ساز ہ
ساز ہستی پہ ابھی جھوم کے گا لے مجھ کو
زندگی سے یہ کہو اور نہ ٹالے مجھ کو
میں نے تو صبح درخشاں کی دعا مانگی تھی
کیوں ملے زرد چراغوں کے اجالے مجھ کو
زندگی
احساسات کی بستی میں جب ہر جانب سناٹا تھا
میں آوازوں کے جنگل میں تب جانے کیا ڈھونڈ رہا تھا
جن راہوں سے اپنے دل کا ہر قصہ منسوب رہا
اب تو یہ بھی یاد نہیں ہے ان راہوں کا قصہ کیا تھا
یاد