غزل
میں تو گریز پا تھا
دل نے تجھے چُنا تھا
خود ہی سے ہر گِلہ تھا
تجھ سے نہ کچھ کہا تھا
میں نے جو خط لکھا تھا
راہوں میں کھو گیا تھا
کانٹے سے چُبھ رہے تھے
میں پُھول چُن رہا تھا
میں مَر گیا تھا شاید
اعلان ہو رہا تھا
کوئل چلی گئی جب
تب پیڑ جَل گیا تھا
دِل کو سنبھالنے میں
میں ٹوٹنے لگا تھا...