محمد اظہر نذیر
محفلین
زخم دل ہے، دکھا، کروں بھی تو کیا؟
حال اپنا سُنا، کروں بھی تو کیا؟
پاس ہوتے ہوئے بھی دور ہے وہ
اب اُسے میں جدا کروں بھی تو کیا؟
کچھ بھی کر لوں، اُسے نہیں بھاتا
میرے مالک، خدا، کروں بھی تو کیا؟
دل مجھے کھینچتا ہی لے جائے
ایسی ایسی ادا، کروں بھی تو کیا؟
اُس سے ہے ابتدا بھی آخر بھی
اور اُس کے سوا، کروں بھی تو کیا؟
پیار تھا ابتدا میں بس اظہر
عشق ہے انتہا، کروں بھی تو کیا