فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلات
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن
پہلی بات تو یہی ہے کہ یہ بحر ایک عرصہ تک غیرمانوس خیال کی جاتی رہی۔ سو، اس کے زحافات بھی زیرِ بحث نہیں آئے۔
اور دوسری بات
محمد بلال اعظم صاحب والی ہے۔ علمِ عروض کو مشکل کیوں سمجھا گیا اور عام شاعر اس سے کیوں بھاگتا ہے؟ بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے روایتی علمائے عروض سند پر سختی سے کاربند ہیں۔ اس علم کو عام فہم بنانے کے لئے کچھ نہ کچھ تو جمع تفریق کرنا پڑتا، اور یہ کام پروفیسر غضنفر نے کیا۔ پروفیسر صاحب نے عروض کے قاری کو زحافات در زحافات کے سلسلے سے نکلنے میں مدد دی ہے اور بحروں کے نام تک بدل دیے ہیں۔ میں نے پروفیسر صاحب کی مہیا کردہ سہولیات سے استفادہ کیا ہے اور یہ بات ’’فاعلات‘‘ میں بھی عرض کر چکا ہوں۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا ہے کہ اصطلاحات کی سطح پر بھی اور اطلاقی سطح پر بھی روایتی عروض میں کسی قدر جدت طرازی کا مرتکب ہوا ہوں۔
’’فاعلات‘‘ کی تصنیف کا مقصدِ اولین یہی تھا کہ ایک علم جو مجھے مشکل لگتا ہے، میرے جیسے بہتوں کو مشکل لگتا ہو گا! کیوں نہ اِسے آسان بنانے کی کوشش کی جائے؟ اور مجھے اس میں الحمد للہ خاصی کامیابی ہوئی ہے۔ میرا مطمعِ نظر اصطلاحاتی کی بجائے اطلاقی رہا ہے کہ زحافات، ان کی تعریف و تخریج تو بعد کی بات ہے تقطیع نگار کو بھلے بحر کا نام بھی معلوم نہ ہو، وہ ایک غزل یا قطعے کے دو، چار، چھ مصرعوں کو سامنے رکھ کر یہ جان سکے کہ اوزان کا مسئلہ اگر ہے تو کہاں ہے۔ خطی تشکیل کا طریقہ بہت مفید ثابت ہوا ہے، اس ضمن میں ایک دل چسپ واقعہ بھی آپ کے گوش گزار کروں گا۔
’’فاعلات‘‘ کو معروف ہوتے خاصا وقت لگا اور پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ دوستوں کو یہ طریقہ بھی مشکل محسوس ہوا۔ یہ دس سبق در اصل فیس بک پر پیش آنے والے بہت سارے سوالوں کے جواب ہیں۔ اصطلاحات، اُن کی تعریف اور باریک بینی سے ان کا تقابل اور تفاعل علمی سطح پر یقیناً بہت اہم ہے، تاہم، عام تقطیع نگار کی اولین ترجیح کسی قدر مختلف ہوتی ہے۔ طریقہء کار بدلنے میں تھوڑی بہت تبدیلی تو آئے گی۔ اگر وہ مفید ثابت ہوتی ہے تو بہت اچھی بات ہے۔