نور وجدان
لائبریرین
آج موسم کتنا اچھا ہےاور تم میرے ساتھ ہو. کیا یہ تمہارے ہونے کا احساس ہے یہ موسم ِ بہار ہے جو پھول کی خوشبو چار سو پھیل چکی ہے. دیواریں شفاف ہوگئیں اور ان میں نمودار آٰئینے بہت روشن ہیں. ایک پل کو میں آگے بڑھی کہ شاید آئینہ نہ ہو ......!
جیسے ہی آئینے کو چھوا، ایک دروازے کی طرح یہ وا ہوتا گیا۔۔۔۔۔! اور اک نئی دنیا میں قدم رکھتے ہی مجھے احساس ہوا کہ فرش پر جوتے نہ لگاؤں کہ کہیں یہ ٹوٹ نہ جائے۔۔۔۔۔ اس لیے بہت آرام سے ان کو اتار کر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔.آسمان بھی، زمین بھی، اور چار سو مجھے اپنا عکس نظر آنے لگا. میرا عکس.... ! میرا عکس کھو چکا تھا.... میِں کس کو پھر دیکھ رہی تھی .....؟
تھوڑا دور چل کر پاؤں میں نرمی کے احساس نے سبزے کی ٹھنڈک سے روح کو معطر کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔.ان راستوِں پر چلتے چلتے فضا میِں وائلن کی دھن نے مجھے مست کر دیا۔۔۔۔۔. کیا کسی نے میری دھن چرا لی ہے...؟ وہ کون ہے جو میری دھن چوری کرکے نئے ساز چھیڑ کر کائنات کی کیمسٹری کو بے ترتیب کر رہا ہے .....؟
میں آواز کا پیچھا کرتے کرتے دھن ساز کے پاس پہنچ گئ مگر ایک عجیب سا کیف تھا یا حال کہ دھن ساز جو میرے سامنے .... وہ ہو بہو میری شکل ..... میں نے وائلن بجانا شروع کیا، مگر رقص بھی میں خود کر رہی تھی ... چھن چھن .... یہ آواز کس کی تھی .....؟
سبز کارپٹ کے قالینوِں کے پاس ندی سے بہتا پانی رواِں بھی تھا مگر بہ ساکت بھی تھا....! جھرنے کی آواز اتنی اچھی لگ رہی کہ ندی کے ٹھنڈے ٹھنڈے لمس کا احساس محسوس نہیں ہوا .... کیا واقعی ہی محسوس نہیں ہوا....؟
سرشاری کی کیفیت میں بلبل میرے کاندھے پر بیٹھ کر اپنی نغمگی کا احساس دلانے لگی.۔۔۔۔۔ میرے کاندھوں پر اس کے لمس نے مجھے مست کردیا.۔۔۔۔۔!!! ایسا لگ رہا تھا کہ کائنات جھوم رہی تھی اور آئینے ۔۔۔ یہ کبھی تو میرے سامنے ابھرتے اور پھر کبھی اوجھل ہوتے ۔۔۔۔ اور بلبل کا عکس ان میں نظر نہیں آتا مگر دو عکس نظر آتے .... دوسرا عکس کس کا ہے ....؟
آہا! کیسا انوکھا سا احساس ہے، جس کو نام نہیں دے سکتی کہ جہاں بھی جاتی مجھے میرا عکس نظر آتا ۔۔۔۔۔.. اور کبھی اِس ،تو کبھی ُاس آئینے میں عکس دیکھ کر، کہیں میں ہوش و خرد سے بیگانہ نہ ہوجاؤں ..۔۔۔۔۔؟.. میں نے واپس جانے کے لیے قدم بڑھائے۔۔۔۔!. سبز مخملیں کارپٹ مجھے چھوتے چھوتے ختم ہوگیا اور پھر میں آئینہ ِ فرش پر کھڑی تھی ... دروازہ آئینہ کھول چکا تھا .... وہ آئینہ کون تھا ....؟
جیسے ہی آئینے کو چھوا، ایک دروازے کی طرح یہ وا ہوتا گیا۔۔۔۔۔! اور اک نئی دنیا میں قدم رکھتے ہی مجھے احساس ہوا کہ فرش پر جوتے نہ لگاؤں کہ کہیں یہ ٹوٹ نہ جائے۔۔۔۔۔ اس لیے بہت آرام سے ان کو اتار کر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔.آسمان بھی، زمین بھی، اور چار سو مجھے اپنا عکس نظر آنے لگا. میرا عکس.... ! میرا عکس کھو چکا تھا.... میِں کس کو پھر دیکھ رہی تھی .....؟
تھوڑا دور چل کر پاؤں میں نرمی کے احساس نے سبزے کی ٹھنڈک سے روح کو معطر کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔.ان راستوِں پر چلتے چلتے فضا میِں وائلن کی دھن نے مجھے مست کر دیا۔۔۔۔۔. کیا کسی نے میری دھن چرا لی ہے...؟ وہ کون ہے جو میری دھن چوری کرکے نئے ساز چھیڑ کر کائنات کی کیمسٹری کو بے ترتیب کر رہا ہے .....؟
میں آواز کا پیچھا کرتے کرتے دھن ساز کے پاس پہنچ گئ مگر ایک عجیب سا کیف تھا یا حال کہ دھن ساز جو میرے سامنے .... وہ ہو بہو میری شکل ..... میں نے وائلن بجانا شروع کیا، مگر رقص بھی میں خود کر رہی تھی ... چھن چھن .... یہ آواز کس کی تھی .....؟
سبز کارپٹ کے قالینوِں کے پاس ندی سے بہتا پانی رواِں بھی تھا مگر بہ ساکت بھی تھا....! جھرنے کی آواز اتنی اچھی لگ رہی کہ ندی کے ٹھنڈے ٹھنڈے لمس کا احساس محسوس نہیں ہوا .... کیا واقعی ہی محسوس نہیں ہوا....؟
سرشاری کی کیفیت میں بلبل میرے کاندھے پر بیٹھ کر اپنی نغمگی کا احساس دلانے لگی.۔۔۔۔۔ میرے کاندھوں پر اس کے لمس نے مجھے مست کردیا.۔۔۔۔۔!!! ایسا لگ رہا تھا کہ کائنات جھوم رہی تھی اور آئینے ۔۔۔ یہ کبھی تو میرے سامنے ابھرتے اور پھر کبھی اوجھل ہوتے ۔۔۔۔ اور بلبل کا عکس ان میں نظر نہیں آتا مگر دو عکس نظر آتے .... دوسرا عکس کس کا ہے ....؟
آہا! کیسا انوکھا سا احساس ہے، جس کو نام نہیں دے سکتی کہ جہاں بھی جاتی مجھے میرا عکس نظر آتا ۔۔۔۔۔.. اور کبھی اِس ،تو کبھی ُاس آئینے میں عکس دیکھ کر، کہیں میں ہوش و خرد سے بیگانہ نہ ہوجاؤں ..۔۔۔۔۔؟.. میں نے واپس جانے کے لیے قدم بڑھائے۔۔۔۔!. سبز مخملیں کارپٹ مجھے چھوتے چھوتے ختم ہوگیا اور پھر میں آئینہ ِ فرش پر کھڑی تھی ... دروازہ آئینہ کھول چکا تھا .... وہ آئینہ کون تھا ....؟
آخری تدوین: