آسان عروض کے دس سبق

احباب کی خدمت میں
’’آسان عروض کے دس سبق‘‘
پیش کر رہا ہوں۔

ان پیج فائل
http://www.4shared.com/file/9OQIKORA/MYAssy_asan_aruz_final_93_page.html?

پی ڈی ایف فائل
http://www.4shared.com/office/uSNdF_tj/MYAssy_asan_aruz_final_draft.html?

محمد وارث صاحب، الف عین صاحب، مزمل شیخ بسمل صاحب، فاتح صاحب اور عزیزہ مدیحہ گیلانی ۔
کی خصوصی توجہ کا طالب ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
جزاک اللہ خیر آسی بھائی، لیکن یہ لنک تو ممبر شپ اکا متقاضی ہے۔ مجھے ان پیج فائل ایمیل سے ہی بھیج دیں۔
 
احباب کی خدمت میں
’’آسان عروض کے دس سبق‘‘
پیش کر رہا ہوں۔

ان پیج فائل
http://www.4shared.com/file/9OQIKORA/MYAssy_asan_aruz_final_93_page.html?

پی ڈی ایف فائل
http://www.4shared.com/office/uSNdF_tj/MYAssy_asan_aruz_final_draft.html?

محمد وارث صاحب، الف عین صاحب، مزمل شیخ بسمل صاحب، فاتح صاحب اور عزیزہ مدیحہ گیلانی ۔
کی خصوصی توجہ کا طالب ہوں۔

بہت خوب ہے محترم.
دوسرے سبق تک فی الوقت پڑھ چکا ہوں.
ایک سوال یہ ہے کہ مقصور و محذوف کا خلط تو بلا تکلف جائز ہے. مگر سالم و مقصور کا خلط آپ نے کیسے جائز کہا؟ ذرا وضاحت فرمائیں تو شاید سمجھ آجائے مجھ ناقص العقل کو.
سالم و مسبغ اور سالم و مذال کا خلط تو رواں اور مستعمل ہے. مگر سالم و مقصور کی کوئی مثال یا عروضی قانون کے تحت کوئی اجازت ہے ایسا نہیں معلوم تھا اب تک.
وضاحت کا طبگار.
طالب علم:
بسمل.
 
مزمل شیخ بسمل صاحب۔
عبارت کا وہ حصہ سامنے ہوتا تو میں فوری طور پر کچھ عرض کر سکتا۔ صفحہ نمبر وغیرہ کی نشان دہی فرما دیجئے، تاکہ اس پر نظرِ ثانی کی جا سکے۔ اس نشان دہی پر بہت ممنون رہوں گا۔ کتابی صورت میں اشاعت پذیر ہونے سے پہلے اصلاح ہو جائے تو کیا برا ہے!!۔

مجھے آپ کی اس قدر توجہ پا کر بہت خوشی ہوئی۔
 
مزمل شیخ بسمل صاحب۔
عبارت کا وہ حصہ سامنے ہوتا تو میں فوری طور پر کچھ عرض کر سکتا۔ صفحہ نمبر وغیرہ کی نشان دہی فرما دیجئے، تاکہ اس پر نظرِ ثانی کی جا سکے۔ اس نشان دہی پر بہت ممنون رہوں گا۔ کتابی صورت میں اشاعت پذیر ہونے سے پہلے اصلاح ہو جائے تو کیا برا ہے!!۔

مجھے آپ کی اس قدر توجہ پا کر بہت خوشی ہوئی۔

دوسرے سبق میں رمل کے بیان میں آپ نے فاعلاتن سے مقصور فاعلات بسکون آخر قرار دیا ہے. اسی مقصور کے حوالے سے سوال ہے کہ سالم و مقصور کا خلط کیونکر جائز ہے. ؟ سالم و مسبغ یا سالم و مذال تو رواں ہے،
علم کی نیت سے سوال ہے.
 
محمد بلال اعظم کوئی بھی عروضی آپ کو یہ نہیں کہتا کہ آپ عروض کی تمام اصطلاحات کو یاد کریں اور عروضی بن جائیں۔ ہاں عروض کے بنیادی قوانین کہ شاعری میں کہیں اگر وزن سے کوئی مصرع خارج ہو تو آپ اسکا اندازہ کر سکیں اتنا سیکھ لیں آپ کے لئے کافی ہے۔ باقی عروضی ارتقاء کا کام تو محققین کا ہی ہے۔ انہی پر چھوڑ دیں۔ :)

استاد محمد یعقوب آسی صاحب مذکورہ عبارت سبق دوم ص 34 پر مرقوم ہے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
محمد بلال اعظم کوئی بھی عروضی آپ کو یہ نہیں کہتا کہ آپ عروض کی تمام اصطلاحات کو یاد کریں اور عروضی بن جائیں۔ ہاں عروض کے بنیادی قوانین کہ شاعری میں کہیں اگر وزن سے کوئی مصرع خارج ہو تو آپ اسکا اندازہ کر سکیں اتنا سیکھ لیں آپ کے لئے کافی ہے۔ باقی عروضی ارتقاء کا کام تو محققین کا ہی ہے۔ انہی پر چھوڑ دیں۔ :)

استاد محمد یعقوب آسی صاحب مذکورہ عبارت سبق دوم ص 34 پر مرقوم ہے۔

او ہاں یہ بات تو آپ نے مجھے آگے بھی کہی تھی۔:)
 
محترمی مزمل شیخ بسمل صاحب۔
آپ کے ارشادات:
ایک سوال یہ ہے کہ مقصور و محذوف کا خلط تو بلا تکلف جائز ہے. مگر سالم و مقصور کا خلط آپ نے کیسے جائز کہا؟ ذرا وضاحت فرمائیں تو شاید سمجھ آجائے مجھ ناقص العقل کو.​
سالم و مسبغ اور سالم و مذال کا خلط تو رواں اور مستعمل ہے. مگر سالم و مقصور کی کوئی مثال یا عروضی قانون کے تحت کوئی اجازت ہے ایسا نہیں معلوم تھا اب تک.​
اور
دوسرے سبق میں رمل کے بیان میں آپ نے فاعلاتن سے مقصور فاعلات بسکون آخر قرار دیا ہے. اسی مقصور کے حوالے سے سوال ہے کہ سالم و مقصور کا خلط کیونکر جائز ہے. ؟ سالم و مسبغ یا سالم و مذال تو رواں ہے،​

میرا مدعائے بیان یہ ہے کہ بحرِ رمل مثمن سالم میں آخری رکن اصلاً پورا ہے، یعنی ’’فاعلاتن‘‘۔ مصرع ثانی میں تو قافیہ اور ردیف کی پابندی ہوتی ہے، مصرع اول میں اگر اس کے مقابل ’’فاعلات‘‘ آجائے تو بھی کوئی قباحت نہیں۔

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلات
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن

کوئی مثال فوری طور پر پیش نہیں کر سکوں گا، معذرت قبول فرمائیے۔
 
محترمی مزمل شیخ بسمل صاحب۔
آپ کے ارشادات:

اور


میرا مدعائے بیان یہ ہے کہ بحرِ رمل مثمن سالم میں آخری رکن اصلاً پورا ہے، یعنی ’’فاعلاتن‘‘۔ مصرع ثانی میں تو قافیہ اور ردیف کی پابندی ہوتی ہے، مصرع اول میں اگر اس کے مقابل ’’فاعلات‘‘ آجائے تو بھی کوئی قباحت نہیں۔

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلات
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن

کوئی مثال فوری طور پر پیش نہیں کر سکوں گا، معذرت قبول فرمائیے۔

مثال میں ضرور چاہونگا۔ ویسے میری اپنی ناقص رائے میں میں یہ کہونگا کہ ایسی کوئی مثال ملنا امر محال ہے۔ کیونکہ عروضی اصولوں میں ایسا کوئی اصول اب تک میری نظر سے تو نہیں گزرا نہ ایسی کوئی مثال۔ بہر حال سیکھنے کی نیت سے آپ کے تجربے سے مستفید ہونا چاہونگا۔
 
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلات​
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن​

پہلی بات تو یہی ہے کہ یہ بحر ایک عرصہ تک غیرمانوس خیال کی جاتی رہی۔ سو، اس کے زحافات بھی زیرِ بحث نہیں آئے۔

اور دوسری بات محمد بلال اعظم صاحب والی ہے۔ علمِ عروض کو مشکل کیوں سمجھا گیا اور عام شاعر اس سے کیوں بھاگتا ہے؟ بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے روایتی علمائے عروض سند پر سختی سے کاربند ہیں۔ اس علم کو عام فہم بنانے کے لئے کچھ نہ کچھ تو جمع تفریق کرنا پڑتا، اور یہ کام پروفیسر غضنفر نے کیا۔ پروفیسر صاحب نے عروض کے قاری کو زحافات در زحافات کے سلسلے سے نکلنے میں مدد دی ہے اور بحروں کے نام تک بدل دیے ہیں۔ میں نے پروفیسر صاحب کی مہیا کردہ سہولیات سے استفادہ کیا ہے اور یہ بات ’’فاعلات‘‘ میں بھی عرض کر چکا ہوں۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا ہے کہ اصطلاحات کی سطح پر بھی اور اطلاقی سطح پر بھی روایتی عروض میں کسی قدر جدت طرازی کا مرتکب ہوا ہوں۔

’’فاعلات‘‘ کی تصنیف کا مقصدِ اولین یہی تھا کہ ایک علم جو مجھے مشکل لگتا ہے، میرے جیسے بہتوں کو مشکل لگتا ہو گا! کیوں نہ اِسے آسان بنانے کی کوشش کی جائے؟ اور مجھے اس میں الحمد للہ خاصی کامیابی ہوئی ہے۔ میرا مطمعِ نظر اصطلاحاتی کی بجائے اطلاقی رہا ہے کہ زحافات، ان کی تعریف و تخریج تو بعد کی بات ہے تقطیع نگار کو بھلے بحر کا نام بھی معلوم نہ ہو، وہ ایک غزل یا قطعے کے دو، چار، چھ مصرعوں کو سامنے رکھ کر یہ جان سکے کہ اوزان کا مسئلہ اگر ہے تو کہاں ہے۔ خطی تشکیل کا طریقہ بہت مفید ثابت ہوا ہے، اس ضمن میں ایک دل چسپ واقعہ بھی آپ کے گوش گزار کروں گا۔

’’فاعلات‘‘ کو معروف ہوتے خاصا وقت لگا اور پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ دوستوں کو یہ طریقہ بھی مشکل محسوس ہوا۔ یہ دس سبق در اصل فیس بک پر پیش آنے والے بہت سارے سوالوں کے جواب ہیں۔ اصطلاحات، اُن کی تعریف اور باریک بینی سے ان کا تقابل اور تفاعل علمی سطح پر یقیناً بہت اہم ہے، تاہم، عام تقطیع نگار کی اولین ترجیح کسی قدر مختلف ہوتی ہے۔ طریقہء کار بدلنے میں تھوڑی بہت تبدیلی تو آئے گی۔ اگر وہ مفید ثابت ہوتی ہے تو بہت اچھی بات ہے۔
 
خطی تشکیل کے حوالے سے ۔۔ وہ واقعہ بھی سنتے چلئے۔

میرے دوست ہیں جناب شہزاد عادل اور جناب طارق بصیر وہ بھی میری طرح عروض میں کورے تھے، جب میں فاعلات پر کام کر رہا تھا۔ ان کے پوچھنے پر میں نے بتایا کہ ’’تیسرا مسودہ لکھ رہا ہوں اور لگتا ہے مشکل میں پڑ گیا ہوں‘‘۔ کہنے لگے پہلا مسودہ ہمیں دے دیجئے، میں نے بلاتامل دے دیا۔ ان دنوں ’’دیارِ ادب ٹیکسلا‘‘ کے اجلاس ہر مہینے کے دوسرے اور چوتھے سوموار کو ہوا کرتے تھے۔ دو ہفتے بعد ملاقات ہوئی تو طارق بصیر صاحب نے نعرہ لگایا: ’’استاد جی پھڑے گئے او!‘‘۔
میرے استفسار پر انہوں نے میرا ہی یہ شعر سامنے رکھ دیا:
کچھ آندھیاں بھی توڑ گئیں ٹہنیاں، بجا
چوکس مگر کہاں تک مرے باغباں رہے
اس کے دوسرے مصرعے میں ’’تک‘‘ دو حرفی کی گنجائش نہیں۔ میں نے کہا ’’ٹھیک ہے یار تقطیع کر کے دیکھ لیتے ہیں‘‘۔ طارق بصیر صاحب نے اپنے اسی بے تکلف انداز میں کہا: ’’تقطیع نوں گولی مارو! خطی تشکیل کرو‘‘۔ وہ ہوئی اور اُن کا دعویٰ درست قرار پایا۔ میں نے کہا ’’یار سچی بات بتاؤں، مجھے اس پر بہت مسرت ہو رہی ہے۔‘‘ بولے: ’’شعر بے وزن ہونے پر؟‘‘۔
میں نے کہا: ’’نہیں بھائی! بلکہ اس بات پر کہ طارق بصیر جیسا شخص ایک شعر کو دیکھتا ہے اور میرے متعارف کردہ طریقے کو کام میں لا کر شعر میں غلطی کی ٹھیک نشان دہی کر دیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے خطی تشکیل آسان فہم اور تیر بہدف نسخہ ہے!‘‘

آپس کی بات ہے کہ مذکورہ شعر ابھی تک اُسی ’’تک‘‘ کے ساتھ ہے۔ اور ہنوز درستی کا منتظر ہے۔
 
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلات​
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن​


پہلی بات تو یہی ہے کہ یہ بحر ایک عرصہ تک غیرمانوس خیال کی جاتی رہی۔ سو، اس کے زحافات بھی زیرِ بحث نہیں آئے۔

اور دوسری بات محمد بلال اعظم صاحب والی ہے۔ علمِ عروض کو مشکل کیوں سمجھا گیا اور عام شاعر اس سے کیوں بھاگتا ہے؟ بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے روایتی علمائے عروض سند پر سختی سے کاربند ہیں۔ اس علم کو عام فہم بنانے کے لئے کچھ نہ کچھ تو جمع تفریق کرنا پڑتا، اور یہ کام پروفیسر غضنفر نے کیا۔ پروفیسر صاحب نے عروض کے قاری کو زحافات در زحافات کے سلسلے سے نکلنے میں مدد دی ہے اور بحروں کے نام تک بدل دیے ہیں۔ میں نے پروفیسر صاحب کی مہیا کردہ سہولیات سے استفادہ کیا ہے اور یہ بات ’’فاعلات‘‘ میں بھی عرض کر چکا ہوں۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا ہے کہ اصطلاحات کی سطح پر بھی اور اطلاقی سطح پر بھی روایتی عروض میں کسی قدر جدت طرازی کا مرتکب ہوا ہوں۔

’’فاعلات‘‘ کی تصنیف کا مقصدِ اولین یہی تھا کہ ایک علم جو مجھے مشکل لگتا ہے، میرے جیسے بہتوں کو مشکل لگتا ہو گا! کیوں نہ اِسے آسان بنانے کی کوشش کی جائے؟ اور مجھے اس میں الحمد للہ خاصی کامیابی ہوئی ہے۔ میرا مطمعِ نظر اصطلاحاتی کی بجائے اطلاقی رہا ہے کہ زحافات، ان کی تعریف و تخریج تو بعد کی بات ہے تقطیع نگار کو بھلے بحر کا نام بھی معلوم نہ ہو، وہ ایک غزل یا قطعے کے دو، چار، چھ مصرعوں کو سامنے رکھ کر یہ جان سکے کہ اوزان کا مسئلہ اگر ہے تو کہاں ہے۔ خطی تشکیل کا طریقہ بہت مفید ثابت ہوا ہے، اس ضمن میں ایک دل چسپ واقعہ بھی آپ کے گوش گزار کروں گا۔

’’فاعلات‘‘ کو معروف ہوتے خاصا وقت لگا اور پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ دوستوں کو یہ طریقہ بھی مشکل محسوس ہوا۔ یہ دس سبق در اصل فیس بک پر پیش آنے والے بہت سارے سوالوں کے جواب ہیں۔ اصطلاحات، اُن کی تعریف اور باریک بینی سے ان کا تقابل اور تفاعل علمی سطح پر یقیناً بہت اہم ہے، تاہم، عام تقطیع نگار کی اولین ترجیح کسی قدر مختلف ہوتی ہے۔ طریقہء کار بدلنے میں تھوڑی بہت تبدیلی تو آئے گی۔ اگر وہ مفید ثابت ہوتی ہے تو بہت اچھی بات ہے۔

جی بے شک۔ میں فاعلات کے انداز سے خاصا متاثر ہوا۔ اور کافی نئے تلامذہ نے بھی اس سے استفادہ کیا ہے۔ بہت فائدہ ہوا عروض سیکھنے والوں کو ماشا اللہ اس کا انکار کرنا بخل کی اعلی مثال ہوگی۔
جہاں تک رمل کے زحافات کی بحث ہے اس میں یہی کہونگا کہ ایک تو مروجہ زحافات ہیں جو ہم سب ہی استعمال کرتے ہیں۔ مگر کچھ زحافات شاذ ہیں جن کا استعمال بہت کم ہے۔ مگر کہیں بھی کسی دور میں کسی زبان میں حتی کہ کسی بحر میں بھی سالم کے ساتھ زحافاتِ مخصوصہ کا استعمال جائز نہیں رہا متفق علیہ۔ بلکہ دو عدد علّتوں (تسبیغ اور اذالہ) کا استعمال متفق علیہ جائز ہے۔ قصر جو کہ زحاف ہے، اس کا خلط میرے ناقص علم میں اب تک کسی سالم بحر کے ساتھ نہیں آیا۔ اسی لئے یہ سوال کیا تھا آپ سے کہ تھوڑا سمجھ لیا جائے۔
 
سالم و مسبغ یا سالم و مذال​

یہ دیکھ کے تو اچھا بھلا بندہ بھی عروض سے دس فرلانگ دور بھاگے گا۔​
اب پتہ چلا کہ میں شاعروں سے اتنا زیادہ دور کیوں بھاگتا ہوں؟
محمد بلا ل اعظم بھائی اور قیصرانی بھائی! اپنے اور آپ دونوں کے لیے ہی تو ہم نے شاعری سیکھنے کا آسان قاعدہ بنایا ہے، سو شاعری کیجیے اور شاعروں کے قریب ہوجائیے۔اب
فاعلاتن فاعلاتن فاعلات​
ایک تھپڑ ایک گھونسا ایک لات​
سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔​
 
Top