اس دنیا میں جسمانی،ذہنی اور سماجی معزور کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔
ہمم، نظریہ تو کچھ ایسا غلط نہیں لگتا تھا، مگرکانٹیکسٹ کا فرق ہے ۔میں آپ کی بات سے متفق نہیں ہوں
فعل الحكيم لا يخلواعن الحكمة
اللہ تعالی حکیم اور علیم بہتر جانتے ہیں کہ کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں
ہم سوچیں تو پھر بات یہیں تک نہیں رہے گی، پھر توسب سے پہلے دنیا میں کفر بھی نہیں ہونا چاہیے ، شرک بھی نہیں ۔ظلم بھی نہیں، نا انصافی بھی نہیں، جھوٹ بھی نہ ہو بھوک بھی نہ ہو، کوئی بد صورت بھی نہ ہو سدا جوانی رہے، موت بھی نہ آئے ، بیماری کا وجود نہ ہو، ہمیشہ صحت رہے۔سارے امیر ہوں، سب گورے ہوں ، پھول ہی پھول ہوں، کانٹے نہ ہوں.غرض سوچتے جائیں ، اس کا کوئی اختتام نہیں
اگر اچھائی کے مقابل برائی نہ ہو تو اچھائی کی کبھی قدر نہ ہو ، اور سارے ہی برابر اور اچھی صلاحیتوں کے مالک ہوں تو دنیا کا نظام درھم برہم ہو جائے ، سارے باسز ہوں گے ، ان کی نیچے کام کرنے والا کوئی نہ ہو گا
بہت سی چیزیں جو ہماری عقل میں نہیں آتیں، اللہ تعالی ان کی حکمتوں کو بہتر جانتے ہیں ، اور سوچا جائے تو اس میں بھی توحید سمجھ آتی ہے کہ ایک سے زیادہ خدا ہوتے تو ایک کہتا اس وقت دن ہونا چاہیے، دوسرا کہتا نہیں رات زیادہ بہتر ہے
کبھی کبھی لگتا ہے غریب،معزور،یتیم،بیوہ،مخنث وغیرہ لوگوں کا فطرت بھی ساتھ نہیں دیتی۔
یہ ظاہری نظر کہہ سکتی ہے ، مگر ایسا ہوتا نہیں ہے ۔دنیا کی حقیقت تو اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں، دنیا تو کافر، ملحد کو بھی میسر ہے ، بلکہ ان کے پاس مسلمانوں سے زیادہ ہے
پھر پوچھنا پڑے گا کہ فٹسٹ ہے کون؟اور سروائیو ل کی تعریف کیا ہے
یہ پڑھ کر ایک حدیث ذہن میں آ رہی ہے
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُؤْتَى بِأَنْعَمِ أَهْلِ الدُّنْيَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُصْبَغُ فِي النَّارِ صَبْغَةً ثُمَّ يُقَالُ يَا ابْنَ آدَمَ هَلْ رَأَيْتَ خَيْرًا قَطُّ هَلْ مَرَّ بِكَ نَعِيمٌ قَطُّ فَيَقُولُ لَا وَاللَّهِ يَا رَبِّ وَيُؤْتَى بِأَشَدِّ النَّاسِ بُؤْسًا فِي الدُّنْيَا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيُصْبَغُ صَبْغَةً فِي الْجَنَّةِ فَيُقَالُ لَهُ يَا ابْنَ آدَمَ هَلْ رَأَيْتَ بُؤْسًا قَطُّ هَلْ مَرَّ بِكَ شِدَّةٌ قَطُّ فَيَقُولُ لَا وَاللَّهِ يَا رَبِّ مَا مَرَّ بِي بُؤْسٌ قَطُّ وَلَا رَأَيْتُ شِدَّةً قَطُّ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن جہنم والوں میں سے اس آدمی کو لایا جائے گا جو اہل دنیا میں سے بہت نعمتوں والا تھا پھر اس سے کہا جائے گا اے ابن آدم کیا تو نے کبھی کوئی بھلائی بھی دیکھی تھی کیا تجھے کبھی کوئی نعمت بھی ملی تھی وہ کہے گا اے میرے رب اللہ کی قسم نہیں اور اہل جنت میں سے اس آدمی کو پیش کیا جائے گا جسے دنیا میں لوگوں سے سب سے زیادہ تکلیفیں آئی ہوں گی پھر اسے جنت میں ایک دفعہ غوطہ دے کو پوچھا جائے گا اے ابن آدم کیا تو نے کبھی کوئی تکلیف بھی دیکھی کیا تجھ پر کبھی کوئی سختی بھی گزری وہ عرض کرے گا اے میرے پروردگار اللہ کی قسم نہیں کبھی کوئی تکلیف میرے پاس سے نہ گزری اور نہ ہی میں نے کبھی کوئی شدت و سختی دیکھی۔
ایک غوطہ، صرف ایک غوطہ!!!دنیا کے شدائد پر اگر اللہ کی رضا پر راضی رہا جائے تو اصلی "زندگی"میں ان سب کا مداوا ہو جائے گا، اور ایسے لوگ ہوتے بھی ہیں جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا، بس اللہ ہوتا ہے اور وہ اس پر شاکر ہیں،ہوتے ہیں مگر کم بہت کم
وَقَلِیلٌ مِنْ عِبَادِی الشَّکورُ