کاشفی
محفلین
غزل
(جناب بشیر احمد خان مرحوم تعلقہ دار ملیح آباد شاگرد حضرت جلال)
دمِ قتل انصاف فرما رہے ہیں
خطائیں مری مجھ کو گنوا رہے ہیں
سرِ بزم دشمن سے شرما رہے ہیں
نہیں کچھ تو یوں مجھ کو تڑپا رہے ہیں
وہ کہتے ہیں من پر گیا کس غضب میں
تسلی مجھے دے کے پچھتا رہے ہیں
اُمید وفا غیر سے توبہ توبہ
خدا جانے کیا آپ فرما رہے ہیں
اِدھر خاک و خوں میں تڑپتا ہے کوئی
اُدھر وہ کھڑے دل میں پچھتار ہے ہیں
وہ کہتے ہیں اچھا جو یہ گھر ہے میرا
ترے دل میں ارماں کیوں آرہے ہیں
وہ یوں کر رہے ہیں مجھے ذبح گویا
مرے حال پر رحم فرما رہے ہیں
انہیں دل ہی دل میں ہنسی آرہی ہے
جو ہم اُن کے وعدے پر اترا رہے ہیں
ذرا غش میں زانو پر سر رکھ لیا تھا
مجھے ہوش آیا تو شرما رہے ہیں
تڑپتے ہم اس طرح کیوں قتل گاہ میں
طبیعت ذرا اُن کی بہلا رہے ہیں
الہٰی مجھے خواب یہ کیوں دکھایا
کہ دشمن ہے غش میں وہ گھبرا رہے ہیں
بشیر اس ادا پر میں سو بار صدقے
وہ صبح شب وصل شرما رہے ہیں