یہ تو نہیں پتا کہ بابا ویلنٹائن دنیا میں کب اور کیسے آیا لیکن یہ بات پکی ہے کہ آیا ضرور تھا۔
دنیا سے بے نیاز اور اپنی ذاتی خواہشوں اور انسانی ضروریات کو کنٹرول میں رکھنے والا۔ (خبردار اس جملے سے کوئی یہ نا سمجھے کہ وہ ٹوائلٹ وغیرہ نہیں جاتا تھا۔)
ایک دفعہ وہ اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کی دھن اور کوشش میں ایک سڑک کنارے چلا جارہا تھا کہ اچانک اسے ایک چیز ایسی چیز دکھائی دی جس کو دیکھ کر اسکے دل میں انسانی، حیوانی، نفسانی ، روحانی اور طرح طرح کے جذبات کی دھینگا مشتی شروع ہوگئی۔ اور سارے جذبات ایک دم چلانے لگے کہیں سے آواز آرہی تھی کہ اؤے یہ کیا دیکھ رہا ہے؟ کوئی کہ رہا تھا ابے اسی سے تو دنیا میں رنگ ہیں! کوئی چلا رہا تھا میں تو پہلے ہی کہتا تھا دنیا سے اتنی بھی بے رغبتی اچھی نہیں کسی نے کہا اپنا اصلی مقصد مت بھول۔ لیکن ویلنٹائن کو یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کون سی صدا کس جذبے کی ہے! اور کس کی سنے اور کس کو نظر انداز کرے اور اسی کشمکش میں وہ یہ بھول گیا کہ ابھی تک اسی کو دیکھ رہا جس کو دیکھنے سے اس کے اندر جذبات کا یہ شور شرابا شروع ہو تھا۔ اتنے میں اسکو ایک بہت تگڑی اور حقیقت کے بہت قریب آواز سنائی دی۔
"اؤے اس لڑکی کو کیوں گھورے جارہا ہے" ؟
غور کیا تو اندازہ ہوا کہ یہ آواز اسکے اندر سے نہیں باہر سے آئی تھی۔ گردن گھما کر دیکھا تو ایک دراز قد اور نوجوان مرد اسے گھور کر یہ سوال پوچھ رہا تھا۔
وہ نوجوان ویلنٹائن کو اچھا نہیں لگا ایک تو اسکے غصے سے بھرے چہرے اور آواز کی ٹون خوش اخلاقی سے خالی تھی اور دوسرا اسکی آواز نے ویلنٹائن کو اس لڑکی سے توجہ ہٹانے پر مجبور کر دیا تھا۔ ویلنٹائن نے سوچا لڑکا آوارہ سا لگتا ہے اسکو اسی کے انداز میں جواب دینا چاہئے۔ سو ویلنٹائن نے اپنے اندر پیدا ہونے والے تھوڑے سے خوف کو جو دل میں نوجون کے لمبے قد کی وجہ سے پیدا ہوا تھا کو دبا کر ہمت کی اور ذرا قدرے کرخت لہجے میں پوچھا
"کیوں "؟، "تمہاری بہن لگتی ہے کیا" ؟
"ہاں" !! نوجوان تھوڑا اور غصے سے بولا۔ "شرم نہیں آتی پریسٹ ہوکر دوسری لڑکیوں کو تاڑتے ہو؟"
اب ویلنٹائن پر گھبراہٹ طاری ہوگئی ۔ دل ہی دل میں اپنے اندر کے جذبات کو کوسنے لگا۔
"جیلر کی لڑکی کو تو کوئی عام آدمی لائن نہیں مارتا ، اور تیری یہ ہمت؟ تیرے تو آگے پیچھے بھی کوئی نہیں! " نوجوان مزید چلایا۔
"وہ تو سڑک کنارے نظر آگئی، میں نے ڈھونڈ کر تو نہیں تاڑا اسے" ویلنٹائن نے ایمانداری سے کام لیتے ہوئے کہا۔
"ہماری بالکونی تجھے سڑک کنارا لگتی ہے؟ " نوجوان اپنی قیمتی رہائش گاہ کی قدرے بےقدری پر مزید برا منا کر بولا۔
اتنے میں جیلر کے گھر کے گارڈ بھی وہاں اونچی آوازیں سن کر پہنچ چکے تھے۔
"اس بے حیا، پادری کو ذرا جیل کی ہوا کھلاؤ" نوجوان گارڈوں سے مخاطب ہوا۔
"بے حیا میں تھوڑی ہوں، بلکہ وہ" ویلنٹائن کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
تھوڑی دیر تک وہ ایک جیل کے اندر قید ہو چکا تھا۔
دنیا سے بے نیاز اور اپنی ذاتی خواہشوں اور انسانی ضروریات کو کنٹرول میں رکھنے والا۔ (خبردار اس جملے سے کوئی یہ نا سمجھے کہ وہ ٹوائلٹ وغیرہ نہیں جاتا تھا۔)
ایک دفعہ وہ اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کی دھن اور کوشش میں ایک سڑک کنارے چلا جارہا تھا کہ اچانک اسے ایک چیز ایسی چیز دکھائی دی جس کو دیکھ کر اسکے دل میں انسانی، حیوانی، نفسانی ، روحانی اور طرح طرح کے جذبات کی دھینگا مشتی شروع ہوگئی۔ اور سارے جذبات ایک دم چلانے لگے کہیں سے آواز آرہی تھی کہ اؤے یہ کیا دیکھ رہا ہے؟ کوئی کہ رہا تھا ابے اسی سے تو دنیا میں رنگ ہیں! کوئی چلا رہا تھا میں تو پہلے ہی کہتا تھا دنیا سے اتنی بھی بے رغبتی اچھی نہیں کسی نے کہا اپنا اصلی مقصد مت بھول۔ لیکن ویلنٹائن کو یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کون سی صدا کس جذبے کی ہے! اور کس کی سنے اور کس کو نظر انداز کرے اور اسی کشمکش میں وہ یہ بھول گیا کہ ابھی تک اسی کو دیکھ رہا جس کو دیکھنے سے اس کے اندر جذبات کا یہ شور شرابا شروع ہو تھا۔ اتنے میں اسکو ایک بہت تگڑی اور حقیقت کے بہت قریب آواز سنائی دی۔
"اؤے اس لڑکی کو کیوں گھورے جارہا ہے" ؟
غور کیا تو اندازہ ہوا کہ یہ آواز اسکے اندر سے نہیں باہر سے آئی تھی۔ گردن گھما کر دیکھا تو ایک دراز قد اور نوجوان مرد اسے گھور کر یہ سوال پوچھ رہا تھا۔
وہ نوجوان ویلنٹائن کو اچھا نہیں لگا ایک تو اسکے غصے سے بھرے چہرے اور آواز کی ٹون خوش اخلاقی سے خالی تھی اور دوسرا اسکی آواز نے ویلنٹائن کو اس لڑکی سے توجہ ہٹانے پر مجبور کر دیا تھا۔ ویلنٹائن نے سوچا لڑکا آوارہ سا لگتا ہے اسکو اسی کے انداز میں جواب دینا چاہئے۔ سو ویلنٹائن نے اپنے اندر پیدا ہونے والے تھوڑے سے خوف کو جو دل میں نوجون کے لمبے قد کی وجہ سے پیدا ہوا تھا کو دبا کر ہمت کی اور ذرا قدرے کرخت لہجے میں پوچھا
"کیوں "؟، "تمہاری بہن لگتی ہے کیا" ؟
"ہاں" !! نوجوان تھوڑا اور غصے سے بولا۔ "شرم نہیں آتی پریسٹ ہوکر دوسری لڑکیوں کو تاڑتے ہو؟"
اب ویلنٹائن پر گھبراہٹ طاری ہوگئی ۔ دل ہی دل میں اپنے اندر کے جذبات کو کوسنے لگا۔
"جیلر کی لڑکی کو تو کوئی عام آدمی لائن نہیں مارتا ، اور تیری یہ ہمت؟ تیرے تو آگے پیچھے بھی کوئی نہیں! " نوجوان مزید چلایا۔
"وہ تو سڑک کنارے نظر آگئی، میں نے ڈھونڈ کر تو نہیں تاڑا اسے" ویلنٹائن نے ایمانداری سے کام لیتے ہوئے کہا۔
"ہماری بالکونی تجھے سڑک کنارا لگتی ہے؟ " نوجوان اپنی قیمتی رہائش گاہ کی قدرے بےقدری پر مزید برا منا کر بولا۔
اتنے میں جیلر کے گھر کے گارڈ بھی وہاں اونچی آوازیں سن کر پہنچ چکے تھے۔
"اس بے حیا، پادری کو ذرا جیل کی ہوا کھلاؤ" نوجوان گارڈوں سے مخاطب ہوا۔
"بے حیا میں تھوڑی ہوں، بلکہ وہ" ویلنٹائن کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
تھوڑی دیر تک وہ ایک جیل کے اندر قید ہو چکا تھا۔