جاسم محمد
محفلین
نکے دےابے کے آرمی پبلک سکول، سول پبلک اسکولوں سے توبہتر ہی چل رہے ہیں۔ ہاں بہتری کی گنجائش ہرجگہ موجود ہوتی ہےاور نکے دے ابے کے بارے میں کیا خیالات ہیں ؟
نکے دےابے کے آرمی پبلک سکول، سول پبلک اسکولوں سے توبہتر ہی چل رہے ہیں۔ ہاں بہتری کی گنجائش ہرجگہ موجود ہوتی ہےاور نکے دے ابے کے بارے میں کیا خیالات ہیں ؟
فوج نے حالیہ الیکشن میں صرف کراچی تک مداخلت کی ہے۔ یہ نہ کرتی تواندرون سندھ کی طرح یہاں سے بھی بھٹو نے زندہ نکل آنا تھاجی باکل حضور سارا قصور انہی کا ہے۔ یہ سیاستدانوں اور عوام کو اپنے چنگل سے آزاد کیوں نہیں کرتے؟ حقیقی مسئلے کی جڑ ہی یہی ہے۔ اور ہاں، بالکل، ووٹ کو عزت دو کیونکہ یہ عزت ووٹ کی پرچی کی نہیں بلکہ ووٹ ڈالنے والے کی ہے اور اس کی عزت کا جنازہ اپنی طاقت کے استعمال سے نہ نکالو!
اصل نکتہ ہی یہی جواز ہے، یہ جواز کون طے کرے گا، عوام جس کو اس کا حق نہیں مل رہا یا فوج؟ یہی تو جمہوریت کی تعریف ہے کہ اگر عوام کو موجودہ حکمرانوں سے گلہ ہے تو اگلے الیکشن میں ان کا انتخاب نہ کریں اور اگر اگلے بھی ان کی امنگوں پہ پورا نہیں اترتے تو آنے والے سالوں میں کسی اور کو منتخب کریں۔ اسی طرح بتدریج نظام چلے گا تو جمہوریت مضبوط ہو گی لیکن کیا ہے کہ مضبوط جمہوریت ڈکٹیٹرز کو پسند نہیں ہے کیونکہ جمہوریت مضبوط ہو گی تو ڈکٹیٹرشپ کمزور ہو گی، اتھارٹی اور دھاک کمزور پڑ جائے گی۔ اس لیے وہ فیصلے بھی اپنی مرضی سے لیتے ہیں، ووٹ میں ردو بدل بھی اپنی مرضی سے کرتے ہیں، نئے نئے چہرے بھی اپنی مرضی سے لاتے ہیں۔ جمہوریت حقیقی معنوں میں آئی کب ہے؟ کیا پی ٹی آئی کی حکومت جمہوری حکومت ہے؟جب فوج نہیں بھی ہوتی تب کونسا نظام بہتر ہو جاتاہے؟ کراچی والوں سے جا کر پوچھیں۔ وہ آج بھی مشرف دور کو یاد کرتے ہیں جب سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نےشہر قائد کو پیپلز پارٹی کے جمہوری دور سے کہیں بہتر انداز میں چلایا تھا۔
اگر جمہوریت سے نظام مملکت عوام کی امنگوں کے مطابق چل رہا ہے تو سو بسم اللہ۔ اگر ایسا نہیں ہے بلکہ الٹا جمہوریتیں عوامی وسائل پر ڈاکہ ڈال کر ملک سے باہر لے جا رہی ہیں۔ تو اس کرپٹ نظام کو مزید چلانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
اس کا متبادل آمریت یا صدارتی نظام نہیں ہے۔ بلکہ ایسی جمہوریت ہے جو موجودہ نظام کو مسلسل بہتر کر سکے۔
کس نے فوج کو یہ حق بخشا ہے کہ وہ مداخلت کرے؟ کیا یہ آئینِ پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی نہیں ہے۔ کیا یہ اس حلف کی خلاف ورزی نہیں ہے جس کی فوج میں آتے وقت قسم کھاتے ہیں کہ نہیں توڑیں گے۔ جس کو اپنا حلفیہ بیان توڑنے میں، آئین توڑنے میں کوئی برائی محسوس نہیں ہو کیا اس کے "نعرہ اسلامی ریاست" کو مشکوک نہیں گردانا جائے گا؟ بھٹو زندہ نکلے یہ مردہ پھر بھی یہ آئین اور حلف کی خلاف ورزی تصور کیا جائے گا اور پھر بھی حکمران چننے کا حق اصولی طور پر عوام کا ہی رہے گا۔فوج نے حالیہ الیکشن میں صرف کراچی تک مداخلت کی ہے۔ یہ نہ کرتی تواندرون سندھ کی طرح یہاں سے بھی بھٹو نے زندہ نکل آنا تھا
پہلے آپ جمہوریت کی تعریف کلیئر کر لیں۔ جمہوریت کا مطلب ایسی عوامی حکومت کا قیام ہے جو عوام کی امنگوں کے مطابق آکر عوام کی خدمت کرے۔جمہوریت حقیقی معنوں میں آئی کب ہے؟ کیا پی ٹی آئی کی حکومت جمہوری حکومت ہے؟
تاریخ انسانی بھری پڑی ہے ان جمہوری لیڈران سے جنہیں عوام نے اپنے ووٹ سے منتخب کیا اور پھر انہوں نے حکومت میں آکر اسی قوم کی بینڈ بجائی۔ حالیہ دور میں اس کی سب سے بڑی مثال جرمنی کے جمہوری چانسلر ہٹلر تھے۔ جو ووٹ تو بہت سے لے کر اقتدار میں آئے تھے لیکن پھرپورے یورپ کو کھنڈرات بنا کر دنیا سے رخصت ہوئے۔پھر بھی حکمران چننے کا حق اصولی طور پر عوام کا ہی رہے گا۔
یا منتظم! بھینس کے آگے بین کی اموجی عنایت ہو!پہلے آپ جمہوریت کی تعریف کلیئر کر لیں۔ جمہوریت کا مطلب ایسی عوامی حکومت کا قیام ہے جو عوام کی امنگوں کے مطابق آکر عوام کی خدمت کرے۔
بالفرض مان لیتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ والے ہمیشہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اقتدار میں آئے ہیں۔ تو کیا ان کی قائم کردہ عوامی حکومتوں نے عوام کی امنگوں کے مطابق نظام پاکستان بہتر کر دیاہے؟ عام عوام کے بنیادی مسائل یعنی تعلیم، صحت،معیشت کو درست کر دیا ہے؟ اگر یہ سب کر دیا ہے اور اس کے باوجود فوج نے مداخلت کرکے ان سے عوامی مینڈیٹ چھین کر تحریک انصاف کی جھولی میں ڈالا ہے۔ تو یہ جمہوری نظام کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہوئی ہے۔
لیکن اگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں سالہا سال اقتدار میں رہنے کے بعد بھی نظام کو بہتر کرنے کی بجائے مزید بگاڑ کا ذمہ دار بنی ہیں۔ تو ان کو ملنے والے الیکشن مینڈیٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ جمہوریت کی تعریف کے مطابق عوامی مینڈیٹ نہیں ہے۔
میں محض اتنا کہنا چاہوں گا کہ عوام کی پرواہ انہیں ہوتی ہے جو عوام کی طاقت سے آئے نہ کہ فوج کی طاقت سے۔ میرا ہمیشہ یہی موقف رہا ہے اور میں اس پہ قائم ہوں۔ آپ کو نجانے یہ بات سمجھنے میں کتنا مزید وقت درکار ہو گا؟ کتنے مزید تجربے درکار ہوں گے؟ آپ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ موجودہ حکومت بھی فوج کی طاقت سے آئی ہے لہذا وہ فوج کے مطالبات ہی پورے گی۔ اس سے عوام کی خدمت کی توقع رکھنا ایسے ہی ہے جیسے مخنث سے بچے کی امید رکھنا۔پہلے آپ جمہوریت کی تعریف کلیئر کر لیں۔ جمہوریت کا مطلب ایسی عوامی حکومت کا قیام ہے جو عوام کی امنگوں کے مطابق آکر عوام کی خدمت کرے۔
بالفرض مان لیتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ والے ہمیشہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اقتدار میں آئے ہیں۔ تو کیا ان کی قائم کردہ عوامی حکومتوں نے عوام کی امنگوں کے مطابق نظام پاکستان بہتر کر دیاہے؟ عام عوام کے بنیادی مسائل یعنی تعلیم، صحت،معیشت کو درست کر دیا ہے؟ اگر یہ سب کر دیا ہے اور اس کے باوجود فوج نے مداخلت کرکے ان سے عوامی مینڈیٹ چھین کر تحریک انصاف کی جھولی میں ڈالا ہے۔ تو یہ جمہوری نظام کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہوئی ہے۔
لیکن اگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں سالہا سال اقتدار میں رہنے کے بعد بھی نظام کو بہتر کرنے کی بجائے مزید بگاڑ کا ذمہ دار بنی ہیں۔ تو ان کو ملنے والے الیکشن مینڈیٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ جمہوریت کی تعریف کے مطابق عوامی مینڈیٹ نہیں ہے۔
آپ بھینس کوچھوڑیے۔ ہمسایہ ممالک بھارت اور چین کا موازنہ کر لیں۔بھینس کے آگے بین کی اموجی عنایت ہو!
آپ کی بات اصولی طور پر درست ہے۔ اور اسی لئے میں مغرب کی نیک نیت جمہوریتوں کی قدر کرتا ہوں۔ جہاں واقعتا سیاست دان عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آکر عوام کی امنگوں کے مطابق ان کی خدمت کرتے ہیں۔میں محض اتنا کہنا چاہوں گا کہ عوام کی پرواہ انہیں ہوتی ہے جو عوام کی طاقت سے آئے نہ کہ فوج کی طاقت سے۔ میرا ہمیشہ یہی موقف رہا ہے اور میں اس پہ قائم ہوں۔ آپ کو نجانے یہ بات سمجھنے میں کتنا مزید وقت درکار ہو گا؟ کتنے مزید تجربے درکار ہوں گے؟ آپ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ موجودہ حکومت بھی فوج کی طاقت سے آئی ہے لہذا وہ فوج کے مطالبات ہی پورے گی۔ اس سے عوام کی خدمت کی توقع رکھنا ایسے ہی ہے جیسے مخنث سے بچے کی امید رکھنا۔
متفق۔ بھارت جیسا تیسا بھی ہے وہاں کا نظام تعلیم اور شرح خواندگی پاکستان سے بہتر ہے۔ اس وقت بھارتی درسگاہوں سے نکلنے والے طلبا بعض بڑی امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سربراہ لگے ہوئے ہیںمجھے یاد ہے کہ ایف اے اور بی اے سطح پہ مجھے اپنی انگریزی گرائمر کی کتب پسند نہیں آتی تھیں۔ بس ایک پولیمر تھی جو مجھے کسی حد تک باقیوں سے بہتر لگتی تھی۔ پھر بھارت کی ایک انگریزی گرائمر کی کتاب میرے ہاتھ لگی۔ کیا کمال کتاب تھی!
اسی طرح ماسٹرز کرتے ہوئے معاشیات کی کتابیں بھی بھارتی مصنفین کی زیادہ بہتر ہوتی تھیں۔
انگریزی اس قدر خوبصورت کہ مزہ آجاتا تھا اور علمی لحاظ سے بھی بہت ہی اعلی درجہ۔
ہم نظام حکومت پہ بحث کر رہے ہیں یا معیشت پہ؟ یقیناً معیشت پہ نظام حکومت کا بہت اثر ہوتا ہے لیکن حکومت وقت کا کام ریگولیٹ کرنا ہوتا ہے، عوام کی انرجی کو چینلائز کرنا ہوتا ہے، ملک ترقی عوام کی محنت سے کرتا ہے۔ ملک کی ترقی عوام کی مثبت سمت میں محنت سے جڑی ہے نہ کے کسی مسیحا کی آمد سے اور اس کا ماحول حکومت وقت نے دینا ہوتا ہے۔ یہی بات میں کم و بیش اوپر بھی کر چکا ہوں۔ اب آپ پاکستان میں نافذ شدہ ڈکٹیٹر حکومتوں کا تقابل چائنا سے کر کے دیکھ لیں۔ کیا یہ حقیقی معنوں میں ایک جیسے ڈکٹیٹر ہیں؟ کیا وہ کسی مسیحا کے انتطار میں ہیں؟ جمہوریت کم از کم آپ کو یہ موقع ضرور دیتی ہے کہ اگر ایک حکمران ٹھیک نہیں ہے تو دوسرے کا انتخاب کر لیں۔ اور عین ممکن ہے کہ ایسا بھی حکمران آ جائے جو حقیقی معنوں میں عوام کی انرجی کو کھوکھلے مذہبی نعروں سے باہر نکال کر مثبت سمت میں چینلائز کرے۔آپ بھینس کوچھوڑیے۔ ہمسایہ ممالک بھارت اور چین کا موازنہ کر لیں۔
بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے باوجود قوم کو وہ ترقی نہ دے سکی جو ایک پارٹی ڈکٹیٹرشپ نے کہیں کم عرصہ میں چینی عوام کو بخش دی ہے۔
آج چین کی فی کس آمدنی بھارت سے 4 گنا زیادہ ہے۔ جبکہ آبادی تقریبا برابر ہے۔
اب بتائیں عقل بڑی یا بھینس؟
میں نے بھی اسی لیے اپنا سوال پوچھ لیا۔۔ایک ہی وقت میں مختلف موضوعات پہ بات چیت جاسم کے شروع کردہ دھاگہ میں ہی کی جا سکتی ہے۔ سمجھ ہی نہیں آرہی کہ اصل موضوع کیا ہے