پیغام قرآن و حدیث کی تعارفی تقریب

یوسف-2

محفلین
اتوار 24 جولائی 2011 کی شام اسلامی تہذیبی مرکز جمعیت الفلاح میں اس احقر کی نئی کتاب " پیغامَ قرآن و حدیث" کی تعارفی تقریب سابق رکن قومی اسمبلی پاکستان جناب اسداللہ بھٹو کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ جمعیت الفلاح کے سیکریٹری جنرل حکیم مجاہد محمود برکاتی نے کتاب اور صاحب کتاب کا تفصیلی تعارف پیش کیا۔ نوجوان دانشور جناب شاہنواز فاروقی نے قرآن اور تفہیم قرآن کے حوالے سے علم و دانش سے بھر پور تقریر کر تے ہوئے کتاب پر بھی اظہار خیال کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر حافظ احسان الحق نےاس خیال کی نفی کی کہ قرآن کے عربی متن کے بغیر پیغام قرآن و حدیث کی کوئی افادیت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دراصل قرآن و حدیث کی موضوعاتی درجہ بندی پر مبنی کتاب ہے اور ایسی اور بھی بہت سی کتب عربی متن کے بغیر شائع ہوچکی ہیں۔ سابق رکن قومی اسمبلی مظفر احمد ہاشمی نے کہا کہ اس کتاب میں کمیوں کی تو نشاندہی کی جاسکتی ہے، مگر خامیوں کی نہیں۔استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد زبیری نے کتاب اور صاحب کتاب پر اپنا تفصیلی مضمون پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب سے نہ صرف یہ کہ مصنف بلکہ قارئین کا بھی بہت بھلا ہوگا۔ ممتاز شاعر یونس رمز نے منظوم ہدیہ تبرک پیش کیا۔
 

یوسف-2

محفلین
منظوم ہدیہ تبریک

ترا دل مومن و مسلم شناسا نور وحدت کا
محمد کی رسالت کا محمد کی شریعت کا

تری آنکھوں میں جلوہ چہرہ قرآں کی اشاعت کا
کہ شعلہ ہے ترے دل میں مضامیں کی بلاغت کا

ترا جینا ، ترا مرنا ، عقیدت کے تلازم میں
تعلم ساز تفہیم و تدبر کی صلابت کا

رواں ہے دجلہ خوننابہ دل میں نفس تیرا
جگر کی آگ ، ادراکِ نظر کی قدر و قیمت کا

خوشا تو غلبہ اسلام کا حامی ، مبلغ ہے
ترا دل ہے جریدہ حرف جاں شوقِ شہادت کا

شگفتہ لب تکلم ، نغمگی کے تار میں محکم
ترے اظہار کی قوت میں محور ہے اشارت کا

دماغِ شعلہ احساس میں پیہم سلگتا ہے
جنوں تیرا پتنگا ہے شرارِ جذب و جرات کا

سلامت ، مرحبا صد مرحبا اے یوسفِ ثانی
مرقع رمز کے دل ، ہدیہ ذوقِ طبیعت کا
 

شمشاد

لائبریرین
ماشاء اللہ، جزاک اللہ

اللہ کرئے زور قلم اور زیادہ۔

بہت شکریہ جناب یہ سب شریک محفل کرنے کا۔
 

یوسف-2

محفلین
کتاب کے مؤلف کی حیثیت سے احقر نے عرض کیا کہ میں بنیادی طور پرایک قلمکار ہوں یعنی میرا کام لکھنا ہے،بولنا نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ میرے پاس بولنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے ۔ لکھنے لکھانے کا جو تھوڑا بہت ہنر میرے پاس تھا اسے میں نے ’’پیغامِ قرآن و حدیث‘‘ کی صورت میں آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے ۔ اور اس کتاب پر گفتگو کرنے کے لئے آج بہت سے فاضل مقررین آپ کے سامنے موجود ہیں ۔ پیغام قرآن و حدیث کی تالیف کی کئی وجوہات ہیں جن میں سر فہرست دعوت دین کا فریضہ ادا کرنا ہے، جو ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ یہ فرض مجھے بھی ادا کرنا تھا اور چونکہ میں یہ کام تحریری طور پر ہی انجام دے سکتا تھا، لہٰذا میں نے یہ کام پیغام قرآن و حدیث کی تالیف کی صورت میں انجام دیا ہے اور میں اس کام کو اپنے لئے اُخروی نجات کا ذریعہ بنانا چاہتا ہوں ۔ ابلاغ عامہ کا طالب علم ہونے کے ناطے مجھے اس بات کا بخوبی علم ہے کہ آج کا ایک عام پڑھا لکھا شخص بھی قرآن و حدیث کی تعلیمات سے مکمل طور پرآگاہ نہیں ہے ۔ عربی زبان سے ناواقفیت اور ہمارے مروجہ تعلیمی نظام میں قرآن و حدیث کی عدم شمولیت اس کی دو بڑی وجوہات ہیں ۔ تاہم ان دو بڑی رکاوٹوں کو عبور کر کے اگر کوئی فرد قرآن کو تراجم و تفاسیر اور احادیث کو شروحات کی مدد سے پڑھنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اسے دو مزید رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ایک تو تفاسیر و شروحات بذاتِ خود خاصی ضخیم اور کئی کئی جلدوں پر مبنی ہوتی ہیں ۔ دوسرے ان کتب کا انداز تحریر و ترتیب اگر متروک نہیں تو نامانوس ضرورہے ۔ چنانچہ آج کا سہل پسند انسان اخبارات، رسائل و جرائد اور کتب کا باقاعدہ قاری ہونے کے باجودقرآن و حدیث کے ان عظیم ذخیروں سے استفادہ کرنے سے بالعموم محروم ہی رہتا ہے ۔ پیغامِ قرآن اور پیغامِ حدیث کو عام کتب کی طرز پر مرتب کر کے میں نے انہی رکاوٹوں کو دور کرنے کی ایک ادنیٰ سی کاوش کی ہے ،تاکہ ایک عام قاری بھی بہ سہولت انہیں پڑھ اور سمجھ سکے ۔ پیغامِ قرآن و حدیث ان دونوں کتب کا مشترکہ ایڈیشن ہے ۔ دونوں کتب الگ الگ بھی شائع ہو چکی ہیں اور ان شا اللہ آئندہ بھی شائع ہوتی رہیں گی۔ یہ کتب غیر تجارتی بنیادوں پر شائع و تقسیم کی جاتی ہیں ۔ ان کتب کے حقوق بھی محفوظ نہیں ہیں یعنی انہیں کوئی بھی شائع و تقسیم کر کے صدقہ جاریہ کے قیمتی خزانہ سے اپنا دامن بھر سکتا ہے ۔ پیغام قرآن و حدیث کتاب، سی ڈی اور انٹر نیٹ پر بھی دستیاب ہے ۔ پیغام قرآن و حدیث کے ا جزاکو یو ٹیوب پربھی اَپ لوڈ کیا جا رہا ہے ۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو قرآن و حدیث کی جملہ تعلیمات کو پڑھنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔
 

یوسف-2

محفلین
استادِمحترم پروفیسر ڈاکٹر وقار زبیری صاحب نے اس موقع پر اپنا ایک مضمون پڑھ کر سنایا: میں مجاہد برکاتی صاحب کا اور یوسف ثانی صاحب کا شکر گذار ہوں کہ ہر دو حضرات میری بے بضاعتی سے خوب واقف ہیں، اس کے باوجود انہوں نے اس بابرکت محفل میں مجھے اظہار خیال کا موقعہ دیا۔ میں نے اس کو اپنے لئے باعث سعادت جانا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہر بڑا کام کرنے کی توفیق اللہ تعالیٰ ہی عطا کرتے ہیں اور مقام شکر ہے کہ یوسف ثانی کو اللہ نے ہی ایسا بڑا اور مفید کام کرنے کی توفیق عطا کی جو ان کے لئے بہت سے فیوض و برکات کا سبب تو ہو گی ہی، اور بھی بہت سے لوگ ان کے کام سے استفادہ کریں گے ۔ خرم مراد صاحب نے ’’قرآن کا راستہ‘‘ میں کہا تھا: ’’ اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہو گی کہ قرآن کو اپنی ذات کی شہرت، عزت، حیثیت یا مالی دولت جیسی دنیاوی چیزوں کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سب کچھ مل بھی جائے مگر اس طرح آپ ایک بیش بہا خزانے کا نہایت حقیر اشیا سے سودا کر رہے ہوں گے ‘‘۔ بلا شبہ یوسف ثانی نے یہ کام تو کیا مگر معاوضے میں کسی حقیر شئے کی تمنا نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو ہی اپنی محنت کا صلہ جانا۔ ان شا ء اللہ انہیں یہ صلہ ضرور حاصل ہو گا۔
پیغام قرآن و حدیث دراصل دو کتابوں کا مجموعہ ہے ۔ پہلے پانچ سال قبل ’’پیغامِ قرآن‘‘ شوئع ہوئی اور پانچ سال میں اس کے تین ایڈیشن شائع ہوئے ۔ پھر ۲۰۱۰؁ء میں ’’پیغامِ حدیث‘‘ الگ شائع کی گئی۔ پھر ۲۰۱۱؁ء میں دونوں کتابوں کو ملا کر ’’پیغامِ قرآن و حدیث‘‘ شائع کی گئی۔ دونوں کتابیں الگ الگ پہلے ہی مقبول ہو چکی ہیں اس لیے اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ یہ بھی ان شاء اللہ بہت مقبول ہو گی۔ ’’پیغامِ قرآن‘‘، قرآن کا ترجمہ نہیں ہے ۔ شاید قرآن ہی وہ واحد کتاب ہے، جس کا کم و بیش دنیا کی ہر زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔ ترجموں کی ابتدا حضور ﷺ کے زمانے ہی میں ہو گئی تھی۔ حضرت سلمان فارسی ؓ نے فارسی میں پہلا ترجمہ کیا تھا۔ اردو میں بھی اس کا سلسلہ برابر جاری ہے ۔ یوسفِ ثانی نے اردو میں ۹۰ ترجموں کی خبر دی ہے ۔ مولانا مودودی علیہ رحمۃ نے اپنے ترجمہ قرآن میں بجا طور پر فرمایا تھا:’’ اب کسی شخص کا محض برکت و سعادت کی خاطر ایک نیا ترجمہ شائع وقت اور محنت کا کوئی صحیح مصرف نہیں ہے ‘‘ تراجم رہتی دنیا تک ہوتے ہی رہیں گے مگر پیغام قرآن میں یوسف ثانی نے خود وضاحت کی ہے ’’ قرآن مجید کا کسی حاشیے اور تشریح کے بغیر با محاورہ اردو مفہوم، بالترتیب آیات کی موضوعاتی درجہ بندی، ذیلی عنوانات اور فہرستِ مضامین کی اضافی خوبیوں کے ساتھ اردو زبان میں پہلی بارپیغام قرآن میں پیش کیا جرہا ہے ۔ چونکہ اس میں عربی متن نہیں ہے اس لیے اس کو لیٹے بیٹھے، گاڑی میں کسی بھی فرصت کے وقت پڑھا جاسکتا ہے ۔ وضو کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔ ہاں اگر کسی وضاحت کی ضرورت ہو تو قرآن کریم سے رجوع کیا جائے ۔ پیغام حدیث کی خوبی بھی یہی ہے کہ عام پڑھے لکھے لوگ بھی اس سے بھر پور استفادہ کر سکتے ہیں، کیونکہ اس میں بہت ایسی تفصیل کو حذف کر دیا گیا ہے جو سب کے لیے ضروری نہیں ہیں ۔ ان ہی راویوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جنہوں نے براہ راست حضور ﷺسے روایت کی ہے ۔ طویل احادیث کو چھوٹے چھوٹے پیراگراف میں تقسیم کر دیا گیا ہے تاکہ قارئین سہولت سے پڑھ سکیں اور یاد بھی رکھ سکیں ۔ یہاں بھی یہی درست ہے کہ کسی مزید وضاحت کے لیے اصل مآخذ اور راویوں کے تسلسل سے استفادہ کے لیے بخاری شریف سے رجوع کیا جائے ۔
یوسف صاحب نے مسلمانوں کے عروج و زوال دونوں کا سبب قرآن کریم کو ہی قرار دیا ہے ۔ یعنی جب ہم قرآن سے پوری طرح استفادہ کر رہے تھے تو صدیوں تک علم و دانش، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہم دنیا کے امام تھے ۔ اقبال نے بھی یہی کہا تھا ع وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر ۔ ۔ ۔ اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر ۔ یعنی جب ہم نے قرآن کریم کی سچی رہبری اور رہنمائی سے اغماض برتنا شروع کیاتو بربادی ہمارا مقدر ہو گئی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک اہلِیورپ اپنے تحریف شدہ مذہب سے جڑے رہے، ان کا تاریک دور جاری رہا۔ جب انہوں نے اس سے چھٹکاراپایا تو کامرانیوں کے در وَا ہو گئے ۔ اب اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ یوں تو ہر دور میں قرآن پر غور و فکر اور عمل کی ضرورت تھی مگر فی الوقت ہم جس بربادی اور تباہی سے دوچار ہیں، اس دور میں قرآن سے جڑنے کی ضرورت اہم سے اہم تر اور اہم ترین ہوتی جا رہی ہے ۔ ایسے ماحول میں قرآن کے مفہوم سمجھنے سمجھانے کے لیے جو بھی کوشش کی جائے، اس کی بہت ہمت افزائی کی جانی چاہئے ۔ یوسف ثانی نے یہی کام کیا ہے ۔
آج کل مسلمانوں میں اور بطور خاص نوجوانوں میں اس ضرورت کا احساس تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ قرآن کو سمجھا جائے، اس کے اسرار و رموز پر غور و فکر کیا جائے ۔ ترکی کے ڈاکٹر بلوک نوریافی نے قرآن کی آیات کے معنی کو گلاب کے پھولوں سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآنی آیات کے معنی ایسے ہی پنکھڑیوں سے ڈھکے ہوتے ہیں کہ ہر پنکھڑی الگ ہونے پر ایک نیا جہانِ معنی کھول دیتی ہے ۔ یعنی جتنا غور و فکر کیا جائے، نئے نئے مفہوم سامنے آتے جاتے ہیں، جیسے کسی بحر ذخار میں ہر غواص کو کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے ۔ یوسف ثانی نے بھی نہایت تابدار موتی تلاش کر لیے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے ۔ ڈاکٹر بلوک نے یہ بھی کہا تھا کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہر تحریر کا بے اثر ہونا اس کی قسمت ہے مگر قرآن کسی فرد کی تحریر نہیں ہے اس لیے آج بھی تر و تازہ ہے ۔ اگر پوری توجہ اور انہماک سے مسلمان قرآن کی طرف رجوع کریں تو قرآن کریم ان کو ایسی قوت فراہم کرے گا جو مسلمانوں کی رہنمائی اعلیٰ کارناموں کے حصول کی طرف کرے گی۔ یوسف ثانی نے اپنا کام کر دیا ہے ۔
اب جس کے دل میں آئے ، وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرِ راہ رکھ دیا
میں برادرم یوسف ثانی کو ا س عظیم کام کو انجام دینے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں کہ اس کا فیض تا دیر جاری رہے ۔
 

یوسف-2

محفلین
قرآن اورمسلمانوں کا عروج و زوال

مسلمانوں کے عروج و زوال کی کہانی علامہ اقبا ل ؒ نے اللہ تعالیٰ کی زبانی کیا خوب بیان کی ہے کہ

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوارہوئے ، تارکِ قرآں ہو کر​

تاریخ انسانی گواہ ہے کہ جب تک مسلمان قرآن و سنت پر من حیث القوم عمل پیرا رہے ، وہ نہ صرف سیاسی طور پردنیا میں عروج پر رہے بلکہ عصری علوم و فنون میں بھی دنیا کے امام بنے اور دنیا کی دیگر اقوام سائنس و ٹیکنالوجی سمیت جملہ علوم و فنون سیکھنے کے لیے مسلم ممالک کی درسگا ہوں کا اسی طرح رُخ کیا کرتی تھیں جیسے آج کے مسلمان عصری علوم و فنون سیکھنے کے لیے مغربی ممالک کی طرف دیکھتے ہیں ۔ مسلمانوں کے اس عروج کے زمانے میں آج کا ترقی یافتہ مغرب اور یورپ تاریکی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، جسے وہ خود بھی ’تاریک دور‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کا زوال اس وقت شروع ہواجب وہ قرآن و سنت سے دور ہوتے چلے گئے ۔ اس کے برعکس تاریخ ہمیں یہ دلچسپ صور تحال بھی بتلاتی ہے کہ مغربی اقوام اُس وقت تک تاریکی میں ڈوبی رہیں جب تک ان کا اپنے مذہب سے تعلق استوار رہا ۔ بعد ازاں مغرب نے اسٹیٹ کے معاملات کوچرچ سے علیحدہ کیا اور اپنے مذہبی معاملات کو چرچ تک محدود کیا تو اُن پر دُنیوی ترقی کے دروازے کھلتے چلے گئے ۔

ماہرین ِدینیات اس بات کو یوں واضح کرتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل اور ترقی یافتہ دین ہے جو دنیا کے تمام معاملات میں درست سمت میں رہنمائی فراہم کر نے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے ۔ لہٰذا مسلمان جب تک اپنے دین کے اصل ماخذ یعنی قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرتے رہے، دنیا میں کامیاب و کامران رہے ۔ اس کے برعکس عیسائیت سمیت دیگر تمام مذاہب نامکمل اور ناقص ہونے کے سبب بدلتی ہوئی دنیا کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصرہیں ۔ لہٰذا مغرب جب تک اپنے فرسودہ مذہبی روایات سے جڑا رہا، ترقی سے دور رہا۔ لیکن جب انہوں نے اپنے اس ناقص مذہب سے چھٹکارا حاصل کر لیا تو وہ ترقی کرتے چلے گئے ۔ مسلمانوں کے بعض نادان دوست، مسلمانوں کو بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے دُنیوی معاملات کو اپنے دین سے جدا کرنے کے اسی راستے پر چلانا چاہتے ہیں ، جس پر چل کر مغرب نے ترقی کی ہے ۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے، ہم جوں جوں اپنے دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں، تنزلی کے گڑھے میں گرتے چلے جا رہے ہیں ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مسلمان انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنے جملہ معاملات کو اپنے دین کے اصل ماخذ یعنی قرآن و حدیث سے جوڑنے کی کوشش کریں ۔ ’ پیغامِ قرآن و حدیث‘ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔ مسلمان ہونے کے دعویدار خواہ کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، قرآن و حدیث کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتے ہیں ۔ وہ ان سے قلبی لگاؤ تورکھتے ہیں مگر بوجوہ انہیں پڑھنے اور سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں ۔ ’پیغامِ قرآن‘ اور ’پیغامِ حدیث‘ کا مجموعہ ’پیغامِ قرآن و حدیث‘ کی صورت میں اس لئے شائع کیا جا رہا ہے تاکہ ایک عام پڑھا لکھا مسلمان بھی ایک متفقہ و مصدقہ کتاب کے ذریعہ اسلام کی اصل روح سے آگاہ ہو سکے ۔ اس کتاب میں قرآن و حدیث کے مکمل پیغام کو سمونے کی بھر پور کوشش کی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو قرآن و حدیث کو بحیثیت مجموعی پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے کیونکہ دنیا اور آخرت دونوں میں ہمار ی کامیابی کا دارومدارکتاب و سنت پر عمل کرنے ہی میں ہے ۔

دین اسلام بنیادی طور پر صرف کتاب و سنت یعنی قرآن اور حدیث کے مجموعہ کا نام ہے ۔ رسولِ ا کرم ﷺ کے علاوہ دنیا میں کوئی شخصیت ایسی نہیں ہے جس کی ہر بات تسلیم کی جاسکتی ہو۔ صحابہ کرام ؓ اور ائمہ و محدثین نے بھی ہدایت کے اسی چشمہ سے فیض پایا۔ عموماً یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ قرآن وحدیث کو براہِ راست سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ۔ یہ بات اللہ کے اس قول کے سراسر خلاف ہے کہ بلاشبہ ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لئے آسان بنا دیا ہے، پھر ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟ (القمر۔ ۱۷)۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو بطورِ خاص ساری انسانیت کے لیے ’’معلم‘‘ بنا کر بھیجا۔ اور آپﷺ ہی سے صحابہ کرام ؓ نے سارا دین سیکھا۔ لہٰذا ہم بھی قرآن و حدیث سے دین کو براہِ راست سیکھ سکتے ہیں ۔ البتہ اگرکوئی بات سمجھنے میں دقت محسوس ہو تو اصحاب علم سے رجوع کرنے میں کوئی مضا ئقہ نہیں ۔ ائمہ اربعہ نے بھی صرف اتباعِ قرآن و حدیث ہی کا راستہ اختیار کرنے کی دعوت دی ہے ۔

امام ابو حنیفہؒ (ولادت ۸۰ ھ کوفہ، وفات ۱۵۰ ھ): اگر میری کوئی بات قرآن، حدیث یا قولِ صحابہ ؓ کے خلاف ہو تو میری بات چھوڑدو۔ (ایقاظ ھمم اولی ا لا بصار،صفحہ:۵۰)۔ جب حدیث صحیح ہو تو وہی میرا مذہب ہے ۔ (درّ المخطار جلد۔ ۱، صفحہ:۶۸) کسی کے لیے حلال نہیں کہ وہ ہمارے قول کے مطابق فتویٰ دے، جب تک اسے معلوم نہ ہو کہ ہمارے قول کا ماخذ کیا ہے ؟(ا لا نتقار فی فضائل ا لثلاثہ و ا لا ئمہ ا لفقہاء لا بن عبد ا لبر، صفحہ: ۱۴۵)

امام مالک ؒ (ولادت۹۳ ھ مدینہ، وفات ۱۷۹ ھ): سر ور کائنات ﷺ کے سوا باقی ہر انسان کی بات کو قبول بھی کیا جاسکتا ہے اور رَد بھی۔ (ارشاد السالک لا بن عبد الہادی۔ جلد۔ ۱، صفحہ۔ ۲۲۷) میری بات غلط بھی ہو سکتی ہے اور صحیح بھی۔ لہٰذا میری رائے کو دیکھ لیا کرو۔ جو کتاب و سنت کے مطابق ہو، اسے لے لو اور جو کتاب و سنت کے مطابق نہ ہو اسے ترک کر دو۔ (ایقاظ ھمم اولی ا لا بصار،صفحہ:۷۲)

امام شافعی ؒ (ولادت۱۵۰ھ غزہ فلسطین، وفات۲۰۴ ھ): جب میری کسی بھی بات کے خلاف رسول اللہ ﷺ کی صحیح ثابت ہو تو حدیث کا مقام زیادہ ہے اور میری تقلید نہ کرو۔ (آدابِ الشافعی و منا قبہ لا بن ابی حاتم الرازی، صفحہ۔ ۹۳)

امام احمد بن حنبل ؒ (ولادت۱۶۴ھ بغداد، وفات۲۴۱ ھ): نہ میری تقلید کرو نہ کسی اور کی بلکہ جہاں سے انہوں نے دین لیا ہے، تم بھی وہاں (یعنی قرآن و حدیث) سے دین حاصل کرو۔ (ایقاظ ھمم اولی ا لا بصار،صفحہ:۱۱۳)۔ دین کے معاملے میں لوگوں کی تقلید کرنا انسان کی کم فہمی کی علامت ہے ۔ (اعلام المواقعین لا بن قیم ؒ جلد۔ ۲، صفحہ۔ ۱۷۸)

( پیغام قرآن و حدیث کا اداریہ)
 

یوسف-2

محفلین
quranjopaigham.jpg
 
Top