نبیل
تکنیکی معاون
سچ تو یہ ہے کہ فارسی شعر کی مار آج کل کے قاری سہی نہیں جاتی۔ بالخصوص اس وقت جب وہ بے محل ہو۔ مولانا ابولکلام آزاد تو نثر کا آرائشی فریم صرف اپنے پسندیدہ اشعار ٹانگنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے اشعار بے محل نہیں ہوتے۔ ملحقہ نثر بے محل ہوتی ہے۔ وہ اپنی نثر کا تمام تر ریشمی کوکون (کویا) اپنے گھاڑے گھاڑے لعاب دہن سے فارسی شعر کے گرد بنتے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ ریشم حاصل کرنے کا زمانہ قدیم سے ایک ہی طریقہ چلا آتا ہے۔ کوئے کو ریشم کے زندہ کیڑے سمیت کھلوتے پانی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جب تک وہ مر نہ جائے ریشم ہاتھ نہیں آتا۔
آگے چل کر یوسفی صاحب ابولکلام کی نثر کی چند مثالیں پیش کرتے ہیں۔
مولانا بولکلام آزاد اپنا سن پیدائش اس طرح بتاتے ہیں
“یہ غریب الدّیار عہد، ناآشنائے عصر، بیگانہ خویش، نمک پروردہ ریش، خرابہ حسرت کہ موسوم بہ احمد، مدعو بابی الکلام 1888 ء مطابق ذولحجہ 1305 ء میں ہستی عدم سے اس عمد ہستی میں وارد ہوا اور تہمت حیات سے متہم۔“
اب لوگ اس طرح نہیں لکھتے۔ اس طرح پیدا بھی نہیں ہوتے۔ اتنی خجالت، طوالت و اذیت تو آج کل سیزیرین پیدائش میں بھی نہیں ہوتی۔
اسی طرح نو طرز مرصع کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیے۔
“جب ماہتاب عمر میرے کا بدرجہ جہاردوسالگی کے پہنچا، روز روشن ابتہاج اس تیرہ بخت کا تاریک تر شب یلدہ سے ہوا، یعنی پیمانہ عمر و زندگانی مادروپدر بزرگوار حظوظ نفسانی سے لبریز ہو کے اسی سال دست قضا سے دہلا۔“
کہنا صرف یہ چاہتے ہیں کہ کہ جب میں چودہ برس کا ہوا تو ماں باپ فوت ہو گئے۔لیکن پیرایہ ایسا گنجلک اختیار کیا کہ والدین کے ساتھ مطلب بھی فوت ہوگیا۔
آگے چل کر یوسفی صاحب ابولکلام کی نثر کی چند مثالیں پیش کرتے ہیں۔
مولانا بولکلام آزاد اپنا سن پیدائش اس طرح بتاتے ہیں
“یہ غریب الدّیار عہد، ناآشنائے عصر، بیگانہ خویش، نمک پروردہ ریش، خرابہ حسرت کہ موسوم بہ احمد، مدعو بابی الکلام 1888 ء مطابق ذولحجہ 1305 ء میں ہستی عدم سے اس عمد ہستی میں وارد ہوا اور تہمت حیات سے متہم۔“
اب لوگ اس طرح نہیں لکھتے۔ اس طرح پیدا بھی نہیں ہوتے۔ اتنی خجالت، طوالت و اذیت تو آج کل سیزیرین پیدائش میں بھی نہیں ہوتی۔
اسی طرح نو طرز مرصع کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیے۔
“جب ماہتاب عمر میرے کا بدرجہ جہاردوسالگی کے پہنچا، روز روشن ابتہاج اس تیرہ بخت کا تاریک تر شب یلدہ سے ہوا، یعنی پیمانہ عمر و زندگانی مادروپدر بزرگوار حظوظ نفسانی سے لبریز ہو کے اسی سال دست قضا سے دہلا۔“
کہنا صرف یہ چاہتے ہیں کہ کہ جب میں چودہ برس کا ہوا تو ماں باپ فوت ہو گئے۔لیکن پیرایہ ایسا گنجلک اختیار کیا کہ والدین کے ساتھ مطلب بھی فوت ہوگیا۔