جیون میں ایک بار آنا سنگا پور

جیون میں ایک بار آنا سنگاپور
محمد خلیل الرحمٰن
یوں تو دلشاد بیگم کا دعوت نامہ، ‘‘ جیون میں ایک بار آنا سنگاپور’’
ہمیں کافی عرصے سے دعوتِ گناہ دے رہا تھا، لیکن جس بات نے ہمارے جذبہٗ شوق پر مہمیز کا کام دیا وہ کچھ اور تھی۔ ہوا یوں کہ ہم شب و روز کی یکسانیت سے تنگ آگئے۔ ڈاکڑوں اور طبیبوں کو دکھایا ، مگر کچھ افاقہ نہ ہوا۔ جب ہمیں یقین ہوگیا کہ
مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں
تو علاج کےلیے قدیمی حکما کے نسخوں کو ٹٹولا۔ کرنل شفیق الرحمٰن دور کی کوڑی لائے۔
‘‘ تم اس جمود کو توڑتے کیوں نہیں۔ صبح اٹھ کر رات کا کھانا کھایا کرو، پھر قیلولہ کرو ۔ سہہ پہر کو دفتر جائو، وہاں غسل کرو اور اور سنگل روٹی کا ناشتہ۔ حجام سے شیو کروائو اور حجام کا شیو خود کرو۔۔۔۔’’
یہ بھی کردیکھا، مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ آخر کار تنگ آکر دوہفتہ کی چھٹی کے لیے درخواست داغ دی۔ جواب آیا۔ ‘‘ آپ کی چھٹی کی درخواست نامنظور کی جاتی ہے، اس لیے کہ کمپنی اس عرصے میں آپ کو تربیت کے لیے سنگاپور بھیج رہی ہے۔۔۔’’
کوئی جل گیا، کسی نے دعادی۔ زادِ سفر کا مرحلہ درپیش ہوا تو دوستوں سے مشورہ لیا۔ سیر کے لیے فلاں فلاں جگھیں ہیں۔ خرید و فروخت کے لیے فلاں فلاں، اور کھانے کے لیے فلاں فلاں ریسٹورینٹ۔ اور مساج کے لیے فلاں فلاں سنٹر۔ اور دیکھو، آرچرڈ روڈ سے کچھ مت خریدنا، اور نہ ہی اپنے ہوٹل کےمساج سنٹر سے مساج کروانا، یہ دونوں جگہیں مہنگی ہیں۔ فلاں اسٹریٹ سے بچنا، وہاں رات گیے وہ لوگ اپنا بازار لگاتے ہیں جو ہیوں میں نہ شیوں میں۔
ایک صاحب کہنے لگے، ‘‘ سنگاپور سے مساج ضرور کرواکے آنا’’ ۔‘‘ اور دیکھو! ’’ انھوں نے تاکیداً کہا، ‘‘ واپسی پر جھوٹ نہ کہنا کہ مساج کروا آئے ہو۔ مجھے اسکے تمام لوازمات معلوم ہیں۔ ’’
بھاگے بھاگے ایک اور دوست کے پاس پہنچے اور ‘‘ مساج کے لوازمات ’’ معلوم کیے، تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔
بڑی ردّ و قدح کے بعد، جس زاد سفر کا اہتمام کیا وہ یہ تھا۔ دوستوں کے مشوروں کا سوٹ کیس وزن بیس کلو اور ساتھ سفری بیگ میں کچھ کپڑے وغیرہ۔
ضروری کارروایئوں کے بعد پروانہ اور پرِ پرواز ہمیں عطا کردیے گئے۔ اور یوں ہم اسلام آباد سے سنگاپور کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔ راستہ میں ایک کالی بلی راستہ کاٹ گئی تو ہم نے اس نحوست کے تدارک کے لیے پہلے پشاور جانے کا فیصلہ کرلیا۔ یوں بھی خالہ خالو ہمارے قریب ترین رشتہ دار تھے۔( یہاں ہمارا مقصداسلام آباد میں رہتے ہوئے مکانی فاصلہ کی قربت ہے)۔
پشاور پہنچے تو خالہ اور خالو ہمیں دیکھ کر کھل اٹھے۔ یہ آج سے کوئی بیس بائیس برس اُدھر، اُن دنوں کا ذکر ہے جب آتش بھی جوان تھا اور ہم بھی۔پہلی پہلی نوکری ملی تھی اور اس سلسلے میں ہم اسلام آباد میں ، اپنے گھر، کراچی اوراپنے خاندان سے دور کالے پانی کی سزا کاٹ رہے تھے۔راول جھیل کے اسی کالے پانی میں اپنی گاڑی دھونےکے لیے کبھی کبھی جایا کرتے۔ خیر صاحب خالہ خالو نے دیکھا، حال چال دریافت کیے، تو ہم پھٹ پڑے۔ فوراً اگل دیا کہ ہم سنگاپور جارہے ہیں۔ خالو نے حیران ہوکر ہمیں دیکھا اور پھر ہمارے زادِ سفر کی جانب نگاہ کی ،کہنے لگے۔‘‘ اور میاں۔ تمہارا باقی سامان کہاں ہے۔’’ ہم ہنس دیے ، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ ہمیں۔ مشوروں کے اس سوٹ کیس کے بارے میں انھیں کیسے بتلاتے۔ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے تو کیا، البتہ سنگاپور کی بے پردہ بیبیوں کے نام آتے تھے، اور پھر یہ مشورے قابلِ گردن زدنی تو نہیں البتہ قابلِ گرفت ضرور تھے، اور ان پر‘‘ صرف بالغان کے لیے’’ کا ٹیگ لگانا پڑاتھا، اور اس محفل میں ان کا تذکرہ مخرّبِ اخلاق ضرور گردانا جاتا۔
خیر صاحب، خالو جان ہمارے اس مختصر زادِ راہ کو دیکھ کر باغ باغ ہوگئے۔کہنے لگے، ‘‘ اور ایک ہماری بیٹی صاحبہ ہیں، کہ وہ جب دوہفتوں کے لیے آسٹریلیا گئیں تو تین سوٹ کیس ان کے ساتھ گئے اور پانچ سوٹ کیس واپس آئے۔’’
کراچی پہنچے تو کراچی ائر پورٹ پر ہمارے ساتھ دو حادثے پیش آئے۔ دوستوں کے مشوروں کا سوٹ کیس اور پیمانہٗ صبر، دونوں ہی کھوئے گئے اور
چودھری صاحب ہمارے ہم سفر بنا دئیے گئے۔
کراچی پہنچ کر ایک دن کا آرام ملا تو کشاں کشاں گھر پہنچے اور گھر والوں کو یہ مژدہ جاں فزائ سنایا کہ ہم سنگاپور جارہے ہیں۔ گھر والوں نے دعا دی۔
‘‘ شکر ہے کہ اب تمہیں سنگاپور کی نوکری ملی۔ جس طرح پیٹھ دکھاتے ہو اسی چہرہ بھی دکھائو’’۔
‘‘چہرہ تو ہم تین ہفتے بعد ہی دکھا دیں گے۔ تین ہفتے کا تربیتی کورس ہے سنگاپور میں، کوئی مستقل نوکری تو نہیں۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو وہاں کوئی مستقل نوکری تھوڑا ہی تھی، چند ہفتے کی تربیت بھگتا کر واپس لوٹے تھے۔’’
بہرحال یہ خوشخبری بھی اپنی جگہ خوب تھی۔ سنگاپور کا تین ہفتے کا سفر۔ سب خوش ہوئے اور اگلے روز خوشی خوشی ہمیں رخصت کیا۔ہمارے سنگاپور کے سفر کے لیے کمپنی کی جانب سے تھائی ائر کی فلائیٹ پہلے ہی سے بک تھی۔جہاز پر پہنچے تو اندازہ ہوا کہ اک غولِ بیابانی ہے جو ہمیں اڑائے لیے چلا ہے۔ ذکر ان پری وشوں کا اور پھر بیاں اپنا۔ کیا کیا بتایئں اور کہاں تک سنائیں۔ ہم اور چودھری صاحب اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے ان پری وشوں کی بلائیں لیا کیے۔جانے کب جہاز اڑا اور جانے کب بنکاک ائر پورٹ پر پہنچ گیا۔ ہمیں خبر ہی نہ ہوئی۔
ائر پورٹ پر امیگریشن کاونٹر سے فارغ ہوئے تو رات کے ڈیڑھ بج رہے تھے۔ اب اگلی دوپہر دو بجے تک کے لیے ہم فارغ تھے۔ فوراً انفارمیشن سے رجوع کیا اور ان کے مشورے سے رات کے لیے ایک ہوٹل پسند کرلیا اور وہیں پر اگلے دن صبح ایک عدد ٹوور کا انتظام بھی کرلیا۔ٹیکسی پکڑکر ہوٹل پہنچے، اور کمرے میں جاکر اگلی صبح تک یوں انٹا غفیل ہوئے کہ اگلی صبح ناشتے کے لیے بڑی مشکل سے آنکھ کھلی۔ فوراً تیار ہوکر لاونج میں پہنچے، ناشتے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ہمیں ٹوور گائڈ کی آمد کی اطلاع دی گئی۔ ٹوور گائڈ کو دیکھا تو باچھیں کھل گئیں، یہ ایک خوبصورت سی خاتون تھیں۔ ان خوبصورت خاتون کی معیت میں تو ہم کہیں بھی جانے کے لیے تیار ہوجاتے، یہ تو پھر بھی بنکاک کے مشہور بدھ عبادت گاہوں کا ٹوور تھا۔ آج سے کم و بیش بیس سال پہلے کا بنکاک ویسے تو یوں بھی بہت خوبصورت تھا، لیکن ان خوبصورت عبادت گاہوں نے تو اسے چار چاند لگا دیے تھے۔ ان تین گھنٹوں میں ہم نے چار عبادت گاہوں کا دورہ کیا جن میں گولڈن ٹمپل اور ٹمپل آف ریکلائیننگ بدھا بہت خوب تھے۔ بدھا کے یہ سنہری مجسمے جو ان عبادت گاہوں میں تھے، بہت بلند و بالا تھے لیکن ہم ان کا موازنہ لاہور میوزیم میں رکھے ہوئے اس مجسمے سے کر رہے تھے جس میں بدھا کو درخت کے ینچے تپسیا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ چھوٹا سا مجسمہ اپنی خوبصورتی اور صناعی کا یقیناً ایک اعلی نمونہ ہے، اور بنکاک کے ان عبادت گاہوں میں بنائے ہوئے یہ عالی شان مجسمے اس کے سامنے ہیچ تھے۔ادھر چھوٹے چھوٹے مجسموں کی شکل میں بدھا کی زندگی کے حالات بھی منقش کیے گیے تھے۔ ایک طرف تو انسانی کاری گری کے یہ اعلیٰ نمو نے تھے اور دوسری طرف انسان تھے جو اپنے ہی بنائے ہوئے ان مجسموں کی عبادت کررہے تھے۔ کتنا بڑا ظلم تھا اس انسان کے ساتھ ، جو انھیں انسانیت سکھانے اور اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیےان کے پاس آیا اور ان ظالم لوگوں نے اس کی ہی پوجا شروع کردی۔
ظلم کی اس داستان میں جو ظلم ہمارے ساتھ ہوا وہ بھی ساتھ ساتھ بیان کرتے چلیں۔ جب ہم سنگاپور کا سفر ختم کرکے واپس پاکستان پہنچے اور یار دوستوں نے اس سفر کا حال دریافت کیا اورسن کر اس پر ترصبے کیے تو ہمیں حقیقتِ حال کا ادراک ہوا۔دراصل کمپنی والے نوجوان لوگوں کی خواہشات کے عین مطابق انھیں بنکاک میں ایک دن کا حضر عطا فرمایا کرتے تھے، تاکہ نوجوان اپنے دل کی تسلی کرلیں۔ ہم اور آگے بڑھے اور اس ہوٹل کا تذکرہ کیا جہاں پر ہم نے رات قیام کیا تھا، تو سننے والوں نے سر پیٹ لیا۔ یہی تو وہ علاقہ تھا جہاں پر ہم کچھ ‘دل پشوری ’کر سکتے تھے۔
خیر صاحب، ولے بخیر گزشت۔ بنکاک کی سیر سے فارغ ہوئے تو فوراً ہوٹل کا حساب بیباق کیا اور ائر پورٹ کی جانب دوڑ لگائی تاکہ سنگاپورکی جانب عازمِ سفر ہوسکیں۔ باقی سفر جو نسبتاً مختصر تھا آرام سے گزر گیا اور ہم سنگاپور ائر پورٹ پر اتر گئے۔ ائر پورٹ پر پاسپورٹ اور امیگریشن کی لائن میں لگے ہوئے نہایت انہماک سے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے کہ اچانک ایک باوردی آفیسر نے ہمیں لائن سے علیحدہ ہونے کا اشارہ کیا اور اپنے ساتھ لے کر ایک جانب کو چل دیا۔ ہم حیران تھے کہ یا الٰہی یہ ماجرہ کیا ہے، کیوں اس آفیسر نے ہمیں ساتھ لے لیا ہے۔ ابھی ہم اس سے پوچھنے کے لیے اپنی انگریزی کو آواز دے ہی رہے تھے کہ وہ ہمیں لے کر ایک چھوٹے سے کمرے میں داخل ہوا ۔ سامنے ایک اور آفیسر کے سامنے ایک پٹھان بھائی بیٹھے تھے، یہ بھائی صاحب پشتو اور ٹوٹی پھوٹی اردو کے علاوہ اور کچھ نہ جانتے تھے اور یہاں سنگاپور میں کپڑا خریدنے آئے تھے۔۔ ہم نے فوراً مترجم کے فرائض سنبھال لیے اور ان حضرت سے ان کے بارے میں پوچھ پوچھ کر آفیسر حضرات کو بتانے لگے۔ یہ مسئلہ حل ہوا تو ہم پھر اپنی لائن میں جاکر لگ گئے اور اس طرح سنگاپور کا ایک ماہ کا ویزہ لگواکر ہی دم لیا۔ ادھر چودھری صاحب ہم سے پہلے ہی فارغ ہوکر ہمارا انتظار کررہے تھے۔ ہمارے فارغ ہونے پر وہ بھی ہمارے ساتھ چل پڑے ، ہم دونوں نے اپنا سامان سنبھالا اور ٹیکسی کی لائن میں کھڑے ہوگئے۔ نہایت اعلیٰ درجے کی گاڑیوں کو ٹیکسی کے طور پر کھڑے دیکھ کر ہمارا ماتھا ٹھنکا۔ کہیں ہم وی وی آئی پی یعنی کوئی بہت ہی اعلیٰ شخصیت تو نہیں ہوگئے؟ اپنے بازو پر زور سے چٹکی لی تو درد کی شدید لہر اور ‘سی’ کی اپنی ہی آواز نے ہمیں جتلا دیا کہ ہم خواب نہیں دیکھ رہے ہیں بلکہ سنگاپور کی ٹیکسی میں سفر کیا چاہتے ہیں۔ ہم نے اپنی اُسی افلاطونی انگریزی کو آواز دی جس کے ذریعے ابھی ابھی ہم ایک معرکہِ عظیم طے کرکے آرہے تھے اور بھائو تائو کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ خدا جانے یہ ٹیکسی ڈرائیور ہمارے ہوٹل کی جانب جانا چاہتا ہو یا اس کا ارادہ کسی اور جانب کا ہے؟ کیا جانیے وہ منھ پھاڑ کر کتنے پیسے مانگے؟ کیا ہمیں کوئی سستی ٹیکسی مل سکتی ہے؟ ہم ابھی اسی ادھیڑ بُن میں تھے کہ ٹیکسی ڈرائیور نے بھائو کیا اور نہ تائو، بلکہ یوں کہیے کہ آئو دیکھا نہ تائو اور نہایت ادب سے ہمارا سامان ڈِگی میں رکھا ، ہمیں گاڑی میں بٹھایا اور میٹر پرلگے ایک بٹن کو دبا کر چلنے کے لیے تیار ہوگیا۔
اور صاحبو! یوں ہم ‘ اپر بوکے تیما روڈ’ پر واقع ‘ نووٹیل آرکڈ اِن’ نامی ایک نہایت عالیشان ہوٹل میں پدھارے۔بکنگ کلرک مصروف تھا۔ اس نے نہایت ادب سے ہمیں ایک میز کی جانب بلایا اور ہمیں بٹھا کر ایک سنگاپوری حور کو آواز دی، وہ حسن کی دیوی فوراً ہماری جانب لپکی اور اپنی ایک ٹانگ لبادے سےنکال، کاغذ پینسل سنبھال ، ہمارا آرڈر لینے کے لیے تیار ہوگئی۔ ہم نے کنکھیوں سے اس شمشیرِ برہنہ کی جانب دیکھتے ہوئے اک شانِ بے نیازی کے ساتھ آرینج جوس کا حکم صادر فرمایا۔ چودھری صاحب نے بھی کنکھیوں سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے ‘وہی وہی’ کی آواز نکالی۔ حسنِ بے پروا نے فوراً اپنے کاغذ پر کچھ لکھا اور اسے لپیٹتی ہوئی آگے چلدی۔ ہم یوں چونکے گویا ابھی ابھی ہماری آنکھ کھلی ہو۔ ہم نے چونک کر چاروں جانب دیکھا۔ ہمارے اطراف رنگ و نور کی اک عجیب دنیا پھیلی ہوئی تھی۔ تو یہ سنگاپور ہے، ہم نے ترنگ میں آکر سوچا۔
ہم نے آرینج جوس کے ہلکے ہلکے گھونٹ لیتے ہوئے چیک اِن کیا اور اپنےاپنے کمرے میں جاکر ڈھیر ہوگئے۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ بعد جب ہوش ٹھکانے لگے اور رات کی بے آرامی کا کچھ مداوا ہوا تو دوپہر کے کھانے کا خیال دل کو ستانے لگا۔ ہوٹل کا کھانا بہت مہنگا پڑتا لہٰذا دونوں دوست ہوٹل سے نکلے اور کسی سستے ریسٹورینٹ کی تلاش شروع کی۔ دور دور تک ایسے کسی ریسٹورینٹ کا پتہ نہ چلا تو تھک ہار کر واپس ہوئے ہی تھے کہ ایک اسٹور پر نظر پڑی۔ چودھری صاحب نے مسکرا کر ہمیں معنی خیز نظروں سے دیکھا گویا کہہ رہے ہوں، ‘‘ اب دیکھو ! میں کیا کرتا ہوں۔’’، ایک عدد ڈبل روٹی خریدی اور ہمیں لیے ہوئے اپنے کمرے کی جانب آگئے۔ کمرے میں پہنچ کر دروازہ لاک کیا اور اپنے سوٹ کیس میں سے ایک عدد بجلی کی ہیٹنگ راڈ برآمد کی، اسے قریب ترین بجلی کے ساکٹ میں لگا کر اس کا سرا ایک پانی کے برتن میں ڈال دیا ۔ پانی گرم ہونا شروع ہوا، اتنے میں انھوں نے اپنے سوٹ کیس سے‘ احمد’ کا کوفتوں کے سالن کا سربند کین نکالا، اسے پانی میں رکھ کر خوب گرم کیا اور اسے کھول کر پلیٹ میں ڈال دیا۔ اس طرح ہم نے اس دوپہر اپنی بھوک مٹائی اور سیر کے لیے نکل پڑے۔ آج اتوار تھا اور ہم نے سن رکھا تھا کہ سنگاپور میں ایک جگہ ‘ لٹل انڈیا’ نامی بھی ہے جہاں ہندوستانی کھانوں کے سستے ریسٹورینٹ موجود ہیں نیز یہ کہ وہاں پر دکانیں اتوار کے دن بھی کھلی رہتی ہیں۔
بس کے ذریعے سرنگون روڈ کے اسٹاپ پر اترے تو کچھ اور ہی سماں تھا۔ ہر طرف سجی سجائی ہندوستانی طرز کی دکانیں موجود تھیں جن میں قسم قسم کی ہندوستانی اشیائ فروخت کے لیے موجود تھیں ۔کہیں زرق برق بھڑکیلی ، بنارسی ہندوستانی ساڑھیاں اور دیگر ہندوستانی کپڑے ، کہیں سونے اور چاندی کے جڑائو زیور۔کہیں ہندوستانی موسیقی پر مبنی کیسٹ اور سی ڈیاں ۔ اور ان دکانوں کے درمیان خالص ہندوستانی کھانے سرو کرتے ریسٹورینٹ۔کہیں روا ڈوسا اور مسالہ ڈوسا، کہیں اڈلی وڑہ، کہیں تھالی ریسٹورینٹ ، جہاں پر آپکی پسند کے مطابق اسٹیل کی تھالی میں یا کیلے کے پتے پر کھانا دیا جاتا ہے۔کہیں صرف ویجیٹیرین یعنی سبزیوں والے کھانے ، کہیں بسم اللہ بریانی ۔کہیں ہندوستانی مٹھائیاں۔چوک سے چلنا شروع کیا تو ایک جگہ ‘مصطفےٰ اینڈ شمس الدین کی دکان نظر آئی۔ یہ ان کی سب سے پرانی دکان ہے۔ نظارہ کرتے چلے تو لطف آگیا۔ یوں تو اس سڑک کا نام سرنگون روڈہے لیکن اطراف میں چونکہ ہر طرف ہندوستانی آباد ہیں اور ان ہی کی دکانیں نظر آتی ہیں ، لہٰذا اسے لٹل انڈیا یعنی‘ چھوٹا ہندوستان’ کہا جاتا ہے۔ یہ بازار یونہی پھیلتا ہوا اگلے چوک تک پہنچتا ہے جہاں پر اُس زمانے میں سرنگون پلازہ میں مصطفےٰ اینڈ شمس الدین کا بڑا اسٹور ہوتا تھا، اب اس جگہ، اس سے بھی بڑا مصطفےٰ سنٹر ہے۔مصطفےٰ سنٹر اب ایک بہت بڑا ملٹی اسٹوری ڈیپارٹمنٹل اسٹور ہے جہاں ضروریاتِ زندگی کی تقریباً ہر چیز ملتی ہے۔آجکل، جب سے زمین دوز ٹرین ( جسے مقامی لوگ ایم آر ٹی یعنی ماس ریپڈ ٹرانزٹ کہتے ہیں) چلی ہے اس کے دو اسٹیشن سرنگون روڈ پر ہیں۔ ایک بکے تیما روڈ اور سرنگون روڈ کے سنگم پر اور دوسرا مصطفےٰ سنٹر سے صرف چند قدم کے فاصلے پر۔سرنگون روڈ پر چلتے ہوئے راستے میں ایک ہندو مندر اور مصطفےٰ سنٹر کے عین سامنے انگولیا مسجد واقع ہے ،بھی نظر آتے ہیں۔ اتوار کو تو یوں لگتا ہے گویا سڑک پر ایک جلوس چل رہا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان سے آنے والے زیادہ تر اسی علاقے میں پہنچ کر کھانا کھاتے ہیں اور اپنی زیادہ تر خریداری یہیں سے کرتے ہیں۔ بسم اللہ ریسٹورینٹ میں ایک بزرگ ویٹر کے طور پر کام کرتے ہیں ، ان سے گفتگو کی تو پتہ چلا کہ ‘مصطفےٰ بھائی’ ہندوستان سے آئے تو شروع میں ایک ٹھیلا لگاتے تھے، ایک صاحب اپنی دکان بیچ کر ہندوستان جارہے تھے۔ مصطفےٰ بھائی نے ان سے دکان خرید لی۔ اللہ نے برکت دی اور کاروبار اتنا بڑھا کہ اب ماشائ اللہ مصطفےٰ سنٹر چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے اور روزآنہ ہزاروں خریدار خریداری کے لیے آتے ہیں اور لاکھوں کی خریداری کرتے ہیں۔
وہیں سے کٹ مارا اور سیدھے ہاتھ کی طرف ہولیے۔ چلتے چلتے راستے میں عرب اسٹریٹ نظر آئی، دیکھ کر دل خوش ہوا ، وہیں سے نظر گھمائی تو دل پہلو میں رکتا ہوا سا محسوس ہوا۔ نظروں کے سامنے ایک انتہائی خوبصورت مسجد موجود تھی۔ تیز تیز چلتے ہوئے اس مسجد تک پہنچے۔ اس خوبصوت اورعالی شان مسجد کا نام ‘‘ مجدی سلطان’’ ہے۔مسجد باہر سے جتنی خوبصورت نظر آتی ہے، اندر سے بھی اتنی ہی خوبصورت ہے۔ اندر جاکر دو رکعت نمازِ عصر قصر پڑھی، کچھ تصویریں اندر باہر سے کھینچیں اور پھر عرب اسٹریٹ پر نظر کی تو یہاں کئی ملائین مسلم ریسٹورینٹ دکھائی دیئے جو انڈا پراٹھا قسم کی کوئی چیز بنا رہے تھے۔ اس ڈش کا نام مرطباق ہے۔ چائے کے ساتھ مرطباق کھایا۔ بہت لذیذ تھا۔ واپس اسی راستے سے لوٹے اور سرنگون روڈ پہنچے اور دیر تک وہاں ٹہل لگاتے رہے۔
راستے میں ایک جگہ ایک ریسٹورینٹ پر‘‘ عظمی ہوٹل’’ لکھا ہوا دیکھا تو قسمت آزمانے کا خیال آیا۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو وہاں پر کسی بھی ریسٹورینٹ میں کھانا کھانے سے پہلے حلال وغیرہ سے متعلق پوچھ لیا کرتے تھے۔ یہاں بھی خیال آیا کہ پہلے دل کی تسلی کرلی جائے اس لیے اسی عظمی ہوٹل کے کاونٹر پر جاکر ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا یہاں حلال کھانا ملتا ہے۔ کرتا پائجامہ میں ملبوس ایک مولانا کاونٹر پر کھڑے تھے، برا مان کر بولے۔
‘‘عظمی ہوٹل نام ہے، سب کام کرنے والے یہاں مسلمان ہیں اور یہاں پر ہر کھانا حلال ہے۔’’
دل کو تسلی ہوئی تو ہم نے رات کا کھانا وہیں سے کھایا اور بس میں بیٹھ کر ہوٹل واپس لوٹ گئے۔ دروازے سے اندر آتے ہی کئی کارڈوں پر نظر پڑی جو دروازے کے نیچے سے کمرے میں ڈالے گئے تھے۔ یہ کارڈ مختلف مساج سنٹرز سے متعلق تھے۔ انھیں ردی کی ٹوکری میں ڈالا اور کمرے میں ادھر ادھر نظر ڈالی۔ کمرے میں موجود ریفریجریٹر کے قریب بجلی کی کیتلی اور ساتھ ہی ایک طشت میں دو عدد چائے اور دو عدد کافی کا انتظام تھا جو ہوٹل کی جانب سے مفت تھا۔ مزے سے چائے بنا کر پی ، آنے والے کل کی تیاری کرکے بستر پر لیٹ گئے اور ٹیلیویژن سے دل بہلانے لگے۔ چیک اِن کے ساتھ ہی کمپنی کی جانب سے ایک خط ہمیں مل چکا تھا کہ اگلے روز ایک بس ہمیں ہوٹل کی لابی سے لیکر ٹریننگ سنٹر تک لیجائے گی، لہٰذا اس طرف سے اطمینان تھا۔ سفر کی تھکن اب تک محسوس ہورہی تھی اس لیے لیٹے تو اگلے ہی لمحے گہری نیند نے ہمیں آدبوچا۔جانے کب تک سوتے رہے۔ اچانک ٹیلومین کی مسلسل گھنٹی کی آواز سے بیدار ہوئے۔ کچھ دیر تک تو سمجھ ہی میں نہ آیا کہ ہم کہاں ہیں اور اس وقت کے بجے ہیں۔ حواس باختہ سے لیٹے رہے۔ بارے کچھ سکون ملا تو رسیور اٹھا کر ‘‘ ہیلو!’’ کہا۔
کسی خاتون کی میٹھی سی آواز سنائی دی۔وہ انگریزی میں کچھ کہہ رہی تھیں۔ آپ نے ہمیں بلایا؟
ہمارے حواس دوبارہ گم ہوگئے۔ بڑی مشکل سے انھیں پھر سے مجتمع کیا اور نہایت تلخ لہجے میں جواب دیا۔ جی نہیں۔ ہم نے آپ کو کال کیا نہ بلایا۔ اور رسیور کریڈل پر پٹخ کر دوبارہ سونے کی کوشش کرنے لگے۔ پھر اٹھے، حوائج ضروریہ سے فارغ ہوکر ٹیلیویژن کو بند کیا۔ لائٹ بند کی اور کافی دیر تک دھڑکتے دل کو سنبھالنے کی کوشش کرتے رہے۔
 
جیون میں ایک بار آنا سنگاپور۔ قسط نمبر ۲

سنگا پور کے شب و روز
محمد خلیل الرحمٰن​
اگلی صبح جب ہم نہا دھوکر تیار ہوچکے تو ہوٹل کے ریسٹورینٹ میں ناشتے کے لیے پہنچے۔ چودھری صاحب بھی ابھی کچھ ہی دیر پہلے پہنچے تھے۔ ہم دونوں نے ایک اچھی سے میز تلاش کی جہاں سے ہر طرف نظر رکھ سکتے، اور اس پر براجمان ہوکر دہن و نظر کا ناشتہ شروع کیا۔ لذتِ کام و دہن کے ساتھ ساتھ لذت ذہن و نظر کا بھی وافر مقدار میں انتظام ہو تو کیا کہنے ۔ہوٹل دنیاء بھر کے سیاحوں سے بھرا ہوا تھا۔ پاکستان سے باہر کی حوریں اعضا ء کی فی البدیہہ شاعری میں درجہء کمال کو پہنچی ہوئی ہوتی ہیں۔ان کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، ہنسنا بولنا سب شاعرانہ انداز میں ہوتا ہے۔ھائے! نہ ہوئے ہم نقاد، ورنہ کیسے کیسے بخیے اُدھیڑ تے۔ اِدھر چودھری صاحب نے ہمیں ایک فارمولے سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ چونکہ ناشتہ ہوٹل کی جانب سے فری ہے اور ساتھ ہی یہاں پر حلال اشیا ( صرف ناشتے کے لیے) وافر مقدار میں موجود ہیں لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ڈٹ کر ناشتہ کریں ، خدا جانے دوپہر کے کھانے کے لیے کچھ میسر آئے نہ آئے۔ تجویز چونکہ معقول تھی اس لیے ہم نے جلدی جلدی ہاتھ صاف کرنا شروع کردیا، لیکن دو انڈوں کے آملیٹ کے ساتھ ڈبل روٹی کے صرف دو ہی سلائیس کھا سکے البتہ آرینج جوس کے ساتھ خوب دشمنی نبھائی اور کئی گلاس بغیر ڈکار لیے ہضم کرگئے۔ ادھر چودھری صاحب بات کے پکے نکلے اور انھوں نے ناشتے کے لیے موجود تمام اشیاءکے ساتھ خوب انصاف کیا۔
دورانِ ناشتہ وہ ترنگ میں آکر کچھ اور کھُلے اور بتایا کہ کل رات انھوں نے ایک مساج سنٹر فون بھی کھڑکایا تھا اور بھاو تاو وغیرہ کے تمام مراحل بحسن و خوبی سر کرلیے تھے۔ ہم نے انھیں معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے ان سے سوال کیا‘‘ ذرا بتانا تو! اپنے کمرے کا کیا نمبر تم نے انھیں لکھوایا تھا؟’’ اب تو وہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے لہٰذا شرماتے ہوئے اعتراف کیا کہ انھوں نے ہمارے کمرے کا ہی نمبر لکھوا دیا تھا۔البتہ اس بات نے ان کی حیرت اور خوشی کو دوبالا کردیا کہ ان کی فون کال کا نتیجہ اتنی جلد نکل آیا تھا۔ اب انھوں نے راز دارانہ انداز میں ہمیں تاکید کی کہ آئندہ اگر فون آیا تو ہم انھیں بلا لائیں اور ان کی بات کروا دیں۔
ناشتے سے فارغ ہوئے تو پتہ چلا کہ کرائے کی ایک ویگن ہمیں ٹریننگ سینٹر تک چھوڑنے کے لیے تیار کھڑی ہے۔ اور اس طرح ایک نہایت خشک قسم کی تربیت کا آغاز ہوا، جو ہر روز صبح ساڑھے آٹھ بجے سے لے کر سہہ پہر پانچ بجے تک جاری رہتی۔ سوائے اسکے کہ یہی تربیت ہمارے سنگاپور آنے اور اس سفر نامے کے لکھنے کا سبب بنی تھی کوئی اور قابلِ ذکر بات اس میں نہیں تھی جس کا ذکر کرکے ہم اپنے قارئین کو بور کرسکیں۔ہاں البتہ ایک واقعہ ایسا بھی گزرا جس کا ذکر کیے بغیر آگے بڑھ جانا نری زیادتی ہوگی۔ایک دن ہم اپنے ٹریننگ سنٹر میں اپنی معمول کی تربیتی سر گرمیوںمیں مصروف تھے کہ اچانک ہماری تجربہ گاہ میں بہار آگئی۔ ایک خوبصورت سی چینی نژاد سنگاپوری حسینہ اس خشک ماحول میں چودھویں کے چاند کی مانند طلوع ہوئی۔ ہم حیران تھے کہ
یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہوگیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا​
ہم نے مشینوں پر خاک ڈالی اور اِس حسن کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے اُس کے گرد جمع ہوگئے۔ اس حسینہ نے اطمینان کے ساتھ اپنے ہاتھ میں تھاما ہوا چپٹا بکس میز پر رکھ دیا اور اسے کھول کر ہمارے معائنے کے لیے پیش کردیا۔ اس بکس میں قسم قسم کی خوبصورت گھڑیاں موجود تھیں۔ ہم نے گھڑیاں دیکھیں تو میکانیکی انداز میں پیچھے ہٹ گئے۔ یہ گھڑیاں یقیناً قیمتی ہوں گی، اور ہم انھیں خریدنے کی سکت نہ رکھتے تھے۔ چند لمحے ہمیں سنجیدگی کے ساتھ دیکھتے رہنے کے بعد وہ حسینہ ہنس پڑی۔ ہمیں اسکے یکایک ہنسنے کی وجہ تو بعد میں پتہ چلی لیکن اُس وقت اس کے ہنسنے کا یہ انداز بہت پیارا لگا۔ ہم نے بھی جواباً مسکراکے اس کو دیکھا اور منتظر رہے کہ دیکھیں دستِ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ پتہ چلا کہ یہ سب گھڑیاں نقلی تھیں۔ پھر کیا تھا۔ ہم سب ہم جماعت اس قیمتی مجموعے پر ٹوٹ پڑے اور سب دوستوں کی طرح ہم نے بھی دو گھڑیاں مول لے لیں۔ وہاں بھاو، تاو کیا کرتے، جو اس نے کہا مان لیا اور فوراً جیب سے پرس نکال کر مطلوبہ ڈالر اس کے ہاتھ میں تھمادیے۔
دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں آپڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں​
یہ وہ زمانہ تھا جب نقلی گھڑیاں ابھی نئی نئی آئی تھیں، لہٰذا ایک انوکھی شے سمجھ کر ہم خریدلائے اور گھر والوں نے ہاتھوں ہاتھ لیں۔پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو شو کیسوں میں سجی گھڑیوں کو گھنٹوں تکا کرتے لیکن خریدنے کی سکت اپنے اندر نہ پاتے تھے۔اب جو یہ نقلی گھڑیاں ہاتھ آئیں تو گویا وارے نیارے ہوگئے۔ خیر صاحب یہ تھی ہماری ٹریننگ کی داستان۔ شام کو تربیتی مرکز سے نکلتے، سرکاری ویگن ہمیں سیدھے ہوٹل لیجاتی، جہاں پر ہم اپنا بیگ کمرے میں پھینکنے کے بعد فوراً ہوٹل سے باہر نکل جاتے، رات دس گیارہ بجے تک سڑکوں اور شاپنگ سنٹرز کے چکر لگاتےاور جب تھک کر چور ہوجاتے تو واپس ہوٹل کی راہ لیتے۔ ہفتے کے اختتامیے ( ویک اینڈز) ہم نے مشہور سیر گاہوں کی سیر کے لیے مخصوص کردیے تھے۔
سنگا پور استوائی خطے میں واقع ہے لہٰذا اس کی آب و ہوا گرم مرطوب ہے۔بارشیں خوب ہوتی ہیں ۔ دن کا اوسط درجہ حرارت تقریباً تیس درجے سنٹی گریڈ ہوتا ہے۔ہر یا لی خوب ہے۔سال کے بارہ مہینے آپ ایک عدد ٹی شرٹ میں گزارہ کرسکتے ہیں ، بشرطیکہ ہر روز ایک ہی ٹی شرٹ نہ ہو۔یہاں آپ کو گرم کپڑوں کی بالکل ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ہاں البتہ یہاں پر گرمی کی وجہ سے تمام دفاتر ، زیادہ تر شاپنگ سنٹر اور ہوٹل وغیرہ ائر کنڈیشنڈ ہوتے ہیں ، جسے یہاں ائر کون کہا جاتا ہے، کسی بھی بلڈنگ کے اندر آپ کو گرم سوئٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے لہٰذا حفظ، ماتقدم کے طور پر سنگاپور آتے ہوئے ایک عدد سوئٹر ضرور رکھ لینی چاہیے۔
سنگاپور میں کئی قومیتوں اور رنگ و نسل کے لوگ بستے ہیں۔ سب سے زیادہ چینی نژاد ہیں جو آبادی کا تقریباً پچھتر فیصد ہیں۔ باقی پچیس فیصد میں ملایئن، ہندوستانی، پاکستانی، سری لنکن عرب وغیرہ ہیں۔ بڑے مذاہب میں بدھ ازم، ہندومت، اسلام اور عیسائیت ہیں جن کے عبادت خانے بھی نظر آتے ہیں۔ حکومت کا انداز جمہوری ہے لیکن کسی بھی شخص کو دوسرے کے مذہب پر تنقید کا حق نہیں ہے۔ ملک میں سیاحت ایک انڈسٹری کی حیثیت رکھتی ہے۔ سیاحوں کی دلچسپی کی ہر شے وہاں موجود ہے اور سستی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں سیاح سنگاپور آئیں اور زرِ مبادلہ کمایا جاسکے۔ پورا سنگاپور ایک بہترین تفریح گاہ، ایک سیاحتی مرکز اور ایک بہت بڑا اور اعلیٰ درجے کا بازار ہے۔ ابھی حال ہی میں( ۲۰۱۰) سنگاپور کے تفریحی جزیرے سینٹوسا آئی لینڈ میں بھی ایک عدد کسینو بنایا گیا ہے جہاں پر سیاحوں کا داخلہ مفت ہے جبکہ سنگاپوری شہریوں کیلیے داخلہ فیس ہی ایک سو ڈالرہے۔
سنگاپور کا جو انداز سب سے پہلے آنکھوں کو بھاتا ہے وہ یہاں کی صفائی ستھرائی ہے۔ہمیں تو سنگاپور یورپ سے بھی زیادہ صاف و شفاف نظر آیا، جس کی تائید ہمارے جرمن انسٹرکٹر نے بھی کی۔ صاف، شفاف، چمکتی ہوئی سڑکیں ، عمارتیں اور پارک دل کو بھاتے ہیں۔ سنگاپوری شہریوں کے بقول ان کا ملک ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہے، جس پر وہ بجا طور پر فخر کرتے ہیں۔یہاں پر کوڑا کرکٹ پھیلانے پر سخت سزا اور جرمانے کا رواج ہے۔ یہ جرمانہ ۵۰ سے ۵۰۰ ڈالر تک ہوسکتا ہے۔ ہم نے اپنے معاشرے کے متعلق سوچا جہاں پر اس حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہمارا ایمان ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے، لیکن اس صفائی سے مراد ہم گھر کی صفائی لیتے ہیں اور اس کا اطلاق اپنے گھر کی دہلیز سے باہر نہیں کرتے۔ ہمارے گھر سےباہر دراصل ہماری ذمہ داری ہی نہیں ہے بلکہ حکومتِ وقت کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ ہم نے پہلے دن کے اختتام پر اپنی قمیص کی کالر کی حالت دیکھنی چاہی ، وہ بالکل صاف تھی۔ اسی طرح ان تین ہفتوں میں ہمیں اپنے جوتوں پر پالش کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ، وہ اسی طرح چمکتے ہوئے ہی ملے، جس طرح پہلے روز نظر آئے تھے۔اب جب ۲۰۱۰ میں، اتنے سالوں بعد ہم دوبارہ سنگاپور پہنچے تو پتا چلا کہ سگریٹ اور چیونگم پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ دراصل ایم آر ٹی کے چلنے کے بعد ایک مرتبہ سنا کہ کسی نے چیونگم کو چبا کر ٹرین کے آٹو میٹک دروازےمیں چپکا دیا تھا جو دروازہ کھلنے میں تاخیر کا سبب بنا، لہٰذا چیونگم کے خلاف یہ کارروائی عمل میں لائی گئی۔سگریٹ سنگاپور میں بہت مہنگی ہے ، البتہ چنگی ائر پورٹ کے انٹر نیشنل لاونج میں سستی۔ دفتروں، شاپنگ سنٹرز اور بس اسٹاپوں، ریلوے اسٹیشن وغیرہ پر سگریٹ نوشی کی سختی سے ممانعت ہے۔ سگریٹ کے دھویں کو بھی وہ آلودگی تصور کرتے ہیں۔
لاہور سے ہمارے ایک سینئر انجینیر نے ایک صاحب کا نام اور ٹیلیفون نمبر دیا تھا کہ ان سے رابطہ قائم کرکے سلام کہہ دینا۔ ہم نے انھیں کال کیا اور اپنے لاہوری دوست کا سلام و پیغام پہنچایا تو وہ بہت خوش ہوئے اور ہمیں لینے کے لیے ہوٹل آگئے۔ یہ صاحب پاکستانی تھے لیکن ایک سنگاپوری حور پر دل ہار بیٹھے تھے۔ اب اس سے شادی رچا کر گزشتہ سالہا سال سے سنگاپوری شہریت اختیار کرکے یہیں بس گئے تھے۔ اب تو ان کا ایک جوان بیٹا بھی تھا۔ انھوں نے ہمیں اپنے گاڑی میں بٹھایا اور ایک لمبی ڈرائیو پر نکل گئے۔ ہائی وے پر پہنچے اور ہمیں سنگاپور سے متعلق بتاتے ہوئے سنگاپور کی ہوائی سیر کروائی۔ انھوں نے بتایا کہ یہاں کے قوانین بہت سخت ہیں اور غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ان کے بیٹے نے کہیں اپنی یونیورسٹی کےکسی اخبار میں اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کی حمایت میں ایک مضمون لکھ مارا تھا۔ اس کی پاداش میں اسے مسجد کمیٹی کی اپنی رکنیت سے مستعفی ہوجانا پڑا تھا۔ صحیح یا غلط، ان کا مطمحِ نظر یہ تھا کہ کسی کی بھی مخالفت نہیں کرنی چاہے ۔ اس ملٹی ایتھنک ملٹی ریشیل قسم کے ملک کے لیے یہی پالیسی بہتر ہے ورنہ ہر روز کوئی نہ کوئی گروہ جذبات میں آکر اور مشتعل ہوکر ہنگامہ آرائی پر آمادہ ہوسکتا ہے۔اس دنیا میں بہت سی باتیں غلط ہورہی ہیں ، لیکن ان کی وجہ سے ہم جوش میں آکر اپنے ہی سکون کو کیوں غارت کرلیں۔ ان صاحب نے ہمیں گھر لے جاکر چائے وغیرہ پلوائی اور پھر ہوٹل چھوڑ دیا۔
ان دنوں ہم ہوٹل سے باہر نکلتے تو زیادہ تر بس میں سفر کرتے تھے، اس لیے کہ ٹیکسی مہنگی پڑتی تھی اور ایم آر ٹی ابھی بنی نہیں تھی۔ سنگاپور میں آج تک ڈبل ڈیکر بسیں چلتی ہیں۔ ہم بس اسٹاپ پر آکر کھڑے ہوجاتے اور ڈبل ڈیکر کا انتظار کرتے اور جوں ہی ڈبل ڈیکر بس میسر آتی ، فوراً اس میں سوار ہوکر اوپر کی منزل کی جانب لپکتے۔ اوپر جاکر وہاں سے سنگاپور کا نظارہ کرتے تھے، یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے۔ ہمیں اپنے بچپن میں کراچی کی سڑکوں پر چلتی ہوئی ڈبل ڈیکر بسوں کابھی ہلکا سا دھیان ہے۔ہمیں سب ہے یاد ذرا ذرا۔ اسی یاد کو تازہ کرنے کے لیے ہم نے سنگاپور کی ڈبل ڈیکر میں خوب سفر کیا اور خوب مزے لے لے کر کیا۔ اس زمانے میں انڈر گراونڈ ٹرین کی تیاری اور سرنگوں کی تعمیر چپکے چپکے کی جارہی تھی، البتہ کہیں کہیں اس کے اسٹیشن ابر تے ہوئے نظر آتے تھے۔ اس بارے میں مقامی لوگوں سے خاصا سننے کو مل جاتا تھا ۔۱۹۹۵ ء میں جب ہم تیسری بارسنگاپور پہنچے تو یہی انڈرگراونڈ ٹرین بن کر تیار ہوچکی تھی اور اس نے اپنا کام بھی شروع کردیا تھا لیکن ہمیں اسے دیکھنے اور اس میں سفر کرنے کا اتفاق ۲۰۱۰ء میں ہوا ۔
ہم نے سنگاپور پہنچتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ کاغذ پینسل سنبھال کر بیٹھ گئے اور ایک مکمل بجٹ بنا لیا کہ ہمیں جو زرِ مبادلہ دیا گیا تھا، اس میں سے ہمارا اصل حصہ کتنا ہے اور کس قدر رقم ہمیں واپس لوٹا دینی ہے۔ پھر اپنے حصے میں سے ہم نے ہوٹل اور ٹیکسی کا حساب علیحدہ کرلیا تاکہ کھانے کے لیے اپنی ذاتی رقم کا اندازہ ہوسکے۔ ذاتی یوں کہ اسی میں سے ہم کچھ رقم پس انداز کرسکتے تھے اور اپنی ذاتی خریداری کرسکتے تھے۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو اسی طرح ہم نے اپنے کھانے میں سے کافی رقم پس انداز کی تھی اور ایک عدد کمپئیوٹر خریدا تھا۔ یہاں سے بھی ہم نے ایک عدد کمپئیوٹر خریدنے کا پروگرام بنا لیا ۔ سنگاپور میں یوں تو ساری دنیا کی طرح اچھے ریسٹورینٹ کافی مہنگے ہیں لیکن حکومت کی طرف سےیہاں پر جگہ جگہ کھانے کے سستے اسٹال لگائے گئے ہیں۔ جہاں پر درمیان میں ایک مناسب بیٹھنے کی جگہ کا انتظام کیا گیا ہے اور چاروں جانب کھانے کے اسٹال ہیں جہاں سے کھانے والے اپنی مرضی کی اشیاء خرید کر کھاتے ہیں۔ یہاں پر بیرے ( ویٹرز) نہیں ہوتے بلکہ لوگ خود اپنی مدد آپ( سیلف سروس) کے تحت اپنا کھانا خود ہی اپنی میز تک لے آتے ہیں۔ یہ بندوبست فاسٹ فوڈ ریسٹورینٹوں یعنی میکڈانلڈ اور کے ایف سی سے بھی سستا ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ جگہ جگہ انڈین مسلمانوں یا ملاین مسلمانوں کے حلال کھانے کے ڈھابے بھی نظر آجاتے ہیں ۔ اسی طرح ہماری دو عدد ترکیبیں ایسی تھیں جو ہماری بچت میں سراسر اضافے کا باعث تھیں۔ پہلی ڈٹ کر ناشتہ کرنا اور دوسری چودھری صاحب کے لائے ہوئے فوڈ کینز سے فائدہ اٹھانا۔ پہلی ترکیب پر ہم سے زیادہ چودھری صاحب عمل کر پاتے تھے اور دوسری ترکیب پرعمل پیرا ہونے میں ہم چودھری صاحب کے شانہ بشانہ شریک ہوتے تھے۔
ہماری دوسری لسٹ خریداری کی تھی ۔ اس دوسری لسٹ میں سرِ فہرست تو جیسا کہ ہم نے ابھی عرض کیا ایک عدد کلون کمپئیوٹر تھا۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو ایک عدد کموڈور ۶۴ کمپیوٹر مول لے آئے تھے۔ ادھر کچھ ماہ سے آئی بی ایم کلون کمپئیوٹر عام ہوگئے تھے اور سستے ہونے کی وجہ سے عام آدمی کی پہنچ میں تھے۔باقی اشیاء کا دارومدار اس بات پر تھا کہ کمپیوٹر خریدنے کے بعد ہمارے پاس کتنی رقم بچ رہتی ہے۔ اس میں ہمارے اپنے کپڑوں کے علاوہ گھر والوں کے لیے کچھ تحفے تحائف وغیرہ شامل تھے۔ روزآنہ رات کو سونے سے پہلے ہم ان دونوں لسٹوں کو بلا ناغہ اپڈیٹ کرلیتے تھے۔ تاکہ ہر وقت ہمیں اپنی جیب کی حیثیت کا احساس رہے اور ہم اپنے بجٹ سے زیادہ خرچ نہ کرسکیں۔(جاری ہے)
 
جیون میں ایک بار آنا سنگاپور۔ قسط نمبر ۳

جیون میں ایک بار آنا سنگاپور۔ قسط نمبر ۳
چل چل چنبیلی باغ میں
محمد خلیل الرحمٰن​

سنگاپور میں ہماری تربیت جاری رہی اور آخر کار جمعہ کا دن بھی آگیا۔ اس روز ہم الارم بجنے سے کوئی پانچ منٹ پہلے ہی بستر سے اٹھ کھڑے ہوئے اور پطرس بخاری صاحب کی طرح غسل خانے میں دیر تک چل چل چنبیلی باغ میں گاتے رہے۔ آج جمعہ تھا یعنی اب سے کچھ ہی گھنٹے میں ہفتے کا اختتامیہ شروع ہورہا تھا۔ پاکستان میں چونکہ ہفتہ وار چھٹی کا صرف ایک ہی دن معین ہوتا ہے لہٰذا وہاں پر لوگ جمعے کی اہمیت سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو وہاں پر ہم نے یہ رمز جانا تھا۔ جمعہ کی صبح ہی سے وہاں پر لوگوں کی زبان پر ایک ہی جملہ ہوتا ہے۔ ٹی جی آئی ایف۔کلاس روم میں پہنچتے ہی ہم نے بورڈ پرچاک سے ٹی جی آئی ایف لکھ دیا۔ جو لوگ صاحبِ کشف تھے فوراً سمجھ گئے۔ ہمارے انسٹرکٹر صاحب بھی جو جرمن تھے اور’ گو واں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو تھے‘ ، مسکرادیئے ۔ اور بورڈ پر اس کے سامنے پورا جملہ لکھ مارا۔
تھینک گاڈ اِٹس فرائیڈے یعنی اللہ کا شکر ہے آج جمعہ ہے۔​
خیر صاحب! آج ایک گھنٹہ پہلے چھٹی ہونی تھی۔ نہیں بتا سکتے کہ کس طرح انگاروں پر یہ وقت گزارا۔ چھٹی ہوتے ہی ، فائل وغیرہ کو بغل میں داب، ویگن میں آن بیٹھے اور آن کی آن میں ہوٹل پہنچ گئے۔ ابھی سہہ پہر کی دھوپ ڈھلنا شروع ہوئی تھی۔ کمرے میں پہنچے تو آج نوٹ کیا کہ پردے کھنچے ہوئے تھے اور شیشے میں سے سہہ پہر کی تیز روشنی کمرے میں آرہی تھی۔
ہم نے کھڑکی سے نیچے جھانک کر دیکھا تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ ہمارا کمرہ ہوٹل کی دسویں منزل پر تھا اور یہاں سے ہمیں چھٹی منزل پر بنا ہوا سو ئمنگ پول صاف نظر آرہا تھا۔اس وقت اس سوئمنگ پول میں دو عدد جل پریاں دو صورت حرام مردوں کے ساتھ چہلیں لگارہی تھیں۔بقول چچا غالب
جنوں کی دستگیری کس سے ہو، گر ہو نہ عریانی
دل تو چاہا کہ یہیں سے چھلانگ مار کر سوئمنگ پول کے اندر پہنچ جائیں، لیکن کیا کرتے، ہمارے سامان میں سوئمنگ کاسٹیوم نہیں تھا۔ کان پکڑ کر باہر نکال دیے جاتے۔ ہم نے فوراً اپنی خریداری لسٹ میں سوئمنگ کاسٹیوم کا اضافہ کیا اور طنطناتے ہوئے کمرے سے باہر نکل آئے۔ چودھری صاحب کو بتایا تو وہ ابھی اسی وقت سوئمنگ پول کی طرف جانے کے لیے تیار ہوگئے۔ بڑی مشکل سے انھیں راضی کیا کہ بھائی جان آپ تو تیرنا بھی نہیں جانتے۔ کیا آپ پول کے باہر اپنے پورے کپڑوں میں بیٹھے تماشا کرنا چاہیں گے؟ خود بھی تماشا بنیں گے اور ہمیں بھی پول نکالا دلوائیں گے۔
طے پایا کہ آج کا باقی دن کمپیوٹر کی خریداری پر لگایا جائے اور کل بروز ہفتہ ژورونگ برڈ پارک جاکر رنگ برنگے پرندوں سے جی بہلائیں گے۔اس زمانے میں سم لم اسکوائر ابھی نہیں بنا تھا۔ الیکٹرانکس کی تمام اشیاء سم لم ٹاور سے یا پھر کمپیوٹر کی قبیل کی اشیاء نارتھ برج روڈ پر واقع فونان سنٹر سے مل سکتی ہیں۔ پہلے بس میں بیٹھ کر بوکے تیما روڈ اور سرنگوں روڈ کے سنگم پر واقع سم لم ٹاور پہنچے اور مارکیٹ کا جائزہ لیا۔ پھر فونان سنٹر پہنچ کر ایک دکاندار سے بھائو تائو شروع کیا۔
پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو وہاں دکان پر پہنچ کر دکاندار سے کہا تھا کہ ایک کموڈور کمپیوٹر چاہئے اور اس نے شیلف سے ایک عدد سیل بند ڈبہ نکال دیا تھا جسے لے کر خوشی خوشی ہوٹل آگئے تھے۔ یہاں پر جب ہم نے دکاندار سے کہا کہہ ہمیں ایک کمپیوٹر درکار ہے تو وہ پہلے تو حیران ہوکر ہمیں دیکھنے لگا، گویا ہم نے کوئی عجیب بات کہہ دی ہو۔ بولا
’’ کس قسم کا کمپیوٹر چاہیے آپ کو؟‘‘
ہم نے کہا ’’ جیساایک کمپیوٹر ہوتا ہے۔ ویسا ہی چاہیے۔‘‘
بولا’’ کچھ جزیات کی تفصیل ہے آپ کے پاس۔‘‘
ہم نے کہا’’ کمپیوٹر ایک ایسا آلہ ہوتا ہے جو بجلی سے چلتا ہے اور آٹو میٹک ہوتا ہے۔‘‘
وہ ناہنجار اب بھی نہ سمجھا، بولا’’ وہ سب تو مجھے پتہ ہے لیکن آپ کو پروسسر کون سا چاہیے۔ ریم کون سی اور کتنی چاہیے۔ فلاپی ڈسک ڈرائیو کتنی درکار ہیں ۔ مانیٹر کون سا چاہیے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اور بھی بہت سی تفصیل تھی جو ہمیں اب یاد نہیں ہے۔
اس بار ہم اسکی بات نہیں سمجھے۔ لوگوں نے بیچ بچائو کروا دیا اور طے پایا کہ وہ جاہل شخص ہمارے لیے ایک عدد کلون آئی بی ایم پی سی ایکس ٹی بنا دے گا ، جس کی جزیات کی تفصیل اس نے ایک کاغذ پرہمیں لکھ دی تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔ ہم نے اسے پیسوں کی نقد ادائیگی کردی اور مال کے طالب ہوئے، بولا۔’’ کمپیوٹر آپ کو ایک ہفتے بعد ملے گا۔ اس عرصے میں میں اسے آپ کے لیے اسمبل کروں گا اور پورا ہفتہ اپنی دکان پر اسے ٹسٹ کروں گا۔‘‘
ہم نے کہا ’’ یہ عجب کہی تم نے۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو ہاتھ کے ہاتھ دکان سے کمپیوٹر لے آئے تھے۔‘‘
لیکن صاحب ہماری ایک نہ چلی۔ اس ناہنجار نے ہماری باتوں کو سمجھنے سے صاف انکار کردیا اور ہم ناکام و نامراد وہاں سے واپس مڑے، اگلے ہفتے تک انتظار کی کوفت اٹھانے کے لیے۔
خیر صاحب، اس بڑے کام سے فارغ ہوئے تو پھر چائنا ٹاون سیر کی سوجھی۔ نارتھ برج روڈ سے ہوتے ہوئے چائنا ٹاون پہنچے۔ لٹل انڈیا کی طرح چائنا ٹائون کا بھی اپنا ایک نرالا انداز ہے۔ ہر طرف چھوٹی چھوٹی چائنیز دکانیں کھلی ہیں۔ کہیں چائنیز جڑی بوٹیاں بک رہی ہیں تو کہیں چائنیز کھانوں کے اسٹال ہیں۔چائینیز کھانوں کیناقابلِ برداشت بو سے دماغ پکا جاتا ہے۔ دکانوں میں سجاوٹ کا چائنیز سامان بک رہا ہے، اسلئے کہ سنگاپور میں سیاحوں کو متوجہ کرنے کے لیے آئے دن کوئی نہ کوئی تہوار منایا جارہا ہوتا ہے۔ چائنیز نئے سال کے موقعے پر تو چائنا ٹائون کو خاص طور پر سجایا جاتا ہے اور یہ سجاوٹ دیدنی ہوتی ہے۔ ہم چونکہ جولائی میں سنگاپور پہنچے تھے اور اگست میں سنگاپور کا قومی دن منایا جانا طے تھا، لہٰذا آجکل اس تہوار کی خوشی میں سجاوٹ کی جارہی تھی۔ اس زمانے کا ایک مشہور گیت جو ہمیں بہت پسند آیا تھا وہ تھا ‘‘ وی آر سنگاپور’’ یعنی ہم سنگاپور ہیں۔ ہمیں یہ گیت اتنا پسند آیا کہ ہم نے اس گیت پر مشتمل ایک عدد کیسٹ خرید لیا اور وطن واپس پہنچ کر اکثر اسے سنا کرتے اور سنگاپور کی یادیں تازہ کرتے تھے۔
وی آر سنگاپور
سنگاپورینز
سنگاپور آور ہوم لینڈ
اٹس ہیئر دیٹ وی بیلونگ
آل آف اس یونایئٹڈ
ون پیپل مارچنگ آن​
ان انگریزی الفاظ کے لفظی ترجمہ سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ، ان جذبات و احساسات کی ترجمانی کی جائے تو امجد حسین کا گایا ہوا مندرجہ ذیل پاکستانی نغمہ بن جاتا ہے۔
ہم زندہ قوم ہیں
پایئندہ قوم ہیں
ہم سب کی ہے پہچان
ہم سب کا پاکستان، پاکستان، پاکستان
ہم سب کا پاکستان​
چائنا ٹاون میں رات کے وقت چھوٹی چھوٹی دکانوں کا ایک بازار سجتا ہے جو سیاحوں کی خاص دلچسپی کا باعث ہوتا ہے ۔ اس میں چھوٹی بڑی یادگاری چیزیں وغیرہ رکھی ہوتی ہیں اور سستے داموں فروخت کے لیے پیش کی جاتی ہیں ۔رات گئے تک ہم اس بازار میں آوارہ گردی کرتے رہے آخر کار تھک ہار کر ہوٹل پہنچے ۔
ہفتے کے روز صبح سویرے ، یعنی دس بجے ہم اٹھ کھڑے ہوئے اور مفت ناشتہ کو یقینی بناتے ہوئے ساڑھے دس بجے سے پہلےہی ریسٹورینٹ میں داخل ہوگئے۔ اگر پانچ منٹ اور دیر سے اٹھتے تو ہمیں اس کی پاداش میں ناشتے کے لیے کچھ سنگاپوری ڈالر خرچ کرنے پڑ ہی جاتے۔ناشتے کے فوراً بعد ہم نے چودھری صاحب کی معیت میں بس پکڑی اور اپر بوکے تیما روڈ پر شمال کی جانب عازمِ سفر ہوئے۔ سنگاپور باغوں، پارکوں اور تفریح گاہوں کا شہر ہے۔ مشہور باغوں میں زولوجیکل گارڈن، بوٹانیکل گارڈن، چائنیز اور جاپانیز گارڈن ژورونگ برڈ پارک اور جزیرہ سینتوسا شامل ہیں۔ برڈ پارک میں رنگ برنگ کے خوشنما پرندے اپنی شان دکھا رہے ہوتے ہیں۔
برڈ پارک پہنچے تو دیکھا کہ سامنے ہی ایک ٹرینر اپنے سدھائے ہوئے اژدھے کو لیے ہوئے ایک عجیب شو دکھا رہا تھا۔ وہ اپنا اژدھا اطمینان کے ساتھ سیاح کے گلے میں ڈال دیتا اور اس کی تصویریں کھینچ کر اس سے پیسے وصول کرلیتا۔ بہادر تو ہم بچپن سےہی ہیں، اس دن اپنی بہادری کو آزمانے کا خیال آیا تو خم ٹھونک کر اژدھے والے کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ اس ناہنجار نے بھی آئو دیکھا نہ تائو ، اور اپنا خوفناک اژدھا اٹھا کر ہمارے گلے میں ڈال دیا۔ یہ شاید ہماری زندگی کا بد ترین دن تھا۔ واہ میاں یہ بھی خوب رہی ۔ بلی کی بلا طویلے کر سر۔ ہمیں تو اس وقت صحیح محاورہ تک یاد نہیں آرہا تھا۔ خدا جانے کتنے گھنٹے وہ بلا ہمارے گلے سے لپٹی رہی اور وہ ناہنجار سپیرا مختلف پوز بنا بنا کر ہماری تصویریں کھینچتا رہا۔ادھر چودھری صاحب بھی مختلف زاویوں سے ہمیں دیکھ دیکھ کر ہماری اس بے بسی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔جل تو جلال تو، آئی بلا کو ٹال تو۔ہمیں جتنی دعائیں یاد تھیں ، ہم نے وہ سب دل ہی دل میں دہرانا شروع کردیں۔ آخر کار خدا خدا کرکے اس مصیبت سے نجات ملی اور سپیرے نے اس خظرناک ترین اژدھے کو ہمارے گلے سے نکالا تو ہم نے یوں زندہ بچ جانے پر اللہ رب العزت کا شکر ادا کیا ، جوں توں کرکے کانپتے ہاتھوں سے اپنا پرس نکالا اور منہ مانگے ڈالر اس موذی کی نظر کیے۔ ڈر یہ تھا کہ کہیں وہ دوبارہ اس اژدھے کو ہمارے گلے نہ منڈھ دے۔ اب چودھری صاحب کی باری تھی لیکن وہ اس مشکل صورتِ حال میں پھنسنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہوئے اور بھاگ کر سپیرے کی پہنچ سے دور جاکھڑے ہوئے۔
آگے بڑھے تو شہباز کے شو کا وقت ہوچلا تھا۔ ایک کھلی جگہ پر لوگ شہباز کے ٹرینر کو گھیرے کھڑے تھے۔ اس نے لوگوں کو دور ایک اونچے درخت کی سب سے اونچی ٹہنی پر بنا یا ہوا شہباز کا بسیرا دکھایا اور اعلان کیا کہ شہباز اس کی آواز پر لپکتا ہوا اس کے پاس آئے گا اور اس کے ہاتھ سے گوشت کی بوٹی لے جائے گا۔ اور یوں ہی ہوا۔ وقتِ مقررہ پر شہباز کے گھر کا دروازہ کھولا گیا، ٹرینر نے اسے پکارا اور وہ ایک اونچی اڑان لے کر جھپٹتا ہوا آیا اور ٹرینر کے ہاتھ سے گوشت کا پارچہ لے اڑا۔ پھر جب وہ اس پارچے کو اطمینان سے کھا چکا تو ایک لمبی اڑان لے کر دوبارہ اپنے ٹرینز کے کندھے پر آبیٹھا اور داد سمیٹی۔ہم نے بھی ارد گرد کھڑے ہوئے لوگوں کے ساتھ مل کر خوب دل کھول کر اس پرندے کو اور اس کے ٹرینر کو سراہا۔ ہمیں علامہ اقبال کا شعر یاد آگیا جو انھوں نے شاید ہمارے سنگاپور کے اس سفر میں شہباز کے اس مظاہرے کے لیے ہی لکھا تھا۔
جھپٹنا، پلٹنا، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ​
سنگاپور آکر نقلی رنگین پرندے تو بہت دیکھے تھے، یہاںپر آکر ہم نے جی بھر کے اصلی رنگین پرندے دیکھے ۔ جب یہاں سے خوب دل بھر گیا تو ہم نے روانگی کا پروگرام بنایا اور وہاں سے نکل کر سیدھے جزیرے کی دوسری جانب ، چائنا ٹاون کے قریب دریائے سنگاپور کے کنارے پہنچے۔ نارتھ برج روڈ اور سائوتھ برج روڈ کے سنگم پر دریا کے اوپر ایک نہایت خوبصورت پل بنایا گیا ہے اور اسی پل کی مناسبت سے ان دونوں سڑکوں کا نام رکھا گیا ہے۔ وہیں سے ہم پیدل چلتے ہوئے اس جگہ پہنچے جہاں پر سر اسٹیمفورڈ ریفلز نے پہلی مرتبہ سنگاپور کی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ یہاں اب حکومت نے سر ریفلز کا ایک قد آدم مجسمہ کھڑا کردیا ہے جو اس واقعے کی یاد دلاتا ہے۔
اب سے سینکڑوں سال پہلے جب علاقے میں ملاکا کی اسلامی سلطنت کا قیام عمل میں لایا گیا اور وہ علاقے کی ایک قابلِ ذکر تجارتی منڈی بن گیا ، تو سنگاپور اس سلطنت کا ایک حصہ بنا ، بالآخر ۱۵۱۱ ء میں ملاکا پرتگیز وں کے ہاتھوں فتح ہوا تو سنگاپور اس کی عملداری سے نکل کر جوہور بھارو کی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ ۱۸۱۹ء میں سر ٹامس اسٹیمفورڈ بنگلے ریفلز نے اس جزیرے پر اتر کر اسے برطانوی عملداری میں دیدیا۔
جنگِ عظیم دوم کے بعد اسے ۱۹۴۹ میں محدود خود مختاری دی گئی۔ پھر جب ۱۹۶۵ ء میں برطانوی حکومت نے اس علاقے کو چھوڑا اور ملائشیا آزاد ہوا تو اسے بھی ملائشیا سے الگ کرکے ایک الگ ریاست کی شکل دیدی گئی۔
یہاں سے چلے تو مرلائن پارک پہنچے جہاں پر سنگاپور دریا کے دہانے پر مر لائن کا ایک مجسمہ نصب کیا گیا ہے جس کا سر شیر کا اور دھڑ مچھلی کا ہے۔ یہ سنگاپور کا قومی نشان ہے۔ کچھ دیر تو ہم اس مجسمے کے منھ سے ابلتے ہوئے پانی کو دیکھتے رہے اور پھر ہوٹل واپسی کا پروگرام بنایا۔
 
جیون میں ایک بار آنا سنگاپور۔ قسط نمبر ۴
ایک بار دیکھا ہے ، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے
محمد خلیل الرحمٰن​
ہم سنگاپور کیا گئے ، ہماری دیکھا دیکھی رجب علی بیگ سرور صاحب بھی ہمارے پیچھے سنگاپور ہولیے اور اس کا سارا حال اپنی کتاب فسانہ عجائب میں لکھنئو اور سرزمینِ ختن کے خیالی شہر، فسحت آباد کے نام سے لکھ مارا۔ لکھتے ہیں:۔
’’ عجب شہرِ گلزار ہے، ہر گلی کوچہ دلچسپ باغ و بہار ہے۔ ہر شخص اپنے طور پر باوضع قطع دار ہے۔ دورویہ بازار کس انداز کا ہے ۔ ہر دکان میں سرمایہ ناز و نیاز کا ہے۔ ہر چند ہر محلے میں جہاں کا ساز و سامان مہیا ہے پر ( ڈائی نے سٹی ہوٹل) سے ( ویسما ایٹریا ، لکی پلازہ) اور (سنگاپورہ پلازہ ) تک، کہ صراطِ مستقیم ہے ، ( اور آرچرڈ روڈ) کہلاتی ہے کیا جلسہ ہے۔ ‘‘
آگے لکھتے ہیں :۔
’’ باشندے یہاں کے ذکی، فہیم، عقل کی تیز اگر دیدہ انصاف اور نظرِ غور سے اس شہر کو دیکھے تو جہان کے دید کی حسرت نہ رہے۔ آنکھ بند کرے(شعر، سرور صاحب سے معذرت کے ساتھ)
سنا! رضواں بھی جس کا خوشہ چیں ہے
وہ (سنگا پور ہی) کی سر زمیں ہے​
آگے ذرا برسات کا حال سنئیے:۔
’’برسات کا اگر موسم ہے، شہر کا یہ عالم ہے، ادھر مینہ برسا، پانی جابجا بہہ گیا، گلی کوچہ صاف رہ گیا، ساون بھادوں میں زردوزی جوتا پہن کر پھرے ، کیچڑ تو کیا مٹی نہ بھرے۔ فصل بہار کی صنعت، پروردگار کی قدرت، رضوان جن کا شائق، دیکھنے کے لائق۔ روز عیش باغ میں تماشے کا میلہ، ہر وقت چین کا جلسہ‘‘ (فسانہ عجائب از رجب علی بیگ سرور)
بھائی ! ہم باز آئے اپنی منظر کشی سے، آئیندہ جب کبھی سنگاپور ی جلوہ حُسن کے متعلق لکھنا ہو تو کہہ دیں گے، دیکھئے فسانہ عجائب، صفحہ فلاں۔
مزید برآں کچھ، اسی قسم کا ظلم ہمارے ساتھ جناب قمر علی عباسی صاحب نے بھی روا رکھا۔ انھوں نے تو ہماری دیکھا دیکھی سنگاپور کا سفر نامہ تک لکھ ڈالا۔ایسا معلوم ہوتا ہے اِن دونوں شخصیات کو علم ہوچکا تھا کہ ہم سنگاپور کا ایک عجائب روزگار سفر نامہ لکھنے والے ہیں۔
ہائے سنگاپور، وائے سنگاپور
بھاڑ میں جائے سنگاپور​
سنگاپور جو سرزمینِ ماوراء الہند یعنی شرق الہند میں ملائشیاء کے جنوب میں ایک جزیرہ ہے، ۱ ڈگری ۲۰ منٹ شمال طول البلد اور ۱۰۳ ڈگری ۵۰ منٹ عرض البلد مشرق میں واقع ہے اور خط استوا سے کوئی ۱۳۷ کلو میٹر کے فاصلے پر آبنائے ملاکا کے دہانے پر ہونے کی وجہ سے مشرق و مغرب کے درمیان ایک اہم بندرگاہ ہے۔ اس کا نام سنگاپور کیسے پڑا ، اس کے بارے میں بھی ایک لوک داستان بہت مشہور ہے۔ کہتے ہیں کہ اس علاقے کے ایک شہزادے کا دل ایک جل پری پر آگیا اور اس نے اس جل پری سے شادی رچالی اور ہنسی خوشی رہنے لگا۔ اس کے تین بیٹے ہوئے جو جوانمردی اور بہادری میں اپنی مثال آپ تھے۔ منجھلے بیٹے نیلا اُتّم نے ایک دن سمندر پار ایک جزیرے کو دیکھا تو اس کی جستجو میں ایک بحری جہاز لے کر نکلا۔ سمندر میں طوفان آگیا اور اس کا جہاز ڈوبنے لگا ۔ شہزادے نے بڑی مشکل سے جان بچائی اور کنارے پہنچا۔ یہاں پہنچتے ہی اس نے ایک عجیب جانور دیکھا جودرحقیقت ایک شیر تھا۔ اس نےجزیرے کو اپنی مملکت میں شامل کیا اور اس پہلےنظارے کی یاد میں اس جزیرے کا نام سنگا پورا یعنی شیر کا شہر رکھ دیا۔ اہلِ سنگاپور آج بھی اس شہزادے کو نہیں بھولے اور اس کی یاد میں مرلائن کو سنگاپور کا قومی نشان قرار دیا جسکا سر شیر کا اور دھڑ اس جل پری کے بیٹے کی یاد میں مچھلی کا ہے۔
یہی کچھ وہ اسمال ٹاک یعنی گپ شپ تھی جسے روا رکھتے ہوئے ہم نے اس شام برمی بجرے پر قدم رنجا فرمایا اور چار گھنٹے کے اس حسین و رنگین سفر میں جاری رکھا جس کی منزل واپس سنگاپور ہاربر تھی۔ چار گھنٹے کا یہ کروز جس میں ایک عدد شاندار قسم کا ڈنر یعنی طعِام شبینہ بھی شامل تھا، ہماری کمپنی کی جانب سے ہم مہمانانِ گرامی قدر کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔ ہم گنتی کے جوچند مسلمان اس میں شامل تھے ،ہمارے لیے علیحدہ حلال کھانے کا انتظام تھا۔ بحری بجرہ بین الاقوامی مہمانوں یعنی سیاحوں سے بھرا ہوا تھا ، لہٰذا ہم سمندر اور اسکے قدرتی جزیروں کے خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ ، ابنِ صفی کے قول کے مطابق انسانی جزیروں کی سیر سے بھی بدرجہ اتم لطف اندوز ہورہے تھے ۔
’’ اور کیا جناب! ۔۔۔ اینٹوں اور پتھروں کے ڈھیر میں کیا رکھا ہے۔ خواہ وہ پہلی صدی عیسوی ہی سے کیوں نہ تعلق رکھتا ہو۔ یہ جھیل اور اس کے ساحل بھی لاکھوں سال پرانے ہیں۔ میں تو آپ کو وہ نایاب جزیرے دکھاؤں گا ، جو آج ہیں کل نہ ہوں گے یا اگر ہوں گے بھی تو اس قابل نہ رہ جائیں گے کہ ان کی طرف دیکھنا بھی گوارا کیا جاسکے!‘‘ ( پوائینٹ نمبر بارہ۔ عمران سیریز۔ از ابنِ صفی)
۱۸۱۹ ء میں سر اسٹیمفورڈ رئفلز یہاں پہنچے تو اس وقت جزیرے کی آبادی صرف چند نفوس پر مشتمل تھی ۔سر اسٹیمفورڈ ریفلز کے جزیرے پر قدم رکھتے ہی یہ شہر سلطان آف جوہر بھارو کی عملداری میں ہونے کے باوجود ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارتی منڈی کے طور پر جانا گیا۔ چاروں طرف سے لوگ اس کی جانب امڈ پڑے اور آج ( ۱۹۸۵ء ) اس کی آبادی پچیس لاکھ ہے۔
ہم نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا۔ ٹوور گائڈ ہمیں اپنے پبلک ایڈریس سسٹم پر ارد گرد پھیلے ہوئے جزیروں کا جغرافیہ اور سنگاپور کی تاریخ سے آگاہی دلوا رہا تھا۔تاریخ ، جغرافیہ اور معاشرتی علوم میں ہم ویسے ہی کچے اور کورے رہے ہیں اس لیے ہم نے اس کی ان خرافات کو ایک کان سے سنا اور دوسرے کان سے اڑا دیا۔ ان جزیروں کا حال ہم گائڈ کتابوں میں پڑھ ہی لیں گے۔ یہ وقت تو ان نظاروں سے لطف اندوز ہونے کا تھا جو اس سمے ہمارے چاروں اُور پھیلے ہوئے تھے۔ سبحان تیری قدرت۔ ہم نے اپنی یادوں کی پٹاری کھولی تو اس میں اس شام کی یاد ان الفاظ کے ساتھ محفوظ تھی۔’’سنگاپور کی ایک شام جو بہتر انداز میں بسر ہوئی۔‘‘
اگلے دن ہمارے سب ہم جماعتوں نے استاد صاحب کے ساتھ ملکر تفریح کرنے کا پروگرام بنایا اور کلاس ختم ہوتے ہی دو ٹیکسیاں پکڑ کر سیدھے آرچرڈ روڈ پہنچ گئے۔ آرچرڈ روڈ سنگاپور کا سب سے بڑا خریداری کا علاقہ ہے۔ فرحت اللہ بیگ صاحب کی لکھی ہوئی تعریف ہم پہلے ہی پیش کرچکے ہیں۔ سمجھ لیجے کہ یہ بازار سنگاپور کا طارق روڈ یا لبرٹی ہے۔اہالیان ِکراچی اور لاہور سمجھ گئے ہوں گے، دوسرے علاقوں کے مکین اپنے علاقائی ماحول کے مطابق کچھ اور تصور کرلیں ۔ چونکہ اس پہلے دن ہم نے ڈائی نے سٹی ہوٹل کے قریب ٹیکسی سے اتر کر پیدل آوارہ گردی کا آغاز کیا تھا، لہٰذا اس کے بعد ہمارے لیے آرچرڈ روڈ اسی نکتے سے شروع ہوتی تھی۔ پیدل ٹہلتے ہوئے چلے تو راستے میں آنے والے کئی شاپنگ سنٹر دیکھ ڈالے۔ ان دنوں لکی پلازا کا بڑا چرچا تھا ، لہٰذا وہاں پہنچے اور زیادہ توجہ کے ساتھ دکانوں کا معائنہ شروع کیا۔ اکٹھے آٹھ لوگ کسی بھی دکان میں گھستے تو دکاندار سٹپٹا جاتے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ کس کی طرف توجہ کریں اور کس کی نگرانی کریں۔ ایک دکاندار تو اس قدر گھبرایا کہ ہر ایک کو شبہ کی نظر سے دیکھنے لگا۔ جب کافی دیر تک ادھر ادھر اشیاء کا بغور معاینہ کرنے کے باوجود بھی ہم میں سے کسی نے کسی شے کو خریدنے کا عندیا نہ دیا تو وہ کچھ مشتعل سا نظر آنے لگا۔ ہم چونکہ اپنی کالی رنگت کی بناء پر ویسے ہی سب کی توجہ کا مرکز تھے، اس کے غصے کا محور بھی بن گئے اور اس نے ہمیں دیکھ کر ایک نعرہ مستانہ بلند کیا’’ ہے یو؟‘‘ یعنی’’ ارے تم! کیا چاہیے تمہیں؟‘‘ ہم غریبِ شہر کیاکہتے، ٹُک اسے دیکھا کیے، لیکن گورے استاد نے دکاندار کو تسلی دی کہ ہم سب اکٹھے ہیں اور سب ہی غیر ملکی ہیں۔ اس بات پر اسے کچھ تسلی ہوئی لیکن پھر جب یہ دیکھا کہ سب ہی بناء خریداری کیےدکان سے باہر جارہے ہیں تو اس کاموڈ پھر بگڑ گیا۔ یہ پہلا موقعہ تھا جب ہم نے کسی سنگاپوری شہری کو اس طرح خراب موڈ میں دیکھا، ورنہ ہمیشہ سب ہی ہمیں خوش اخلاقی سے ملے ۔
جس زمانے کا یہ قصہ ہے اس دور میں سنگاپور میں بھاؤ تاؤ کرنے کا بہت زیادہ رواج تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، اگر آپ دکاندار کی بتائی ہوئی قیمت پر بھروسا کرکے خریداری کر لیتے، تو گویا آپ لٹ چکے ہوتے۔ فارمولا یہ بتایا گیا کہ دکاندار جتنی قیمت بتائے ، آپ اسکی آدھی قیمت سے بحث کا آٖغاز کریں۔ پھر جہاں پر بات بن جائے، وہیں بات ختم کرکے پیسے ادا کردیں۔ بھاؤ تاؤ کا طریقہ بھی مخصوص تھا۔ دکاندار جس قیمت پر آپ سے بھاؤ تاؤ شروع کرنا چاہتا، وہی قیمت کیلکولیٹر پر لکھ کر آپ کے سامنے کردیتا۔ آپ اپنی من پسند قیمت اسی کیلکولیٹر پر لکھ کر اس کے سامنے رکھ دیتے۔ اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا۔ جو قیمت آپ کے نزدیک مناسب ہوتی اس پر پہنچ کر آپ اپنے بٹوے سے پیسے نکالتے جنھیں دیکھتے ہی دکاندار رام ہوجاتا اور آپ سے پیسے پکڑ کر خریدی ہوئی شے آپ کے حوالے کردیتا۔ آرچرڈ روڈ اور خاص طور پر لکی پلازا اس قسم کی خریداری کے لیے مشہور تھے۔ سرنوسن روڈ پر مصطفےٰ سنٹر میں البتہ ہر شے پر قیمت لکھی ہوئی تھی اور دھوکے کے امکانات کم تھے۔ لہٰذا ہم نے اصولی طور پر ، طے کر رکھا تھا کہ اپنی تمام خریداری مصطفےٰ سنٹر ہی سے کی جائے گی علاوہ معدودے چند اشیاء کے، جن میں کمپیوٹر سرِ فہرست تھا۔ (ایک ہفتے بعد فونان سنٹر سے ہمارا خریدا ہوا کمپیوٹر ہمارے حوالے کردیا گیاتھا اور ہم اسے اپنے ہوٹل کے کمرے میں تختہ مشق بنائے ہوئے تھے)۔
واپسی پر سڑک پار کرکے دوسری جانب ہوگئے اور ویسما ایٹریا سمیت اس طرف کے تمام خریداری مرکز دیکھ ڈالے اور ہوٹل واپسی کا پروگرام بنایا۔ اگلی مرتبہ جب ہم اور چودھری صاحب اکیلے دکیلے ہی آرچرڈ روڈ پہنچے تو اس مرتبہ ہم نے ڈائی نے سٹی ہوٹل سے دوسری جانب اسکاٹس روڈ پر چلنا شروع کیا اور تیسری بلڈنگ ’’ اسکاٹ سنٹر کے تہہ خانے میں بنے ہوئے ایک صاف ستھرے فوڈ سنٹر تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور مزے لے لے کر پیلی کھچڑی کے ساتھ حلال سالن تناول کیا اور اس کا لطف اٹھایا۔اس سے آگے چلے تو فار ایسٹ پلازا نے ہمارا راستہ روکا اور ہمیں چہل قدمی کی دعوت دی۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ ایم آر ٹی ابھی نہیں بنی تھی ۔ بعد میں جب ہم ۲۰۱۰ء میں سنگاپور پہنچے تو آرچرڈ روڈ کے اسٹیشن پر اتر کر ان سب جگہوں کو تلاش کرتے رہے جہاں کبھی ہم نے وقت گزارا تھا۔ اسکاٹ سنٹر کی یہ عمارت غائب تھی اور ساتھ ہی یہ فوڈ سنٹر بھی۔ لکی پلازا اتنا دلکش نہ لگا جتنا کبھی لگا تھا، کیوں کہ راستے میں دونوں اطراف کئی ایک خوبصورت شاپنگ سنٹرز بن چکے تھے۔ خاص طور پر سنگاپورا پلازا جو آرچرڈ روڈ کی تقریباً دوسری جانب‘ دھوبی گھاٹ’ نامی ایم آر ٹی جنکشن کے اوپر بنایا گیا ہے بہت خوبصورت اور با رونق ہے۔
۲۰۱۰ء میں ہم چوتھی مرتبہ سنگاپور پہنچے تو پچھلی دفعہ سے زیادہ سنگین واردات ہمارے ساتھ ہوچکی تھی۔ اس مرتبہ خان صاحب ہمارے ہمسفر تھے۔ اس مرتبہ ہم کسی بھی تفریحی مقام کی سیر کو نہ نکل سکے، اس لیے کہ خان صاحب کو تربیتی مرکز سے ہوٹل واپسی کے بعد کہیں اور جانے کے لیے آمادہ کرنا کار ِ دارد تھا۔ ہم لاکھ انھیں مناتے کہ بھائی کہیں تو نکل چلو ، لیکن وہ اپنے کمرے میں، لیپ ٹاپ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے، اپنی محبوبہ سے چیٹ یعنی ہوائی پینگیں بڑھایا کرتے۔ہم چونکہ اس بار چائنا ٹاؤن کے ایک ہوٹل فوراما سٹی سنٹر میں ٹھرے تھے ، لہٰذا ہر روز رات کا کھانا کھانے کے لیے انھیں سرنگون روڈ کھینچ کر لے جاتے۔ کھانا ختم کرتے ہی، وہ ہمیں ٹرین اسٹیشن کی جانب اور ہم انھیں شاپنگ سنٹر کی جانب کھینچتے۔ زیادہ تر جیت ان کی ہی ہوتی کیونکہ وہ ہم سے درخوست بھی کررہے ہوتے تھے کہ ‘وہ اپنی محبوبہ دلنواز کو انتظار کرتا چھوڑآئے ہیں اور واپس پہنچ کر اسکے غصے کو برداشت کرنے اور اسے منانے کا خوشگوار کام بھی انھی کو سر انجام دینا ہے’ ۔
پاکستان واپس آکر ہم نے ہمجولیوں میں ان کی شکایت کی کہ خان صاحب کا تو سنگاپور میں ایک ہی مشن تھا۔ اپنی محبوبہ دلنواز سے باتیں۔ساتھی کہنے لگے ‘‘ بھئی! ہم نے تو انھیں ایک بالکل ہی مختلف مشن پر بھیجاتھا۔ خدا جانے وہ اس مقصد و مدعامیں کامیاب ہوپائے یا نہیں۔ ’’
ہم نے حیران ہوکر پوچھا ‘‘ وہ کیا مشن تھا؟’’
جواب ملا’’ ان کا مشن اپنے ’ٹی اے ۔ڈی اے‘ کے پیسے مکمل طور پر بچا کر ، کھانے کے لیے آپکے ‘ٹی اے۔ ڈی اے’ پر انحصارِ کلی تھا۔‘‘
ہم حیران رہ گئے۔ ہم ہنس دیے ۔ہم چپ رہے ۔کچھ اس کا سبب چپ تھا، کچھ اس کا سبب باتیں۔
خیر صاحب ولے بخیر گزشت۔ جن جگہوں کو ہم پچھلی مرتبہ دیکھ نہ پائے تھے، وہ ان دیکھی ہی رہ گئیں اور جن مقامات کو ایک مرتبہ دیکھ چکے تھے ، انھیں دوسری بار دیکھنے کی ہوس رہ گئی۔ ان چند جگہوں میں خاص طور پر سینتوسا آئی لینڈ بھی شامل ہے۔
اگلے اتوار ہم اور چودھری صاحب جلد ہی اٹھ کر تیار ہو گئے اور مفت ناشتے کے فوائد حاصل کرتے ہوئےٹیکسی پکڑ کر کوہِ فیبر پہنچ گئے۔ وہاں سے ان دنوں سینتوسا آئی لینڈ کے لیے کیبل کار روانہ ہوتی تھی۔ ہم نے فوراً ٹکٹ کٹایا اور کیبل کار میں بیٹھ کر فضائی نظارے کے مزے لیتے ہوئے سینتوسا جزیرے پر اتر گئے۔آج کل مرینہ مال سے اس جزیرے کے لیے چھوٹی ٹرین چلتی ہےجو سمندر پر بنے ہوئے ایک پل سے گزرتی ہے۔۔سینتوسا سنگاپور مین جزیرے کے جنوب میں واقع ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جسے سیاحوں اور سیر کے رسیا افراد کے لیے ایک مکمل تفریحی مقام میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ گویا موجودہ دنیاء کے عجائبات میں سے ایک ہے, ۲۰۱۰۔ء میں اس جزیرے میں دو دلچسپیوں کا اور اضافہ کیا گیا جن میں سے ایک یونیورسل اسٹوڈیو کا ڈسپلئے اور فن سنٹر اور دوسرا ایک عدد کسینو ہے۔ کسینو کی یہ خوبی بیان کی جاتی ہے کہ یہاں پر سیاحوں کے لیے داخلہ بالکل مفت اور مقامی شہریوں کے لیے سو ڈالر داخلہ فیس کے ساتھ ہے۔اگر یہ کسینو اس زمانے میں بھی موجود ہوتا تو ہمارے چودھری صاحب لازمی اس کی سیر کرتے اور ہمیں ‘مجبوراً ’ ان کا ساتھ دینا ہی پڑتا ۔سب سے پہلے ہم نے یہاں پر بنایا ہوا میوزیم دیکھا اوراس کے مظاہر میں خصوصی دلچسپی ظاہر کی۔
آئی لینڈ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مفت مونو ریل چلتی ہے۔ لہٰذا ہم دونوں اس سہولت کا خوب فائدہ اٹھاتے رہے اور اس ریل میں بیٹھ کر بار بار مفت سیر کا لطف اٹھایا۔ایک جگہ سمندر کے کنارے پیڈل بوٹ نظر آئی تو چودھری صاحب مچل گئے۔ہم نے مونو ریل کے قریبی اسٹیشن پر اتر کر وہاں سے دوڑ لگائی اور ایک ایک پیڈل بوٹ کرائے پر لیکر تقریباً دوگھنٹے تک پیڈل مارتے رہے۔ عجیب واہیات سواری ہے۔ اس وقت کچھ احساس نہیں ہوتا، بعد میں خوب پتا چلتا ہے۔ دو گھنٹے گزار کر اس سے اترے تو اگلے دو دن تک لنگڑاتے رہے اور اس گھڑی کو کوستے رہے جب چودھری صاحب کو پیڈل بوٹس نظر آئی تھیں۔جھٹپٹے کے وقت تک اسی طرح مختلف تفریحات میں مشغول رہے۔ اندھیرا پھیلنے لگا تو ٹکٹ لیکر میوزیکل فاؤنٹین کے چھوٹے سے اسٹیڈیم میں جابیٹھے۔درمیان میں ایک تالاب میں کئی فوارے پانی اچھال رہے تھے۔ اندھیرا چھاگیا تو شو شروع ہوا۔ مختلف رنگوں کی روشنیاں میدان میں رقص کرنے لگیں ، بہترین ساؤنڈ سسٹم پر موسیقی شروع ہوئی تو رنگ و نور کا ایک طوفان آگیا اور تمام فوارے اور رنگ برنگی روشنیاں اس موسیقی کی تال پر رقص کرتے ہوئے پانی سے کھیلتے رہے۔ہم اس اسٹیڈیم میں موجود تمام تماشائیوں کے ہمراہ دم بخود اس حسین نظارے کو دیکھتے رہے۔ کوئی ایک گھنٹے کے اس شو میں انھوں نے کئی انگریزی ، چائنیز اور ہندوستانی گانوں کی تال پر رقص کیا اور داد سمیٹی۔ آخر میں جب انڈین فلم قربانی کا مشہور یہ گاناچھیڑا گیا
‘‘ قربانی، قربانی، قربانی
اللہ کو پیاری ہے قربانی’’​
تو فواروں ، رقص و موسیقی او ر روشنی کے اس طوفان میں ہم بھی جھوم اٹھے۔ گانا، موسیقی، رنگ و نور اور فواروں کا رقص اپنے عروج پر پہنچ کر یکبارگی تھم گیا، لیکن ناظرین کی تالیاں اگلے دس منٹ تک فضا ء کو گرماتی رہیں۔ واقعی یہ ایک ایسا نظارہ تھا جو ہمیں مدتوں یاد رہے گا۔
اب تو سنا ہے کہ انڈر واٹر ورلڈ کے نام سے ایک اور مظہر وجود میں آچکا ہے لیکن ہماری ۲۰۱۰ء کی سیر کے پروگرام میں خان صاحب کی محبوبہ آڑے آئیں اور ہم اس جزیرے کو دوبارہ نہیں دیکھ سکے۔ایک بار دیکھا ہے ، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے
ہم نے بارہا خان صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ سنگاپور سے واپسی تک اپنی محبوبہ دلنواز کو خدا حافظ کہہ دیں کہ واپسی پر تمہارے لیے ٹافیاں لے کر آئیں گے، لیکن وہ نہ مانے ۔
آخری دن ہم اپنی شاپنگ لسٹ سنبھال کر مصطفےٰ اور شمس الدین پہنچ گئے اور بشمول ایک عدد بڑے سوٹ کیس، تمام اشیاء وہیں سے بازار سے با رعائت خریدیں اور خوش خوش سنگاپور سے وطن واپس لوٹے۔
کراچی ائر پورٹ پر کسٹم آفیسر نے ہمارا سوٹ کیس اور اس کے ساتھ کمپیوٹر اور مانیٹر کے دو ڈبے دیکھے تو بظاہر گھبرا کر اور بباطن خوش ہوتے ہوئے سوال کیا۔‘‘ کیا کیا خرید لیا بھائی جان؟’’
ہم نے سوالیہ انداز میں ان کی جانب دیکھا تو وہ اور زیادہ خوش ہوگئے۔ مرغا پھنس گیا، انھوں نے شاید یہ سوچ کر ہمارا سامان کھلوا لیا، لیکن اسے دیکھتے ہی ان کا منہ بن گیا اور انھوں نے مزید وقت ضائع کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوئے ہمیں جانے کا اشارہ کردیا۔ ادھر کئی کھیپیے لائن میں موجود تھے جن پر آفیسر صاحب کی نظر کرم ٹہر گئی۔
دنیاء یہی دنیاء ہے تو کیا یاد رہے گی۔
تمت بالخیر​
 
وہ پہلے تو حیران ہوکر ہمیں دیکھنے لگا، گویا ہم نے کوئی عجیب بات کہہ دی ہو۔ بولا
’’ کس قسم کا کمپیوٹر چاہیے آپ کو؟‘‘
ہم نے کہا ’’ جیساایک کمپیوٹر ہوتا ہے۔ ویسا ہی چاہیے۔‘‘
بولا’’ کچھ جزیات کی تفصیل ہے آپ کے پاس۔‘‘
ہم نے کہا’’ کمپیوٹر ایک ایسا آلہ ہوتا ہے جو بجلی سے چلتا ہے اور آٹو میٹک ہوتا ہے۔‘‘
وہ ناہنجار اب بھی نہ سمجھا، بولا’’ وہ سب تو مجھے پتہ ہے لیکن آپ کو پروسسر کون سا چاہیے۔ ریم کون سی اور کتنی چاہیے۔ فلاپی ڈسک ڈرائیو کتنی درکار ہیں ۔ مانیٹر کون سا چاہیے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اور بھی بہت سی تفصیل تھی جو ہمیں اب یاد نہیں ہے۔
اس بار ہم اسکی بات نہیں سمجھے۔ لوگوں نے بیچ بچائو کروا دیا اور طے پایا کہ وہ جاہل شخص ہمارے لیے ایک عدد کلون آئی بی ایم پی سی ایکس ٹی بنا دے گا ، جس کی جزیات کی تفصیل اس نے ایک کاغذ پرہمیں لکھ دی تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔
scan0002_zpsecbb061c.jpg

برڈ پارک پہنچے تو دیکھا کہ سامنے ہی ایک ٹرینر اپنے سدھائے ہوئے اژدھے کو لیے ہوئے ایک عجیب شو دکھا رہا تھا۔ وہ اپنا اژدھا اطمینان کے ساتھ سیاح کے گلے میں ڈال دیتا اور اس کی تصویریں کھینچ کر اس سے پیسے وصول کرلیتا۔ بہادر تو ہم بچپن سےہی ہیں، اس دن اپنی بہادری کو آزمانے کا خیال آیا تو خم ٹھونک کر اژدھے والے کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ اس ناہنجار نے بھی آئو دیکھا نہ تائو ، اور اپنا خوفناک اژدھا اٹھا کر ہمارے گلے میں ڈال دیا۔ یہ شاید ہماری زندگی کا بد ترین دن تھا۔ واہ میاں یہ بھی خوب رہی ۔ بلی کی بلا طویلے کر سر۔ ہمیں تو اس وقت صحیح محاورہ تک یاد نہیں آرہا تھا۔ خدا جانے کتنے گھنٹے وہ بلا ہمارے گلے سے لپٹی رہی اور وہ ناہنجار سپیرا مختلف پوز بنا بنا کر ہماری تصویریں کھینچتا رہا۔

scan0006_zpsaa448345.jpg


عرب اسٹریٹ پر نظر کی تو یہاں کئی ملائین مسلم ریسٹورینٹ دکھائی دیئے جو انڈا پراٹھا قسم کی کوئی چیز بنا رہے تھے۔ اس ڈش کا نام مرطباق ہے۔ چائے کے ساتھ مرطباق کھایا۔ بہت لذیذ تھا۔

scan0005_zps8faca08f.jpg


آئی لینڈ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مفت مونو ریل چلتی ہے۔ لہٰذا ہم دونوں اس سہولت کا خوب فائدہ اٹھاتے رہے اور اس ریل میں بیٹھ کر بار بار مفت سیر کا لطف اٹھایا
scan0010_zps986a2fe2.jpg


scan0013_zps098fad3a.jpg
 
آخری تدوین:
Top