شعیب صفدر
محفلین
باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجالیں
باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجالیں تم کو
جی میں آتا ہے کہ تعویز بنالیں ےم کو
پھر تمھیں روز سنواریں تمھیں بڑھتا دیکھیں
کیوں نہ آنگن میں چنبیلی سا لگا لیں تم کو
جیسے بالوں میں کوئی پھول چُنا کرتا ہے
گھر کے گلدان میں پھولوں سا سجالیں تم کو
کیا عجب خواہش اٹھتی ہیں ہمارے دل میں
کر کے منا سا ہواؤں میں اُچھالیں تم کو
اس قدر ٹوٹ کے تم پر ہمیں پیار آتا ہے
اپنی بانہوں میں بھریں مار ہی ڈالیں تم کو
کبھی خوابوں کی طرح آنکھ کے پردے میں رہو
کبھی خواہش کی طرح دل میں بُلا لیں تم کو
ہے تمھارے لیے کچھ ایسی عقیدت دل میں
اپنے ہاتھوں میں دعاؤں سا اٹھالیں تم کو
جان دینے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہو
ورنہ مر جائیں ابھی مر کے منا لیں تم کو
جس طرح رات کے سینے میں ہے مہتاب کا نور
اپنے تاریخ مکانوں میں سجالیں تم کو
اب تو بس ایک ہی خواہش ہے کسی موڑ پر تم
ہم کو بکھرے ہوئے مل جاؤ سنبھالیں تم کو
(وصی شاہ)
باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجالیں تم کو
جی میں آتا ہے کہ تعویز بنالیں ےم کو
پھر تمھیں روز سنواریں تمھیں بڑھتا دیکھیں
کیوں نہ آنگن میں چنبیلی سا لگا لیں تم کو
جیسے بالوں میں کوئی پھول چُنا کرتا ہے
گھر کے گلدان میں پھولوں سا سجالیں تم کو
کیا عجب خواہش اٹھتی ہیں ہمارے دل میں
کر کے منا سا ہواؤں میں اُچھالیں تم کو
اس قدر ٹوٹ کے تم پر ہمیں پیار آتا ہے
اپنی بانہوں میں بھریں مار ہی ڈالیں تم کو
کبھی خوابوں کی طرح آنکھ کے پردے میں رہو
کبھی خواہش کی طرح دل میں بُلا لیں تم کو
ہے تمھارے لیے کچھ ایسی عقیدت دل میں
اپنے ہاتھوں میں دعاؤں سا اٹھالیں تم کو
جان دینے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہو
ورنہ مر جائیں ابھی مر کے منا لیں تم کو
جس طرح رات کے سینے میں ہے مہتاب کا نور
اپنے تاریخ مکانوں میں سجالیں تم کو
اب تو بس ایک ہی خواہش ہے کسی موڑ پر تم
ہم کو بکھرے ہوئے مل جاؤ سنبھالیں تم کو
(وصی شاہ)