زہیر عبّاس
محفلین
دسواں باب -6
میتھین کا محرک
بیرونی نظام شمسی میں سب سے وافر مقدار میں پائے جانے والے وسائل میں میتھین ہے اور ٹائٹن اس سے لبریز ہے۔ حال ہی میں ناسا کے جانسن اسپیس سینٹر نے ارماڈیلو ایرو اسپیس کے ساتھ مل کر مورفیس پلانٹری لینڈر کے منصوبے میں شرکت کی ہے۔ عمودی اڑان اور اترنے کے ساتھ خلائی جہاز آکسیجن اور میتھین کے امتزاج کا استعمال کرے گا۔ اس کی فی الوقت سامان کو لے جانے کی صلاحیت 499 کلوگرام ہے۔ اس کی خود مختار اترتے ہوئے خطرات سے بچنے کی ٹیکنالوجی کا نظام خلائی جہاز کو وہ قدرت عطا کرتا ہے جس سے وہ خود سے اترنے کی جگہ کو ڈھونڈ کر خود ہی سے خطرات بشمول عمودی ڈھلانوں اور بڑے پتھروں سے بچاتا ہے۔ یہ نظام لیزر ارتفاع پیما، لیڈار اور ڈوپلر اور صدا پیما کے امتزاج کا استعمال کرتا ہے۔
فی الوقت جس طرح بنایا گیا ہے اس میں خلائی جہاز خلائی گاڑی یا دھکیل تجربہ گاہ کو چاند کی سطح پر لے جا سکتا ہے ، اڈہ بنا سکتا ہے، اور دھکیلو کو زمین کے مدار میں منتقل کر سکتا ہے اور سیارچوں کی مہم پر بھی جا سکتا ہے۔ ایک ایسا ہی خلائی جہاز ٹائٹن کی سطح پر چلایا جا سکتا ہے۔ قدرتی ذرائع کا استعمال بطور ایندھن کرکے گاڑی کو چلایا جا سکتا ہے۔ سطح کی برف کو ہائیڈروجن اور آکسیجن میں توڑا جا سکتا ہے ، یہاں سے حاصل کردہ آکسیجن کو مائع دھکیل میں ٹائٹن کی میتھینی کرہ فضائی کے ساتھ ملا کر جہاز کے لئے ایندھن بنایا جا سکتا ہے۔
ٹائٹن وہ واحد مہتاب ہے جس کا کرہ فضائی کسی مادّہ کے ساتھ موجود ہے۔ زمین کی طرح اس کا کرہ بھی زیادہ تر نائٹروجن پر مشتمل ہے۔ سطح پر زندہ رہنے کی انسانی ضروریات کافی سادی ہیں ایک آکسیجن کے ماسک اور ایک اچھے گرم لباس کی ضرورت ہوگی۔ مریخ کے بعد ٹائٹن کو ٹھکانہ بنانا سب سے آسان ہے۔ اترنے اور اڑنے کے لئے کم توانائی کی ضرورت ہوگی اور اس جہاں میں کارآمد مادّہ ہر طرف نسبتاً شفیق ماحول میں موجود ہے۔
تاہم یہ کثیف کرہ فضائی دو دھاری تلوار کی طرح اڑتے وقت سامنے آتی ہے۔ اتنے گہرے، کثیف کرہ فضائی کے ساتھ خلا نوردوں کو لازمی طور پر سست رفتار خلائی جہاز کی ضرورت ہوگی۔ نچلے ماحول میں تیز رفتاری سے اڑان بھرنے میں توانائی کا زیاں ہوگا جبکہ خلائی جہاز کے باہر حرارت سے بھی نمٹنا ایک خطرناک عمل ہوگا۔ کئی منظر نامے زیر بحث ہوئے ہیں۔ ایک تجویز تو غبارے سے خلائی جہاز کو چھوڑنے کی ہے۔ ایک اور میں پرواز کا خاکہ ورجن گیلیکٹک اسپیس شپ اوّل کی طرح کا ہے جس میں ایک جہاز بلند ارتفاع پر اڑے گا اور پھر راکٹ کو مدار میں چھوڑ دے گا۔
ٹائٹن کے ماحول کے دوسرے مسائل اپنی جگہ موجود ہیں۔ آکسیجن سے بھرے پھولے ہوئے گنبد کے اندر رہائش پذیر انسانوں کو باہر قدرتی طور پر پائے جانے والے دوسرے مادّوں سے جیسا کہ بیوٹین،میتھین اور پروپین سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ یہ آکسیجن کے ساتھ سانس لیتے وقت لوگوں کے لئے کافی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔رالف لورینز کہتے ہیں، "اصولی طور پر، آپ اپنی چھوٹی سی کھرپی کو لے کر باہر سے کچھ مٹی کو کرید کر اپنی میز پر ڈال سکتے ہیں، تاہم وہ آکسیجن کے ماحول میں جلنے کے قابل ہوگی۔ یہی وہ خطرہ ہے جس کا کسی کوئلے کی کان میں بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آپ کے پاس برش یا چھوٹی ڈیوڑھیاں ہونی چاہئیں جہاں آپ چیزوں کو جھاڑ سکیں، تاہم کم عرصے کے دوران ان میں سے کوئی بھی چیز زہریلی نہیں ہو سکتی۔" مختصراً اس میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو انسانی تلاش کو روک دے۔
خاکہ 10.12 میتھین کی طاقت سے چلنے والا مورفیس خلائی جہاز جانچ کے مرحلے پر کینیڈی اسپیس سینٹر ، فلوریڈا میں۔
مستقبل کے خلائی وسائل ہیلیئم 3کے گرد گھومیں گے۔ ہیلیئم 3 ہیلیئم عنصر کا ایک ہلکا ہم جا ہے۔ زمین پر صرف تجربہ گاہ ہی میں یہ پایا جاتا ہے ، تاہم یہ ہمارے پڑوسی چاند پر بھی دستیاب ہے، اور بیرونی نظام شمسی کے سیاروں میں تو اس کی بہتات ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہیلیئم 3 مستقبل کی توانائی کی تمام ضرورتوں کو نیوکلیائی گداخت کے ایندھن کی صورت میں پوری کر دے گا۔
اب تک ہماری نیوکلیائی توانائی انشقاق کی صورت میں حاصل ہوئی ہے۔ نیوکلیائی انشقاق میں جوہروں کے مرکزوں کو توڑ کر چھوٹے ذرّات میں تقسیم کیا جاتا ہے، اور اس عمل کے دوران حیرت انگیز توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔ تاہم اس عمل کی ایک ضمنی پیداوار تابکار کچرے کی صورت میں حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے روس میں چیرنوبیل یا فوکو شیما جاپان میں دیکھا تھا ، انشقاق کا عمل انجنیئروں کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ اگر سافٹ ویئر یا ہارڈویئر کی خرابی کی وجہ سے مسئلہ کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے یا قدرتی آفت نیوکلیائی پلانٹ کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو تباہی پھیل سکتی ہے۔
نیوکلیائی انشقاق کو ہمہ وقت بے قابو ہونے سے بچانے کے لئے بند کرنے کے لئے تیار رہنا پڑتا ہے جبکہ کہ گداخت کا مسئلہ بالکل الٹا ہے۔ اگر اس کو خود پر چھوڑ دیا جائے تو بجائے بے قابو ہونے کے بند ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے گداخت کا عمل کافی محفوظ ہے۔ یہ ہمیں بیرونی سیاروں کے نیوکلیائی قوّت سے چلنے والے خلائی جہازوں کے لئے کافی زیادہ توانائی کی وعید دلاتا ہے۔
انشقاقی عمل کے برخلاف، گداختی عمل جوہروں کے مرکزوں پر ایک ساتھ اس طرح قوّت لگاتا ہے جس سے ان کی قدرتی حدیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ یہ کام کرنے کے لئے مرکزوں کو بہت تیزی سے حرکت میں آنا ہوتا ہے۔ جب نیوکلیائی ایندھن کو حرارت دے کر پلازما میں کروڑ ہا ڈگری درجہ حرارت پر بدلا جاتا ہے تو مرکزے گداخت کے لئے آزاد ہو جاتے ہیں۔ قدرت میں ایک ہی جگہ ایسی ہے جہاں یہ کام انجام پاتا ہے اور وہ ہے ستاروں کا قلب۔ وہاں پر بلند درجے پر جوہری شوربہ قوّت ثقل کی بدولت ایک ساتھ رکھا ہوا ہوتا ہے۔ تاہم گداختی ری ایکٹر میں ہمیں ابھی یہ جاننا باقی ہے کہ کس طرح سے بلند درجے حرارت پر چیزوں کو ایک ساتھ رکھیں۔ اب مضبوط مقناطیسی میدانوں کے ساتھ تجربات کئے جا رہے ہیں، تاہم ابھی تک یہ عمل صرف کچھ ہی ملی سیکنڈ تک جاری رہ پاتا ہے۔
سردست گداخت کے عمل کے لئے ڈیوٹیریم کا استعمال کیا جاتا ہے جو ہائیڈروجن کا ایک بھاری ہم جا ہے۔ تاہم ڈیوٹیریم کے ساتھ کام کرنے میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کی آدھی توانائی تو مقناطیسی میدان میں رس جاتی ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں ہیلیئم 3 کی افادیت شروع ہوتی ہے۔ جب اس کو ڈیوٹیریم کے ساتھ ملایا جاتا ہے تو رسنے والی توانائی 50 فیصد کے بجائے 2 فیصد تک کی ہوتی ہے۔ اچھی خبر؟ بیرونی نظام شمسی اس میں ڈوبا ہوا ہے۔ دیوہیکل سیاروں میں سے زحل وہ سب سے آسان جگہ ہے جہاں سے ہیلیئم 3 کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کی سطحی قوّت ثقل زمین جتنی ہی ہے، تاہم اس کی محوری گردش کی سمتی رفتار بہت تیز ہے تاہم ہمارے اب تک کہ انجینئرنگ کے علم کے ساتھ اس کے مدار میں جایا جا سکتا ہے (اپنے زبردست ثقلی قوّت کے ساتھ مشتری ہمارے حالیہ قابلیت سے کافی دور کی چیز ہے) ہیلیئم 3 کو حاصل کرنے والے زحل کے اوپری مدار میں اتر کر اپنا قیمتی سامان حاصل کرکے نچلے مدار میں واپس آ سکتے ہیں۔ نیوکلیائی توانائی کرۂ فضائی کو حرارت دے کر جیٹ انجن میں کان کنی کے دوران استعمال کر سکتی ہے۔ ہائیڈروجن کو خلائی جہاز کے کرۂ فضائی کی اڑان کے دوران مائع کی صورت میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اس ہیلیئم 3 کی مائع کو بعد میں بطور راکٹ کے نیوکلیائی ایندھن کے طور پر استعمال کرکے واپس مدار میں جا کر دوسرے خلائی جہازوں کو توانائی دی جا سکتی ہے۔
اگر گداختی عمل کو جاری رکھا جا سکے تو اس سے صاف توانائی حاصل ہو سکتی ہے۔ جس میں کوئی ریڈیائی تابکاری نہیں ہوگی بلکہ روشن مستقبل ہوگا! مسئلہ بلاشبہ اس ایندھن کو چاند یا بیرونی سیاروں سے حاصل کرکے زمین پر لانے کا ہے۔
دیوہیکل سیارے کافی دور ہیں۔ ان کا استعمال قریبی مہتاب کے مقابلے میں کیا محرک رکھتا ہے؟ گیسی اور برفیلے دیوہیکل سیاروں کی قوت ثقل نے ہیلیئم 3 کو نظام شمسی کو بننے کے ابتدائی دور میں قید کر لیا تھا۔ چاند کی ہیلیئم 3 زمین کی آبادی کی ضروریات کو ہزار ہا برس تک پوری کر سکتی ہے۔ تاہم ہیلیئم 3 کی دیوہیکل سیاروں میں موجود مقدار ارضی سیاروں کی طلب کو ارب ہا برس تک پورا کر سکتی ہے۔[1] ہیلیئم 3 اس لحاظ سے دلچسپ ہوتی ہے کہ اس کی تمام شکلیں بار دار ہوتی ہیں مطلب یہ کہ اس کا اخراج مقناطیسی میدانوں کا استعمال کرکے کروایا جا سکتا ہے۔ رابرٹ زبرین کہتے ہیں کہ حال فی الحال معلوم طبعی نظام سے "ڈیوٹیریم/ ہیلیئم 3 عظیم راکٹ کے بننے کا امکان فراہم کرتی ہے۔ اصل میں اس سے اخراج کی سمتی رفتار روشنی کی رفتار کا 7 فیصد تک حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمل گداخت بالعموم اور ہیلیئم 3 بالخصوص کیوں اتنا دلچسپی کا حامل ہے۔ یہ صرف ایک نئی اضافی توانائی کی قسم نہیں ہے؛ یہ نئی قسم کی توانائی ہے۔"
[1] ۔ ہمارا کونیاتی مستقبل از نیکوس پرنٹزوس ، کیمبرج یونیورسٹی پریس 2000ء۔