ایف اے کیوز یعنی مجھ سے کثرت سے پوچھے جانے والے سوال:
انٹرنیٹ پر بلا تفریق قوم و ملت، رنگ و نسل، شاہ و گدا، مرد و زن، پیر و جواں، عاقل و بالغ احباب سے رابطہ رہتا ہے۔ گو کہ میں آن لائن دوستی کے نام پر پہل کرنے سے ہمیشہ گریزاں ہوتا ہوں پھر بھی دن بدن یہ تعداد بڑھتی ہی جاتی ہے اور ساتھ ہی مجھ سے پوچھے جانے والے سوالات اور ان کی کثافت بھی۔ میرے مشاہدے کے مطابق جو سوال مجھ سے سب سے زیادہ پوچھے جاتے ہیں وہ اپنے کام چلاؤں جوابوں سمیت درج ذیل ہیں۔
س: آپ بوڑھے تو نہیں لگتے، آپ کی عمر کیا ہے؟
ج: جی میں 85 کا ہوں میرا مطلب ہے سن 1985 کی پیدا وار ہوں۔ ویسے بڑھاپے کا بھلا عمر سے کیا لینا دینا؟
س: آپ ہر خاتون کو اپیا یا بٹیا کیوں کہتے ہیں؟
ج: اول تو یہ کہ یہ رشتے بہت پیارے ہوتے ہیں۔ پھر انٹرنیٹ کے روابط کا کیا بھروسہ کب کون سی دل دکھانے والی بات ہو جائے۔ جنس مخالف کو خود سے کافی بڑا یا کافی چھوٹا سمجھنا مجھے اپنے اندر کے شیطان اور باہر کی بلاؤں سے محفوظ رکھتا ہے۔
س: کیا اس دنیا میں کوئی ایسی بھی خاتون ہیں جو آپ کے رابطے میں ہوں اور آپ نے انھیں اپیا یا بٹیا نہ کہا ہو۔ مطلب یہ کہ اپنے لئے کچھ چھوڑا بھی ہے؟
ج: جی ایک تھیں جنھیں با شعور ہونے کے بعد ایسا کچھ نہیں کہا تھا لیکن انھوں نے بھیا کہہ دیا۔
س: آپ کبھی سوتے بھی ہیں؟ یا آپ کتنی دیر سوتے ہیں؟
ج: جاگنے کا ایک متعین وقت ہوتا ہے سونے کا کوئی وقت نہیں ہوتا جب بھی نیند آجائے یا سونا نصیب ہو جائے سو جاتے ہیں۔ عموماً ساڑھے تین گھنٹے یا اس سے زائد کی پر سکون نیند میسر آجائے تو ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔
س: آپ کتنے بہن بھائی ہیں؟ (خاص کر بہنیں)
ج: ہم پانچ بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ یوں تو کہنے کو بہن کی نعمت سے محروم ہیں پر اب ہم نے بے شمار بنا لی ہیں۔
ارے سعود بھائی! یہ تو خود آپ کے اپنے الفاظ میں ہوئے "کام چلاؤُ" جوابات۔۔۔ یا بالفاظ دیگر "ٹرخاؤُ" جوابات۔ مگر ؎ سمجھنے والے سمجھ لیں گے استعارۂ ذات۔۔۔
چشمِ تصور سے ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ آپ سچ لکھنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں تو۔۔۔
بھرم کھل جائے، ظالم! تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرّۂ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
اور آپ کے جوابات کچھ یوں ہوں گے۔۔۔
س: آپ بوڑھے تو نہیں لگتے، آپ کی عمر کیا ہے؟
ج: اگر سائل کا تعلق صنفِ کرخت سے ہے تو جواب بھی متشابہ ہوتا ہے یعنی "آپ کیا محکمۂ مردم شماری سے تعلق رکھتے ہیں یا پولیس میں ہیں کہ اس قدر ذاتی سوالات کرنے کی جرات کر رہے ہیں؟ آپ اپنی تاریخ پیدائش یاد رکھیے اور صرف اس قدر ہی جانا کیجیے جتنا اور جیسا ہم بتاتے ہیں۔ یہ کن سوئیاں لیتے پھرنا اچھی عادت نہیں۔ اور ہاں آپ کے لیے ہمارا نیک مشورہ یہ ہے کہ دماغ کے نہ سہی لیکن کسی نظر کے ڈاکٹر سے ضرور رابطہ کیجیے۔"
اور اگر صنفِ نازک یہ سوال کرے تو۔۔۔ کافی دیر تو ہمارے دندانِ مبارک روزنِ لب سے باہر جھانکتے رہتے ہیں اور جب باچھیں بند ہوتیں اور آنکھیں کھُل پاتی ہیں تو ہم تمام جہان کی شگفتگی اپنے لہجے میں سمو کر دھیمے سے عرض کرتے ہیں۔۔۔ "ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ آپ سے کس نے کہا کہ ہم بوڑھے ہیں۔۔۔ شاید آپ بھی اردو محفل پر ہمارے انکسار کو حقیقت پر محمول فرما گئی ہیں۔۔۔ بخدا ایسا ہر گز نہیں۔۔۔ ایسی ہی غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے تو ہم نے اپنی تصویر لگا رکھی ہے کہ کہیں آپ فی الواقعہ ایسا نہ سمجھنے لگیں کہ ہم معاذ اللہ بوڑھے ہیں۔ ابھی تو خیر سے ہماری مسیں ہی بھیگی ہیں اور عمرِ عزیز کی 25 بہاریں بھی پوری طرح نہیں دیکھیں۔ آپ بتائیے آپ کے برس کی ہیں؟ گو کہ سوال کی شیرینی سے تو 20 سے اوپر کی نہیں لگتیں۔"
س: آپ ہر خاتون کو اپیا یا بٹیا کیوں کہتے ہیں؟
ج: اس سوال کے جواب کا تعلق دراصل سائل کے اور ہمارے تعلق کی گہرائی و مضبوطی سے ہے۔
اگر کوئی محرمِ راز مرد دوست یہ سوال کرے تو ہمارا جوب ہوتا ہے۔۔۔ "ارے صاحب! آپ تو سب جانتے ہی ہیں، کیوں شرمندہ کرنے کی ناکام کوششیں کر کے خود شرمندہ ہوتے ہیں؟ ایسے زبانی کلامی اپیا، بٹیا کہہ دینے سے کوئی فی الواقع اپیا بٹیا بن تھوڑا ہی جاتی ہیں۔ ہم قبل ازیں آپ پر واضح کر چکے ہیں کہ یہ انتہائی مجرب اور زود اثر نسخہ ہے۔۔۔ دنیا بھر کی خواتین یوں ہی تو بیک وقت ہمارے یاہو، ایم ایس این اور سکائپ میسنجرز کے دوستوں کی فہرست میں شامل نہیں ہوئیں۔"
اگر کوئی با تکلف یا نیا شناسا مرد یہ سوال کرے تو ہمارا نپا تلا جواب ہوتا ہے کہ "کیا کیجیے۔۔۔ کچھ طبع ہی ایسی سادہ پائی ہے کہ اس کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ یوں بھی زمانۂ طالب علمی سے ہی ہم اس قدر شرمیلے واقع ہوئے ہیں کہ صنفِ نازک سے بات کرتے ہوئے ہاتھ پاؤں پھول جاتے تھے اور بے دھیانی میں منہ سے باجی یا آپا ہی نکل جاتا تھا، اب وہی عادت پختہ گئی ہے۔"
اور اگر خوش قسمتی سے کوئی لڑکی یہ سوال کر دے تو سمجھ لیجیے کہ ہمارے دام میں آئے بغیر اس کا نکل جانا نا ممکن ہے کہ ہم ہر سوال کرنے والی لڑکی کو یہی جواب دیتے ہیں کہ "ایک کے سوا باقی تمام کو ہم اپیا اور بٹیا ہی سمجھتے ہیں۔" اس کے بعد دوسرا سوال 99 اعشاریہ 99 فیصد اس واحد خوش قسمت کے متعلق ہوتا ہے کہ وہ کون ہیں؟ اور اس کے جواب میں ہم اپنے انداز کو حتی الوسع معصومانہ بناتے ہوئے چچا کا یہ شعر حقِ بھتیجگی وصول کرتے ہوئے اس یقین کے ساتھ داغ دیتے ہیں کہ گو تاریخ میں محفوظ نہیں لیکن بہرحال انھوں نے وصیت میں یہ شعر ہمیں ہی ہبہ کیا تھا:
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
س: کیا اس دنیا میں کوئی ایسی بھی خاتون ہیں جو آپ کے رابطے میں ہوں اور آپ نے انھیں اپیا یا بٹیا نہ کہا ہو۔ مطلب یہ کہ اپنے لئے کچھ چھوڑا بھی ہے؟
ج: آپ کے سوال کا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ خواتین میں سے ایسی کوئی نہیں جنہیں ہم نے سچے دل سے اپیا یا بٹیا نہ کہا ہو۔۔۔ ہاں! دوشیزگان کی بات کیجیے تو ایں سعادت بزورِ بازو نیست۔۔۔ کہ یہ لاحقے و سابقے تو محض روابط استوار کرنے کا بہانہ ہیں۔ جوں ہی عمر و صورت کا راز آشکار ہوا، "بلا تفریق قوم و ملت، رنگ و نسل، شاہ و گدا، عاقل و بالغ" انھیں "احباب" میں شامل کرنے سے پیشتر ہی ان سابقات و لاحقات کی واہی تباہی سے دامن کشی اختیار کر لیتے ہیں۔
س: آپ کبھی سوتے بھی ہیں؟ یا آپ کتنی دیر سوتے ہیں؟
ج: اس سوال کا جواب بھی اصناف کے اعتبار سے تقسیم ہو کر ہی رہا۔
اول تو ہم مرد حشرات کو اس کا جواب دینا اپنی شان کے خلاف جانتے ہیں لیکن اگر کوئی ہاتھ دھو کر بلکہ نہا کر پیچھے پڑ ہی جائے تو اس کے لیے ہمارا نفاست بھرا جواب یہی ہوتا ہے کہ ہمارے سونے جاگنے کے اوقات سے آپ کو کیا لینا دینا؟ شعرا نے بھی کیا خوب اشعار کہہ رکھے ہیں ہماری کمک کے طور پر، مثلاً
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
اور آہ ہ ہ۔۔۔ اگر کوئی لڑکی بالی یہ سوال پوچھ بیٹھے تو اوّلاً تو ہم تمنّا کا دوسرا قدم تلاش کرنے نکل پڑتے ہیں اور اس میں غالب ایسے دانشور کی ناکامی کے بعد ہمیں بھی منہ کی کھانی پڑتی ہے مگر ہم منہ کی کھانا، منہ پر کھانے سے بدرجہا بہتر گردانتے ہوئے جواباً عرض کرتے ہیں کہ جب سے آپ سے تعلق استوار ہوا ہے نیند کی دیوی روٹھ سی گئی ہے۔۔۔ لیکن کیا کیجیے کہ اس دیوی کے چرن چھُوئے بغیر آپ سے بالمشافہ و بالمعانقہ ملاقات کے سامان میسر نہیں۔ چچا نے ایک اور شعر اپنی ناپید وصیت میں ہمیں عطیہ کیا تھا:
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھُل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا
س: آپ کتنے بہن بھائی ہیں؟ (خاص کر بہنیں)
ج: بھائی تو ہم پانچ ہیں ماشاء اللہ اور الحمد للہ بہن ایک بھی نہیں۔۔۔ مالک نے اس پابندی سے آزاد ہی رکھا اور جب خالقِ جہان نے نہ چاہا کہ ہماری کوئی بہن ہوتی تو ہم خود بنا کر شرک کے مرتکب کیونکر ہو سکتے ہیں۔