہ قریب سے یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہاں پر کیا چل رہا ہے۔
میں گینی میڈ کے مشتری کے نظام میں کئی طرح سے ایک گولڈی لاکس زون دیکھتا ہوں۔ یہاں پر کافی دلچسپی کی چیزیں چل رہی ہیں مگر وہ ایسی نہیں ہیں کہ آپ کی جان لے لیں۔ نہ کافی عمر رسیدہ نہ ہی کافی نوجوان ، کچھ تابکاری یہاں موجود ہے لیکن اتنی بھی زیادہ نہیں ہے۔ یہ مشتری سے قریب ہے لیکن اتنا بھی قریب نہیں ہے۔ یہاں پر مدو جزر کا تھوڑا بہت عمل ہے لیکن بہت زیادہ مدو جزر کی لہریں بھی نہیں ہیں۔[ارضیاتی نقطہ نگاہ سے] آپ کے پاس یوروپا اور آئی او کافی دلچسپ ہیں جبکہ دوسری طرف کیلسٹو ہے جو اتنا زیادہ دلچسپ نہیں ہے، اس طرح سے گینی میڈ بہترین ہے۔ اس میں یوروپا اور کیلسٹو دونوں جیسی خصوصیات موجود ہیں۔ تو جب ہم گینی میڈ پر جا سکتے ہیں تو کیوں یوروپا یا کیلسٹو پر جائیں؟ یوروپا پر نچڑے ہوئے ایسی پٹیاں موجود ہیں جن کو دیکھ کر لگتا ہے کہ انہیں ایک دوسرے سے کھینچ کر الگ کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گینی میڈ پر بھی کچھ ایسی چیزیں موجود ہیں۔ گینی میڈ پر کچھ ایسی جگہیں بھی موجود ہیں جہاں پر ایسا لگتا ہے کہ یوروپا جیسی سرگرمی جاری ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شاید یہ کافی مدو جزر حرارت والی قسط سے گزر چکا ہے ، اچانک شروع ہونے والی سرگرمی لیکن اس کے بعد سے یہ کافی خاموش ہے۔ لہٰذا اس کو یوروپا کی پرانی شکل کی صورت میں دیکھتے ہیں ۔ مشتری آسمان میں کیلسٹو کے مقابلے میں کافی روشن اور کافی متاثر کن ہوگا۔ مقناطیسی میدان بھی آپ کی مدد کریں گے۔ گینی میڈ میں کافی حصّے ایسے ہیں جو کولوراڈو کے پہاڑوں سے ملتے ہیں ؛ آپ کو ایسا لگے کہ آپ کافی سارے پہاڑوں کے سلسلوں کے درمیان موجود ہیں۔ یہاں پر برف پر پھسلنے کا عمل کیلسٹو کی بہ نسبت کافی بہتر ہے۔ یوروپا کافی مسحور کر دینے والا ہے لیکن وہاں پر آپ کو جلد ہی کینسر جیسا موذی مرض لاحق ہو جائے گا۔ آئی او بھی شاندار ہے لیکن جلد ہی وہاں پر موت واقع ہو جائے گی۔
سیاحت کی منزل کے حوالے سے گینی میڈ کے مدار میں داخل ہونا بھی آسان ہے۔ مشتری کے نظام میں یہ سب سے زیادہ ضخیم ہے۔ آپ اس کو ایک اچھے قوّت ثقل کے کانٹے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ یہاں پر رہتے ہوئے مشتری کے نظام کی کھوج بھی ہو سکتی ہے بلکہ یہاں پر چیزوں کوسطح پر لانا اور واپس گینی میڈ کے مدار میں پہنچانا نسبتاً آسان ہے ۔ یوروپا کے مدار میں داخل ہونے سے زیادہ آسان ہے۔ کیلسٹو بھی ایسا ہی ہے؛ یہ تھوڑا چھوٹا ہے اور اس میں بھی کچھ ملتے جلتے فائدے ہیں ۔ لیکن یہ اور دور ہے۔ یہاں سے مشتری کا اچھا نظارہ نہیں ہوگا۔
ناسا نے مختلف خلائی جہازوں کو بنانے کے خیال کے درمیان مقابلہ رکھا تھا اور میں ایک ایسی ٹیم میں موجود تھا جو ایک ایسی مہم پر تحقیق کر رہی تھی جو ایک ساتھ ہی مشتری کے تمام نظام پر نظر رکھ سکے۔ جس حل پر ہم پہنچے وہ یہ تھا کہ مشتری کے نظام میں ہونے والی تمام چیزوں کے مشاہدہ کرنے کے لئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ ہبل خلائی دوربین جیسی کوئی چیز بنا کر گینی میڈ کے مدار میں رکھ دی جائے۔ لہٰذا اگر ہم مشتری کے نظام کو کھوجنا چاہتے ہیں تو گینی میڈ ایک شاندار جگہ ہو گی جہاں سے یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ آپ ایک مثالی تابکاری سے محفوظ ایک ایسی جگہ سے دیکھ سکتے ہیں جس کو مدار میں آسانی سے رکھا جا سکتا ہے۔ لہٰذا اگر آپ مشتری کا نظام کھوجنا چاہتے ہیں تو گینی میڈ یہ کام کرنے کے لئے ایک مثالی جگہ ہوگی۔ اس کے کئی فائدے ہیں۔ یوروپا اور آئی او دیکھنے کے لئے کافی اچھے ہیں۔ اگر آپ آئی او کے آتش فشانوں کو محفوظ جگہ سے دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ گینی میڈ جانا چاہیں گے۔
کیلسٹو
چاروں میں سب سے دور گلیلائی سیارچوں میں موجود کیلسٹو ہماری اس سیر کو مکمل کرتا ہے۔ کوئی بھی خلاء نورد جو اس ضد برجیسی جانب کھڑا ہو کر آسمان کی خالی خلاء کی جانب دیکھ رہا ہوگا اس کو یہ بات معلوم نہیں ہوگی کہ اس کے افق کے نیچے کسی جگہ پر نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ موجود ہے۔ ستاروں جیسے چاند کبھی کبھار کوکبی یک رنگی کو توڑ دیتے ہیں۔ لیکن برجیسی طرف کہانی مکمل طور پر الگ ہے۔ خط استواء کے قریب لیکن ضد برجیسی نصف کرۂ سے قریب جہانوں کے بادشاہ کاافق کے قریب شاندار نظارہ ہوگا۔ ایسے لگے گا کہ جیسے مشتری کو ایک جگہ لگا دیا ہے ، لگایا ہوا بلوریں سماوی جسم۔ ہمارے اپنے چاند کی طرح یہ بھی مختلف مرحلوں میں ہلال سے پورا ، کمان کی شکل سے مکمل ہوتا ہے اور پھر اس عمل کو الٹا دہراتا ہے۔ مشتری گنبد افلاک کے ایک ایسے حصّے پر پھیلا ہوا ہوگا جو ہمارے آسمان پر نو مکمل چاند کے برابر ہوگا۔ دوسرے گلیلائی چاند ایک خط کے ساتھ آگے پیچھے لڑک رہے ہوں گے جو دیوہیکل سیارے کے خط استواء کے ساتھ چل رہی ہو گی۔ گینی میڈ کا مدار بظاہر زمین کے پورے چاند کے ٦٥ فاصلوں جتنا لگتا ہے جبکہ یوروپا اور آئی او سیارے سے کافی قریب چمٹے ہوئے ہیں اور اس کو تیزی سے پار کرتے ہیں۔ گینی میڈ جو کیلسٹو سے قریب ہے اور چاروں سیارچوں میں سب سے بڑا ہے جب وہ کیلسٹو کے پاس سے گزرتا ہے تو میدانی علاقوں میں نظر آنے والے سوجے ہوئے چاند کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ یوروپا اور آئی او دونوں چاند کے پانچویں حصّے کے برابر نظر آتے ہیں۔
جب کیلسٹو پر صبح ہوتی ہے ، تو مشتری کا قرص مکمل غروب ہونے لگتا ہے۔ سورج افق پر ابھرنا شروع کرتا ہے تو خالص پانی کی برف کے کنگوروں کے لمبے سائے بناتا ہے۔ شاید طیفی صورت پوری سطح پر ان سائیوں میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور باریک ذرّات سے بنے ماہوگانی میدان پر قدیمی نرم گڑھوں کو روشن کرتی ہے۔ ابھرتا ہوا سورج ان میدانوں کی ڈھلانوں کو روشن کرتا ہے جہاں پر تودوں سے ٹوٹی ہوئی گرد مادّے کو چھوڑتی ہوئی ٹیلہ کو پھٹکتی ہے۔ یہ خوبصورت خنک جگہ ہے۔ کیلسٹو کا مسمار شدہ چہرہ گلیلائی چاندوں میں سب سے قدیم ہے جہاں پر ممکنہ طور پر قدیمی گڑھے شروع کی عظیم بمباری کے دور کے ہیں، اس دور کے جب شہابیوں اور سیارچوں کی بارش نظام شمسی کے بننے کے ابتدائی دور میں کچھ آج سے ٣ ارب ٨٠ کروڑ برس پہلے شروع ہوئی تھی۔ اس کی سطح پر ہر جگہ پھیلے ہوئے گڑھے اس کے اندرون کے غیر متحرک ہونے کی غمازی کر رہے ہیں۔ کیلسٹو پر آئی او جیسے کوئی آتش فشاں نہیں ہیں، نہ ہی یوروپا جیسے پہاڑی نظام یا شگافی سطح موجود ہے، اور نہ ہی پڑوسی چاند گینی میڈ کی طرح روشن خط ہیں۔ کیلسٹو اپنی دنیا آپ ہے۔ اس کی اندرونی غیر متحرک ساخت اس کو دوسرے گلیلائی چاندوں سے ممتاز کرتی ہے۔ اے پی ایل کی لوئیس پراکٹر تبصرہ کرتی ہیں، " گینی میڈ اپنی تاریخ میں کیلسٹو سے کہیں زیادہ سرگرم تھا ، کیلسٹو نے واقعی میں کچھ زیادہ نہیں کیا؛ یہاں تک کہ یہ تو ٹھیک طرح سے تفریق بھی پیدا نہیں کر سکا۔" تفریق بھاری مادّے کے ڈوبنے کا عمل ہے تاکہ ایک کثیف دھاتی / چٹانی قلب بن سکے یہ عمل دوسرے تمام گلیلائی چاندوں پر وقوع پذیر ہوا ہے۔ لیکن قوّت ثقل کے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ کیلسٹو برف اور چٹان کا آمیزہ ہے۔
کیلسٹو کا منفرد اندرون تینوں گلیلائی چاندوں سے کچھ صورت میں الگ ہے جس کی وجہ آئی او ، یوروپا اور گینی میڈ کے درمیان اس کا منفرد مداروی باہمی تعلق ہے۔ ہر مرتبہ جب گینی میڈ مشتری کے گرد چکر لگاتا ہے، یوروپا کے دو چکر مکمل ہو جاتے ہیں؛ آئی او ایک چوتھائی چکر اسی وقت میں پورا کرتا ہے ۔ اس عجیب باہمی تعلق کا مطلب ہے کہ یہ تینوں چاند ایک گمگ کی حالت میں ہیں؛ یہ ایک دوسرے سے ثقلی رقص میں جڑے ہوئے ہیں جو ان کے اندرون کو گرما دیتا ہے۔ اصل میں اس گمگ نے تینوں چاندوں کے قلب کو نوجوان رکھا ہوا ہے ، اس گمگ نے اندرون میں حرارت پہنچانا اور ان کی سطح پر ارضیاتی سرگرمیوں کو جاری رکھا ہوا ہے۔
بہرحال اگر ہر خاندان میں ایک ناکارہ فرد ہوتا ہے تو کیلسٹو اس گلیلائی خاندان میں یہ کردار باخوبی نبھا رہا ہے۔ سرگرم ارضیاتی شعبے میں کیلسٹو کی لیاقت کم ہے۔ اس کی سطح پر موجود گڑھے اس کی ارضیاتی خاموشی کا ثبوت ہیں جو لگ بھگ اپنے بننے کے وقت سے تبدیل ہی نہیں ہوئے ہیں۔ ان گڑھوں کو شہابیوں کی بارش، دم دار ستاروں اور سیارچوں نے اس وقت بنایا تھا جب اس کی سطح نئی نئی ٹھوس ہوئی تھی۔ وائیجر کے دور میں کیلسٹو کو گلیلائی چاندوں میں سب سے بیزار کن سمجھا جاتا تھا - نہ تو کوئی آتش فشاں تھے ، نہ ہی چشمے تھے ، نہ ہی منتقل ہوتی برف کی پرتیں تھیں اور نہیں ہی لپٹے ہوئے پہاڑ تھے۔ لیکن گلیلیو خلائی جہاز نے دیوہیکل چاند کے بارے میں ایک پیچیدہ تصویر کا رخ پیش کیا۔ کیلسٹو کا خم دار افق اس چیز سے چھلنی ہے جو اس کی سطح کا سب سے ممتاز پہلو ہے – پانی کی برف کے عظیم کنگورے اور گانٹھیں جو اس کے چاکلیٹی بھورے رنگ کے میدانوں کے پیچھے سے نکلی ہوئی ہیں۔ " سطح منتشر ہے، جیسا کہ کسی چیز نے گڑھوں کی کگروں کو چبایا ہوا ہے۔" ولیم مک کنن کہتے ہیں۔
ایمز ریسرچ سینٹر کے جیفری مور کیلسٹو کی حیران کن سطح کا مطالعہ کر رہے ہیں باالخصوص ان ڈرامائی منجمد ابھاروں کا اور اس عمل کا جس نے ان کو بنایا ہے۔ " وہ سب سے زیادہ نظر آنے والی گڑھوں کے ٹوٹی ہوئی کگروں کی حالت لگتے ہیں؛ یہ کیلسٹو پر پایا جانے والا سب سے اہم ارضیاتی عمل ہے۔ گڑھے خود سے چٹانوں سے بنے ہوئے ہیں لیکن ان میں کافی ساری کافور صفت یا طیران پذیر چیزیں ممکنہ طور پر خشک برف [منجمد کاربن ڈائی آکسائڈ] موجود ہیں۔ ایک مرتبہ آپ تحتی چٹان کو دیکھ لیں جو پانی کی برف ، خشک برف اورضدی باریک ذرّات مادّے پر مشتمل ہے [1] خشک برف گل جاتی ہے اور گڑھوں کو واپس ان کی پہلی حالت میں لے آتی ہے۔ پانی کی برف مقامی سرد گڑھوں، گڑھوں کی کگروں اور اسی طرح کی چیزوں میں بچی رہتی ہے" نتیجہ کے طور پر سینکڑوں میٹر اونچے برف کے کنگورے یا مینار بنتے ہیں۔ " ایک ایسی سطح بنتی ہے جو انتہائی انوکھی ہے اور یہ مونومنٹ وادی سے کچھ زیادہ الگ نہیں ہے جہاں پر مینار والے حصّہ روشن ، چمکتے ہوئی برف لگتے ہیں۔" مور کہتے ہیں۔
ایسی جگہوں پر مینار بنانے والا عمل اپنے پیچھے ضدی روئیں دار گرد چھوڑ دیتا ہے۔ پیچھے رہ جانے والا مادّہ سطح کو ڈھک لیتا ہے تقطیر کے عمل کو دبا دیتا ہے اور اس کے نیچے موجود برف کو بچاتا ہے۔ تحتی چٹان سے بچنے والا تاریک مادّے میں برقی سفوف کی حرارتی خصوصیت ہوتی ہے۔" آپ شاید روئیں دار، گرد آلود گہرے سرمئی رنگ کے مادّے کے وسیع میدان میں کھڑے ہوں اور وہاں سے ان تمام کھڑی پہاڑی اور میناروں کو دیکھ رہے ہوں جو کافی بڑے چمکتی ہوئی برف کے مینار ہیں۔ لہٰذا گلیلائی چاندوں میں دور سے سب سے بیزار کن نظر آنے والی جگہ آسانی کے ساتھ ایک شاندار جگہ اس وقت بن جاتی ہے جب آپ اس پر چلیں اور اس کا سفر بطور سیاح کریں۔"
جیفری مورناسا کے ایمز ریسرچ سینٹر ، ماؤنٹ ویو کیلی فورنیا میں ایک سیاروی سائنس دان ہیں ۔ ان کا کام سیاروی ارضیات کے گرد گھومتا ہے۔ ڈاکٹر مور نے برفیلے چاندوں کا خلاصہ یوں پیش کیا:
برفیلے سیارچے مجھے سحر انگیز کرتے ہیں کیونکہ وہ عجیب و غریب جگہیں ہیں، میں ایک ماہر ارضیات ہوں اور مجھے ایسی جگہیں اچھی لگتی ہیں جو دلچسپ اور عقل کو چکرا دینے والی ہوں۔ جب وائیجر اوّل اور دوم گلیلائی سیارچوں کے پاس سے ١٩٧٠ء کی دہائی میں گزرے تو میں نے آرمی چھوڑ دی۔ سب سے پہلے وہ ایک دوسرے سے اور کسی بھی ایسی جگہ سے بھی جو ہم اندرونی نظام شمسی میں دیکھتے ہیں بہت شاندار طور پر الگ ہیں ، لہٰذا وہ ایک نئی پرجوش عمدہ چیز تھی جب میں سند فضیلت حاصل کر رہا تھا۔ لہٰذا میرے سند فضیلت حاصل کرنے سے پہلے اور کرنے کے دوران وائیجر ہمیں ان برفیلے سیارچوں کے بارے میں اطلاعات فراہم کر رہا تھا۔ میں نے ان پر مریخ کے اس وقت کے کچھ زیادہ پرانے اعداد و شمار جو وائیکنگ سے حاصل ہوئے تھے ان کے ساتھ ساتھ ان پر بھی کام کرنا شروع کیا۔
یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ بیسویں صدی کے صاحب خلائی جہاز سوچ رہے تھے کہ وہ خلائی سیاحت سے پیسہ کما سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر خلائی سیاحت ممکنات میں سے لگتی ہے تو کیلسٹو وہ جگہ ہوگی جس کے بارے میں ہمیں زیادہ سوچنا نہیں پڑے گا۔ آپ کو کچھ سیاحتی جگہیں مونومنٹ وادی جیسی جگہوں کے پس منظر پر بنانی ہوں گی جہاں سے مشتری کا شاندار نظارہ کیا جا سکے ۔ یہ نظارہ ہی کافی ہوگا لیکن سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ یہاں سے مشتری کے ساتھ آپ کو دوسرے گلیلائی چاندوں کا بھی شاندار نظارہ ملے گا۔ کیلسٹو ایک شاندار جگہ ہے۔
کیلسٹو کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ صرف گلیلائی چاندوں میں سے یہ ہی ایک ایسا چاند ہے جہاں پر جانے سے آپ تابکاری سے بھنیں گے نہیں۔ یہ مشتری کی تابکاری پٹی سے باہر ہے۔ انسانوں کو یوروپا کے گندے ماحول میں بھیجنا کافی خطرناک ہے جو سائنسی طور پر سب سے زیادہ دلچسپ سیارچہ ہے اگر آپ نظام شمسی میں موجود حیات میں دلچسپی رکھتے ہیں ( جس میں زیادہ تر لوگ دلچسپی رکھتے ہیں)۔ گینی میڈ آئی او یا یوروپا کی طرح برا نہیں ہے؛ آپ اپنے پسندیدہ زیر جامہ سے بھی وہاں کام چلا سکتے ہیں۔ شاید انسانی پایہ تخت کیلسٹو میں یا اس کے ارد گرد بنایا جا سکتا ہے اور یہاں سے بیٹھ کر یوروپا یا آئی او پر کھوجی آلات سے تفتیش کی جا سکتی ہے۔ وقت میں فرق صرف چار اور آٹھ سیکنڈ کا ہے [ اس بات کا انحصار مدار میں آپ کی جگہ پر ہے]۔ زمین سے اس کا ٤٥ منٹ کا وقت میں فرق تکلیف دینے والا ہے۔ خاکہ5.23 کیلسٹو کی گہری بھوری سطح کے اوپر روشن برف کے مینار اور چھوٹے بلند قلعے ۔ سطح کا مادّہ، توافق کے ساتھ باریک سفوف کی شکل میں اس وقت باقی بچتا ہے جب چاند کی برفیلی سطح تصعید (کسی ٹھوس کی بخارات میں براہ راست تبدیلی اور پگھلے بغیر تکثیف) کے عمل سے گزرتی ہے۔ یہ تصویر وسیع ایسگارڈ تصادمی طاس کے مرکزی علاقے کی ہے۔
شاید عجیب و غریب گلیلائی چاند مستقبل کے صاحب خلائی جہازوں کی وہاں پر جانے کی ترغیب کو درست ثابت کر دیں۔ بلاشبہ کچھ سائنسی دنیا کے جانباز اراکین بر محل ان کی تفتیش کی ہمت کریں گے۔ وقت کے ساتھ عظیم چاند کی جاسوسی پہلے گلیلیو کرے گا اور شاید موریاس اگلا زبردست کائناتی کیریبین یا کناری جزیرہ بن کر نمودار ہوگا۔ ہرچند کہ وہاں پر کوئی پام کے درخت تو نہیں ہوں گے لیکن گلیلائی چاندوں پر زبردست سمندر اور متنوع فیہ قسم کے ارضی مناظر اپنی زیارت کرانے کو بیتاب ہیں۔ خاکہ5.24 کیلسٹو
[1]۔ وہ مادّہ جو تکثیف ہو کر پگھلنے کے قابل نہیں ہوتا جس طرح سے برف ہوتی ہے۔ اس کے بجائے یہ کہتا ہے کہ جب کاربن ڈائی آکسائڈ اور پانی کی برف بخارات بنتی ہے۔
خاکہ 6.1 آیاپیٹس کی استوائی پہاڑی پر ایک پہاڑی گزرگاہ - تعطیلات گزارنے کی ایک ایسی جگہجس میں ہر چیز کی سہولت شامل ہے۔ یہاں سے زحل اور اس کے حلقوں کا شاندار نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی جگہیں زمین پر کھڑی چٹانیں مثلاً یونانی گاؤں سنتورینی کے مشابہ ہیں ۔ زحل کے چاند مستقبل کے کھوجیوں کے لئے کئی تحقیقی منزلیں اپنے دامن میں سمیٹے بیٹھے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک پر اترنے اور سطح پر چلنے کے اپنے اپنے مسائل ہیں اور ان میں سے ہر ایک قریبی زحل کے بھورے مکھنی بادل، قطبی روشنیاں اور وسیع حلقے سب کے سب ایک منفرد نظارہ پیش کرتے ہیں۔
مشتری کے بعد، حلقوں کا سردار سورج کے گرد شاہانہ انداز سے ہر ٢٩ برس چھ ماہ میں اپنا ایک چکر مکمل کرتا ہے۔ ہمارے نظام شمسی میں کسی بھی سیارے کے مقابلے میں اس کے سنہری کرہ کے گرد سب سے جامع حلقوں اور سیارچوں کے نظام موجود ہیں۔ اس کے 62 تصدیق شدہ اہم مہتابوں میں سے ،[1] 13سیارچوں کا قطر 50 کلومیٹر سے زیادہ ہے (ملاحظہ کیجئے خاکہ 6.7) سیاروی حجم رکھنے والے ٹائٹن کے علاوہ، یہ چاند درمیانی حجم کے فلکی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بارے میں گلیلائی چاندوں کے مقابلے میں انتہائی کم معلومات میسر ہیں۔ اس قسم کے حجم کے چاندوں نے محققین کو دق کرکے رکھا ہوا ہے، اے پی ایل کی ایلزبتھ ٹرٹل کہتی ہیں۔ " بڑے چاند بالخصوص گلیلائی چاند کس طرح سے کام کرتے ہیں یہ بات ہم کافی اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ ان سیارچوں کی بنیاد پر ہماری تاریخ ہے، جو آخر کے اراکین کے درمیان ایک اچھا سلسلہ بناتی ہے۔ لیکن درمیانی حجم کے سیارچے بہت ہی اچھی طرح سے نہیں سمجھے گئے ہیں۔" ٹرٹل اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ زحل کا درمیانے درجہ کے سب سے بڑے چاند ریا کا حجم سب سے چھوٹے گلیلائی چاند یوروپا کے نصف قطر سے بھی کم ہے۔
برفیلا مسمار جہاں : ڈائی اونی
جین ڈومینک کیسینی نے زحل کے چار چاندوں کو سترویں صدی کے آخر میں دریافت کیا۔ وہ ان کو فرانسیسی بادشاہ لوئیس چہار دہم کے اعزاز میں "لوئیس کے ستاروں" سے موسوم کرنا چاہتا تھا۔ تاہم چاندوں کا نام کرونوس (یونانی زحل ثانی) کے بھائی بہنوں ٹائٹنس کے نام پر پڑا۔[2] ان کے نام ڈائی اونی ، ٹیتھس، آیاپیٹس اور ریا رکھے گئے۔[3] زحل کے چاند جوڑوں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ سیارے سے دور جائیں تو میماس اور انسیلیڈس دونوں 500 کلومیٹر قطر کے ہیں۔ ٹیتھس اور ڈائی اونی 1000 کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ہیں جبکہ ریا اور آیاپیٹس 1500 کلومیٹر پر محیط ہیں۔ جب وائیجر اوّل و دوم زحل کے نظام سے گزرے تو انسانیت نے پہلی مرتبہ برفیلے جہانوں کا واضح نظارہ کیا۔ ہر خلائی جہاز کا ایک الگ کام تھا ۔ وائیجر اوّل کا کام ٹائٹن، ڈائی اونی ، ریا اور میماس کا مفصل مطالعہ تھا۔ جبکہ وائیجر دوم کے ذمے ٹیتھس ، آیاپیٹس، ہائیپیریین اور انسیلیڈس کا قریبی سروے کرنا تھا۔ زحل کا کرہ فضائی اس کے برفیلے چاندوں کی سطح کا تعین کرتا ہے۔ اوسط درجہ حرارت کم ہو کر منفی 187 سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے اس انجمادی درجہ حرارت پر ان چھوٹے سیارچوں میں پانی کی برف سے بنی ہوئی پرت سنگلاخ پتھر کی طرح برتاؤ کرتی ہے۔ محققین کا اندازہ ہے کہ زحل کے یہ درمیانہ حجم کے برفیلے جہاں بہت ہی منفرد خدوخال اپنی اجزائے ترکیبی اور درجہ حرارت کی وجہ سے رکھتے ہوں گے۔ جب وائیجر وہاں پہنچا، تو محققین انتظار میں تھے کہ دیکھیں اس قسم کے درجہ حرارت سے کس قسم کا ارضی میدان بنتا ہے۔ وائیجر اوّل نے ڈائی اونی کو کافی قریب سے دیکھا اور کافی گڑھوں والے منقش میدانی شگاف بھی دیکھے۔ وائیجر دوم نے دوسرے علاقوں کی تصاویر اتاریں لیکن تھوڑے فاصلے سے جو اس کے جڑواں خلائی جہاز نے نہیں دیکھے تھے ۔ وائیجر دوم کے ذریعہ دور سے لی جانے والی تصاویر نے چاند کے دوسری طرف کے حصّے کو سنبھالا ہوا تھا جہاں پراسرار لچھے دار روشن خطوط تھے جیسے کہ کہر کو سطح پر پھیلا دیا گیا ہو۔ ڈائی اونی کے سامنے اور پیچھے کے نصف کرہ ایک دوسرے سے الگ تھے۔ پروں جیسے روشن نشان پیچھے کے تاریک نصف کرہ میں مروڑے ہوئے پھیلے تھے جبکہ سامنے والا نصف کرہ زیادہ روشن اور گڑھوں سے بھرپور تھا۔ ابتداء میں کچھ محققین کا اندازہ تھا کہ ڈائی اونی کی تاریخ کی شروعات میں اس کی سطح برفیلے آتش فشانی اخراج سے نکلی ہوئی تازہ برف سے شگافوں کے ساتھ روشن تھی۔ جب ارضیاتی حرکت ختم ہو گئی تو سامنے کے نصف کرہ کے چہرے پر ثبوت مٹتے چلے گئے اور صرف لچھے ہی نسبتاً محفوظ طرف باقی بچے۔
[1] ۔ اس کتاب کے لکھنے کے وقت تک، کیسینی مہم ان چاندوں جن میں سے اکثریت ننھے(500 میٹر سے بھی کم قطر والے ) مہتابوں کی ہے، کھوج میں مسلسل مصروف ہے۔ گنجان بی حلقے میں ہی صرف 150 سے زائد مہتابوں کو نشان زدہ کیا گیا ہے۔ یہ چاند اس قدر چھوٹے ہیں کہ یہ مسلسل خالی جگہوں مثلاً کیلر خلاء یا کیسینی ڈویژن کو بھی نہیں بھر سکتے۔ یہ صرف دھکیلو کی شکل کے علاقے کو اپنے آگے پیچھے سے صاف کرتے ہیں۔
[2]۔ برطانوی سائنس دان سر جان ہرشل نام رکھنے کے بارے میں خیال پیش کرتے ہیں۔ یہ ولیم ہرشل کے بیٹے ہیں جس نے یورینس کی دریافت کی تھی۔ انہوں نے زحل کے دو چاند میماس اور انسیلیڈس کو بھی دریافت کیا تھا۔ اپنی خاندانی کائناتی کھوج کو جاری رکھتے ہوئے ولیم کی بہن کیرولن نا صرف ان کی مدد گار کے طور پر کام کرتی تھیں بلکہ انہوں نے خود سے کافی سارے سیارچے اور سحابیے بھی دریافت کئے تھے۔
[3]۔ اس وقت تک ٹائٹن کو پہلے سے ہی کرسچین ہائی گنز نے ١٦٥٥ء میں دریافت کرلیا تھا۔
یہ علاقے اس وقت تک پراسرار بنے رہے جب تک کیسینی خلائی جہاز زحل کے مدار میں اپنی برسوں پر مشتمل تحقیق کرنے نہیں بیٹھ گیا۔ اس کے ڈائی اونی کے پاس بار بار نظارہ کرنے سے سفید لچھوں کی پہیلی حل ہوئی۔ یہ اصل میں برف کی عمودی ڈھلانیں تھیں جو گڑھوں والے میدان سے سینکڑوں میٹر اوپر بطور دیوار کے اٹھ رہی تھیں۔ عمودی چٹانیں شگافوں میں سے نکل رہی تھیں جو اس جانب اشارہ تھا کہ یہ چاند پر ابتدائی بھاری بمباری سے پہلے کی تھیں۔ "ڈائی اونی منفرد ہے "، جان اسپینسر کہتے ہیں جو ساؤتھ ویسٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ ، بولڈر، کولوراڈو میں نظام شمسی میں موجود چھوٹے برفیلے اجسام کے ماہر ہیں۔ "کافی ساری سطح ہموار ہے اور دوسرے چاندوں کی بہ نسبت نوجوان لگتی ہے ۔ گڑھوں کی الگ ساخت ہے جیسا کہ ان کو چپٹا کرنے کے لئے وہاں کافی حرارت موجود تھی۔ انسیلیڈس کے بعد یہ دوسرا متحرک چاند ہے، اگرچہ انسیلیڈس کے مقابلے میں اس میں سرگرمی بہت کم ہے لیکن ٹیتھس ، ریا اور آیاپیٹس کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔" ڈائی اونی کی کمیت میں برف کے ساتھ کافی مقدار میں چٹانی مادّہ بھی ہے، شاید یہ تابکاری سے حرارت پیدا کرنے کے لئے اس کی ابتداء میں کافی تھا۔ یہ حرارت ، دوسرے مہتابوں کی قوّت ثقل کے ساتھ مل کر ماضی میں شاید چشمے جیسی کسی سرگرمی کا باعث رہی ہے۔ آج ڈائی اونی زحل کے مدار میں 2 اور 1کی بہ نسبت انسیلیڈس کے ساتھ گمگ میں ہے اس طرح سے یہ انسیلیڈس کے اندرون کو کھینچ کر اس پر چشموں جیسی سرگرمی کا جاری رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ کسی دور میں ڈائی اونی شاید دوسرے مہتابوں کے ساتھ گمگ میں اس طرح الجھ جاتا تھا کہ اس کے اندرون میں کافی حرارت پیدا ہوتی ہے۔ لیکن ڈائی اونی آج بذات خود کافی پرسکون لگتا ہے۔ ظاہری بناوٹ شاید دھوکہ دے سکتی ہے، یہ بات ایک جریدے اکارس میں چھپنے والے حالیہ مضمون میں کہی گئی ہے۔[1] مشاہدوں نے بڑے پہاڑ جینیکولم ڈورسا کا مطالعہ کیا ہے جو ایک 800 کلومیٹر لمبی پہاڑی ہے اور کچھ جگہوں پر اس کی اونچائی آس پاس کے گڑھوں سے 2 کلومیٹر اوپر تک کی بلندی ہو جاتی ہے ۔ اس کے آس پاس جگہیں چاند کے اندرون کے بارے میں اشارہ دیتی ہیں۔ پہاڑ کے ارد گرد کی زمین اپنے وزن کی وجہ سے ڈوبی ہوئی لگتی ہے جو سطح کے نیچے کسی مائع پانی کے سمندر یا برف کے چورے کی جانب اشارہ ہے۔ دبی ہوئی سطح اس بات کا ثبوت ہے کہ کم از کم ماضی میں کسی وقت قشر گرم تھی اور وہ حرارت لازمی طور پر چاند کے اندرون سے ہی آئی ہوگی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ماضی میں کسی وقت یہ اندرون چشموں یا برفیلے آتش فشانوں کی صورت میں پھٹ پڑا ہو؟ جے پی ایل سیاروی سائنس دان بونی براٹی کہتے ہیں کہ "ڈائی اونی ہو سکتا ہے کہ زحل کے چشمے والے چاند انسیلیڈس کا ایک حیرت انگیز سرگرمی کا رکازی نشان ہو جو کیسینی نے دریافت کیا ہے۔" یہ بھی ممکن ہے کہ چاند اب بھی ارضیاتی طور پر متحرک ہو اور اس کے اندرون میں مائع سمندر موجود ہو۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کیسینی خلائی جہاز کے مقنائی میٹر نے چاند سے دور جاتے ہوئے کمزور ذرّات کے بہاؤ کا سراغ لگایا ہے۔ ڈائی اونی کا کرۂ فضائی انتہائی نادر ہے جس کو 'فضائے بالا" کہتے ہیں جو قریباً آکسیجن کے جوہروں سے بنا ہوا ہے۔ خاکہ 6.2 کیسینی مدار گرد سے لی گئی اس تصویر میں ڈائی اونی، ٹیتھس کے سامنے سے گزر رہا ہے ۔
اگر ڈائی اونی کے قشر کے نیچے مائع سمندر موجود ہے تو یہ چاند بھی یوروپا، گینی میڈ، کیلسٹو ، انسیلیڈس اور شاید ٹائٹن کی اس فہرست میں شامل ہو جائے گا جہاں پر ماورائے ارض سمندر موجود ہیں ، جس سے اس کی اہمیت ماہرین فلکی طبیعیات دان اور کھوجیوں کے درمیان بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
[FONT=Jameel Noori Nastaleeq, Nafis]زحل کے برفیلے چاند - ٹیتھس [/FONT] دوسرے دو چاند ٹیتھس اور اس سے کافی بڑا ریا ہیں جن کے خدوخال پر کافی گڑھوں کے نشان ثبت ہیں۔ لیکن دمکتا ہوا ٹیتھس اپنے متصل بھائی سے کافی کم ضخامت رکھتا ہے اور خالص پانی کی برف سے بنا ہے۔ یہ زحل کے مہتابوں میں انسیلیڈس کو چھوڑ کر سب سے زیادہ چمکدار ہے۔ اس کی سطح ڈائی اونی اور ریا کے مقابلے میں شہابی گڑھوں سے کم بھری ہوئی ہے جو اس جانب اشارہ کر رہی ہے کہ اندرونی حرارت نے اس کی سطح کو شروع کے گڑھے بننے کے بعد کے وقت تک متورق(لوچ دار) رکھا تھا ۔ یہ اندرونی حرارت شاید دوسرے مہتابوں کے درمیان ہونے والی گمگ کی وجہ سے پیدا ہوئی ہوگی بہرحال آج ٹیتھس اس طرح کے ثقلی تعلق سے تو آزاد ہے۔ خاکہ6.3 وائیجر دوم کا ڈائی اونی کا دور سے کئے جانے والے نظارے میں (اوپر دائیں جانب) لچھے دار سطح کا زبردست ،منظر دکھائی دے رہا ہے۔ دو عشروں کے بعد کیسینی مدار گرد نے منکشف کیا کہ یہ لچھے برف کی دیواریں ہیں جو شگافوں کو دھکا مار کر نکلی ہوئی ہیں (اوپری وسط میں اور دائیں جانب)۔ یہ ناہموار میدانی سطح کی تفصیل (نیچے کی طرف) بیچ میں ایک گڑھے کو دکھا رہی ہے جس کو ڈائی اونی کے ایک عظیم شگاف نے کاٹا ہوا ہے۔
ٹیتھس کی دو ڈرامائی ارضیاتی خصوصیات ہیں۔ ٤٤٥ کلومیٹر پر پھیلا ہوا بڑا شہابی گڑھا اوڈیسیس جو ٹیتھس کے قطر کے ٢ بٹا ٥ حصّے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کو بنانے والا تصادم ایسا متشدد رہا ہوگا کہ چاند کو تباہ کر دیتا ۔ ایک ایسا ہی قسم کا گڑھا جس کی نسبت اپنے مرکزی جسم سے اتنی ہی ہے وہ وائیجر کی میماس کی لی گئی تصویر میں بھی دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن میماس کے برعکس ٹیتھس اتنا بڑا ہے کہ اس کے عظیم الجثہ گڑھے کو تصادم کے بعد برف کی کیچڑ سے بھر جانا چاہئے تھا اور دوسرے مہتابوں کی طرح خمدار شکل اختیار کر لینی چاہئے تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس واقعے کے وقت ٹیتھس کا اندرون گرم تھا۔ اگر ٹیتھس ٹھوس برف کا ہوتا تو چاند شاید زحل کے نئے حلقوں کو بناتا ہوا ٹوٹ جاتا۔ ٹیتھس کی دوسری قابل ذکر خاصیت اس کی پیچیدہ گھاٹی ہے جس کا نام ایتیکا کھائی ہے۔ لگ بھگ یہ ایک قطب سے لے کر دوسرے قطب تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ کھائی او ڈیسیس شہابی گڑھے کے بالکل مخالف سمت موجود ہے۔ ایتیکا ہو سکتا ہے قشر میں اس وقت بنی ہوئی جب اوڈیسیس کے تصادم کے وقت بننے والی صدماتی موجیں چاند پر سفر کر رہی تھیں۔ یہ بھی ممکن تھا کہ گھاٹی مہتاب کے اس وقت پھیلنے سے وجود میں آئی جب اس کی پانی کی برف منجمد ہو کر پھیلی۔ ان درمیانے حجم کے سیارچوں میں تیسرا ریا ہے جو زحل کے منجمد مصاحبوں میں سب سے بڑا اور ٹائٹن کے بعد دوسرا بڑا چاند ہے۔ نظام شمسی کا سب سے زیادہ پھٹا ہوا چاند ریا ہے۔ اس کی سطح پر موجود گڑھے فی مربع میل زحل کے کسی بھی چاند سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس کے کئی علاقوں میں تو گڑھوں کی بھرمار ہے (اس قدر زیادہ گڑھے ہیں کہ جب نیا گڑھا بنتا تھا تو وہ پرانے گڑھے کو مٹا ڈالتا تھا)۔ ٢٠ کلومیٹر سے کم کے گڑھوں کی اکثریت دوسرے علاقوں تک میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ تصادموں کی دوسری نسل شاید زحل کے نظام کی ہی پیداوار ہے جو قریبی مہتابوں کے پھٹنے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ بیرونی مہتابوں کا ایک امید وار ہائیپیریین بھی ہے جیسا کہ ہم آگے دیکھیں گے۔ خاکہ 6.4 اوڈیسیس (بائیں جانب) اور ایتیکا کھائی کی گھاٹی ٹیتھس کی منفرد خاصیت ہیں۔
[FONT=Jameel Noori Nastaleeq, Nafis]زحل کے چاند - ریا اور ہائیپیریین
[/FONT] خاکہ 6.5 ریا کی کٹی ہوئی سطح سیارچوں، دم دار تاروں اور شہابیوں کی بارش کا ثبوت رکھتی ہے۔
ریا ، ٹیتھس سے زیادہ ضخیم ہے اور شاید یہ تین حصّے برف اور ایک حصّے چٹان سے مل کر بنا ہے۔ کیلسٹو کی طرح، ریا کے قلب اور غلاف میں شاید کوئی زیادہ فرق نہیں ہے اس کے اندرون میں چٹان اور برف کا ملغوبہ موجود ہے۔ اور ڈائی اونی کی طرح ریا کے عقبی کناروں میں کافی روشن کھڑی پہاڑیاں موجود ہیں۔ ریا میں یہ ٹیلے گھاٹی کی دیواریں بناتے ہیں۔ ریا کا حجم اور کمیت اصل میں اس کو کسی اہم قسم کی ارضیاتی سرگرمی سے دور رکھتی ہے۔ یہ چاند کسی دوسرے چاند سے گمگ کی حالت میں نہیں ہے لہٰذا سطح پر ہونے والی کسی بھی اندرونی قوّت سے ہونے والی تبدیلی کا انحصار تابکاری سے پیدا ہونے والی حرارت سے ہوگا۔ کیونکہ یہاں کوئی قلب ہی موجود نہیں ہے جو حرارت کو جمع کرکے محفوظ رکھے لہٰذا اس کو برابر تقسیم ہونا چاہئے۔ ریا لازمی طور پر بتدریج ٹھنڈا ہوا ہوگا۔ جب ایسا ہوا ہوگا تو اندرونی برف اور زیادہ کثیف ہو گئی ہوگی اور کرہ سکڑ گیا ہوگا یوں سطح دبی ہوگی اور ابتدائی برفیلے آتش فشاں بند ہو گئے ہوں گے۔ منقیٰ پر پڑی ہوئی جھریوں کی طرح ریا کی پہاڑیاں اور کھڑی چوٹیاں شاید اس عمل کا ہی نتیجہ ہیں۔
ریا میں آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائڈ کا مہین بالائی فضا بھی ہے۔ یہ کہاں سے آئی اس کا صحیح طرح سے معلوم نہیں ہے تاہم اندازہ ہے کہ گیس شاید یا تو اندرون سے فرار ہوئی ہے یا پھر سطح پر موجود برف سے اس کا اخراج اس وقت ہوا ہے جب اس پر تابکاری کی بارش ہوئی ہے۔ چوتھی چھوٹی مسمار دنیا ہائیپیریین ایک حیرت انگیز جہاں ہے۔ ہائیپیریین اتنا بڑا ہے کہ آسانی کے ساتھ کرہ کی شکل اختیار کر سکتا تھا لیکن یہ عجیب چھوٹا برف کا ٹکڑا بے قاعدہ شکل کا ہے۔ اپنی شکل و صورت کے علاوہ یہ چاند مدو جذر کی قوّت کے زیر اثر بندھا ہوا نہیں ہے ۔ کسی بھی بے قاعدہ چاند کو اپنا لمبا محور مرکزی سیارے کی طرف کرنا ہوتا ہے، لیکن ہائیپیریین زحل کے گرد چکر لگاتا ہوا تو قلابازیاں کھاتا ہے۔ اس کی لڑکھڑاتی حرکت لازمی طور پر کلی انتشار کی عکاس ہے ایک ایسی چیز جو اس قسم کے حجم کے دوسرے اجسام میں نہیں دیکھی گئی۔[1] معمول سے ہٹ کر اس قسم کی حرکت یہ ظاہر کرتی ہے کہ چاند شدید تصادم کے نتیجے میں ٹوٹ گیا ہوگا۔ اس کی شہابی گڑھوں سے بھری ہوئی سطح کسی اسفنج کی طرح دکھنے والی جنگ کا میدان ہے اور اس کی کم کمیت اس جانب اشارہ کر رہی ہے کہ یہ اسفنج کی طرح سطح اس کی کھال سے بھی زیادہ گہرائی تک جا رہی ہے؛ برفیلا چاند غیر معمولی طور پر مسام دار ہے۔ سیاروی ماہر ارضیات جیف مور کہتے ہیں، "ہائیپیریین کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ کسی نے اس کو بہت پیٹا ہے، ایک درمیانی حجم کا چاند کس طرح دکھائی دینا چاہئے اس کے لئے یہ بہترین نمونہ ہے۔"
ہائیپیریین جیسے شہابی گڑھے دوسرے چاندوں پر نہیں پائے جاتے۔ اس پر تصادم سے پڑنے والے نشان لگتا ہے کہ گھل کر گہرے جوہڑوں تک پھیل گئے ہیں۔ کھوکھلے دندانے دار کنارے یار غار بن کر ایک دوسرے میں ضم ہو رہے ہیں۔ محققین سمجھتے ہیں کہ ہائیپیریین کی کم کمیت - پانی کی آدھی کمیت کے برابر – اور کمزور قوّت ثقل شہابی گڑھوں کے ساتھ منفرد انداز میں باہمی تعامل کرتی ہے۔ گرتی ہوئی کائناتی گرد نے چھوٹے چاند کی سطح کو کھودنے کے بجائے اس کو دبا دیا۔ دوسرے گڑھے کے بننے کے بجائے تصادم سے مادّہ زور سے باہر کی جانب نکلا اور سطح پر کبھی واپس نہیں لوٹا ۔ اکثر جوہڑوں کے اندرونی حصّے کو نامعلوم مادّے نے بھر دیا ہے اور گڑھوں کی کچھ دیواروں پر تودوں سے گرنے والی گرد کے نشان ثبت ہیں۔ خاکہ 6.6 کیسینی خلائی جہاز کے لڑکھڑاتے چاند کی تین بہترین تصاویر ۔
[1]ہائیپیریین ، ٹائٹن کے ساتھ ٣ اور ٤ کی نسبت سے حالت گمگ میں ہے اور اس کے زحل کے گرد وحشیانہ رقص کی بھی یہی وجہ ہے۔
خاکہ 6.7 زحل کے برفیلے چاندوں کی فہرست جس دن سے جین ڈومینک کیسینی نے اس کو ١٦٧١ء میں دریافت کیا ہے، تب سے مشاہدین آیاپیٹس کے بارے میں جانتے ہیں کہ وہ کچھ الگ ہے۔ کیسینی نے پہلی مرتبہ چاند کو زحل کے مشرق میں دریافت کیا لیکن جب انہوں نے اس کا جنوبی حصّے کی جانب سراغ لگانے کی کوشش کی تو چاند غائب ہوتا دکھائی دیا۔ برسوں بعد مزید طاقتور دوربینوں کے ساتھ آراستہ ہو کر معنون مشاہدوں نے بالآخر اس کو اپنے مدار کے دوسری طرف پا ہی لیا لیکن یہ وہاں مشرقی جانب کے مقابلے میں کافی مدھم تھا۔ کیسینی نے دو نتیجوں کوفوری طور پر درست اخذ کرلیا۔ پہلا کہ آیاپیٹس ایک جانب کی بہ نسبت دوسری جانب سے کافی تاریک ہے اور دوسرا یہ زحل کے ساتھ مدوجزر کی قوّت سے جکڑا ہوا ہے اس وجہ سے اس کا ایک حصّہ ہمیشہ سے زحل کی طرف رہتا ہے۔ کون ہوگا جو زحل کی جانب سے اپنا چہرہ ہٹائے گا؟ آیاپیٹس سے زحل کا نظارہ بہت ہی شاندار ہوگا! آیاپیٹس کا مدار تمام باقاعدہ چاندوں کے مقابلے میں ایک طرف جھکا ہوا ہے؛ صرف بے قاعدہ چاند جیسا کہ فِیبی اور چھوٹے چاندوں کے مدار ہی کچھ جھکے ہوئے سے ہیں۔ آیاپیٹس سیارے کا تیسرا بڑا چاند ہے، آیاپیٹس زحل سے کسی بھی دوسرے اہم چاند جیسے ٹائٹن کے مقابلے میں کافی دور مدار میں چکر لگاتا ہے۔ آیاپیٹس کا عقبی نصف کرہ اتنا ہی روشن ہے جتنا کہ گندی برف، جبکہ اس کا سامنے کا حصّہ اتنا ہی تاریک ہے جتنا کہ اسفالٹ ۔ اس شاخیت نے ماہرین فلکیات کو خلائی دور تک حیرت میں ڈالے رکھا۔ کچھ نے کہا کہ اندرونی آتش فشاں کے سطح پر اوپر آ جانے سے قدرتی روشن چاند بنا ۔ کچھ کا کہنا تھا کہ گرتا ہوا مادّہ شاید تاریک سطح پر بکھر گیا ہو ، ممکنہ طور پر زحل کے بیرونی تاریک چاند سے نکلتے ہوئے مادّے نے ایسا کیا ہو۔ ان تمام تر باتوں کے باوجود زمین پر موجود سب سے بہترین دوربینیں بھی اس مسئلے کا حل حاصل نہیں کر سکیں۔ خاکہ 6.8 آیاپیٹس کا سامنے اور عقب کا نصف کرہ ڈرامائی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ١٩٨١ء میں وائیجر دوم اس عجیب و غریب چاند کے نزدیک ٧٢٠ ہزار کلو میٹر کے فاصلے سے گزرا اور کیسینی مدار گرد نے تو تب سے اس کے پاس اور قریب سے کئی چکر لگائے ہیں۔ خلائی جہاز کی تصاویر نے آیاپیٹس کے دونوں روشن اور تاریک نصف کرہ پر بھاری تعداد میں شہابی گڑھے دیکھے۔ پہلی نظر میں تو ایسا لگا جیسے کہ مادّہ شہابی گڑھوں کے کنویں سے اوپر آ رہا ہے ، لیکن مزید تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ چاند کے سامنے حصّے کی طرف مادّے کی بارش وہاں گر رہی تھی۔ اسراریت میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب تاریک علاقے فِیبی کے ذرّات کی بارش کے نتیجے میں دکھائی دینے کے بجائے سرخی مائل نظر آرہے تھے۔ دونوں نصف کروں کے درمیان موجود سرحد واضح طور پر بنی ہوئی تھی جو صرف اس تاریک "برف کی بارش" سے تو نہیں بن سکتی تھی۔ تاریک علاقے کی نوعیت کے بارے میں کچھ سراغ اس کی سرحد اور روشن برف سے ملی۔ اس علاقے کے بہترین ریزولوشن والی تصاویر میں بکھرے ہوئے تالاب اور تاریک مادّے کے پردوں نے وادیوں اور گڑھوں کو بھرا ہوا تھا۔ کیسینی کے ریڈار نے بتایا کہ یہ پرت بہت ہی پتلی ہے کئی جگہوں پر تو یہ کچھ میٹر/گز جتنی تھی۔ کچھ چھوٹے تصادم اس کو چھیدتے ہوئے نیچے روشن برف تک پہنچ گئے تھے۔ سائنس دان اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ ایک پیچیدہ عمل نے چاند کی اس چتکبری ہئیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں پر کام کرتا ہوا ایک عمل حرارتی علیحدگی کہلاتا ہے ۔ پانی کی برف روشن گرم حصّوں مثلاً سورج کی جانب والے گڑھوں کی دیواروں سے آتی ہوئی سائے والے علاقے کو روشن کرتی ہے۔ جرمن ایرو اسپیس سینٹر انسٹیٹیوٹ فار پلانیٹری ریسرچ کے ٹلمین ڈینک آیاپیٹس پر ہونے والی اس برف کی ہجرت کا مطالعہ کرتے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں تاریک مادّہ چاہئے وہ آیاپیٹس کی اپنی سطح سے آیا ہو یا بیرونی چاندوں سے وہ سفوف کی شکل میں ہے۔ "کیسینی کے سی آئی آر ایس آلات سے حاصل کردہ حرارتی اعداد و شمار ایک پھولی ہوئی روئیں دار سطح کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خلاء نورد اس چاند پر اترنے کے بعد اس میں ڈوب جائیں گے تاآنکہ کوئی پیوستہ یا دبانے والا عمل سطح کے نیچے سے نہ ہو ۔ لیکن خلا نورد مٹی میں غائب نہیں ہوں گے خیال ہے کہ شاید گھٹنے تک ڈوب جائیں گے۔" خاکہ 6.9 روشن اور تاریک علاقوں میں ہونے والی منتقلی یکلخت ہو جاتی ہے۔
گرتی ہوئی خاک تاریک علاقوں میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ فِیبی جو آیاپیٹس کے مدار کے باہر گردش کر رہا ہے وہاں سے آ رہی ہے۔ اصل میں کیسینی کی ٹیم کے اراکین نے ایک زحل کے گرد وسیع حلقے کو دریافت کیا جو فِیبی سے آ رہا تھا۔ یہ خاک زحل اور راستے میں آنے والے دوسرے چاندوں پر گرتی ہوئی لگ رہی تھی۔ خاک ان کی سطح پر پھیل رہی تھی باالخصوص قریبی آیاپیٹس کی سطح پر۔ وقت کے ساتھ تاریک خاک نے برف کی سطح کو گرم کر دیا جہاں پر استواء کے قریب اتنی حرارت جمع ہو گئی کہ اس کو تبخیر کر سکے۔ یہ برف روشن قطبین کے پاس اور عقبی نصف کرہ پر پھر سے تکثیف ہو جاتی ہے۔
آیاپیٹس کی کم قوّت ثقل - برف کے چاند میں کل ٢٠ فیصد چٹان ہے – برف کو چاند پر آزادی کے ساتھ حرکت کرنے کی اجازت دیتی ہے اور یوں نظام شمسی میں ایک نہایت ہی شاندار دیکھنے کی جگہ بن جاتی ہے۔ لیکن آیاپیٹس میں ایک اور حیرت کا جہاں موجود ہے – ایک عظیم پہاڑی جو استواء کے ساتھ اس طرح سے کھینچی ہوئی ہے جیسے کسی ربڑ کی گیند پر کی گئی سلائی۔ یہ پہاڑی کچھ ١٣ کلومیٹر اونچی اور ٢٠ کلومیٹر چوڑی ہے۔ پہاڑ کی چوٹیاں جو پہاڑی کا حصّہ ہیں وہ کسی بھی سیارے یا چاند پر موجود پائے جانے والے پہاڑوں سے اونچی ہیں۔ ایک کنارے پر عظیم پہاڑی تین متوازی چوٹیوں میں بٹ گئی ہے۔ ان میں سے کچھ حصّے ٢٠٠ کلومیٹر لمبے ہیں جبکہ دوسرے تقسیم زدہ حصّے مزید الگ ہو کر چوٹیوں میں بٹ گئے ہیں۔ شاندار فراز پر بھاری تعداد میں گڑھے موجود ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ آیاپیٹس کی بننے کے شروع کے دور کے ہی ہیں۔ یہ پہاڑی پورے نظام شمسی میں موجود پہاڑیوں میں سب سے چکرا دینے والی ہے۔ اس کے تین خصائص اس کو منفرد بناتے ہیں۔ یہ عین خط استواء پر موجود ہے، یہ صرف خط استوائی علاقوں کے علاوہ کہیں پر بھی نہیں ہے اور اس جیسی کوئی بھی چیز کسی دوسرے سیارے یا چاند پر نہیں موجود ہے۔ خاکہ 6.10 مختصر آیاپیٹس کا آسٹریلیا سے موازنہ کچھ کا ماننا ہے کہ پہاڑی آیاپیٹس کی محوری گردش کے آہستہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ لیکن صرف پہاڑی استوائی علاقے میں کیوں بنی ہے، پورے یوروپا اور گینی میڈ پر پائے جانے والے ٹیکٹونک خاصیت کی وجہ سے کیوں نہیں؟ جان اسپینسر اس مسئلے سے نمٹنے میں مصروف عمل ہیں۔ " ایک چیز جو آیاپیٹس کو نظام شمسی میں پائے جانے والے دوسرے چاندوں سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کی ساتھ ساتھ ہونے والی گردش ہے لیکن یہ اپنے مرکزی جسم سے کافی دور ہے یہ فاصلہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو ساتھ ساتھ گھومنے والے جسم کو درکار ہوتا ہے۔ اجسام مرکزی جسم کی مدو جذر کی وجہ سے ساتھ ساتھ گھومتے ہیں جیسا کہ ہمارا چاند ، لیکن یہ مدو جذر کی قوّت آیاپیٹس جیسے چاند پر نہایت ہی کمزور ہے۔ یہ مجھے کافی معقول بات لگتی ہے کہ اگر ساتھ ساتھ گھومنا ختم ہوتا ہے تو اس میں کافی وقت لگتا ہے شاید اس میں کروڑ ہا برس کا وقت لگتا ہوگا اور شاید آپ اب بھی اس ساتھ ساتھ گھومنے کے عمل کو ختم ہوتا ہوا دوسرے چاندوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ شاید اسی قوّت کی وجہ سے استواء پر زور لگا جس کی وجہ سے یہ پہاڑی بنی۔ لیکن ارضی طبیعیات دان کہتے ہیں کہ ،' نہیں ایسا نہیں ہے، آپ ابھی نظر آنے والے نمونے سے کہیں زیادہ پیچیدہ نمونہ دیکھتے اگر ایسا ہوتا۔' جب وہ شلجمی صورت سے کروی صورت میں ڈھلتا تو آپ کو کافی زیادہ بدشکل صورت نظر آتی لیکن یہ بہت مشکل ہے کہ آپ ان طریقوں پر نظریں جمائیں جس سے استواء پر ایسی پہاڑی بن جائے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ شاید ایسا نہیں ہوا ہوگا۔" ایک اسی طرح کا ملتا جلتا تصوّر کہتا ہے کہ جب یہ بنا ہوگا تو آیاپیٹس اس قدر تیزی سے گھوم رہا ہوگا کہ اس کی مرکز گریز قوّت نے اس کو استواء پر دھکیلا ہوگا۔ جب سیارہ یا چاند مادّے کے بادلوں سے تکثیف ہوتا ہوا بنتا ہے تو گھومتا ہے۔ قیاس ہے کہ آیاپیٹس جب اپنی حالیہ صورت میں ڈھل رہا ہوگا تو وہ بہت تیزی کے ساتھ گھوم رہا ہوگا۔ لیکن کوئی بھی جسم جو آیاپیٹس کے حجم کا ہو اسے اس طرح کی صورتحال میں لمبوتری شکل کا ہونا چاہئے اور جب وہ اپنے گھومنے کے ١٧ گھنٹے کے دورانیے کے ساتھ حالیہ صورت میں منجمد ہوا تھا تو اس کو اب بھی وقت بھی اسی شرح سے گھومنا چاہئے تھا۔ ایک منجمد آیاپیٹس کے اندرون میں اتنی رگڑ کی قوّت نہیں ہوگی کہ وہ اس کی گھومنے کی رفتار کو کم کرکے آج کی رفتار کی شرح پر لے آئے۔ خاکہ 6.11 آیاپیٹس کی پراسرار پہاڑیوں کی نظام شمسی میں کوئی معلوم نظیر نہیں ہے۔
دوسروں کے مطابق یہ پہاڑیاں نیچے سے دھکیل کر اوپر آئی ہیں لیکن اس کے لئے آیاپیٹس کی باہری سخت قشر کو کافی مہین ہونا ہوگا۔ اصل میں چاند کی قشر اس قدر موٹی ہے کہ وہ ان لمبے پہاڑوں کو ان کی شکل بگاڑے بغیر سنبھالے ہوئے ہے۔ مہین پرت کی صورت میں ان کی شکل بگڑ جاتی۔ بھاری ساخت کے ارد گرد ڈوبتی ہوئی قشر جھکی ہوئی بد ہئیت کہلاتی ہے۔ یہ مظہر ان تمام ارضی سیاروں اور کافی مہتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے جن کی قشر ٹھوس ہوتی ہے۔
چاہئے تبدیل ہوتے ہوئے درجہ حرارت ہوں، اتار چڑھاؤ والے ہوا کے دباؤ ہوں یا مائع کا بہاؤ پست ترین نقطے کی طرف ہو ، قدرتی طاقتیں مستقل حالت توازن میں آنے کے لئے ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتی ہیں۔ اس توازن یا میزان کو قشر ارض کا توازن کہتے ہیں۔ زمین پر قشر کی موٹائی (مثال کے طور پر پہاڑ) نیچے موجود سیال قشر کے اوپر بوجھ کے ساتھ وزن رکھے ہوئے ہیں۔ اپنے اوپر لگنے والے دباؤ کو قشر دور منتقل کر دیتا ہے، اس طرح سے بھاری اجسام ہم توازنیت میں آ جاتے ہیں۔ جسم کے ارد گرد موجود قشر اس کی اندرونی طرف مڑ جاتی ہے۔
ہمارے اپنے جہاں میں، یہ پہاڑ کے گرد موجود "خندق" یا دوسری ساخت تیزی سے تلچھٹ یا گاد سے بھر جاتی ہے لہٰذا اس کو دیکھنا مشکل ہوتا ہے ( ان دبی ہوئی چیزوں کو ثقلی نقشوں کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے)۔ لیکن چاند مثلاً آیاپیٹس پر اگر پہاڑ اندرونی سیال کے اوپر کھڑا ہو جائے تو اس کے ارد گرد میدان کو لازمی طور پر ڈوبا ہوا ہونا چاہئے۔ ایسی کوئی بھی خندق آیاپیٹس کی پہاڑی کے نیچے نہیں ہے۔ اس طرح سے تجزیہ نگار اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ پہاڑ اندرون سے نمودار نہیں ہوا ہے بلکہ کسی طرح سے ٹھوس موٹی قشر کے اوپر جمع ہو گیا ہے۔
ولیم مک کنن اور ایک سیاروی ماہرین ارضیات کی ٹیم [1] نے حالیہ ایک نظریہ پیش کیا جو اس پہاڑی کی تمام منفرد خصائص کو بیان کرتی ہیں۔ کمپیوٹر نمونے اور کیسینی سے حاصل کردہ مفصل ترین تصاویر کے تجزیے سے ٹیم نے ایک ایسا منظر نامہ پیش کیا ہے جس میں آیاپیٹس کے ارد گرد موجود کسی چھوٹے چاند کی باقیات کی گرد کے حلقے نے آہستہ آہستہ اس کے استوائی علاقے میں منہدم ہو کر یہ شکل اختیار کر لی۔ کوئی بھی چھوٹا چاند کسی بڑے جسم کی قید میں آکر ایک بیضوی مدار میں چکر لگانا شروع کر دیتا ہے، لیکن گزرتے وقت کے ساتھ مدو جزر کی قوّت اس کے مدار کو دائرہ نما کر دیتی ہے۔ اس بات کا انحصار کہ چاند مزید آیاپیٹس سے دور جائے گا یہ مرغولے کھاتا اس سے قریب ہو جائے گا اس کی سفری سمت پر ہوتا ہے۔
اسی وقت زحل کی قوّت ثقل نے آیاپیٹس کے تیز گماؤ کو بھی آہستہ کر دیا ہوگا جو اپنی پیدائش کے بعد بہت زیادہ تیزی سے گھوم رہا تھا۔ بالآخر آیاپیٹس مدو جزر کی قوّت کا قیدی بن گیا اور زحل کے اپنے ٧٩ دن کے مدار میں ایک مرتبہ گھومنا شروع کیا۔ جب آیاپیٹس آہستہ ہوا تو اس نے اپنے چھوٹے چاند کو بھی مدار میں آہستہ چکر لگانے پر مجبور کر دیا ہوگا اور اس وقت اس چھوٹے چاند نے اس کی جانب گرنا شروع کیا ہوگا۔ جلد ہی آیاپیٹس کی قوّت ثقل نے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے موٹے بٹوں ، کنکروں ، ریت اور گرد میں منتشر کر دیا۔ بالآخر حلقہ چپٹا ہو گیا اور اس طرح استواء کے ساتھ سیدھ میں آگیا جس طرح سے زحل اپنے حلقوں کے ساتھ سیدھ میں ہے۔ آیاپیٹس کی کمزور قوّت ثقل اور حلقوں کی حرکت سے اڑتے ہوئے کم رفتار سے نیچے آ گئے۔ پتھروں کی بارش نے بجائے سطح کو تباہ کرکے گڑھے بنانے کے گر کی پہاڑ بنا دیا۔
ہم نے ایسا دوسرے چاندوں پر ہوتا ہوا کیوں نہیں دیکھا ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر چاند دوسرے چاندوں کے قریب چکر لگاتے ہیں، لہٰذا قوّت ثقل ان کے ماحول پر اثر انداز ہوتی ہے، جان اسپینسر کہتے ہیں۔" زیادہ تر مہتابوں کے گرد موجود حلقے سیارے کی جانب سے لگنے والی مدو جزر کی قوّت کی وجہ سے پائیدار نہیں ہوں گے۔ لیکن آیاپیٹس زحل سے اس قدر دور ہے کہ یہاں پر آپ کے پاس لمبے عرصے تک رہنے والے حلقے بن سکتے ہیں جو اس کی مدو جزر کی قوّت سے جلد پاش پاش نہیں ہوں گے۔" اس کے زحل سے دور محل و وقوع کی وجہ سے اس کی قوّت ثقل کو خلاء میں زیادہ دور تک اپنا اثر دکھانے کا موقع ملتا ہے۔ اصل میں اس کی قوّت ثقل کی حکمرانی خلاء میں پڑوس کے ٹائٹن کے مقابلے میں دس گنا زیادہ دور تک اثر رکھتی ہے۔ اس وسیع اثرو رسوخ نے ہی شاید آیاپیٹس کو یہ قدرت دی کہ وہ قریب سے گزرتے ہوئے سیارچے کو اپنے قابو میں کر کے اس کو اپنا مصاحب بنا لے جس نے ایک دن اس کے استوائی علاقے میں عجیب و غریب قسم کے پہاڑ کو بنانا تھا۔
کچھ محققین اس حلقے والے منظر کے بارے میں متشکک ہیں۔ ان کے خیال میں یہ عظیم چوٹی نیچے سے لگنے والی قوّت سے بننے کا نشان ہے۔ اس ساخت کی بناوٹ میں یقینی طور پر ابہام ہے ، ٹلمین ڈینک کہتے ہیں۔
کچھ میرے بہت ہی تیز و طرار رفیق بھی اس جمع ہونے والے خیال کے حق میں ہیں، جبکہ کچھ دوسرے کہنہ مشق ساتھی اندرونی ارضیات کی بات کرتے ہیں۔ دونوں اطراف میں - اور یہ حقیقت میں دلچسپ ہے - کہ اچھے دلائل موجود ہیں [جو یہ بیان] کرتے ہیں کہ مخالف نظریہ درست کیوں نہیں ہو سکتا، نتیجتاً ایک ایسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے جس میں پہاڑی بن ہی نہیں سکتی۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ صرف پہاڑی کی موجودگی کو ہی بیان نہیں کرنا ہے بلکہ اس بات کو بھی واضح کرنا ہے کہ آیا کیوں یہ آدھے سے زیادہ آیاپیٹس پر پھیلی ہوئی ہے، اور آیا کیوں انفرادی پہاڑیوں کی شکل و صورت اتنی زیادہ الگ ہے ، خیمے جیسی شکل سے لے کر مربع کی صورت عمودی تراش نوکیلے کونے والی صورت اور انفرادی پہاڑیاں جن کے ہموار کونے ہیں اور مثلث عمودی تراش کے ساتھ ہیں۔ زیادہ واضح بات عظیم الجثہ ٹرجس طاس میں اس کا نہ ہونا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پہاڑی ٹرجس سے بھی عمر رسیدہ ہے یا با الفاظ دیگر بہت پرانی ہے۔
[1] ۔ دومبارڈ و دیگر، خلاصہP31D-01 ٢٠١٠ء میں فال ایم ٹی جی ، اے جی یو میں پیش کیا گیا۔
چھٹا باب - 8 پہاڑی کے تمام نظریات جان اسپینسر جیسے محقق کو عجیب لگتے ہیں۔
" سطح پر منہدم ہوئے حلقے کا خیال - جو کافی پاگل پنے کا خیال ہے – اس کا امکان کچھ زیادہ ہے۔ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ یہ عجیب ہے لیکن میرے پاس اس سے بہتر کوئی دوسرا خیال نہیں ہے۔" حال ہی میں مشاہدین نے سیارچے ١٠١٩٩ چاریکلو کے گرد دھول کا حلقہ دیکھا، یہ جسم زحل اور یورینس کے درمیان مدار میں چکر لگا رہا ہے۔ یہ قنطرُوس(دو غلا دیو مالائی بھاری بھرکم عفریت جس کا منہ انسان کا اور دھڑ درندے کا ہوتا ہے) کی جماعت کا سیارچہ ممکنہ طور پر کائپر کی پٹی میں ہی پیدا ہوا ہوگا۔ اندازہ ہے کہ اس کا پھیلاؤ لگ بھگ ٢٥٠ سے ٣٠٠ کلومیٹر کا ہوگا یعنی کہ آیاپیٹس کے حجم کا ایک تہائی۔ ولیم مک کنن کہتے ہیں، " میں سمجھتا ہے کہ اصل میں "کائپر پٹی کے جسم کے گرد موجود حلقے" میں جس چیز پر زور نہیں دیا گیا وہ یہ ہے کہ یہ ہمیں نظام شمسی میں موجود کسی بھی ٹھوس جسم کے گرد حلقے کا اولین ثبوت فراہم کر رہا ہے۔ ایک طرح سے یہ اس نظریہ کا ثبوت ہے کہ سیارچے کے اپنے مصاحب یا حلقے بھی کم از کم کچھ دیر کے لئے تو ہو سکتے ہیں ۔"[1] خاکہ 6.12 آیاپیٹس میں تودے سے گرنے والی مٹی ۔ واضح طور پر عظیم پہاڑی کے ماخذ کے بارے میں ابھی بھی اتفاق رائے قائم نہیں ہو سکی۔ لیکن اگر گرد کا نظریہ ٹھیک ہے تو ہم اسی طرح کی بناوٹ کو دوسرے چاند پر بھی دیکھ سکتے ہیں جس کی ثقلی قوّت کی ترتیب اپنے بہن بھائیوں میں ایسی ہو۔ وہ چاند یورینس کا اوبیرون ہے۔ تھوڑا ہی وقت گزرا ہے کہ ہمیں اس چاند سے متعلق اعلیٰ ریزولوشن کے اعداد و شمار ملے ہیں (ملاحظہ کیجئے تیسرا باب)۔ لہٰذا سیاروی محققین کو تھوڑا انتظار کرنا چاہئے یہ ایک ایسی بات ہے جس کے وہ ماہر ہیں۔ فری یونیورسٹی آف برلن کے ٹلمین ڈینک کیسینی امیجنگ ٹیم کے رکن ہیں۔ وہ زحل کے برفیلے چاندوں کی تصاویر اتارنے میں خلائی جہاز کی ہدف کو چن کر مدد کرتے ہیں۔ دیکھیں وہ آیاپیٹس کے بارے میں کیا کہتے ہیں:
آیاپیٹس کی سطحی قوّت ثقل زمین کی قوّت ثقل کے ٢ سے ٣ فیصد ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہاں کی صورتحال کچھ ایسی ہوگی جیسے بغیر بندھے ہوئے گلاسوں ، پلیٹوں یا لیپ ٹاپ کو ترتیب سے رکھا جائے، لیکن یہاں پر چل قدمی انتہائی احتیاط سے کرنی ہوگی۔ یقینی طور پر یہاں پر چلنا کیلسٹو سے مختلف ہوگا۔ جب زمین پر ایک عام سی چھلانگ ماری جاتی ہے (کھڑے ہو کر عمودی ، بھاگ کر چھلانگ لگانے کی بات نہیں کر رہے) تو آپ کی کمیت کا مرکز 0.2 میٹر کے قریب واپس نیچے آنے سے پہلے اوپر جاتا ہے اور یہ سب آدھے سیکنڈ میں ختم ہو جاتا ہے۔ کیلسٹو پر یہی چھلانگ آپ کو تین میٹر تک لے جاتی ہے (کافی مزیدار چھلانگ ہوگی) اور آپ تین سے چار سیکنڈ کے بعد واپس پلٹتے ہیں۔ آیاپیٹس میں یہ چھلانگ آپ کو لگ بھگ ٢٠ میٹر اوپر اچھال دے گی اور آپ کی واپسی آدھے منٹ بعد ہوگی ( یہاں پر چھلانگ لگانا کچھ زیادہ مزے کا کام نہیں ہوگا)۔ ایک غیر عمودی چھلانگ آپ کو ٤٠ میٹر آپ کی چھلانگ لگانے والی جگہ سے دور لے جائے گی۔ ایک عمودی چھلانگ اس وزن کے ساتھ جو عموماً خلاء نورد لگاتے ہیں اس کے ساتھ بھی آپ آسانی کے ساتھ 5 سے ١٠ میٹر تک کی اونچی یا ١٠ سے ١٥ میٹر تک چوڑی چھلانگ لگا سکتے ہیں۔ با الفاظ دیگر بغیر گاڑی کے کوئی بھی حرکت قیام گاہ کے باہر کسی محفوظ آلے یا جیٹ پیک کے بغیر نہیں کی جا سکتی۔
پہاڑی کی چوٹی پر فرق بہت بڑھ جاتا ہے۔ آیاپیٹس کے چپٹے میدان پر کھڑے ہو کر 1.5 کلومیٹر تک افقی نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ 15 کلومیٹر لمبی پہاڑی پر کھڑے ہو کر لگ بھگ 150 کلومیٹر دور تک یا 11 درجے طول بلد دیکھنے والی سمت میں نظارہ کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ کوئی رکاوٹ مثلاً دوسرا پہاڑ سامنے نہ ہو۔ زمین پر اس طرح کا نظارہ 1800 کلومیٹر کی بلندی پر کیا جاتا ہے۔
بہرحال آیاپیٹس کی سطح پر شاندار برف کے طوفان موجود ہیں۔ مثال کے طور پر شہابی گڑھے انجلئیر یا مالون (ملاحظہ کیجئے خاکہ 6.11 میں کافی اچھی مثالیں موجود ہیں۔ یہ سیاحت کے لحاظ سے کافی پرکشش ہو سکتی ہیں مثال کے طور پر شہابی گڑھے کے کنارے یا چڑھائی کرنے کے لئے۔ پہاڑ ی کا یا اس پر سے نظارہ بہت ہی شاندار ہوگا۔ میں ایک ایسی جگہ کا تصوّر کر سکتا ہوں جہاں پر زحل افق کے عین اوپر ہوگا(نصف النہار کے قریب سامنے یا عقبی نصف کرۂ کے درمیان میں چل رہا ہوگا)۔ اس نظارے میں سیارے کے ساتھ پہاڑ بھی نظر آئیں گے۔ بلاشبہ آپ کو اس جنبش سے احتیاط برتنی ہو گئی، اس سے آسمان میں زحل پر ہلکی سی حرکت ہوگی ، اگرچہ اس سے زحل افق سے نیچے تو نہیں ڈوبے گا۔ آخر میں ایک شاندار چھلانگ لگانا کیلسٹو جیسے بڑے چاند کے مقابلے میں کافی الگ ہوگا۔ کچھ سیاح اس کو پسند نہیں کریں گے جبکہ کچھ کے لئے یہ ہیجان انگیز بات ہوگی۔
[1]۔ بہترین خلاصے کے لئے دیکھئے " برفیلے حلقے ننھی خلائی چٹان کے گرد پائے گئے،" سائنس نیوز، ٣ مئی ، ٢٠١٤ء صفحہ ١٠۔
آیاپیٹس کے مدار کے باہر آخری چھوٹے حجم کا چاند فِیبی موجود ہے۔ زحل کے اہم چاندوں میں سب سے دور یہ واقعی ایک منفرد چاند ہے۔ فِیبی نے اپنے حجم کے مہتابوں کے تمام قوانین کو توڑ ڈالا ہے۔ یہ زحل کے گرد غلط طریقے سے چکر لگاتا ہے یعنی مدار میں الٹا چکر کاٹتا ہے۔ یہ اتنا چھوٹا ہے کہ لازمی طور پر یہ ٹھوس بے قاعدہ صورت کا ہوگا، لیکن یہ قریباً کروی شکل کا ہے۔ ہرچند کہ یہ زحل سے ایک کروڑ تیس لاکھ میل دوری پر مدار میں چکر کاٹ رہا ہے، اس کے باوجود فِیبی زحل کے گرد اپنے گرد کے حلقے پیدا کر رہا ہے۔ فِیبی کا مدار اس بات کی جانب اشارہ کر رہا ہے کہ اپنے دور کے راستے میں اس چاند کے پر سے نکل رہے ہیں۔ یہ چاند زحل کے گرد الٹا چکر کاٹ رہا ہے اس سمت کے برخلاف جس پر زحل کا نظام قدرتی طور پر چکر کاٹ رہا ہے۔ اس کا مدار بھی دائروی کے بجائے انوکھا ہے اور ایک شدید درجے پر جھکا ہوا ہے۔فِیبی اپنے مرکزی سیارے سے کافی دور چکر لگا رہا ہے ، یہ سیارے کے گرد ایک عظیم دو کروڑ ستر لاکھ کلومیٹر پر محیط حلقے میں چکر لگا رہا ہے اور یوں ایک چکر ١٨ مہینے کے پر تعیش وقفے میں پورا ہوتا ہے ۔ یہ تمام باتیں دلیل ہیں کہ نظام شمسی کے ارتقاء کے شروع میں زحل نے کسی چاند کو قید کر لیا ہوگا۔ فِیبی کہیں اور سے آیا ہوگا۔ فِیبی کی تاریخ کو جاننا کافی مشکل ہے اور کئی امکانات کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ اگر چاند باہری نظام سے آیا تو یہ پکڑے جانے سے پہلے کائپر پٹی سے سفر کرتا ہوا سورج کے قریب اس قدر آگیا ہوگا جتنا کہ مشتری ہے ۔ ایک مرتبہ یہ زحل کے علاقے میں داخل ہو گیا تو یہاں پر کافی آتش بازی ہوئی ہوگی – فِیبی کے ساتھ بھی کوئی ہوگا۔ ماہرین اس بارے میں متشکک ہیں کہ فِیبی کو ثقلی طور پر اس وقت پکڑ لیا گیا ہوگا جب وہ خود سے زحل کے نظام کی طرف آیا ہوگا ۔ فِیبی کو زحل کی قید میں آنے کے لئے کمپیوٹر نمونے بتا رہے ہیں کہ ایک تیسرا جسم بھی موجود ہونا چاہئے۔ اس مقابلے میں فِیبی کا ساتھی لازمی طور پر باہر نکال دیا گیا ہوگا اور زائل کی گئی توانائی نے فِیبی کو اس قدر آہستہ کر دیا ہوگا کہ وہ قید ہو سکے۔ ایک اور حیران کر دینے والا امکان یہ بھی ہے کہ فِیبی یورینس یا نیپچون کا چاند ہو سکتا ہے۔ سیاروی ہجرت کے خطرناک دنوں میں (ملاحظہ کیجئے دوسرا باب) ان میں سے کوئی ایک سیارہ زحل کے اس قدر نزدیک آگیا ہوگا کہ ان کے کچھ قدرتی سیارچوں کو چھین سکے، ممکن ہے کہ کچھ لو اور دو کی صورتحال میں اپنے بڑے چاند اس کو دے دیے ہوں۔ جب قدرتی سیارچے چلے گئے ہوں گے تو دور دراز کا چاند چھوٹے حجم کے مہتابوں مثلاً ریا یا میماس جن کا اوسطاً قطر ٢١٣ کلومیٹر ہے ان کے نیچے گر گیا ہوگا۔ دوسرے اسی قسم کے حجم کے چاند اتنے بڑے نہیں ہوں گے کہ ان کی کمزور قوّت ثقل ان کو کروی شکل دے دیتی۔ وہ ممکنہ طور پر پتھر و برف کے سرد پہاڑ ہوں گے۔ لیکن فِیبی اس قدر کروی ہے کہ اس کی اندرونی حرارت نے اس کی ابتدائی تاریخ میں اس کے اندرون کو نرم کر دیا ہوگا۔ اس کی کثافت زحل کے نوعی مہتابوں سے کافی بلند ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ ننھا سیارچہ کثیف چٹانی قلب کی وجہ سے الگ کیا جا سکتا ہے ، یوں یہ سیارے جیسے اجسام کی چھوٹی سے جماعت میں شامل ہو گیا ہے۔ جیسا کہ ہم نے گلیلیو خلائی جہاز سے یوروپا پر دیکھا تھا کہ سیاروں کے قلب کو خلائی جہاز کی نیچی پرواز سے نقشہ بند کیا جا سکتا ہے۔ جب خلائی جہاز کسی سیارے یا مہتاب کے قریب سے گزرتا ہے تو خلائی جہاز کے انجنیئر جہاز کے راستے کا ایک چارٹ اس وقت بناتے ہیں جب قوّت ثقل اس کو خم دیتی ہے۔ اگر اڑان کافی قریب ہے یا کافی مرتبہ گزر ہو چکا ہے تو سائنس دان قریب سے گزرنے والے جسم کی اندرونی ساخت کا تعین کر لیتے ہیں۔ بدقسمتی سے کیسینی اس طرح کے حساب کتاب کرنے کے لئے فِیبی کے قریب سے نہیں گزرا۔ لیکن فِیبی کی بناوٹ اس کے اندرون کی خاصیت کے بارے میں چغلی کھا رہی ہے۔ چاند کی بناوٹ کروی سے کافی نزدیک ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ماضی میں یہ کافی حد تک پگھلا ہوا رہا ہوگا۔ جب سیارہ کروی شکل میں بن جاتا ہے تو وہ ثقلی توازن میں پہنچ جاتا ہے؛ اس کی ساخت اپنی قوّت ثقل کے زیر اثر مستحکم ہو جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ فِیبی اس کروی نقطہ تک پہنچا تھا۔ خاکہ 6.13 کون کی صورت کے شہابی گڑھے اور کروی صورت نے زحل کے دور دراز کے چاند فِیبی کو منفرد بنا دیا۔
فِیبی کی پرسکون سطح نے اس کے شہابی گڑھوں کی صورت کو بھی متاثر کیا۔ شہابی گڑھوں کے کنارے کافی جگہوں پر خالص برف کے بنے ہوئے خاصے پرسکون لگتے ہیں۔ شہابی گڑھے خود عجیب سی صورت کے ہیں جیسا کہ اندرونی قوّتوں نے زور آزمائی کی ہو۔ ان میں سے کچھ ایسے لگتے ہیں جیسا کہ کچھ گیس یا تبخیر ہونے والی چیزوں کی تھیلی ہوں جنہوں نے گڑھوں کو اندر سے باہر کی جانب نکال دیا ہو۔ وسیع پیمانے پر تودوں کی ٹوٹ پھوٹ کو بھی اس کا ذمے دار ٹھہرایا جا سکتا ہے ؛ کئی شہابی گڑھوں کی دیواریں دھنس گئی ہیں۔ فِیبی کی کئی شہابی گڑھے مخروطی صورت کے ہیں، جو ابھی تک پائے جانے والے برفیلے سیارچوں میں ایک منفرد بات ہے۔ فِیبی کی نامیاتی سطح کی اجزائے ترتیبی اندرونی نظام شمسی میں پائی جانے والی کسی بھی دوسری سطح سے مختلف ہے۔ اس کی پیچیدہ ترتیب اس کو زحل کے نظام سے ممتاز کرتی ہے۔ کیسینی خلائی جہاز کے طیف پیما کی وجہ سے ، تفتیش کاروں نے منجمد کاربن ڈائی آکسائڈ ("خشک برف") کو اس کی سطح پر دیکھا ہے۔ فِیبی کے طیف میں بالائے بنفشی کی جانب افراتفری شاید لوہے کے ذرّات کے منتشر ہونے کی جانب اشارہ ہے۔ کچھ سائنس دان سمجھتے ہیں کہ سطح نامیاتی سالمات – کثیر خلوی معطر ہائیڈرو کاربن - سے ڈھکی ہوئی ہے۔ ان ہائیڈرو کاربن میں ہائیڈروجن، آکسیجن، نائٹروجن اور کاربن ، حیات کے بنیادی اجزاء شامل ہیں۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ تبخیری شاید فِیبی کے باہری علاقے مثلاً کائپر پٹی سے اندرون کی طرف ہجرت کرتے ہوئے آنے کے کچھ ثبوت دے سکتی ہے ۔زحل کے چاند متنوع فیہ اجسام رکھتے ہیں جو ممکنہ طور پر ایک ہی جگہ نہیں پیدا ہوئے۔ اندرونی سیارچے زحل کے حلقوں سے بنے۔ ہائیپیریین شاید کسی دوسرے اندرونی جسم کا حصّہ ہے یا کوئی مقید جسم ہے۔ آیاپیٹس نظام کا اصل حصّہ ہو سکتا ہے لیکن اس کی کمیت وہ نہیں ہے جو ہمارے نمونے بتا رہے ہیں۔ فِیبی اور دوسرے سیارچے ممکن ہے کہ مقید اجسام ہوں۔ خاکہ 6.14 ١١ جون ٢٠٠٤ء کو کیسینی نے فِیبی کے قریب پرواز بھری اور اس ننھے چاند کی سطح پر موجود پانی کی برف، آہنی لوہا، کاربن ڈائی آکسائڈ اور غیر شناختہ مادّے کی تقسیم کی نقشہ کشی کی۔ اس کے مخروطی شکل کے گڑھے، سیر حاصل معدنیات، کروی ساخت، زیادہ کثافت اور شاید بڑی عمر فِیبی کو چاند کے بجائے سیارہ بتا رہی ہے اور یوں یہ زحل کے مہتابوں کی تنوع اور اسرار میں اضافہ کر رہا ہے۔ لیکن ایک برفیلا چاند تمام متوسط حجم کے سیارچوں سے کہیں زیادہ ڈرامائی ہے جہاں اس کی سطح پر بلند و بالا چشمے اور تحت الثریٰ کھائیاں موجود ہیں۔
خاکہ6.15کیسینی خلائی جہاز کی تصاویر نے فِیبی کی ساخت کو حیرت انگیز طور اور اس سیارچے کے حجم کو کروی پایا۔
زحل سے قریب تمام درمیانی حجم کے سیاروں کے بعد انسیلیڈس زحل کے گرد ہر 32.9 گھنٹے میں ایک چکر پورا کرتا ہے۔ چھوٹی برف کی گیند میں ایک بڑی کہانی بیان کرنے کی موجود ہے۔ ١٩٦٠ء کی دہائی میں دریافت ہوئے زحل کے مدھم E حلقے زحل کے کافی چاندوں کو گھیرے میں لئے ہوئے ہیں، یہ زحل کے اہم حلقوں سے کافی دور ہیں جنہوں نے زحل کو شہرت بخشی ہوئی ہے۔ کچھ عرصے سے سائنس دان جانتے تھے کہ پراسرار منبع مستقل اس مہین حلقے کو بھرے جا رہے ہیں۔ مشاہدین نے یہ بھی دریافت کر لیا کہ حلقوں میں چھوٹے برفیلے ذرّات کا غلبہ ہے۔ یہ چھوٹے ذرّات صرف عشرے سے لے کر ایک صدی تک ہی قائم رہ سکتے تھے، لہٰذا کوئی ایسی چیز تھی جو اس مدھم حلقے کو بھر رہی تھی۔ ١٩٨٠ء میں E حلقے کی بہتر تصاویر میں معلوم ہوا کہ اس کی روشن جگہ انسیلیڈس کے مدار میں بے شکل حلقے کے مرکز کی ہے۔ کچھ سائنس دان سمجھتے ہیں کہ حلقے کے باریک ذرّات کسی طرح سے چاند سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ درست تھے لیکن کسی کو بھی امید نہیں تھی کہ کیا ڈرامائی رشتہ ہوگا۔ انسیلیڈس ایک غیر معمولی دنیا ہے۔ اس کی سفوف جیسی برفیلی سطح کچھ جگہوں پر ایسی ہے جیسے کہ مڑی ہوئی مخلوط تشدد زدہ پہاڑی اور چٹخے ہوئے میدان جو قریباً شہابی گڑھوں کے بغیر ہی ہیں۔ یہ میدان ایسا لگتا ہے کہ دوبارہ ابھرے ہیں جس میں کچھ جگہوں کی عمر تو صرف ٢٠ کروڑ برس سے بھی کم ہے۔[1] دوسرے سطح کے حصّے زبردست طور سے شہابی گڑھوں سے پر ہیں۔ انسیلیڈس کی تمام سطح – قدیمی شہابی گڑھوں والی ارض سے لے نئے پہاڑی علاقے تک – بہت زیادہ روشن ہیں جس سے لگتا ہے کہ تمام چاند پر تازہ مادّہ موجود ہے۔ ٥٠٤ کلومیٹر قلیل رقبے پر اس کا قطر بمشکل ملک فرانس جتنا ہے۔ اس کے اس قدر قلیل حجم کی وجہ سے انسیلیڈس کی نوجوان ارضیاتی سطح پراسرار ہے۔ بہرصورت دوسرے قریبی زحل کے چاند ٹھنڈے، مردہ چہرہ ہیں باوجود اس کے کہ ان میں سے کافی بڑے ہیں۔ انسیلیڈس کا مدار آئی او کے مقابلے میں دائروی نہیں ہے، لہٰذا محققین نے فرض کیا کہ مدوجزر کی قوّت اتنی زیادہ طاقتور ہوگی کہ وہاں پر کچھ اندرونی سرگرمی جاری ہوگی جو سطح کو متاثر کرے گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس کا اگلا پڑوسی چاند میماس کا بھی ایسا ہی بے قاعدہ مدار ہے لیکن وہ ارضیاتی طور پر پرسکون اور قدیمی چہرے والا ہے۔ کچھ سیاروی ماہرین ارضیات کہتے ہیں کہ انسیلیڈس کا اندرون شاید سیارچے کی ڈگمگاتی حرکت کی وجہ سے گرم ہو گیا ہے جس کا سبب قریبی چاندوں کی کھینچا تانی ہے، لیکن بہت سے لوگ اس وضاحت سے مطمئن نہیں ہیں۔ خاکہ 6.16 فِیبی کے کھوجیوں کو اس کے ڈھلوان، مخروطی صورت کے شہابی گڑھوں کے متعلق فیصلہ کرنا ہے۔ یہ ١٣ کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ ٢٠٠٤ء میں کیسینی خلائی جہاز حلقے والے دیوہیکل سیارے کے مدار میں اتر گیا تھا۔ فوری طور پر روبوٹ نے E حلقوں پر پڑنے والے اثر کو درج کیا۔ زحل کا ماحول جوہری آکسیجن میں غرق ہوا تھا۔ جب کیسینی نے زحل کے مقناطیسی کرۂ کا چکر لگایا، تو اس نے مقناطیسی میدان کے خطوط میں تبدیلی کو درج کیا۔ ان تبدیلیوں نے واضح کیا کہ انسیلیڈس سے آنے والے برق پارے زحل کے مقناطیسی میدان کی ساخت اور بناوٹ کو تبدیل کر رہے تھے اور یہ بات آئی او کی مشتری کے ساتھ ہونے والے باہمی عمل کی یاد دلا رہی تھی۔ لیکن خلل کا ماخذ پریشان کن تھا۔ انسیلیڈس پر ہونے والی برفیلی آتش فشانی سرگرمی کی تصدیق ان تین اڑانوں کے دوران ہوئی جو ٢٠٠٥ء میں فروری سے لے کر جولائی تک بھری گئیں۔ تصویری سائنس دانوں کی ٹیم نے پہلے باریک کہر کے فواروں کو تاریک آسمان میں روشنی کے پردوں سے آراستہ کرتے ہوئے دیکھا۔ طیف پیما سے حاصل کردہ اعداد و شمار نے دریافت کی تصدیق چاند کی مہین کرۂ فضائی سے برق پاروں کے بہاؤ کو دیکھتے ہوئے کی ۔ انسیلیڈس کے برق پاروں کا بہاؤ جنوبی کرۂ فضائی میں کہیں دور سے اس جگہ سے آ رہا تھا جہاں پر چشمے تھے۔ مفصل تصاویر سے معلوم ہوا کہ یہ سطحی بہاؤ تھا۔ کچھ جگہوں پر چھوٹی پہاڑیوں نے بہاؤ کا رخ تبدیل کر دیا تھا۔ برف کی سرگرمی برفیلے تودوں جیسی ہی تھی۔ ہرچند کہ کچھ محققین نے خیال پیش کیا کہ منجمد راستے شاید موٹی برفیلی لاوے کے بنے ہیں۔
[1] ۔ یعنی کہ تمام شہابی گڑھے ٢٠ کروڑ برس پہلے تک کے ارضیاتی قوّتوں کی وجہ سے مٹ گئے ہیں۔
خاکہ 6.17 انسیلیڈس پر برف کا بہاؤ ۔ بائیں جانب کی تصویر میں ایک مخروطی ساخت برفیلے آتش فشانی قوّت کی جانب اشارہ کر رہی ہے (تیر کے نشان والی) جس نے برفیلے تودے کی طرح اپنے ارد گرد برفیلے بہاؤ کو روکا ہوا ہے۔ پانی کا نقطہ پگھلاؤ - اور اس صورت میں انسیلیڈس کے برفیلے لاوا - کا امونیا کی وجہ سے کم ہوگا، جو ایک طرح سے ضد انجماد کی طرح کام کرتا ہے۔ دھاروں کا درجہ حرارت منفی ٥٧ سینٹی گریڈ (آس پاس کے ماحول سے ٩٣ درجے زیادہ ) ناپا گیا ہے۔ یہ انسیلیڈس پر موجود برفیلے آتش فشاں کے بارے میں نشانی تھی جس کی موجودگی کا کافی عرصے پہلے سے اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ کافی قریبی اڑانوں میں کیسینی کے برق پارے اور معتدل کمیت طیف پیماؤں نے دھاروں میں امونیا کا سراغ لگا لیا تھا۔ ہوائی انجینیروں نے کیسینی کے مدار کو تبدیل کیا۔ ایک نئے راستے پر جہاز کو سطح سے ١٦٨ کلومیٹر اوپر سے ١٤ جولائی ٢٠٠٥ء کو گزارا گیا۔ ٹیم کے اراکین چاہتے تھے کہ مقناطیسی میدان کے مفصل اعداد و شمار حاصل کریں اور ساتھ ساتھ چشموں کی بھی مفصل تصاویر حاصل ہوں لیکن ان کو امید سے زیادہ بڑھ کر تفصیلات ملیں ۔ کیسینی نے براہ راست ایک پھیلی ہوئی پھوار میں سے گزر کر اڑان بھری ۔ خلائی جہاز کو اس میں ٩٠ فیصد پانی کے بخارات ملے، جبکہ کچھ کاربن ڈائی آکسائڈ، میتھین ، ايسيٹيلِيَن ، پروپین اور شاید کاربن مونو آکسائڈ ، سالماتی نائٹروجن اور کاربنی پیچیدہ سالمات کے جھونکے بھی ملے۔ برف کے نیچے کچھ پیچیدہ کیمیائی عمل جاری تھی۔ کیسینی کے بار بار اڑان بھرنے سے ہمیں چاند کے اندرون میں اس طرح سے جھانکنے کا موقع ملا جو ہمیں دوسرے کسی برفیلے جہاں میں نہیں ملا تھا ۔ اس کیمیائی ہیجان انگیزی کے علاوہ ، برفیلے ذرّات کی پھواروں میں سوڈیم کلورائیڈ (عام نمک) اور دوسری نمکیات بھی ملے۔ نمکین برف کا بننا کافی مشکل ہوتا ہے تاوقتیکہ یہ نمکین پانی سے جمے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ پھواریں نمکین ذرّات کو اندرون سے لا رہی تھیں۔ منجمد پھواریں شاید لمبے عرصے پہلے مردہ ہوئے سمندر سے آ رہی تھیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ نمکین پانی اب انسیلیڈس کی سطح سے کچھ زیادہ نیچے نہیں ہے۔ اور وقتاً فوقتاً بے آب و ہوا کے دمکتے ہوئے چاند کے آسمانوں پر اچھل کر نکلتا ہے۔ یہ پھواریں آتش فشانی دھانوں اور پہاڑیوں کے سلسلے سے نکلتی ہیں جو جنوبی نصف کرۂ میں چپٹے علاقے کے ساتھ موجود ہیں۔ عجیب زمین لگ بھگ ٥٥ درجے جنوبی ارض بلد تک پھیلی ہوئی ہے ۔ یہ برفیلی چپٹی سطح پر مشتمل ہے جس پر متوازی شہتیر منقش ہوئے ہیں۔ دھنسا ہوا میدان ایک چوتھائی تاریک وادی میں گھرا ہوا ہے اس وادی کا نام "چیتے کی دھاریاں" ہیں جو ١٠٠ میٹر اونچی پہاڑی ہے جس کے دونوں اطراف میں موجود شہتیر کچھ ٥٠٠ میٹر کی گہرائی میں نیچے تک گئے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک ٢ کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور ١٣٠ کلومیٹر لمبا ہے۔ تاریک مادّہ دونوں اطراف میں کئی کلومیٹر دور تک پھیلا ہوا ہے اور بظاہر شہتیر سے خارج یا رستا ہوا لگ رہا ہے۔ چیتے کی دھاریاں لگ بھگ ٣٥ کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہیں۔
انسیلیڈس کی سطح کی بناوٹ اس کے آتش فشانوں کے بارے میں جانکاری فراہم کرتی ہے۔ محققین نے ایک اثر کو درج کیا ہے جو حرارتی جمود کہلاتا ہے، درجہ حرارت میں فرق کی وجہ سے ہونے والی سطحی مدافعت ۔ کیسینی نے بتایا کہ جنوبی نصف کرۂ کی سطح میں موجود حرارتی جمود پانی کی ٹھوس برف سے ١٠٠ گنا کم ہے، یہ اس بات کا عندیہ ہے کہ سطح پھولی ہوئی روئیں دار ہو سکتی ہے جو تازہ برف یا پالے سے ڈھکی ہوئی ہوگی۔ اس کم کمیت والے مادّے نے سطح زمین کو جنوبی وادی کے ساتھ ڈھانپا ہوا ہے۔ لیکن دن میں سطح کا درجہ حرارت بھاری شہابی گڑھوں والے علاقے شمالی نصف کرۂ سے ملتا جلتا ہی ہے جہاں پر سورج کی روشنی ٹھوس برف کی سطح پر پڑ کر منفی ٢٠١ ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ چیتے کی دھاریوں کی بناوٹ بہت زیادہ درجہ حرارت تک پہنچ جاتی ہے ، جو بڑھ کر پانی کے برف بننے تک کے درجہ حرارت تک ہو جاتا ہے۔ حرارت چیتے کی دھاریوں کے ساتھ خطی طور پر مرکوز رہتی ہے۔ درجہ حرارت اس حرارتی منبع جیسا ہوتاہے جو ٦٦٠ میٹر پر پھیلا ہوا ہو، یہ بات چیتے کی دھاریوں والے دھانوں کے حاصل کردہ اعلیٰ درجہ والی تصاویر سے بالکل میل کھاتی ہے۔
کھائیوں کی اندرونی کیمیا ماہرین ارضیات اور فلکی حیاتیات دانوں دونوں کو ایک ہی طرح سے متحیر کئے ہوئے ہے۔ انسیلیڈس کی سطح کی اکثریت لگ بھگ خالص پانی کی برف سے بنی ہوئی ہے۔ لیکن ان چیتے کی دھاریوں میں ، جیسا کہ دھاروں میں ، کیسینی کے آلات نے کاربن ڈائی آکسائڈ کا پتا لگایا تھا ۔ کیرولن پورکو کیسینی امیجنگ ٹیم کی رہنما ہیں کہتی ہیں کہ اسی وجہ سے نظام شمسی میں حیات سے پہلی کے ماحول کے لئے یا سرگرم زندگی سے پہلے کی جگہ کے لئے انسیلیڈس بہترین ہدف ہے۔ "انسیلیڈس کے ساتھ جو بھی اس کی سطح کے نیچے موجود سمندر میں ہے وہ ہمیں پکار رہا ہے۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ ٹھوس جمے ہوئے نمکین مائع پانی کے قطرے ہیں جن میں نامیاتی مادّے موجود ہیں اور کس کو معلوم ہے کہ اس میں جرثومے بھی موجود ہو سکتے ہوں؟ مرکبات جس میں سی ایچ کھینچے ہوئے عارضی بھی موجود ہیں ان کی بھی شناخت وی آئی ایم ایس طیف میں ہو گئی ہے۔ نامیاتی مادّے یقینی طور پر چیتے کی دھاریوں کے شگافوں کے ساتھ موجود ہیں۔" محققین کے خیال میں انسیلیڈس پر موجود چشمے ہر گزرتے سیکنڈ میں ١٥٠ کلو پانی خلاء میں پھینک رہے ہیں۔ ساڑھے چھ سال پر محیط ایک تحقیق نے ١٠١ سرگرم چشموں کا سراغ لگایا ہے۔ اگرچہ مادّہ ایک ہی شرح سے فرار نہیں ہو رہا ہے ، تاہم زحل کے ماحول میں موجود پانی حالیہ سرگرمی کی سطح کے بارے میں اشارہ دے رہا ہے کہ یہ کم از کم مزید ١٥ برس تک چلے گی۔ انسیلیڈس کی کہانی کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ ننھے چاند کی مدوجزر سے حاصل کردہ توانائی اس سے کہیں زیادہ کم ہے جو اس کی اس متحرک سرگرمی کو بیان کر سکے۔ خاکہ 6.18 انسیلیڈس پر چشموں کے منبع "چیتے کی دھاریوں" کے بتدریج قریب ہوتے نظارے۔ نیچے دائیں جانب سب سے قریبی نظارے میں گھر کے حجم جتنے اجسام نظر آرہے ہیں۔ مدوجزر کی حرارت کل توانائی کے کچھ حصّہ کو بناتی ہے لیکن کوئی اور بھی چیز اس کی توانائی میں اضافہ کر رہا ہے - ٹھوس حالت کی رگڑ ۔ جب انسیلیڈس زحل کے گرد محو سفر ہوتا ہے، اس کی قشر زحل اور قریبی مہتابوں کی ثقلی کھینچا تانی سے خم کھاتی ہے۔ برف میں شگاف کھلتے اور بند ہوتے ہیں اور یوں چشموں کی سرگرمی کو کھولتے اور بند کرتے ہیں۔ برف کی سطح پر ایک دوسرے کے خلاف رگڑ سے بھی حرارت پیدا ہوتی ہے اور اس طرح سے زیر سطح پانی کو اوپر آنے کے سفر میں آسانی ہو جاتی ہے ۔ ان تمام باتوں کے باوجود چاند کے ڈرامائی اخراج کے پیچھے اب بھی اہم قوّت وہی مدو جزر کی طاقت ہی ہے۔ حالیہ سب سے بہتر لگائے ہوئے اندازے کے مطابق اندرونی مدو جزر کی طاقت ١٦ گیگا واٹس ہے، جو ہوور ڈیم کی برقابی قوّت سے آٹھ گنا زیادہ ہے۔ یہ حقیقت محققین کو ایک اور پہیلی سے دوچار کرتی ہے، کہ چھوٹے سے چاند سے نکلنے والی توانائی بہت زیادہ ہے۔ کمپیوٹر پروگرام جن کو زحل کے سیارچوں کے مداروں کی طرز پر بنایا ہے وہ بتاتے ہیں کہ انسیلیڈس مشاہدہ کردہ قوّت کا اوسطاً صرف دس فیصد ہی پیدا کر سکتا ہے۔ انسیلیڈس شاید دوسرے مہتابوں کے ساتھ گمگ پیدا کرکے سفر کر سکتا ہے لہٰذا اس کی حالیہ توانائی کی پیداوار اوسط سے زیادہ ہے۔ شاید چاند نے کچھ عرصے سے حرارت کو جمع کیا ہوا تھا اور اب اپنے اس دیرپا سرگرم رجعی وقت کے دور میں ہے۔ ایک اور معمہ انسیلیڈس کا یہ ہے کہ آخر کیوں چشمے صرف جنوبی حصّے کی طرف مرتکز ہیں۔ اس بات کا ایک ممکنہ جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ حرارت دوسری جگہ شروع ہوتی ہے اور وہ مادّہ گرم جگہ سے دوسری جگہ یا تو برف کو پگھلا کر یا اخراج کے ذریعہ منتقل ہو جاتا ہے۔ جب گھومتا ہوا جسم ایک جگہ کمیت کو کھوتا ہے تو اس کا گھماؤ غیر مستحکم ہو جاتا ہے تاوقتیکہ اس کے محور اپنے آپ کو دوبارہ حالت توازن میں لے آئیں۔ انسیلیڈس پر سرگرم علاقہ شاید کہیں اور موجود ہے اور وہ اپنے آپ کو قطبین سے متوازن رکھنا چاہتا ہے تاکہ دوبارہ سے مستحکم حالت میں آ سکے۔ برف کی پرت جو مائع پانی کے سمندر میں تیر رہی ہو بہت زیادہ تیزی کے ساتھ حرکت کر سکتی ہے اور زیادہ رگڑ کی قوّت پیدا کر سکتی ہے بمقابل اس برف کے جو جم کر ٹھوس ہو گئی ہو اور اس کے نیچے قلب موجود ہو۔ انسیلیڈس کی زیر زمین سطح میں لگتا ہے کہ یا تو ابھی سمندر موجود ہے یا پھر ماضی میں کبھی ایسا رہا تھا۔ زیر زمین سمندر کے ساتھ پیچیدہ نامیاتی مادّے اور کم تابکاری بمقابل گلیلائی مہتابوں کے ، انسیلیڈس ماورائے ارض حیات کے لئے سب سے اہم ہدف ہوگا۔
چھٹا باب - 13 گلیلیو اور کیسینی جیسے جدید خلائی مہمات کے ساتھ سیاروی سائنس دانوں نے برفیلے سیارچوں کو مربوط اجسام کے باہمی خاندانی جماعت کا لازمی حصّہ مان کر سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ وائیجر سے حاصل ہونے والا انکشافات کا دریا چھا جانے والا تھا لیکن اس نے یہ سلسلہ شروع کیا ، جان اسپینسر کہتے ہیں۔ "یہ خیال کہ بیرونی سیاروں کے چاند حالیہ ارضیاتی دور میں سرگرم ہیں ایک کافی بڑا انکشاف تھا۔ کیسینی نے انسیلیڈس پر سرگرمی کو دریافت کیا کیا اس نے ہمارے اس جگہ کے بارے میں علم کو ہی بدل کر رکھ دیا، لیکن ہم پہلے ہی سے اس امکان کے بارے میں کھلے ہوئے تھے کیونکہ وائیجر نے جو چیز ہمیں دکھائی تھی اور آئی او پر جو ہم نے دیکھا تھا اس سے ہمیں اندازہ تو ہو گیا تھا کہ وائیجر سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار اور ہبل سے حاصل ہونے والا مواد اس بارے میں کچھ اشارہ کر رہا تھا۔ لہٰذا یہ کافی حیرت انگیز اور شاندار تھا اور ان تمام باتوں کے لئے بہت معقول لگ رہا تھا جنہوں نے ہمیں ایک نقطہ پر آ کر پریشان کیا ہوا تھا۔ لیکن آئی او پر پائے جانے والے آتش فشاں کی طرح یہ کوئی ایسی انوکھی بات نہیں تھی۔ ہم جانتے تھے کہ ایسی چیز ممکن ہے۔" وائیجر نے چھوٹی متنوع فی برفانی دنیاؤں کے نمونوں کو اجاگر کیا، لیکن ان نمونوں اور رجحانات میں پہیلیوں نے مشاہدوں کو للکارنا جاری رکھا۔" میں صرف اس وجہ سے حیران ہوں کہ انسیلیڈس کا کچھ حصّہ جو آپ وائیجر سے دیکھ سکتے ہیں کافی پرانا ہے۔ آئی او میں شہابی گڑھے نہیں ہیں۔ یوروپا میں بہت ہی کم ہیں۔ لیکن انسیلیڈس مختلف ہے۔ یہاں پر ایک ایسی دنیا ہے جس نے پرانے علاقوں کو جہاں پر ارب ہا برس سے کچھ نہیں ہوا ہے، ان نئے علاقوں سے ملا یا ہوا ہے جہاں چیزیں ہر ہفتے وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔" تحقیق کار جن میں ولیم مک کنن بھی شامل ہیں اسی طرح کی چیز کہیں اور بھی دیکھتے ہیں۔ "انسیلیڈس ماضی میں کچھ علاقوں میں کافی متحرک رہا ہے۔ اگر آپ اس کو واقعی دیکھنا چاہتے ہیں، تو ایسا لگتا ہے کہ ڈائی اونی بھی کافی متحرک رہا ہوگا۔ اگر ہم اس بات کو جان لیں کہ انسیلیڈس کس طرح کام کر تا ہے ، نالیوں کا جڑاؤ کس طرح کا ہے، نیچے کتنا زیادہ پانی موجود ہے، یہ سب مل کر کس طرح سے کام کرتا ہے ، تو ہم دوسرے سیارچوں کے بارے میں کافی گہری معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ انسیلیڈس کے چیتے کی دھاریوں ہی کو لیں اور بلند قوّت ثقل کے ماحول میں رکھیں تو شاید نتیجہ گینی میڈ کھانچے دار ارض کی صورت میں نکلے گا۔" سائنس دانوں نے پراسرار برفیلی جہانوں کی کھوج کو جاری رکھا ہے ، نظریات کو جمع کر رہے ہیں اور عجیب و غریب تاریخ میں رجحانات کی تلاش ، ماخذ اور ان ننھے چاندوں کے ارتقاء کی کھوج کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تلاش جاری رہے گی ، روبوٹوں کے ذریعہ اور ایک دن انسان بردار کھوجی مستقبل کے ماہرین ارضیات کے مقابل ہتھوڑے لے جائیں گے۔ ایک چیز نہیں بدلے گی جیسا کہ اسپینسر کا مشاہدہ ہے: " ہم متحیر ہوتے رہیں گے۔" خاکہ 6.19 انسیلیڈس کے برفیلے آتش فشانوں نے زحل کے بے ہئیت E حلقوں کو بنایا ہے۔ چیتے کی دھاریوں کا کیرولن پورکو کے ساتھ سفر کیسینی امیجنگ سائنس کی ٹیم کی رہنما کیرولن پورکو کے پاس سائنسی بنیادوں پر دیکھا جانے والا خواب ہے کہ ایک دن جب مسافر انسیلیڈس کی برف پر جانے کی مہم جوئی کریں گے۔ یہاں پر ان کے خیالات پیش کئے جا رہے ہیں: وائیجر کی امیجنگ ٹیم کا حصّہ بن کر اور شاندار نتائج کو دیکھ کر مجھے برفیلے چاندوں کے بارے میں دلچسپی پیدا ہو گئی، ان کو میں جہان ہی سمجھتی ہوں، لیکن مجھے ان میں سائنسی طور پر اس وقت اصل دلچسپی پیدا ہوئی جب میری ٹیم نے چشموں کو [انسیلیڈس پر] دریافت کیا۔ میں زحل کے حلقوں پر تیس برس سے کام کر رہی تھی اور پھر یورینس کے حلقوں پر کام کیا اور اس کے بعد نیپچون پر۔ کیسینی مہم سے پہلے مجھے یقین تھا کہ ہیجان انگیزی انسیلیڈس پر بھی جاری رہے گی۔ جب ہماری ٹیم تجویز دے رہی تھی تو میں نے کہا ، " انسیلیڈس زحل کے نظام کا یوروپا بنے گا۔" لیکن ہمیں یہ امید نہیں تھی کہ یہ اس قدر ڈرامائی ہوگا۔ میں نے بار بار کہا ہے کہ انسیلیڈس بستی بسانے کے لئے سب سے زیادہ قابل رسائی والی جگہ ہے۔ یہ مریخ اور یوروپا سے زیادہ بہتر ہے۔ یوروپا کو نہلا دینے والی تابکاری کی وجہ سے وہاں پر حیات کا تصوّر کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اگر نامیاتی مادّے سطح پر پائے جائیں گے تو آپ کو کیسے معلوم ہوگا کہ یہ وہ نامیاتی مادّے نہیں ہیں جو سطح پر برسے ہیں؟ لیکن انسیلیڈس کے ساتھ جو بھی اندرون میں ہے قابل رسائی ہے۔ آپ کو شروع سے ابتداء نہیں کرنی پڑے گی۔ آپ کو کھدائی نہیں کرنی ہوگی۔ آپ کو سونگھنا نہیں پڑے گا۔ آپ کو کوئی بھی پیچیدہ کام نہیں کرنے پڑیں گے۔ بس آپ کو اس کی سطح پر اترنا ہوگا، اور ادھر ادھر کھوج کرنی ہوگی۔ لگ بھگ ٩٠ فیصد ٹھوس اوپر جاتا ہے اور پھر واپس آ جاتا ہے۔ انسانوں کو انسیلیڈس پر بھیجنے کا صرف ایک یہی مسئلہ ہے، آپ اس کو آلودہ کرنا نہیں چاہیں گے۔ اس کے باوجود میں اس دن کو دیکھ رہی ہوں جب مستقبل میں ہماری نسلیں انسیلیڈس کے بین السیاروی چشموں کے پارک کا سفر کر رہی ہوں گی۔ ذرا تصوّر کریں کہ آپ ایسی دھاروں کے جنگل میں کھڑے ہیں جو آپ سے دو سو کلومیٹر اوپر تک جا رہا ہے۔ زحل اور اس کے حلقوں کے ساتھ؟ مجھے افسوس ہے کہ مشتری عظیم ہے، یہ رنگین ہے لیکن زحل اور اس کے حلقے؟[گلیلائی سیارچوں پر]، آپ کو سیسے کے چشمے پہننے ہوں گے۔ آپ کچھ زیادہ نہیں دیکھ سکیں گے! اس کے مدار میں دخل ہونے کے لئے کچھ خاص کرنا ہوگا کیونکہ انسیلیڈس کثیف نہیں بلکہ ہلکا ہے لیکن آپ ٹائٹن اور ریا کے پاس سے گزر کر کافی ساری توانائی ان سے حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک مرتبہ آپ وہاں پہنچ جائیں تو وہاں پر اترنا بہت ہی معمولی بات ہوگی۔ اس پر اترنا کسی سیارچے پر اترنے کے برابر ہے۔ اصل میں اگر آپ نے کوئی غلطی کی، آپ کے پاس وقت ہوگا کہ آپ اس کو درست کر لیں کیونکہ واقعات کافی سست رفتاری سے وقوع پذیر ہو رہے ہوں گے۔ آپ چیتے کی دھاریوں کے قریب ہونا چاہیں گے۔ آپ اس میں سے کسی ایک پر اترنا چاہیں گے۔ آپ کو اپنے خلائی جہاز میں نیل آرمسٹرانگ کو بنانا ہوگا لیکن یہ کام کیا جا سکتا ہے۔
سطح پر رہ کر احتیاط کے ساتھ اپنے آپ کو قابو کرنا ہوگا تاکہ آپ ماحول کو آلودہ نہ کر دیں۔ ایک مدار میں چکر لگاتے ہوئے مرکز پر رہنا زیادہ سمجھ میں آتا ہے۔ آپ کو قوّت ثقل سے نکلنے کے لئے ایندھن کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اس کو زمین کے مدار میں بنا سکتے ہیں اور پھر یہاں پر منتقل کر سکتے ہیں۔
ان چھوٹے جہانوں کی زمینکو مستقبل کے خلا نورد کس قسم کا دیکھیں گے؟ جان اسپینسر قیاس کرتے ہیں کہ ان مہتابوں کی سطح اپالو کے اترنے کی جگہ جیسی ہی ہوں گی۔ " مجھے لگتا ہے کہ ٹیتھس ، ڈائی اونی اور ریا قریب سے خاصے چاند جیسے لگتے ہیں، برف کافی یکساں ہے اور برف چٹان کی طرح برتاؤ کرتی ہے(گلیلائی چاندوں کے برعکس جہاں تصعید کا کردار اہم ہوتا ہے ) اور سطح پر سوائے شاذونادر عظیم الجثہ چوٹیوں کے چھوٹے پیمانے پر شہابی گڑھوں کا غلبہ ہے ۔ ٹیتھس کے سامنے کے حصّے میں سطح الیکٹران کی بمباری کی وجہ سے چر مری ہے اور تینوں کے پیچھے کے حصّے با الخصوص ڈائی اونیکے ایک گندی برف کی تہ ہے جس نے سوائے برفیلی چوٹی کے ہر چیز کو ڈھکا ہوا ہے ۔"
برفیلے سیارچوں اور زمین کے چاند میں بصری مماثلت ایک ہی طرح کے کائناتی کٹاؤ کی وجہ سے ہوئی ہے۔ زمین کے چاند پر ہونے والا حالیہ کٹاؤ کی وجہ ہمہ وقت برسنے والے خرد شہابیے ہیں جو سطح کو لمبے عرصے میں جا کر توڑ ڈالتے ہیں۔ ہیرسن شمڈ ماہر ارضیات اور اپالو ١٧ کے عملے کے رکن ہیں وہ ہر جگہ پھیلے ہوئے خرد شہابیوں کی نوعیت کے بارے میں اپنے براہ راست مشاہدہ بتاتے ہیں۔ انہوں نے کہا، "جب سورج مشاہد کے پیچھے ہوتا ہے تو بھربھرا مادّہ برف کی طرح چمکتا ہے۔ ہر حجم و ہئیت کے بٹے ہر جگہ منتشر ہوئے ہیں۔ اور وہ تمام آپ کے پیروں کے نیچے موجود چھوٹی چٹانیں خرد شہابیوں سے آنے والے ان چھوٹے سفید نقاط سے ڈھکی ہوئی ہیں۔ زمین کی سطح پر ہر حجم کے چھوٹے سے لے کر بغیر کنارے والے پیالوں جیسے شہابی گڑھے موجود ہیں جس میں سے ہر ایک کا مرکز پگھلے ہوئی شیشے جیسا ہے۔"
جے پی ایل کے بونی براٹی متفق ہیں کہ خرد شہابیے بیرونی سیاروں کے ارضی سطح کے اہم سنگ تراش ہوں گے۔" اب تک ہم نے جو سیکھا ہے اس میں سے زیادہ تر یہ ہے کہ نظام شمسی میں ہونے والا تصادم کا عمل برفیلے اور چٹانی اجسام پر کام کرتا ہوا نظر آتا ہے۔"
برفیلے سیارچے فاصلے سے ہمارے چاند سے کافی الگ دکھائی دے سکتے ہیں، لیکن سیاروی ماہر ارضیات جیوف کولنس خبردار کرتے ہیں کہ ظاہری وضح قطع ہمیں بیوقوف بنا سکتی ہے۔ "یہاں تک کہ فاصلے پر سے نظر آنے والی جگہیں جو تازہ پہاڑ کی چوٹی یا پہاڑیاں لگتی ہیں جب آپ ان کو قریب سے دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہمہ وقت ہونے والے تصادموں کی بارش کی وجہ سے نرم ہو گئی ہیں۔ یہ چاند کی سطح کو دیکھنے جیسا ہی ہے۔ کچھ شہابی گڑھے کافی تازہ لگتے تھے لیکن جب خلاء نورد وہاں پہنچے تو وہ وہاں تو تھے لیکن دھول والی قشر سے بھرے ہوئے تھے۔ ڈھلانوں پر کافی سیدھی تبدیلیاں ہوتی ہیں جو دور سے دیکھنے پر تازہ لگتی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ تب بھی نرم ہی ہوتی ہیں۔"
اپنے ڈرامائی چشموں اور زحل کی قربت کے ساتھ کچھ مستقبلی انسیلیڈس کو مستقبل کے مسافروں کے لئے اہم جگہ گردانتے ہیں۔ لیکن ناسا کے ایمز جیف مور تجویز کرتے ہیں کہ آیاپیٹس بھی انسانی کھوج کے لئے کافی اچھی جگہ ہے "مثالی طور پر آپ کو بیرونی نظام کے حصّے میں ہونا چاہئے تھا – مثال کے طور پر، آیاپیٹس کیونکہ دوسرے چاند ہمیشہ نسبتاً اپنے مرکزی سیارے کے قریب ہوتے ہیں۔ آپ کے پاس ہمیشہ اس گیسی دیو اور اس کے چاندوں کا اپنے پسندیدہ مقام کے پاس سے شاید استوائی پہاڑی کے اوپر کھڑے ہو کر نظارہ کرنے کا عظیم موقع ہوگا۔ آپ تصوّر کر سکتے ہیں کہ زحل کے اپنے اس سفر کے لئے ارب پتی لوگوں نے پہلے پہل ادائیگی کی ہوگی تو وہ ایک یا دو دن کی اڑان پر جائیں گے اور انسیلیڈس کی کھائیوں کے قریب جا کر واپس آ جائیں گے۔"
سیاروی ارضی طبیعیات دان ولیم مک کنن متفق ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ ،" میں دیکھ سکتا ہوں کہ آیاپیٹس کی پہاڑیوں پر چڑھنا ایک عظیم نظارہ ہوگا۔ یہ ٢٠ میل چڑھائی ہوگی لیکن قوّت ثقل کافی کم ہوگی۔"
آیاپیٹس پر ایک چوکی بنانے کا ایک فائدہ چاند کا زحل کے گھومتے ہوئے محور کے ساتھ تعلق ہے۔ زحل کے تقریباً تمام چاند اس کے حلقے کے میدان کے قریب مدار میں چکر لگاتے ہیں۔ مایوس کن طور پر اس جگہ سے رفیع الشان حلقوں کے کنارے نظر آتے ہیں اور وہ حلقے کافی مہین ہیں۔ اس کے زیادہ تر سیارچوں سے زحل کے شاندار حلقوں کے نظام استرے کی دھار کی طرح سیارے اور آسمان کے درمیان خط بناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آیاپیٹس پر ایسا نہیں ہے۔ اس کا مدار ساڑھے پندرہ درجے پر اس کے حلقوں کے میدان پر جھکا ہوا ہے۔ سیارے کے گرد چودہ دن کے سفر میں چاند پہلے زحل کے حلقوں کے اوپر اور پھر نیچے راستے پر چلتا ہے۔ سیارہ آہستہ گھومتے ہوئے لٹو کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ کچھ جگہوں میں آیاپیٹس کی اونچی پہاڑیاں ڈھلان بھی مہیا کرتی ہیں جو ہمیشہ زحل کی جانب رخ کیے ہوتی ہیں جس پر سائنسی چوکی گاڑھی جا سکتی ہے اور بالآخر چھٹیاں گزارنے کے لئے فاصلے پر موجود ایک اچھی تفریح کی جگہ بن سکتی ہے ۔
اگر کوئی سیاروں اور ان کے چاندوں کو لے کر تاروں بھرے آسمان میں پھیلا کر ان کو بہ لحاظ حجم ترتیب دے تو ٹائٹن سیارہ عطارد اور مریخ کے درمیان کہیں موجود ہوگا۔ اس کا کرۂ فضائی ان دونوں سیاروں سے زیادہ کثیف ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ٹائٹن میں ہوا کا دباؤ زمین سے بھی زیادہ ہے۔
ہمارے نظام شمسی کے چاندوں میں ٹائٹن منفرد ہے اس کی وجہ اس کا نظام شمسی میں واحد چاند ہونا ہے جہاں پر مہین کرۂ فضائی سے زیادہ موٹا کرۂ فضائی موجود ہے۔ اس کا کثیف نائٹروجن میتھین کرۂ فضائی نظام شمسی میں پائے جانے والی تمام ٹھوس اجسام میں سب سے زیادہ موٹا ہے۔1.5 بار پر اس کے کرۂ فضائی کی چادر منفی ١٧٨ سینٹی گریڈ سطحی درجہ حرارت برداشت کرتی ہے جو قریبی انسیلیڈس سے کہیں زیادہ گرم ہے جس کا دن کا درجہ حرارت منفی ٢٠١ سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔
ٹائٹن کا سال زحل کے سال کی طرح زمین کے 29.7 برسوں جتنا ہے۔ اس کا ماحول زمین کے ماحول کی طرح ہی لگ بھگ پیچیدہ ہے جہاں سرگرم موسمیات اور متحرک مائیاتی چکر پورے نظام شمسی میں صرف ہمارے جہاں کو چھوڑ کر اپنی مثال آپ ہے۔ سیاروی سائنس دان اور انجنیئر رالف لورینز کہتے ہیں، "وہ اصولی توجیح جس کی وجہ سے ہم ٹائٹن میں اب زیادہ دلچسپی نہیں لیتے وہ یہ ہے کہ یہ کافی دور ہے۔ خلائی جہاز کو وہاں پہنچنے کے لئے ٧ برس کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اگر یہ مسائل کسی طرح سے ختم ہو جائیں یا تو ٹائٹن کو سورج سے کسی طرح قریب کر دیا جائے یا پھر ہم اپنی خلائی ٹیکنالوجی کو بہتر بنا لیں تو میں سمجھتا ہوں کہ کئی وجوہات کی بنا پر یہ ہماری زبردست دلچسپی کا ہدف ہوگا۔ سب سے پہلے تو اس کا کرۂ فضائی انواع مظاہر سے لبریز ہے ۔ اس کے کثیف کرۂ فضائی کی وجہ سے وہاں پر کچھ ایسی سرگرمیاں جاری و ساری ہے جو ہم آج مریخ پر نہیں دیکھتے جیسے کہ بادلوں کا بننا اور بارش، سطح پر مائع کا جمع ہونا، ان کی مدوجزر اور قیاسی طور پر ہوا کی وجہ سے ہونے والی حرکت، موجوں کا بننا۔ آپ کے پاس یہاں ٹائٹن پر کافی دلچسپ فلکی حیاتیاتی کیمیا موجود ہوگی کیونکہ کرۂ فضائی میں موجود میتھین سینکڑوں مرکبات میں تبدیل ہوتی ہے۔"
خاکہ 7.2 ٹائٹن کی کیمیا سے لبریز کرۂ فضائی نظام شمسی میں کسی بھی ٹھوس جسم میں موجود دوسری سب سے زیادہ کثیف کرۂ فضائی ہے۔
محققین کے مطابق ٹائٹن میں ان جگہوں پر کافی امید افزا چیزیں موجود ہوں گی۔ حیاتی طبیعیات دان بینٹن کلارک جس وقت مریخ پر اترنے والا پہلا کامیاب وائکنگ کا خاکہ بنا رہے تھے اس وقت ان کی دلی آرزو تھی کہ وہ ٹائٹن کی کھوج کرنے والی چاہے ١٩٧٠ء ہی کی ٹیم کا حصّہ ہوتے ۔ اس وقت ٹائٹن گمنامی کے اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اور ٹائٹن پر اترنے والے خاکوں میں ممکنہ امکانات کا جائزہ لیا جا رہا تھا جس میں برف کے پشتوں سے لے ٹھوس سطح اور میتھین کے حمام تک شامل تھے۔ کلارک کی دلی آرزو اس وقت حقیقت بن گئی جب اس نے یورپین ہائی گنز ٹائٹن کھوجی منصوبے میں حصّہ لیا ۔ ہائی گنز ناسا کے جس کیسینی سٹرن مدار گرد پر سوار تھا اس نے زحل پر ٢٠٠٤ء میں پہنچنا تھا (ملاحظہ کیجئے تیسرا باب)۔
"یہ واقعی ہیجان انگیز تھا کیونکہ آپ ایک بہت ہی مختلف جگہ جا رہے تھے ۔ شروع میں یہ سمجھا گیا کہ ٹائٹن ایک سمندر سے ڈھکا ہوا ہوگا۔ بعد میں حاصل ہونے والی اطلاعات سے معلوم ہوا کہ یہ زیادہ تر زمینی ہی ہے۔ لیکن جیسے ہی ہم نے وہاں پر قدم رکھا ہمیں معلوم ہوا کہ ٹائٹن پر بڑے سمندر موجود ہیں۔[ہائی گنز] بہت ہیجان انگیز تھا کیونکہ اگر مریخ پر اترنے سے مقابلہ کیا جائے تو یہ پوری ہی الگ مہم تھی اور یہ یوروپین تھی۔ یورپینز نے اس کو بنایا تھا۔ وہ اس سے پہلے کبھی بھی کہیں نہیں اترے تھے، لہٰذا یہاں پر ہیجان انگیزی ، قسمت اور کسی چیز کو پہلی مرتبہ سرانجام دینے کے تمام لوازمات موجود تھے۔" کلارک کہتے ہیں۔
ڈھائی گھنٹے پیراشوٹ سے اترنے کے سفر کے بعد ہائی گنز نے نئی زمین پر قدم رکھا، ہر لحاظ سے ایک نیا جہاں۔ کھوجی نے بذریعہ ریڈیائی لہریں قیمتی خزانے کے اعداد و شمار کو ٹائٹن کی پیچیدہ ہوا کی تہ، بادلوں اور کہر میں سے گزارتے ہوئے واپس صحیح سالم حالت میں بھیجا اور ہمیں ہوائی اور زمینی سطح سے لئے گئے دونوں طرح کے اجنبی زمین کے نظارے تصاویر کی صورت میں بھیجے۔ اس جری کھوجی نے زمین پر اترنے کے بعد ٩٠ منٹ تک اطلاعات کو بھیجنا اس وقت تک جاری رکھا جب تک اس کا رابطہ زمین سے منقطع نہیں ہو گیا۔ دھندلی نارنجی کہر کے نیچے ٹائٹن کے جہاں میں کیسینی مدار گرد کے بھید پانے والے آلات سے تلاش جاری رکھی گئی۔
خاکہ 7.3 ١٨ کلومیٹر لگ بھگ کے عرض بلد سے ای ایس اے کا ہائی گنز کھوجی نیچے برفیلی زمین پر دریائی وادی کی شاخوں کو دیکھتا ہوا۔
خاکہ 7.4 ہائی گنز نے ٹائٹن کی سطح کے انبار کی تصاویر کو٩٠ منٹ تک ارسال کرنا جاری رکھا جو بظاہر سوکھی ہوئی دریائی گزرگاہ لگتی ہے۔ گول پتھروں پر غور فرمائیں، جو مخصوص دریائی کٹاؤ سے بننے والی ساخت ہے۔
اس چکرا دینے والی زمین کے علاوہ کافی سارے علاقے ایسے ہیں جو ریڈار سے پہلی مرتبہ حاصل کردہ تصاویر میں شناسا لگتے ہیں۔ کلارک کہتے ہیں۔ " یہ کافی حیرت انگیز درجہ تک زمین جیسی ارضیات لگتی ہے۔ آپ کے پاس یہ بہاؤ والی صورت کی شکل ہے۔ وہاں پر دریائی وادیوں کے نظام ہیں جو ایسا لگتا ہے کہ نکاسی نالیوں میں بہ رہی جیسے کہ وہ جھیل ہو سکتی ہو۔" مزید براں ٹائٹن میں پہاڑی سلسلے اور ریت کے عظیم ٹیلوں کے سمندر بھی موجود ہیں۔ مستقبل کے مسافروں کے لئے نفیس سیاحت کی جگہ۔