ابو یاسر
محفلین
دیڑھ سال کے طویل انتظار کے بعد آج وہ موقع ہاتھ آیا سعود بھئیا خیر سے انڈیا ہی میں تھے اور میں بھی ، اس سے قبل جب ملنے کا سوچا تھا تو حضور کی چھٹیاں جلد ختم ہوگئیں اور میں جب ریاض سے آیا تو آپ جاچکے تھے۔ ملاقات اس بار بھی نہیں ہو پاتی مگر خیرسے اس بار میں نے فائنل ایکزٹ لگوارکھی تھی تو واپس جانے کا ڈر نہ رہا اور مزے سے جہاں چاہو گھومو پھرو کوئی روکنے والا نہیں۔
نیٹ پر پی ایچ پی کے تعلق سے اردو میں کچھ سرچ کررہا تھا کہ باذوق بھائی نے بتایا کہ اردو محفل نامی فورم پر جاو وہاں بہت کچھ مل جائے گا ساتھ ہی انہوں نے لنک بھی دی۔ اس وقت لگ بھگ ہر ممبر اپنے ملک کا جھنڈا لگائے ہوئے تھا ، یہ حضرت انڈیا کا جھنڈا لگائے تھے اس لیے سوچا کہ دیکھیں کون حضرت ہیں نیز ان کی تحریریں اور محفل کی ریپوٹیشن نے@ ابن سعید کے بارے میں مزید جاننے پر اکسایا ۔
کوئی ممبر جب اپنی سائٹ کا لنک دیتا ہے توویب ڈیولپر کی دنیا سے تعلق ہونے کے ناطےاس سائٹ کو دیکھنا میرے لیے دلچسپ ہوتا ہے اور خاص کر جب سائٹ کا آتھر ویب سائنس کا ماسٹر ہوتو کسک اور بڑھ جاتی ہے سو میں نے ان کی سائٹ کھولی اور بیکار سا ڈیزائن دیکھا تو جان میں جان آئی کہ چلو ،بھائی کو ڈیزائننگ سے کوئی شغف نہیں (ہی ہی ہی ) یہاں سے ملا ان کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بائیوڈیٹا
یہاں میرے حیرت کی انتہا نہ رہی بھائی صاحب ہمارے جوار کے نکلے جس کالج سے کبھی ہمارے بھائی نے 12ویں کیا تھا وہیں سے آپ نے بھی کیا ہے۔ آپ سب کو پتہ ہونا چاہیے کہ انڈیا میں تعلیم کا نظام الگ ہے دینی مدرسے کی تعلیم والے بچے آگے چل کر مولوی بنتے ہیں یا کچھ لوگ (مشاہدے کی بات ہے) ٹراول کی لائن میں اپنی عربی بگھار رہے ہیں مگر سعود بھئیا عربی مدرسے سے نکل کر کالج اور پھر بی ٹیک اور اب پی ایچ ڈی ، سچ مچ سوچو تو ایک عجوبہ لگتا ہے۔ تکنیکی طور پر سعود بھائی بچپن سے ہی ذہین تھے گاوں میں ان کے خالو نے بتایا تھاکہ فیوز ہوئے بلب کو خود ہی بنا ڈالتے تھے، دماغی ہونے کی وجہ سے لوگوں نے ان کام نام ایک لیڈر کے نام پر رکھ دیا تھا۔
اب ان کا خاندان دہلی میں آباد ہے اور دہلی جانا بہت ہی دل گردے کا کام ہے کیونکہ سکیورٹی چیک زیادہ ہوتا ہے اور آپ سائبر کیفےمیں بھی بنا آئی ڈی کے نہیں جا سکتے نیز ہوٹلوں میں بھی تفتیش ہوتی ہے کئی جگہ تو ریسیپ شن پر کیمرے نصب ہے۔ مجھے ان سب چیزوں سے احتیاط کرنا تھا اس لیے ہر قیمت پر مجھے کسی اپنے کے یہاں ہی قیام کرنا تھا یہی سوچ کر میں نے ممبئی سے دہلی کی ٹکٹ کی ہمارے یہاں سیٹ کی بکنگ کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کو ایک دن قبل یعنی 24 گھنٹے قبل آپ کو سیٹ بک کرنی پڑتی ہے۔
ریل کی ویب سائٹ پر صبح 8 بجے براجمان ہوجانا ہوتا ہے تاکہ جتنی جلدی ہوسکے اپنی تفصیلات لکھ کر کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے پے منٹ کردیں، اس میں مشکل یہ ہوتی ہے کہ ٹکٹ کی پے منٹ ہوتے ہوتے ٹکٹ ویٹ لسٹ ہوجاتی ہے۔ دن بھر یہی ٹینشن میں رہا کہ پتہ نہیں سیٹ کنفرم ہوگی یا نہیں مگرخیر سے رات کے 8 بجے میری یہ ٹکٹ کنفرم ہوگئی دل میں سوچا کہ "اب دلی دور نہیں" ، رات کو ہی موبائل میں بیلنس بھروا لیا کہ ضرورت پڑے گی مگر صبح ٹرین میں بیٹھ کر جب سوچا کہ اب سعود بھائی کو اطلاع کردوں تو بیلنس زیرو
۔۔۔۔۔۔ جاری
نیٹ پر پی ایچ پی کے تعلق سے اردو میں کچھ سرچ کررہا تھا کہ باذوق بھائی نے بتایا کہ اردو محفل نامی فورم پر جاو وہاں بہت کچھ مل جائے گا ساتھ ہی انہوں نے لنک بھی دی۔ اس وقت لگ بھگ ہر ممبر اپنے ملک کا جھنڈا لگائے ہوئے تھا ، یہ حضرت انڈیا کا جھنڈا لگائے تھے اس لیے سوچا کہ دیکھیں کون حضرت ہیں نیز ان کی تحریریں اور محفل کی ریپوٹیشن نے@ ابن سعید کے بارے میں مزید جاننے پر اکسایا ۔
کوئی ممبر جب اپنی سائٹ کا لنک دیتا ہے توویب ڈیولپر کی دنیا سے تعلق ہونے کے ناطےاس سائٹ کو دیکھنا میرے لیے دلچسپ ہوتا ہے اور خاص کر جب سائٹ کا آتھر ویب سائنس کا ماسٹر ہوتو کسک اور بڑھ جاتی ہے سو میں نے ان کی سائٹ کھولی اور بیکار سا ڈیزائن دیکھا تو جان میں جان آئی کہ چلو ،بھائی کو ڈیزائننگ سے کوئی شغف نہیں (ہی ہی ہی ) یہاں سے ملا ان کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بائیوڈیٹا
یہاں میرے حیرت کی انتہا نہ رہی بھائی صاحب ہمارے جوار کے نکلے جس کالج سے کبھی ہمارے بھائی نے 12ویں کیا تھا وہیں سے آپ نے بھی کیا ہے۔ آپ سب کو پتہ ہونا چاہیے کہ انڈیا میں تعلیم کا نظام الگ ہے دینی مدرسے کی تعلیم والے بچے آگے چل کر مولوی بنتے ہیں یا کچھ لوگ (مشاہدے کی بات ہے) ٹراول کی لائن میں اپنی عربی بگھار رہے ہیں مگر سعود بھئیا عربی مدرسے سے نکل کر کالج اور پھر بی ٹیک اور اب پی ایچ ڈی ، سچ مچ سوچو تو ایک عجوبہ لگتا ہے۔ تکنیکی طور پر سعود بھائی بچپن سے ہی ذہین تھے گاوں میں ان کے خالو نے بتایا تھاکہ فیوز ہوئے بلب کو خود ہی بنا ڈالتے تھے، دماغی ہونے کی وجہ سے لوگوں نے ان کام نام ایک لیڈر کے نام پر رکھ دیا تھا۔
اب ان کا خاندان دہلی میں آباد ہے اور دہلی جانا بہت ہی دل گردے کا کام ہے کیونکہ سکیورٹی چیک زیادہ ہوتا ہے اور آپ سائبر کیفےمیں بھی بنا آئی ڈی کے نہیں جا سکتے نیز ہوٹلوں میں بھی تفتیش ہوتی ہے کئی جگہ تو ریسیپ شن پر کیمرے نصب ہے۔ مجھے ان سب چیزوں سے احتیاط کرنا تھا اس لیے ہر قیمت پر مجھے کسی اپنے کے یہاں ہی قیام کرنا تھا یہی سوچ کر میں نے ممبئی سے دہلی کی ٹکٹ کی ہمارے یہاں سیٹ کی بکنگ کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کو ایک دن قبل یعنی 24 گھنٹے قبل آپ کو سیٹ بک کرنی پڑتی ہے۔
ریل کی ویب سائٹ پر صبح 8 بجے براجمان ہوجانا ہوتا ہے تاکہ جتنی جلدی ہوسکے اپنی تفصیلات لکھ کر کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے پے منٹ کردیں، اس میں مشکل یہ ہوتی ہے کہ ٹکٹ کی پے منٹ ہوتے ہوتے ٹکٹ ویٹ لسٹ ہوجاتی ہے۔ دن بھر یہی ٹینشن میں رہا کہ پتہ نہیں سیٹ کنفرم ہوگی یا نہیں مگرخیر سے رات کے 8 بجے میری یہ ٹکٹ کنفرم ہوگئی دل میں سوچا کہ "اب دلی دور نہیں" ، رات کو ہی موبائل میں بیلنس بھروا لیا کہ ضرورت پڑے گی مگر صبح ٹرین میں بیٹھ کر جب سوچا کہ اب سعود بھائی کو اطلاع کردوں تو بیلنس زیرو
۔۔۔۔۔۔ جاری