نور وجدان
لائبریرین
کیا آپ جانتے ہیں میرا نام؟ میری شناخت؟ اگر نہیں جانتے تو میں بتا دیتی ہوں کہ میں بنتِ نایاب ہُوں .... میرا نام ہے غزلِ نایاب. آپ جانتے ہیں میں نے لکھنا کیوں شُروع کیا؟ میرے پاپا کہتے تھے کہ جب میں کچھ لکھوں گی اور اسکے نیچے غزلِ نایاب لکھا ہوگا تو ان کا سر فخر سے بُلند ہوجائے گا.چلیے، میں آپ کو اپنا مکمل تعارف کرواتی ہوں. میرے دو بھائی ہیں. اور ایک پیاری سی تختی ہے جسے لوگ عام زبان میں ماں کہتے ہیں. اس پر میں اپنا ہر دکھ سکھ لکھتی ہوں ...ایک بھائی کا نام کلیم ہے جسکا مطلب ہے کلام کرنے والا اور ایک کا نام فہیم ہے جسکا مطلب ہے فہم والا .... میرا ایک دوست تھا بلکہ میرے لیے آج بھی ہے، کون؟ ہاں! وہ نایاب تھے ..میں ان کو پہلے نہیں جانتی تھی مگر جب سے مرا دوست نایاب ہوا ہے تو مجھے ارد گرد سے خبر ملی ہے کہ وہ کئی لوگوں کا رہنما، کئی لوگوں کے سر پر ہاتھ رکھنے والا، کئی بیٹیوں کا باپ، بیماروں کی عیادت کرنے والا، اور کئی لوگوں کو انکی منزل تک پُہنچانے والا ہے...پاپا کے بعد بہت سے لوگ ملنے آتے ہیں اور وہ یہ سب بتاتے ہیں اور یہ سن کے میرا سر فخر سے بلند ہوگیا ہے کہ میں بنتِ نایاب ہوں. میرے پاپا مجھے بتاتے ہیں کہ انہوں نے مجھے کئی منتوں کے بعد حاصل کیا. وہ کہتے تھے کہ اُن کی دھڑکن ان سے ہے اور میں دل بن کے ان میں دھڑکتی ہوں ..میں بھی اپنے پاپا سے بہت پیار کرتی ہوں. پاپا نے مجھے بچپن سے ہی یہ کہا کہ میں بنت نایاب ہوں اور بنت نایاب کچھ بھی کرسکتی ہے.تب میں نے اس بات پر غور نہیں کیا مگر آہستہ آہستہ سمجھ آرہی ہے کہ میں لکھ سکتی ہوں ...میں کیا لکھ سکتی ہوں؟ اپنے حالات، اپنے احساس کو اشعار کی صورت بھی. میں لوگوں میں کھڑے ہوکے اپنی بات کرسکتی ہوں ..پاپا کہتے تھے کہ غزل تمھیں زندگی کیساتھ کئی راز پتا چلیں گے...کئی راز تو نہیں مگر ایک راز تو پتا چل ہی گیا ہے کہ کسی کے بچھڑنے کا، کسی کے دور جانے کا غم کیسے ہوتا ہے ...باقی رازوں سے بھی پردہ اُٹھ ہی جائے گا
غزل نایاب
نوٹ: محترم نایاب صاحب کی وفات کے بعد ان کی بیٹی نے لکھنے کی ٹھانی ہے. جب میں نے یہ دیکھا تو اسکو یہاں شریک کرنے کا سوچا
غزل نایاب
نوٹ: محترم نایاب صاحب کی وفات کے بعد ان کی بیٹی نے لکھنے کی ٹھانی ہے. جب میں نے یہ دیکھا تو اسکو یہاں شریک کرنے کا سوچا