محمد تابش صدیقی
منتظم
رَوَاٹِیٹِ مُچَپَّڑ
مقامِ ستائش ہے کہ ذ ہنی مرعوبیت اور لسانی غلامی کے اِس دور میں بھی ہماری پولیس نے اپنے روزنامچوں اور ’’ضمنیوں‘‘ میں وہ زبان زندہ رکھی ہے جو’’ استعمار کی غلامی‘‘ کے دور میں ہماری متعدد ریاستوں اور حکومتوں کے ذ ہنی طور پر آزاد حکمرانوں نے اپنی سرکاری زبان بنارکھی تھی، جو اَب پاکستان کے تمام صوبوں اورتمام پاکستانی زبانیں بولنے والوں کے مابین رابطے کی زبان ہے اور جسے آزادی کے وقت سے آج تک ہم اپنی قومی زبان کی حیثیت سے (انگریزی کی جگہ) اپنی سرکاری زبان بنانے کے خواہاں ہیں۔
امتدادِ زمانہ سے اور موجودہ زمانے کی پولیس کے ہتھے چڑھ جانے سے اب اس زبان کا بھی وہی حشر ہوگیا ہے جوکسی کا پولیس کے ہاتھوں ہوجاتا ہے۔ (بالخصوص کوئی بھی پاکستانی زبان بولنے والوںکا )۔ حضرتِ داغؔ کا دعویٰ تھا کہ:
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
(اورآپ نے سُناہی ہوگا کہ: ’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘)۔ مگر یہ زبان اب ایسی ’’بے زبان‘‘ ہوئی ہے کہ (چینلوں کے اینکروں سمیت) اس کے ساتھ جو جیسا چاہے سلوک کرلے، اب یہ اُف تک نہیں کرتی۔ بے داغ زبان تو اب سننے ہی کونہیں ملتی۔ وجہ وہی ہے کہ اب چینلوں نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ:
’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘۔
برسوں پہلے (غالباً 1996ء ) کی بات ہے۔ لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ کے رُوبرو ممتاز وکیل جناب اعجاز حسین بٹالوی ایک پولیس آفیسر کی شہادت کی خواندگی فرمارہے تھے کہ اسی اثناء میں اُنھیں پولیس کی ’’خواندگی‘‘ کی بھی ایک شہادت مل گئی۔ ہوا یوں کہ پڑھتے پڑھتے جب اُنھوں نے مُہر کی جمع (مُہریں) پڑھنے کی بجائے ’’مواہیر‘‘ پڑھی تو جناب جسٹس مشتاق احمد خان نے فاضل وکیل کو ٹوکتے ہوئے استفسار کیا:
’’کیا یہ لفظ قواعد(گرامر) کی رُو سے درست ہے؟‘‘
تو بیرسٹر اعجاز حسین بٹالوی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:
’’میں نے تو پولیس کی ضمنیوں میں اس سے بھی زیادہ دلچسپ زبان پڑھی ہے‘‘۔
پھر اُنھوں نے ایک دلچسپ حوالہ بھی دیا۔اُنھوں نے عدالت کو بتایاکہ:
’’ایک ضمنی میں لکھا تھا کہ… تلاشی لینے پر ملزم کی ڈبِّ کلاں سے ’’رَوَاٹِیٹِ مُچپَّڑ‘‘ برآمد ہوئیں‘‘۔
خواتین و حضرات! ڈر نہ جائیے گا کہ دہشت گردی و تخریب کاری کے اِس جدید ترین دور میں پولیس نے ملزم کی کس حساس ترین شے سے کیا خطرناک ترین چیز برآمد کرلی؟
ڈر تو ہم بھی گئے تھے۔ اور ڈرتے ڈرتے سوچا کہ یہ جملہ تو اُردوہی کا معلوم ہوتا ہے، مگر پولیس کے آگے بڑے بڑوں کی اُردو خراب ہوجاتی ہے۔ ہم کیا شے ہیں؟ تاہم(پولیس کے خوف سے) اپنے سوکھے ہوئے حلق کو پانی سے تر کرکے ان مشکل الفاظ کو پانی کرنے کی کوشش کی اور کامیاب رہے۔ آئیے ہم آپ کو اپنی اِس کامیابی کااقبالی بیان ریکارڈ کرواتے ہیں۔
آپ کو تو خیر معلوم ہے، مگربذریعۂ مضمونِ ہٰذا ’’بابالوگ‘‘ کو معلوم ہوکہ ہمارے گاؤں دیہات کے وضع دار لوگ تہبند (یادھوتی) باندھنے کے بعد مقامِ بندش ذرا نیچے کا کچھ کپڑا بندھن تلے سے گزارکر اُوپر کو نکال لیتے ہیں۔اوراِس جھول، جھولے یا جھولی میں اپنی کوئی قیمتی چیز محفوظ کرلیتے ہیں۔ یہ مکمل طورپر بند اور محفوظ جیب ’’ڈب‘‘ کہلاتی ہے۔ ’’ڈب‘‘ چھوٹی بھی ہوتی ہے اور بڑی بھی۔ چھوٹی کو فارسی میں ’’خرد‘‘ کہتے ہیں اور بڑی کو ’’کلاں‘‘۔اب ’’بابالوگوں‘‘ کو یقینا ’’ڈبِّ کلاں‘‘ کا مطلب تو معلوم ہوہی گیا ہوگا۔
جیسا کہ اوپر بیرسٹر اعجاز حسین بٹالوی کے مقدمے میںذکر آیاکہ پولیس نے مُہر کی جمع ایک عربی قاعدے کو مد نظر رکھ کر ’’مواہیر‘‘ بنالی۔ اُسی قاعدے کی رُو سے جس کے تحت مضمون کی جمع مضامین، مکتوب کی جمع مکاتیب اور مشہور کی جمع مشاہیر بنائی جاتی ہے۔ پس مذکورہ پولیس آفیسر کو بھی جب کسی بھی زبان کی لغت میں ’’روٹی‘‘ کی جمع نہیں دکھائی دی (کیوں کہ سوائے پیشہ ور گداگروں کے، کسی کو بھی روٹی جمع کرتے نہیں دیکھا گیا، تاہم روٹی کی جمع اُنھیں بھی معلوم نہیں ہوگی) تو اُس نے از خود مجتہد عصر یا ’’مجتہد نثر‘‘ بن کر روٹی کی جمع ’’رواٹیٹ‘‘ بناڈالی۔ اسی قسم کے قواعد کی رُو سے بچے کی جمع ’’بواچیچ‘‘ ہوسکتی ہے، مرد کی جمع ’’مردود‘‘ اور کھٹمل کی جمع’’ کھٹاملہ‘‘۔
اب رہ گیا لفظ ’’مچپّڑ‘‘ تو اے صاحبو! اگر عطر لگا ہوا لباس ’’معطّر‘‘ ہوسکتا ہے، ہم جیسے ’’عینکو‘‘ لوگوں کو’’ معنک‘‘ کہا جاسکتا ہے اور چربی سے بھرے ہوئے گوشت (یاشخص) کو ’’مچرب‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے، تو آخرچپڑی ہوئی روٹیوں کو ’’مچپّڑ‘‘کیوں نہیں کہا جاسکتا؟ اب ذرا (علی الترتیب) اُردو، پنجابی، فارسی اور عربی قواعد و انشاکے حسین امتزاج سے تخلیق کیے ہوئے اِس فقرے کودوبارہ پڑھ کر دیکھیے کہ بقول احسان دانش…’’کیسے مشکل مسئلے کو ہم نے پانی کردیا‘‘… کہ:
’’تلاشی لینے پر ملزم کی ڈبِّ کلاں سے ’’رَوَاٹیٹِ مچپَّڑ‘‘ برآمد ہوئیں‘‘۔
کون جانے کہ تلاشی لینے پر ملزم کی ’’ڈبِّ کلاں‘‘ سے جو ’’رَوَاٹیٹِ مچپَّڑ‘‘ برآمد ہوئی تھیں، اُس غریب پر اُنھی کو چُرانے کاالزام تھایا الزام تو اُس پر کچھ اور تھا مگر پولیس نے اپنی مستعدی اور ’’چُستعدی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُس کی ڈبِّ خورد وکلاں کی بھی تلاشی لے ڈالی۔ خیر گزری کہ ملزم سے اور کچھ نہیں تو ’’رَوَاٹیٹِ مچپَّڑ‘‘ ہی برآمد ہوگئیں۔ ورنہ پولیس کی بابت تو مشہور یہ ہے کہ:
’’اگر پولیس آپ کی جیب سے کچھ’’ نکال‘‘ نہ سکے تو کچھ’’ ڈال‘‘ دیتی ہے‘‘۔
پس مقامِ شکر ہے کہ پولیس (اور اُس کی ضمنیوں کے کاغذات) کا پیٹ ’’رَوَاٹیٹِ مچپَّڑ‘‘ ہی سے بھر گیا۔ ورنہ وہ جو ایک محاورہ مشہور ہے کہ: ’’چپڑی اور دودو؟‘‘ تو صیغۂ جمع استعمال کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پولیس کو بھی ’’چپڑی اور دود‘‘ ہی مل گئی تھیں، ورنہ کچھ بعید نہ تھا کہ وہ ملزم کی ایک ایک ڈب سے ہیروئن، چرس، افیون اور گانجا برآمد کرلیتی۔ جس کے بعد ملزم حیرت سے ’’دھُت‘‘ ہوجاتا۔
صاحبو!‘… اُردو زبان کے بہت سے الفاظ کو پولیس ہی نے اپنے لتر، چھتریا ڈنڈے وغیرہ کے زور سے زندہ رکھا ہے۔ ورنہ آپ کو اُردو اخبارات میں…’ ’حوالات‘‘… ’’تفتیش‘‘… ’’ضمانت‘‘… ’’روزنامچہ‘‘… ’’ضمنی‘‘… ’’نتھی الف‘‘… ’’فردِ مقبوضگی‘‘… ’’سپرداری‘‘… ’’موقعِ واردات‘‘… ’’اقبالی بیان… ’’بیانِ نزعی‘‘… ’’اعانت مجرمانہ‘‘… ’’مداخلتِ بے جا بہ اُموروکارِ سرکار‘‘…’ ’حبس بے جا‘‘… ’’اغوا برائے تاوان‘‘… ’’مجرمانہ حملہ‘‘… ’’اقدامِ قتل‘‘… ’’قتل عمد‘‘… ’’اخفائے جرم‘‘… اور… ’’اشتہارِ شور غوغا‘‘… وغیرہ وغیرہ جیسے الفاظ کی جگہ بھی انگریزی ہی کے الفاظ گِٹ پِٹ، گِٹ پِٹ چھپے ہوئے دکھائی دیتے۔
ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہمارا کوئی محققِ زبان وبیان پولیس کے ان شہکار فقروں اور اِن ادق اصطلاحوں کو پولیس (کی مِسلوں، روزنامچوں اور ضمنیوں) کی قید سے باہر نکال کر لائے۔ ان کا ایک مجموعہ چھپوائے اورقومی زبان کے سرکاری زبان بننے کی راہ میں حائل نوکرشاہی المعروف بہ ’’بیوروکریسی‘‘ والمشہور بہ ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کو جاکر دکھائے کہ:
دیکھو! اِس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا
اور اُن کو یہ بھی سمجھائے کہ:
اے عزیزو! باز آجاؤ،ورنہ بھلا… ’’رَوَاٹیٹ‘‘کب تک ’’ مُچپَّڑ‘‘ رہیں گی؟
(کراچی جمخانہ کلب کے پروگرام ’’ایک مُسکراتی شام‘‘ میں پڑھی جانے والی تحریر)
مقامِ ستائش ہے کہ ذ ہنی مرعوبیت اور لسانی غلامی کے اِس دور میں بھی ہماری پولیس نے اپنے روزنامچوں اور ’’ضمنیوں‘‘ میں وہ زبان زندہ رکھی ہے جو’’ استعمار کی غلامی‘‘ کے دور میں ہماری متعدد ریاستوں اور حکومتوں کے ذ ہنی طور پر آزاد حکمرانوں نے اپنی سرکاری زبان بنارکھی تھی، جو اَب پاکستان کے تمام صوبوں اورتمام پاکستانی زبانیں بولنے والوں کے مابین رابطے کی زبان ہے اور جسے آزادی کے وقت سے آج تک ہم اپنی قومی زبان کی حیثیت سے (انگریزی کی جگہ) اپنی سرکاری زبان بنانے کے خواہاں ہیں۔
امتدادِ زمانہ سے اور موجودہ زمانے کی پولیس کے ہتھے چڑھ جانے سے اب اس زبان کا بھی وہی حشر ہوگیا ہے جوکسی کا پولیس کے ہاتھوں ہوجاتا ہے۔ (بالخصوص کوئی بھی پاکستانی زبان بولنے والوںکا )۔ حضرتِ داغؔ کا دعویٰ تھا کہ:
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
(اورآپ نے سُناہی ہوگا کہ: ’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘)۔ مگر یہ زبان اب ایسی ’’بے زبان‘‘ ہوئی ہے کہ (چینلوں کے اینکروں سمیت) اس کے ساتھ جو جیسا چاہے سلوک کرلے، اب یہ اُف تک نہیں کرتی۔ بے داغ زبان تو اب سننے ہی کونہیں ملتی۔ وجہ وہی ہے کہ اب چینلوں نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ:
’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘۔
برسوں پہلے (غالباً 1996ء ) کی بات ہے۔ لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ کے رُوبرو ممتاز وکیل جناب اعجاز حسین بٹالوی ایک پولیس آفیسر کی شہادت کی خواندگی فرمارہے تھے کہ اسی اثناء میں اُنھیں پولیس کی ’’خواندگی‘‘ کی بھی ایک شہادت مل گئی۔ ہوا یوں کہ پڑھتے پڑھتے جب اُنھوں نے مُہر کی جمع (مُہریں) پڑھنے کی بجائے ’’مواہیر‘‘ پڑھی تو جناب جسٹس مشتاق احمد خان نے فاضل وکیل کو ٹوکتے ہوئے استفسار کیا:
’’کیا یہ لفظ قواعد(گرامر) کی رُو سے درست ہے؟‘‘
تو بیرسٹر اعجاز حسین بٹالوی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:
’’میں نے تو پولیس کی ضمنیوں میں اس سے بھی زیادہ دلچسپ زبان پڑھی ہے‘‘۔
پھر اُنھوں نے ایک دلچسپ حوالہ بھی دیا۔اُنھوں نے عدالت کو بتایاکہ:
’’ایک ضمنی میں لکھا تھا کہ… تلاشی لینے پر ملزم کی ڈبِّ کلاں سے ’’رَوَاٹِیٹِ مُچپَّڑ‘‘ برآمد ہوئیں‘‘۔
خواتین و حضرات! ڈر نہ جائیے گا کہ دہشت گردی و تخریب کاری کے اِس جدید ترین دور میں پولیس نے ملزم کی کس حساس ترین شے سے کیا خطرناک ترین چیز برآمد کرلی؟
ڈر تو ہم بھی گئے تھے۔ اور ڈرتے ڈرتے سوچا کہ یہ جملہ تو اُردوہی کا معلوم ہوتا ہے، مگر پولیس کے آگے بڑے بڑوں کی اُردو خراب ہوجاتی ہے۔ ہم کیا شے ہیں؟ تاہم(پولیس کے خوف سے) اپنے سوکھے ہوئے حلق کو پانی سے تر کرکے ان مشکل الفاظ کو پانی کرنے کی کوشش کی اور کامیاب رہے۔ آئیے ہم آپ کو اپنی اِس کامیابی کااقبالی بیان ریکارڈ کرواتے ہیں۔
آپ کو تو خیر معلوم ہے، مگربذریعۂ مضمونِ ہٰذا ’’بابالوگ‘‘ کو معلوم ہوکہ ہمارے گاؤں دیہات کے وضع دار لوگ تہبند (یادھوتی) باندھنے کے بعد مقامِ بندش ذرا نیچے کا کچھ کپڑا بندھن تلے سے گزارکر اُوپر کو نکال لیتے ہیں۔اوراِس جھول، جھولے یا جھولی میں اپنی کوئی قیمتی چیز محفوظ کرلیتے ہیں۔ یہ مکمل طورپر بند اور محفوظ جیب ’’ڈب‘‘ کہلاتی ہے۔ ’’ڈب‘‘ چھوٹی بھی ہوتی ہے اور بڑی بھی۔ چھوٹی کو فارسی میں ’’خرد‘‘ کہتے ہیں اور بڑی کو ’’کلاں‘‘۔اب ’’بابالوگوں‘‘ کو یقینا ’’ڈبِّ کلاں‘‘ کا مطلب تو معلوم ہوہی گیا ہوگا۔
جیسا کہ اوپر بیرسٹر اعجاز حسین بٹالوی کے مقدمے میںذکر آیاکہ پولیس نے مُہر کی جمع ایک عربی قاعدے کو مد نظر رکھ کر ’’مواہیر‘‘ بنالی۔ اُسی قاعدے کی رُو سے جس کے تحت مضمون کی جمع مضامین، مکتوب کی جمع مکاتیب اور مشہور کی جمع مشاہیر بنائی جاتی ہے۔ پس مذکورہ پولیس آفیسر کو بھی جب کسی بھی زبان کی لغت میں ’’روٹی‘‘ کی جمع نہیں دکھائی دی (کیوں کہ سوائے پیشہ ور گداگروں کے، کسی کو بھی روٹی جمع کرتے نہیں دیکھا گیا، تاہم روٹی کی جمع اُنھیں بھی معلوم نہیں ہوگی) تو اُس نے از خود مجتہد عصر یا ’’مجتہد نثر‘‘ بن کر روٹی کی جمع ’’رواٹیٹ‘‘ بناڈالی۔ اسی قسم کے قواعد کی رُو سے بچے کی جمع ’’بواچیچ‘‘ ہوسکتی ہے، مرد کی جمع ’’مردود‘‘ اور کھٹمل کی جمع’’ کھٹاملہ‘‘۔
اب رہ گیا لفظ ’’مچپّڑ‘‘ تو اے صاحبو! اگر عطر لگا ہوا لباس ’’معطّر‘‘ ہوسکتا ہے، ہم جیسے ’’عینکو‘‘ لوگوں کو’’ معنک‘‘ کہا جاسکتا ہے اور چربی سے بھرے ہوئے گوشت (یاشخص) کو ’’مچرب‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے، تو آخرچپڑی ہوئی روٹیوں کو ’’مچپّڑ‘‘کیوں نہیں کہا جاسکتا؟ اب ذرا (علی الترتیب) اُردو، پنجابی، فارسی اور عربی قواعد و انشاکے حسین امتزاج سے تخلیق کیے ہوئے اِس فقرے کودوبارہ پڑھ کر دیکھیے کہ بقول احسان دانش…’’کیسے مشکل مسئلے کو ہم نے پانی کردیا‘‘… کہ:
’’تلاشی لینے پر ملزم کی ڈبِّ کلاں سے ’’رَوَاٹیٹِ مچپَّڑ‘‘ برآمد ہوئیں‘‘۔
کون جانے کہ تلاشی لینے پر ملزم کی ’’ڈبِّ کلاں‘‘ سے جو ’’رَوَاٹیٹِ مچپَّڑ‘‘ برآمد ہوئی تھیں، اُس غریب پر اُنھی کو چُرانے کاالزام تھایا الزام تو اُس پر کچھ اور تھا مگر پولیس نے اپنی مستعدی اور ’’چُستعدی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُس کی ڈبِّ خورد وکلاں کی بھی تلاشی لے ڈالی۔ خیر گزری کہ ملزم سے اور کچھ نہیں تو ’’رَوَاٹیٹِ مچپَّڑ‘‘ ہی برآمد ہوگئیں۔ ورنہ پولیس کی بابت تو مشہور یہ ہے کہ:
’’اگر پولیس آپ کی جیب سے کچھ’’ نکال‘‘ نہ سکے تو کچھ’’ ڈال‘‘ دیتی ہے‘‘۔
پس مقامِ شکر ہے کہ پولیس (اور اُس کی ضمنیوں کے کاغذات) کا پیٹ ’’رَوَاٹیٹِ مچپَّڑ‘‘ ہی سے بھر گیا۔ ورنہ وہ جو ایک محاورہ مشہور ہے کہ: ’’چپڑی اور دودو؟‘‘ تو صیغۂ جمع استعمال کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پولیس کو بھی ’’چپڑی اور دود‘‘ ہی مل گئی تھیں، ورنہ کچھ بعید نہ تھا کہ وہ ملزم کی ایک ایک ڈب سے ہیروئن، چرس، افیون اور گانجا برآمد کرلیتی۔ جس کے بعد ملزم حیرت سے ’’دھُت‘‘ ہوجاتا۔
صاحبو!‘… اُردو زبان کے بہت سے الفاظ کو پولیس ہی نے اپنے لتر، چھتریا ڈنڈے وغیرہ کے زور سے زندہ رکھا ہے۔ ورنہ آپ کو اُردو اخبارات میں…’ ’حوالات‘‘… ’’تفتیش‘‘… ’’ضمانت‘‘… ’’روزنامچہ‘‘… ’’ضمنی‘‘… ’’نتھی الف‘‘… ’’فردِ مقبوضگی‘‘… ’’سپرداری‘‘… ’’موقعِ واردات‘‘… ’’اقبالی بیان… ’’بیانِ نزعی‘‘… ’’اعانت مجرمانہ‘‘… ’’مداخلتِ بے جا بہ اُموروکارِ سرکار‘‘…’ ’حبس بے جا‘‘… ’’اغوا برائے تاوان‘‘… ’’مجرمانہ حملہ‘‘… ’’اقدامِ قتل‘‘… ’’قتل عمد‘‘… ’’اخفائے جرم‘‘… اور… ’’اشتہارِ شور غوغا‘‘… وغیرہ وغیرہ جیسے الفاظ کی جگہ بھی انگریزی ہی کے الفاظ گِٹ پِٹ، گِٹ پِٹ چھپے ہوئے دکھائی دیتے۔
ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہمارا کوئی محققِ زبان وبیان پولیس کے ان شہکار فقروں اور اِن ادق اصطلاحوں کو پولیس (کی مِسلوں، روزنامچوں اور ضمنیوں) کی قید سے باہر نکال کر لائے۔ ان کا ایک مجموعہ چھپوائے اورقومی زبان کے سرکاری زبان بننے کی راہ میں حائل نوکرشاہی المعروف بہ ’’بیوروکریسی‘‘ والمشہور بہ ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کو جاکر دکھائے کہ:
دیکھو! اِس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا
اور اُن کو یہ بھی سمجھائے کہ:
اے عزیزو! باز آجاؤ،ورنہ بھلا… ’’رَوَاٹیٹ‘‘کب تک ’’ مُچپَّڑ‘‘ رہیں گی؟
(کراچی جمخانہ کلب کے پروگرام ’’ایک مُسکراتی شام‘‘ میں پڑھی جانے والی تحریر)