محمد تابش صدیقی
منتظم
چوٹ کھانے کے لیے اور مسکرانے کے لیے
آدمی پیدا ہوا ہے رنج اُٹھانے کے لیے
ان کو حق ہے رنج دینے کا خطا کیوں ڈھونڈیے
اس قدر کاوش اور اتنے سے بہانے کے لیے
ان کے غم کو کون غم کہتا ہے اے قلبِ حزیں
یہ ادائیں ہیں محبت آزمانے کے لئے
لاج رکھ لینا الٰہی کوششِ تعمیر کی
میں نے کچھ تنکے چنے ہیں آشیانے کے لیے
غیر کی خاطر بھی ہے منظور لیکن کیا کروں
میری پیشانی ہے تیرے آستانے کے لیے
شکوۂ درد و الم مقصود ہے کس کو عزیزؔ
اک بہانہ ہے یہ حالِ دل سنانے کے لیے
٭٭٭
ملک نصر اللہ خان عزیزؔ
آدمی پیدا ہوا ہے رنج اُٹھانے کے لیے
ان کو حق ہے رنج دینے کا خطا کیوں ڈھونڈیے
اس قدر کاوش اور اتنے سے بہانے کے لیے
ان کے غم کو کون غم کہتا ہے اے قلبِ حزیں
یہ ادائیں ہیں محبت آزمانے کے لئے
لاج رکھ لینا الٰہی کوششِ تعمیر کی
میں نے کچھ تنکے چنے ہیں آشیانے کے لیے
غیر کی خاطر بھی ہے منظور لیکن کیا کروں
میری پیشانی ہے تیرے آستانے کے لیے
شکوۂ درد و الم مقصود ہے کس کو عزیزؔ
اک بہانہ ہے یہ حالِ دل سنانے کے لیے
٭٭٭
ملک نصر اللہ خان عزیزؔ
آخری تدوین: