بے پر کی

آج کسی بات پر لاحول پڑھنے کی نوبت آگئی تو اس پے ایک پر دار بات یاد آگئی پر اتنی آدھی ادھوری یاد آئی کہ تقریباً بے پر کی ہو کر رہ گئی۔

کہتے ہیں کہ

بیگم کا غضب ڈھانا لاحول و لاقوہ
ہر بات پے غرانا لاحول و لاقوہ
ہم نے در جنت سے رضواں کو پکارا تھا
اور آگئی رضوانہ لاحول و لاقوہ

باپ رے ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ بھاگ لو یہاں سے!
ورنہ محفل میں کوئی رضوانہ آپڑیں تو پر کاٹے بغیر اڑا دیں گی۔
 

سارہ خان

محفلین
ہاہاہا ۔۔ شکر کریں کوئی رضوانہ نہیں اتیں یہاں ۔۔:tounge: رضوان بھائی البتہ آتے تھے ۔۔ آجکل نہیں آ رہے ۔۔۔
 
سعود یہ پردار کیا ہے :confused:

ہا ہا ہا ہا ہا

اتنی مختصر بے پر کی کا تصور بھی محال تھا میرے لئے۔ پر اپیا تو پھر اپیا ہیں۔ :)

دار ایک لاحقہ ہے جو کہ کسی شئے کی ملکیت/وجود بتاتا ہے۔

جن عورتوں کو گھر داری آتی ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ انہوں نے علم امور خانہ داری کا درس کسی اسکول سے ہی لیا ہو۔ بلکہ یہ ہنر تو سینہ بسینہ ماؤں سے بیٹیوں کو منتقل ہوتا ہے بشرطیکہ لڑکیاں ان چیزوں کی پاسداری کریں۔
ایسے تو ستارے بھی د ُمدار ہوتے ہیں اور شاید دَمدار بھی۔
اور ہاں یہ بات تو بتانا ہی بھول گیا کہ اگر خواب گاہ ہوا دار ہو اور نیند کی گولی اثردار ہو تو بیدار ہونے کا جی مشکل سے کرتا ہے۔

ارے ہیں آخری جلی لفظ بے پر کی ہے باقی میں آپ چاہیں تو پر تلاش سکتی ہیں۔ :)
 
شرمندہ کرنا تو کوئی سعود سے سیکھے :grin:

حد ہوگئی اپیا!

میں نے تو دیکھا کہ موضوع اچھا ہاتھ آ رہا ہے تو لگے ہاتھوں‌ تھوڑی سی بے پر کی اڑا دوں۔ ویسے اس وقت کچھ پر ہاتھ ہی میں رہ گئے تھے جنھیں نہیں اڑا سکا تھا۔ مثلاً دیندار، ایماندار، حیا دار پر کردار ہرگز نہیں۔ :)

یوں ہی یاد آگیا کہ فارسی کا اصول ہوتا ہے کہ مصدر کے اخیر میں دَن یا تَن ہوتا ہے جیسے کردن، گفتن، آمدن وغیرہ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا گردن بھی مصدر ہے۔ :grin:
 

شمشاد

لائبریرین
ہاہاہا ۔۔ شکر کریں کوئی رضوانہ نہیں اتیں یہاں ۔۔:tounge: رضوان بھائی البتہ آتے تھے ۔۔ آجکل نہیں آ رہے ۔۔۔

تمہاری اطلاع کے لیے وہ آج آئے تھے " کون ہے جو محفل میں آیا " میں۔ ادھر بھی جھانکا ہو گا لیکن آخر میں ہ نظر آ گئی ہو گی تو چلے گئے۔
 
شاہ سعود کا نام شاہ سعود کیوں تھا یہ تو نہیں جانتا پر اپنی وجہ تسمیہ کچھ یوں ہے کہ۔

شدید سردی کا موسم تھا، بدلی اور کہرے کے چلتے سطح زمین روندنے والے ہفتوں سے سورج کی روشنی پانے سے محروم تھے پورا پورا دن الاؤ سلگائے راکھ کریدتے گزار دیتے تھے۔ ایسے میں اندھیروں سے رو برو ہونے کو آئے اجالوں کے سفیر نے پہلی چھینک لی۔

شور مچ گیا! خوشیوں کی لہر دوڑ گئی!

اگلا سوال تھا نام کیا رکھا جائے؟

دادا با حیات تھے پھوپھی دوڑی دوڑی ان کے پاس گئیں ابو نام کیا رکھیں؟
دادا نے کہا کیا مجھے ہی نام تجویز کرنا ہوگا؟
پھوپھی بولیں اور نہیں تو کیا! بڑے پوتے کا نام آپ نے رکھا تو اس کا کون رکھے گا بھلا؟ اور ویسے بھی آپ کے ہوتے ہوئے کس کی مجال ہے؟

دادا مانو سوچے بیٹھے تھے بولے مجھے ہی رکھنا ہے تو سعود رکھ دیجئے۔

پھوپھی بولیں چلو مسئلہ ہی حل ہے! کم از کم آنے والے تین اور بھتیجوں کے نام کے لئے ہمیں پہلے سے ہی نام مل گئے ہیں۔

لوگوں نے پوچھا کیا؟

فرمانے لگیں۔۔۔۔

بڑا بھتیجا ہے
مسعود (مبارک)

م گرا دو تو یہ بھتیجا
سعود (خوش بخت)

س گرا کر اگلا ہو سکتا ہے
عود (ایک خوشبودار لکڑی)

اس کے بعد
ودّ (بمعنی محبت)

او اخیر میں
د (اردو حرف تھجی)

خیر بھائی تو ہم پانچ ہی ہیں پر ناموں میں یہ ترتیب باقی نہ رہی۔ :)

بذریعہ چشم دید گواہ سعود ابن سعید
 

الف عین

لائبریرین
حد ہوگئی اپیا!

میں نے تو دیکھا کہ موضوع اچھا ہاتھ آ رہا ہے تو لگے ہاتھوں‌ تھوڑی سی بے پر کی اڑا دوں۔ ویسے اس وقت کچھ پر ہاتھ ہی میں رہ گئے تھے جنھیں نہیں اڑا سکا تھا۔ مثلاً دیندار، ایماندار، حیا دار پر کردار ہرگز نہیں۔ :)

یوں ہی یاد آگیا کہ فارسی کا اصول ہوتا ہے کہ مصدر کے اخیر میں دَن یا تَن ہوتا ہے جیسے کردن، گفتن، آمدن وغیرہ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا گردن بھی مصدر ہے۔ :grin:
سعود۔ اس پر یاد آیا کہ جس زمانے میں بڑی بہن اور میں والدین سے فارسی سیکھنے کی کوشش کر رہے تھے، تو چھوٹا بھائی اس وقت تین چار سال کا تھا۔ وہ گھردان کرتے تھے؛
آمن ۔۔ آنا، جامن۔ جانا، کھامن ۔ کھانا۔۔۔۔۔
 
سعود۔ اس پر یاد آیا کہ جس زمانے میں بڑی بہن اور میں والدین سے فارسی سیکھنے کی کوشش کر رہے تھے، تو چھوٹا بھائی اس وقت تین چار سال کا تھا۔ وہ گھردان کرتے تھے؛
آمن ۔۔ آنا، جامن۔ جانا، کھامن ۔ کھانا۔۔۔۔۔

واہ یعنی چھوٹے چاچو چار سال کی عمر سے ہی بے پر کی اڑانے لگے تھے۔ :)
 
کلاسیکی بے پر کی بعنوان دانا حکیم: (کلاسیکی اردو انداز میں میری پہلی کوشش)

بمطابق بیان کرنے کے بزرگوں کے، ایک حکیم کہ انتہائی دانشمند و با شعور، حکمت اور دانائی میں یکتائے روزگار۔ مسائل جو حل کرتا تھا روزانہ بے شمار۔ حاجت مندوں کی ہوتی تھی ایک قطار۔ کہ جس کی دانائی کے چرچے چہار جانب تھے۔ بیزار عالم ہوئے تو جوگ کی ٹھانی۔

القصہ ایک سفر پے روانہ ہوئے۔ ساتھ زاد راہ کچھ نہ تھا۔ بعد ایک طویل مسافت طے کرنے کے، بعد بے شمار دریاؤں، جھیلوں، ندیوں، نالوں، جنگلوں صحراؤں اور بستیوں کو عبور کرنے کے۔ بھوک سے بے حال تھکن سے چور ایک پتھر سے ٹیک لگائے غفلت کی نیند سو گئے۔

گزر اس راہ سے بادشاہ وقت کی سواری کا ہوا۔ کہ شہنشاہ ہفت اقلیم تھا۔ شجاعت اور بہادری میں کوئی ثانی نہ تھا۔ نگاہ پڑتے ہی پہچان لیا کہ حکیم دانائے وقت تھے۔ بچہ بچہ ان کی حکمت کے گن گاتا تھا۔ کنیزوں نے بہزار ناز و نعم دانا حکیم کو آغوش میں بھر کے مسند مخملیں پر دراز کیا۔ چند قطرے عرق دافع غفلت کہ برامد حکیم کے تھیلے سے حلق میں ڈالے گئے۔ ہیبت شاہانہ جلال کی، خوشبو حسینان جواں سال کی۔ سبب برئے بیداریئ حکیم ہفت اقلیم ہوئی۔

القصہ بعد اصرار بے حد کے حکیم مہمان شاہی ہوئے۔

داستان نا تمام کے واقعات بعد ازاں بعد وقفہ مختصر ملاحظہ کریں۔
 

پر امید

محفلین
واہ۔ سعود بھائی ۔ آپ میں لکھنے کی بلکہ اچھا لکھنے کی بہت صلاحیت ہے۔ لکھنا نہ چھوڑیں ۔ مزاح کے ساتھ ساتھ کچھ سنجیدہ بھی لکھیں۔ توجہ ضرور دیں اس طرف
 
واہ۔ سعود بھائی ۔ آپ میں لکھنے کی بلکہ اچھا لکھنے کی بہت صلاحیت ہے۔ لکھنا نہ چھوڑیں ۔ مزاح کے ساتھ ساتھ کچھ سنجیدہ بھی لکھیں۔ توجہ ضرور دیں اس طرف

بس جناب میں تو ایسی ہی اول جلول لکھ پاتا ہوں۔ ویسے آپ کو یہاں اتنی پر دار بات کہنے کی اجازت نہیں ہے۔ :)

اوہ! معافی چاہتا ہوں آپ کی اس پوسٹ میں پر لفظ تو کہیں آیا نہیں اس لئے بے پر ہی ہوا۔ :)
 
آج علاقے کے پارلیمانی رکن نے بہت بڑی میٹنگ بلا رکھی تھی!

بڑے سے میدان مین ایک عالم جمع تھا۔ جگہ جگہ لاؤڈ اسپیکر نصب تھے۔ ہجوم تھا کہ بڑھتا جا رہا تھا۔ لوگ قطار در قطار چلے آ رہے تھے۔

کسی بڑے فیصلے کی گھڑی آن پڑی تھی شاید!

خدا خدا کرکے نیتا جی مخاطب ہوئے کہ دوستو، بھائیو، بہنوں، ماؤں، بیٹیو، اور بزرگو!!

آج جس حساس مسئلے پر آپ کی رائے لینے کے لئے آپ کے درمان حاضر ہوں، اگر اس کا بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ نہ لیا گیا تو ایسا المناک خسارہ ہوگا کہ پچھتائے نہیں بنے گی۔

ہمیں فخر ہے کہ ہمارے علاقے کو ندی کی شکل میں قدرتی تحفہ ملا ہے۔ جس کا صاف شفاف پانی لاجواب ہے۔ ملک کے گوشے گوشے میں اس کی تعریف کی جاتی ہے۔ ہم اسی پانی کو پیتے ہیں اسی سے اپنی فصلیں اگاتے ہیں۔

پر ان دنوں ہمارے علاقے کو سائنسدانوں اور ماہرین کی نظر لگ گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہاں ندی پر باندھ باندھ کر بجلی پیدا کی جائے تو نا صرف یہ کی اس علاقے میں بجلی کی فراوانی ہوجائے گی بلکہ ملک کے دوسرے حصوں کی بجلی کی ضرورت بھی کافی حد تک پوری کی جا سکے گی۔

یاد رہے دوستو بجلی پانی کی جان ہے۔ اگر پانی میں سے بجلی نکال لی جائے تو پانی بے جان ہوکر رہ جائے گا۔ ہمیں ان مخالف طاقتوں کے خلاف احتجاج کرنا ہے۔ ہم اندھیرے میں رہ لیں گے پر بجلی نکالا ہوا پانی استعمال نہیں‌کریں گے!!

مجمع پورے جوش میں نعرے لگاتا ہے۔۔۔۔

یہاں پے باندھ نہیں بنے گا، نہیں بنے گا نہیں بنے گا!
ہمیں بجلی نہیں چاہئے، نہیں چاہئے نہیں چاہئے!
ہم کو اپنا پانی پیارا، پانی پیارا پانی پیارا!

کہیں سے آواز اٹھتی ہے۔

نیتا جی زندہ باد، زندہ باد زندہ باد
زندہ باد زندہ باد زندہ باد زندہ باد
 

تعبیر

محفلین
یہیں سے آواز اٹھتی ہے۔

سعود جی زندہ باد، زندہ باد زندہ باد
زندہ باد زندہ باد زندہ باد زندہ باد :grin:
 

شمشاد

لائبریرین
کل ایک گلوکار کا قصائی کی دکان کے آگے سے گزر ہوا۔ قصائی کی دکان پر بکرے کا سر دیکھ کر رک گئے۔ آگے بڑھے اور قصائی سے سلام دعا کی۔ قصائی کو کچھ سمجھ نہ آئی کہ ان کا گلا خراب تھا اور آواز میں آں اوں ہی نکل رہی تھی۔ کافی دیر مغز کھپائی کے بعد انہوں نے آخر کار قصائی کا سمجھایا کہ میرا گلا خراب ہے، اس کے گوکل کارڈ خراب ہو گئے ہیں، آپ ایسا کریں کہ بکرے کے گوکل کارڈ نکال میرے گلے میں فِٹ کر دیں۔

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔
 

زھرا علوی

محفلین
کلاسیکی بے پر کی بعنوان دانا حکیم: (کلاسیکی اردو انداز میں میری پہلی کوشش)

بمطابق بیان کرنے کے بزرگوں کے، ایک حکیم کہ انتہائی دانشمند و با شعور، حکمت اور دانائی میں یکتائے روزگار۔ مسائل جو حل کرتا تھا روزانہ بے شمار۔ حاجت مندوں کی ہوتی تھی ایک قطار۔ کہ جس کی دانائی کے چرچے چہار جانب تھے۔ بیزار عالم ہوئے تو جوگ کی ٹھانی۔

القصہ ایک سفر پے روانہ ہوئے۔ ساتھ زاد راہ کچھ نہ تھا۔ بعد ایک طویل مسافت طے کرنے کے، بعد بے شمار دریاؤں، جھیلوں، ندیوں، نالوں، جنگلوں صحراؤں اور بستیوں کو عبور کرنے کے۔ بھوک سے بے حال تھکن سے چور ایک پتھر سے ٹیک لگائے غفلت کی نیند سو گئے۔

گزر اس راہ سے بادشاہ وقت کی سواری کا ہوا۔ کہ شہنشاہ ہفت اقلیم تھا۔ شجاعت اور بہادری میں کوئی ثانی نہ تھا۔ نگاہ پڑتے ہی پہچان لیا کہ حکیم دانائے وقت تھے۔ بچہ بچہ ان کی حکمت کے گن گاتا تھا۔ کنیزوں نے بہزار ناز و نعم دانا حکیم کو آغوش میں بھر کے مسند مخملیں پر دراز کیا۔ چند قطرے عرق دافع غفلت کہ برامد حکیم کے تھیلے سے حلق میں ڈالے گئے۔ ہیبت شاہانہ جلال کی، خوشبو حسینان جواں سال کی۔ سبب برئے بیداریئ حکیم ہفت اقلیم ہوئی۔

القصہ بعد اصرار بے حد کے حکیم مہمان شاہی ہوئے۔

داستان نا تمام کے واقعات بعد ازاں بعد وقفہ مختصر ملاحظہ کریں۔




حکیم صاحب مہمانِ شاہی کیا ہوئے محلات میں خوشیوں کے شادیانے بجنے لگے رونقیں بام و درپہ لگیں کھلنےطاؤس و رباب سے پھوٹنےلگے نغمے بحال اب جو امید ہونے لگی پریشانی شہِ وقت کی کچھ کم ہوئی
وزیرِ شاہی کو بلوایا گیا اور بزبانی قاصد کہلوایا حاضرخدمت بادشاہ پر جاہ و جلال لاؤ و جہ و جڑ فساد فی زمانہ گد
وزیر اعظم ہوئے حاضر خدمت شہنشاہ ہفت اقلیم بمعہ موجب پریشانیء حلقہء محفل ادب المشہور "سعود عالم ابن سعیداحمد خان الھندی عفی عنہ"
مسئلہ گوش گزار بحضور حکیم دانا کیا گیا موصوف اڑانے لگے ہیں" بے پر کی" بےتحاشا سو ہیں نشان خطرہ بمطابق ماہرین محفل اردو۔۔۔کہ دربے ہیں ورغلانے پہ لکھاری نوآموز نکالنے پہ کوئی نئی شاخ ادب۔۔۔
سن کے مسئلہ گھمبیر گویا ہوئے حکیم دانا واقعی طلب خاص توجہ ہے یہ خطرہ مشکل ہے گو ممکن ہےمگر حل اسکا۔۔۔۔درکار ہے مہلت کہ کروں کوئی بچار گہرا۔۔۔پر کاٹ نہ دوں اسکے تو کہنا نہ مجھے دانا۔۔۔۔۔۔۔۔
 
بہت خوب بہت زبردست بٹیا رانی!
لا جواب!!

اور ہاں اگر میں یہ کہوں کہ محفل میں آپ کی بڑھتی دلچسپی کے چلتے آپ کا نیا درجہ محسنیت مبارک ہو تو بے پر کی نا ہوگا۔ :grin:
 

سیفی

محفلین
برارر عزیزم ابن۔ سعید

تمہارے نامہ کو دیکھ کر یک گونہ مسرت ہوئی۔ عنوان۔ پیغام گو بے پرکی تھا مگر کیا کہنے تمہارے پیغام بعنوان کلاسیکل اردو کے۔ میاں تمہارے اندر تو ایک جوہر۔ قابل پنہاں ہے اسے ضائع مت ہونے دو۔ پہلی فرصت میں دھیان کرو اس جانب اور کوئی استاد کامل پکڑو۔ کیا سنا کچھ کہ بڑے کہہ گئے جس کا پیر کوئی نہیں اس کا پیر شیطان۔ تو میاں پیشتر اس کے کہ تم کسی شیطانی دھندے میں پڑو ، بیٹھے ہو تو کھڑے ہو جاؤ۔ اور جو کھڑے ہو تو چل پڑو اور رستے میں ہرگز دم نہ لینا کہ منزل انھی کو ملتی ہے جو مسافران۔ شب پیزار ہوتے ہیں۔

مفہوم اس پیغام کا یہ ہے کہ منتظمین سے کہہ کہلا کر یہ کلاسیکل اردو کا ایک اور دھاگہ کھول لو اور یہ پیغامات اس میں منتقل کئے بغیر چین سے نہ بیٹھنا۔ جو سچ پوچھو تو خود مجھے بڑا شوق دامنگیر رہا کہ دھاگہ ہو کوئی ایسا کہ جس میں پھر خوشہ چینان۔ اردو کریں تازہ وہ انداز پرانا اردو لکھنے کا کہ مدتیں گزریں اور آنکھیں ترس گئیں ایسی اردو پڑھنے کو۔ اب تو نئے دور ہیں نئے لوگ ہیں جانے کیا شوق پالے بیٹھے ہیں۔ جو بولتے ہیں تو ہم کہہ اٹھتے ہیں تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے۔

یہ موئے فرنگی بڑا اتراتے پھرتے ہیں اپنی زبان پر۔ دینا ان کو جواب ذرا اور سمجھانا کہ ہم بھی اپنے منہ میں اپنی ہی زبان رکھتے ہیں۔
 
Top