میرا نام ذوالقرنین ہے۔ قرآن پاک میں سورۃ کہف میں آیات 83 سے 101 تک ذوالقرنین کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ یہ اک بہت قدیم نام ہے۔ اور مؤرخین کی اک لمبی بحث آپکو ملے گی اس پر۔ کہ یہ کونسا بادشاہ تھا؟ کس دور سے تعلق تھا۔ کچھ اسے اسکندر اعظم بھی کہتے ہیں۔ پر قرآن پاک میں اسکی جو صفات بیان ہوئی ہیں وہ اسکندر پر پوری نہیں اترتیں۔ یہ تمہید اس لیئے باندھی کی گرچہ تمام احباب واقف ہونگے مگر پھر بھی اک بار یہ ذہن میں تازہ ہو جائے
ذوالقرنین کے مطلب تو دو سینگوں والا کے ہیں۔ اس سے ظاہراً طاقت اور قوت سے تشبیہ دی گئی ہے۔
قرن زمانہ کو کہتے ہیں۔ اور قرنین دو زمانوں کو۔ تو بعض کے نزدیک اس مراد ایسا شخص ہے جسکی حکومت مشرق و مغرب میں ہو۔ اور قرآن پاک میں بیان واقعہ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس نے مشرق و مغرب تک کے سفر کیئے اور فتوحات حاصل کیں۔ تو بھی مطلب تو ایسا شخص ہی ہے جو قوت اور طاقت رکھتا ہو۔
اب میں کسقدر اسم بامسمیٰ ہوں۔ یہ تو میں نہیں جانتا۔ کیوں کہ میں اک کمزور آدمی ہوں۔ اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھ کمزور کو کسی امتحاں میں نہ ڈالے گرچہ ایمان کامل ہے کہ وہ ذات بے نیاز کسی کی اوقات سے زیادہ اس پر آزمائش نہیں ڈالتا مگر میں پھر بھی اس کی آزمائش کے لائق نہیں۔