۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
5- مدار - قوّت ثقل اور حرکت کا نازک توازن - حصّہ چہارم (آخری حصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 5
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کائنات میں ایک ستارہ جو ہمارے سورج سے ٢٠ گنا زیادہ کمیت اور ١٠ گنا زیادہ حرارت رکھتا ہے موجودہے . اس قسم کے ستارے زیادہ عرصہ تک زندہ نہیں رہتے . یہ ستارہ ایک ایسے شیطانی پھندے میں پھنس گیا ہے جو بلیک ہول کی قوّت ثقل نے لگایا ہے. یہاں ثقلی قوّت اس قدر طاقتور ہے کہ یہ ستارہ ٥ لاکھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے مدار میں دوڑا جارہا ہے.بلیک ہول ستارے کی باہری پرت کو چوس رہا ہے جس سے ایک وسیع گھومتی ہوئی قرص سی بن گئی ہے ، یہ قرص اتنی گرم ہے کہ ہمارے سورج کے مقابلہ میں دس لاکھ گنا زیادہ طاقتور ایکس ریز چھوڑ رہی ہے.
ایک ایسی ہئیت جس میں ایک ستارہ بلیک ہول کے گرد گھوم رہا ہو کافی غیر پائیدار ہوتی ہے. سب سے پہلے تو بلیک ہول ستارے کی اوپری پرت کو نگلے گا جس کے ساتھ ساتھ ستارہ بھی غیر متوازن ہوجائے گا اور ایک دن ایسا بھی آئے گا جب یہ ستارہ بھی سپرنووا بن کر پھٹ پڑے گا اور شاید اپنے پیچھے ایک بلیک ہول چھوڑ دے گا تب دو بلیک ہول ایک دوسرے کے گرد چکر لگا رہے ہوں گے یہ کائنات کا نادر نظاروں میں میں سے ایک شاندار نظارہ ہوگا .
آخر کار ان بلیک ہولز کے انضمام سے ایک بڑا بلیک ہول وجود میں آئے گا اور بربادی کا چکر یوں ہی جاری و ساری رہے گا. مگر پھر بھی یہ بلیک ہول کائنات میں موجود دوسرے بلیک ہولز کے مقابلے میں کافی چھوٹا ہوگا.بڑے بلیک ہولز تو تباہی و بربادی کی اس ہنگامہ خیزی کو ایک نئے درجے تک پہنچا دیتےہیں .
٢٠١١ میں ماہرین فلکیات نے خلاء میں ایک بہت بڑا دھماکا دیکھا یہ جھماکاجو گیما شعاؤں کا انفجار تھا سورج کی روشنی سے ١ کھرب گنا زیادہ تھا. یہ نہات شاندار نظارہ تھا. یہ دھماکا دور دراز کی کہکشاں کے مرکز میں موجود ایک "بڑے عظیم ضخیم بلیک ہول" (Supermassive Black Hole)سے نکل رہا تھا.یہ بلیک ہول خاموش تھا مگر کسی چیز نے اسے سوتے سے جگا دیا تھا.
اگر ہم "واقیعاتی افق"(Event Horizon)، جو ایک خیالی کرۂ ہےاور بلیک ہول کے قریب آخری سرحد کا کام کرتا ہے ؛ کے پاس سے گزریں تو پھر ہمارے لئے واپس پلٹ کر آنا ناممکن ہوگا.
کئی ستارے بلیک ہول کے نزدیک محفوظ مقام سے اس کے گرد مدار میں چکر کاٹ رہے ہوتے ہیں پھر اچانک ان میں سے کوئی ایک واقیعاتی افق کو پار کرتے ہوئے بلیک ہول کے اور نزدیک آجاتا ہے اور سوئے ہوئے عفریت کو جگا دیتا ہے. بلیک ہول کی زبردست قوّت ستارے کو اس حد تک کھینچ دیتی ہے کہ اس کی دھجیاں بکھر جاتی ہیں. بلیک ہول کے ارد گرد گھومتا ہوا گرد و غبارمیں درجہ حرارت لاکھوں ڈگری تک جا پہنچتا ہے. گیما شعاؤں کے دو جناتی فوارے خلاء میں ایک دھماکے سے روشنی کی رفتار سے نکلتے ہیں (تصویر نمبر ٨). بلیک ہول اس وقت تک ستارے کو کرچی کرچی کر کے اس کا آدھا مادّہ ہضم کر چکا ہوتا ہے جبکہ آدھا حصّہ اس دھماکے میں باہر پھینک دیتا ہے. یہ نظارہ قدرت فلکیات کی تاریخ میں ریکارڈ کئے جانے والے سب سے ہیبتناک واقعات میں سے ایک ہے. ہم اس سے ٣ ارب سال کی دوری پر ہونے کے باوجود اس کو زمین پر دیکھ سکے ہیں.
NASA's Chandra Adds to Black Hole Birth Announcement by
Zonnee, on Flickr
بلیک ہول ستاروں کو نگل اور سیارہ کو ریزہ ریزہ کرسکتے ہیں. مگر قوّت ثقل ہمیشہ چیزوں کو کھینچتی ہی نہیں ہے. عوام الناس جانتے ہیں کہ قوّت ثقل چیزوں کو کھینچتی ہے اور کبھی چیزوں کو دھکیلتی نہیں ہے. مگرچیزوں کو کھینچنے میں اس کا رویہ اس قدر سادہ نہیں ہے.اگرچہ یہ بات سچ ہے کہ یہ دو چیزوں کو کھینچتی ہے مگر جب چیزیں دو سے زیادہ ہوجائیں تو پھر اس کا رویہ عجیب و غریب ہوجاتا ہے اور پھر یہ چیزوں کو ایک دوسرے سے پرےبھی دھکیل دیتی ہے. کوئی بھی دو اجسام ایک دوسرے کے نہایت قریب آسکتے ہیں مگر کوئی شے ایک مخصوص رفتار اور مخصوص زاویہ سے کسی دوسری چیز کی طرف کھینچی چلی آئے تو بجائے وہ ایک دوسرے سے ٹکرانے کے ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں . ان میں سے ایک چیز بالکل ایسے دور جاتی ہے جیسے اسے غلیل میں رکھ کر پھینکا جائے.
حالیہ دنوں میں سائنس دانوں نے دیکھا ہے کہ ہماری کہکشاں کے ستارے انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ دور ہنکائے جارہے ہیں. عام طور پر ستارے ایسا نہیں کرتے.لہٰذا کوئی تو ایسی چیز ہے جو ستاروں کو یہ" سرعت رفتار" (Hypervelocity)عطا کرتی ہے.سائنس دانوں نے جب اس کا جواب حاصل کیا تو ان کی حیرانی کی انتہاء نہ رہی.کوئی بھی ستارہ صرف اس وقت ہی اس رفتار سے باہر دھکیلا جا سکتا ہے جب اس کی سمتی رفتار ٧٠٠، ٨٠٠،یا پھر ١،٠٠٠ میل فی سیکنڈ تک جا پہنچے. ایسی کوئی بھی چیزسپرماسسیو بلیک ہول ہی کے ذریعہ دھکیلی جا سکتی ہے. اپنی ابتداء میں یہ تیز رفتار ستارے اس ثنائی نظام کا حصّہ تھے جس میں ایک ستارہ بلیک ہول بن گیا تھا اور دوسرا اس کے گرد چکر کاٹ رہا تھا. جب وہ آپس میں کافی قریب آ گئے تو قوّت ثقل نے ان کو دور کردیا . بلیک ہول نے منجنیق بن کر دوسرے ستارے کو کہکشاں سے باہر ٢ لاکھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے باہر پھینک دیا.
اس سارے قصّے سےسب سے دلچسپ بات جو ہمیں پتا چلی ہے وہ یہ کہ کوئی بھی ستارہ جو کہکشاں کے قلب سے قریب پیدا ہوا ہو وہ اس طریقہ میں اچانک ہی مرکز سے دور خلاء میں پھینک دیا جاتا ہے اور اس طرح سے ستاروں کی نئی تقسیم وجود میں آتی ہے.
دور خلائے بسیط میں مدار اپنی طاقت کی انتہاء پر موجود ہیں جو پوری کی پوری کہکشاں کو ایک دوسرے سے ٹکرا تے ہوئے کائنات کی شکل و صورت کو ڈھال رہے ہیں.کائنات میں کہیں بھی دیکھ لیں قوّت ثقل تباہی و بربادی کی دوسری صورت بن کر ابھری ہے. ستاروں اور سیاروں کے مدار افراتفری ، ناقابل اعتبار اور شدید قسم کے نمونے ہو سکتے ہیں.لیکن کونیاتی پیمانے پر قوّت ثقل تباہی و بربادی کی قوّت سے نکل کر تخلیق و تشکیل کی قوّت بن کر ابھرتی ہے جس کا کام نئے جہاں بنا نا ہوتا ہے. چکر کھاتی گھومتی ہوئے کہکشائیں ستاروں کے جھرمٹ ، گیس اور گرد و غبار کے بادلوں پر مشتمل لاکھوں نوری سال پر پھیلی ہوئی ہوتی ہیں.کہکشائیں ایک دوسرے کے گرد ایسے ہی چکر لگاتی ہیں جیسے کہ سیارے ستاروں کے گرد مدار میں چکر کاٹتے ہیں. قوّت ثقل ان کو ایک ساتھ کھینچ کر رکھتی ہے.ان اجسام کی رفتار ان کو ایک دوسرے سے دور کرسکتی ہے مگر جیت عام طور پر قوّت ثقل کی ہی ہوتی ہے. پوری کی پوری کہکشائیں ایک دوسرے سے ٹکرا جاتی ہیں.
کہکشانی ٹکراؤ بھی کائنات کا شاندار نظاروں میں سے ایک ہے.ہم یہاں بات کر رہے ہیں ان کہکشانی ٹکراؤ کی جہاں ہر ایک کہکشاں میں سینکڑوں ارب ستارے لگ بھگ ایک لاکھ نوری برس پر پھیلے ہوئے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں.
کہکشانی ٹکراؤ لاکھوں سال میں جاکر ہوتے ہیں.قوّت ثقل چیزوں کو آہستہ آہستہ قریب کرتی ہے.
کہکشانی انضمام بالکل ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے کہ دو مائع چیزوں کو آپس میں مدغم کردیا جائے. جیسے ہی دونوں کہکشائیں ایک دوسرے کے قریب سے گزرتی ہیں تو ان کی ایک لمبی سی دم بن جاتی ہے مگر آخر میں قوّت ثقل ان کو پھر قریب لے آتی ہے اور اس کو مکمل بڑی کہکشاں کی شکل میں ڈال دیتی ہے . یہ کہکشاں پرانی والی کہکشاں سے بڑی ہوتی ہے.
اس پیمانے پر قوّت ثقل اور حرکت کوئی تباہی مچانے والی قوّت نہیں بنتے بلکہ یہ مل کر حیات کی شروعات کی ابتداء کے لئے راہ استوار کرتے ہیں .
کہکشانی تصادم ایک طرح سے تباہی مچانے والے ہوتے ہیں تو دوسری طرف تخلیقی قوّت کے طور پر بھی ابھرتے ہیں.
ٹکراتی ہوئی کہکشائیں گیس کے وسیع بادلوں کو آپس میں پیستی ہیں جس سے عظیم الجثہ صدماتی موجیں نکلتی ہیں اور اس کے بعد ان گنت ستاروں کا جنم شروع ہوجاتا ہے. کہکشانی انضمام میں تخلیق کی قوّت بذات خود پیدا ہوتی ہے کیونکہ پستے ہوئے گیسی بادل نئے نظام ہائے شمسی کی تخلیق کا سبب بنتے ہیں جہاں پر ہوسکتا ہے کہ حیات کسی شکل میں پروان چڑھ سکے.کبھی کبھی ایسے تصادم ایک زنجیری عمل شروع کردیتے ہیں. دو مرغولہ نما کہکشائیں ابھی انضمام کے عمل کے درمیان جس میں نئے ستاروں اور سیاروں کی پیدائش ہورہی ہوتی ہے ،سے گزر رہی ہوتی ہیں کہ کچھ نوزائیدہ ستارے جو بہت زیادہ ضخیم ، غیر متوازن اور کم عمر پانے والے ہوتے ہیں پھٹ جاتے ہیں اور ہر نیا دھماکہ ایک نئی صدماتی موج کو جنم دیتا ہے جو مزید گیس کے بادلوں کو آپس میں قریب کر کے بھینچتی اور پیستی ہے جس سے مزید ستاروں کا جنم ہوتا ہے.سائنس دان اس کو" ستاروں کا انفجار" (Star Burst)کہتے ہیں. یہ قوّت ثقل کی تخلیقی قوّت کی ایک زبردست مثال ہے.
ایک ایسی کہکشاں میں جہاں ستاروں کا انفجار ہوتا ہے، ستاروں کے پیدا ہونے کی شرح دوسری عام کہکشاؤں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے. یہ بہت ہی مسحور کن خیال ہے کہ اتنی خطرناک اور تباہی پھیلانے والی قوّت سے تخلیق کے بھنڈار نکلتے ہیں.
قوّت ثقل اور حرکت کی وہ قوّت جو نئے پیدا ہونے والے ستارے کے پیچھےکار فرما ہوتی ہیں یہ دونوں مل کر کائنات کی ساخت کو ترتیب دیتی ہیں. عالم موجودات یوں ہی بے تکا اور بے مقصد نہیں ہے. اس کی ایک سوچی سمجھی ساخت ہے.کائنات ایک سہ جہتی غالیچہ ہے جس میں موجود ہر دھاگہ اور ریشہ ارب ہا کہکشاؤں کا گھر ہے یہ ایک ایسی مچان ہے جس نے ہر چیز کو اس کونیاتی جال میں بن دیا ہے. یہ کوئی ساکت بند نہیں ہے بلکہ اس قدر متحرک ہے کہ اس میں موجود ہر چیز انتہائی تیز رفتار اورنا صرف مسلسل حرکت میں ہے بلکہ ایک دوسرے سے متصادم بھی ہورہی ہیں. کہکشائیں، ستارے، بلیک ہولز اور سپرنووا سب کونیاتی رقص میں مصروف ہیں.
کائناتی جال کی وسعت کا اندازہ لگانا انسان کے بس سے باہر ہے. اس ریشے کا ہر دھاگہ حرکت سے بھرپور ہے . کہکشائیں بن رہی ہیں ، چکر لگا رہی ہیں اور ٹکرا رہی ہیں یہ سب ارب ہا دفہ بلکہ ان گنت دفہ ہورہا ہے. ہر ریشہ ایک کہکشانی ہائی وے ہے جہاں غیر مختتم ہجوم کا بہاؤ رواں دواں ہے جہاں ہفتے کے ساتوں دن اور سال کے ٣٦٥ دن ہجوم کے بہاؤ میں کوئی کمی نہیں ہوتی. ہر ارب ہا نوری برس کے فاصلے پر یہ ریشہ آپس میں مل کر ایک گانٹھ سی بناتے ہیں. پورے کے پورے کہکشانی جھرمٹ مل کراور بڑے کہکشانی جھرمٹ بناتے ہیں.
تصویر نمبر ٩ - Abell 2744 by
Zonnee, on Flickr
ان کہکشانی جھرمٹ میں سے ایک کا نام آبیل -٢٧٧ ہے(تصویر نمبر ٩ ) جہاں پانچ کہکشانی جھرمٹ ٹکرا کر ایک بہت ہی بڑا جھرمٹ بنا رہے ہیں. یہ اب تک دریافت ہونے والے کائناتی اجسام میں سب سے بڑی ساخت ہے. آہستہ آہستہ یہ پانچ جھرمٹ مل کر ایک جھرمٹوں کے جھرمٹ جو ٦٠ لاکھ نوری سالوں پر محیط ہوگا بنا لیں گے . مداروں کی زبردست طاقت کائنات کو ایک گٹھان میں باندھ دیتی ہے. کائناتی ساختیں مداروں اور ثقلی قوّت کی سانجھی طاقت سے ارب ہا ارب برسوں کے گرزنے کے ساتھ ساتھ ارتقاء پذیر ہوتی ہوئی بڑے سے بڑی کائناتی ساختیں بناتی ہیں.یہ سب ان دونوں قوّتوں کی مرہون منّت ہے جو اجسام کو قریب بھی کردیتی ہیں اور جدا بھی کرتی ہیں.
یکے بعد دیگرے ہم ان مداروں کو دریافت کر رہے ہیں جو کائنات پر اپنا تسلط قائم کئے ہوئے ہیں. جس طرح ایٹم ایک کیمیا کا بنیادی عنصر ہےبالکل اسی طرح مدار کائنات کا بنیادی عنصر ہے. اگر ہم تمام ممکنہ مداروں کو جان جائیں تو ہم کائنات کے کام کرنے کے طریقے کو جان جائیں گے. مداروں نے کائنات کو پیچیدگی اور تونگری سے لبریز کردیا ہے.
مدار تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور بے ربط بھی ہوجاتے ہیں. ماضی میں ہم جن چیزوں کو ناممکنات جانتے تھے اب وہ ممکنات میں شامل ہو گئیں. چھوٹے پیمانے سے لے کر بڑے پیمانے تک یہ قوّت ثقل اور تصادموں کی کارستانیاں ہیں جو ہماری کائنات کو اتنا خوبصورت اور دلفریب جگہ بناتی ہیں.
ان تمام باتوں کے پیچھے پر تجسس تناقضات بہرحال اپنی جگہ موجود ہیں. خطرناک مداروں کا مطلب ہے تغیر اور تصادم جو یہ دیکھنے میں بہت ہی تباہی پھیلانے والے نظر آتے ہیں. ان کاکام کہکشاؤں کا انضمام ، گرد و غبار کے بادلوں کو منہدم کرنا اور زندگی کی تخلیق کرنے کے ساتھ ساتھ تباہی مچانا بھی ہے.تباہی اور بربادی کے اس نہ روکنے والے سلسلے کے پیچھے مداروں کی قوّت ہی کار فرما ہے.یہ مدار ہی کارخانہ قدرت کے کام کرنےکی نفس روح ہیں.
تمام شد۔۔۔۔۔