جناب راحیل صاحب ۔ آپکے جوابات پر نمبر وار گفتگو کرتی ہوں -
(1)مطلع کے بارے میں میرا اعتراض یہ ہے کہ آپ نے شہرہء آفاق کی ترکیب کو غلط تلفظ کے ساتھ باندھا ہے ۔ اگر اس کو شہرہ آفاق پڑھیں تو وزن ٹھیک ہے لیکن اگر ترکیب کو صحیح تلفظ سے پڑھا جائے تو آپکا مصرع وزن سے خارج ہے ۔ آپ نے جواب میں حافظ کا شعر نقل کیا ہے جس کا میرے اعتراض سے دور دور تک بھی تعلق نہیں ۔ یعنی ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ ؟ سیدھا سیدھا کہئے کہ آپ کے پاس اس اعتراض کا کوئی جواب نہیں ۔ غلط اور کمزور تلفظ صرف آپ ہی کا نہیں بلکہ آج کل بہت سارے دوسرے نئے شعرا کا ایک عام مسئلہ ہے ۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ کسی معیاری لغت ( نوراللغات) وغیرہ سے دیکھ لیں ۔
(2) مقامات کے حوالے سے آپ نے "راولپنڈی، بھیرہ، ڈجکوٹ" وغیرہ لکھا ۔ اگر انہیں شعر میں بھی باندھ دیتے تو بہتر تھا تاکہ شعر کا ابلاغ ہوجاتا۔ بھائی صاحب ۔ آپکا یہ شعر ایک لفظی الٹ پھیر کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ شاعر یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ راستے نے اسے طے کیا اور وجہ اس کی " کچھ مَقامات پر نظر کر کے" بیان کی ہے ۔ تو لامحالہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے مقامات تھے کہ جنکی طرف راستے نے نظر کی ۔ ان مقامات کی طرف اشارہ کئے بغیر تو شعر ایک لفظی الٹ پھیر ہے ۔ آپ ہی کے اس شعر کی طرز پر میں ایک شعر لکھتی ہوں -
موسموں پر مرے نظر کرکے
تشنگی نے مری پیا مجھ کو
اگر آپ اس شعر کا مطلب سمجھ جائیں تو پھر آپ کا شعر ٹھیک ہے ۔ بھائی صاحب لفظی الٹ پھیر اور اچھی شاعری میں فرق ہے ۔
(3) مومن کا جو شعر آپ نے گالیوں کے ضمن میں نقل کیا ہے اس میں کون سا لفظ ناگوار اور نامعقول ہے کہ جو ذوق پر گراں گزرے ؟؟!! اپنے شعر میں تو آپ نے بلا کو ناہنجار کہا ہے ۔ تو گویا بلا ناہنجار کے علاوہ بھی کچھ ہوسکتی ہے ؟؟!! اگر ناہنجار عشق کو کہا ہے تو پھر اس شعر میں سخت تعقید ہے ۔ اس کے علاوہ کاٹ کھانے کو دوڑنا خارجی اشیاء کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ عشق خارجی نہیں بلکہ ایک داخلی کیفیت ہے ۔ اس لئے آپکا یہ شعر عجزِ بیان اور زبان کی پستی کا نمونہ ہے ۔ اسی لئے کہا کہ اچھا تاثر نہین چھوڑتا ۔
(4) بوئے آرزو کے بارے میں میرا سوال یہ تھا کہ یہ کیا چیز ہوتی ہے ۔ اس کا پہلے سننا یا پڑھنا تو ایک ثانوی تبصرہ تھا ۔ آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا کہ بوئے آرزو کیا چیز ہے ۔ بھائی صاحب ۔ شاعرکا کام لفظوں کو جیسے چاہے استعما ل کرنا نہیں بلکہ اس طرح سے استعمال کرنا ہوتا ہے کہ قاری تک اس کا ابلاغ بھی ہوسکے ۔ اگر آپ کوئی نئی ترکیب استعمال کر رہے ہیں تو پھر ضروری ہے کہ شعر کے سیاق و سباق سے اس کا مطلب بھی واضح ہو ورنہ قاری کے لئے تو وہ نئی ترکیب بے معنی ہے ۔ شعر کا مطلب تو پھر شاعر کے پیٹ ہی میں رہ جاتا ہے ۔ آپ کے مذکورہ شعر میں کوئی ایسا اشارہ یا کنایہ سرے سے موجود ہی نہٰیں جو بوئے آرزو کے معنی قاری تک پہنچا سکے ۔ اگر میں آپ ہی کے اس شعر کو یوں کہوں :
توُ نے، اے رنگِ آرزُو! تُو نے
تُو نے بَرباد کر دیا ہے مجھے
تو بات سمجھ آتی ہے ۔ کیونکہ رنگ کا مطلب " طور ، انداز ، طریقہ ، ڈھنگ" بالکل معروف ہے اور شعر کا ابلاغ ہوتا ہے ۔ لیکن بوئے آرزو کیا بلا ہے ۔ وضاحت آپکےذمہ ہے ۔ ورنہ مان لیجئے کہ یہ شعر بھی مہمل ہے ۔
چونکہ آپ نے اپنی شاعری ایک پبلک فورم پر پیش کی اس لئ ایک قاری کی حیثیت سے یہ میری کچھ معروضات تھیں ۔ باقی اپ اپنی غزل کے بارے میں پہلے ہی فرما چکے ہیں کہ آپ پ کے نزدیک یہ "خوب " ہے ۔
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیئے
زیادہ حد ادب
راحیل فاروق