سپاہی: ٹھہر!
مرے ہی رفیقوں کے قدموں کی مانوس آواز میری طرف
بڑھ رہی ہے عجب کیا کہ یہ زخمیوں کے تجسّس میں ہی
آ رہے ہوں
موت: کہاں بے وقوف
سپاہی:اُس طرف
موت:(دیوانہ وار ہنستی ہے۔ قدموں کی چاپ قریب تر آ جاتی ہے)
باؤلے یہ جماعت تو وہ ہے جو لاشیں ٹھکانے لگتی ہے
سُن تو!
(کدالوں اور بیلچوں کے کھڑکنے کی آواز)
یہ تیرے درماں نہیں گورکن ہیں
سپاہی:وہ کچھ بھی ہوں زندہ تو ہیں اور زندوں کے دشمن نہیں
یہ مرے شیر دل ہموطن ہیں
(کیمرہ بلندی سے گھاٹی پر مرکوز ہوتا ہے)
پہلا سپاہی:بہت تھک گئے
اِس پہاڑی پہ چڑھنا غضب تھا
دوسرا سپاہی:یہاں چند سانسوں کو سستانے کے بعد
آگے بڑھیں گے
کہ اب اور چلنے کی طاقت نہیں ہے
پہلا سپاہی: تھکن سے مری ہڈیاں
ریزہ ریزہ ہوئی جا رہی ہیں
پہلا:ترے پاس کھانے کو ہے کچھ؟
دوسرا:کہاں۔ چند سگریٹ بچے ہیں۔۔اگر تم۔۔۔۔
پہلا:غنیمت ہے یہ بھی۔ قیامت کی سردی ہے۔
دوسرا:چائے پیو گے؟ اُبلتی ہوئی گرم چائے پہ بالائی کی تہہ
جمی ہو تو کیسی رہے گی
پہلا:چلو اک پیالہ۔ نہیں دو سہی
دوسرا:یہاں کون زخمی ملے گا؟
(دونوں ہنستے ہیں)
پہلا:تصوّر کی جادو گری خوب ہے
دوسرا:ہاں خیالی پلاؤ کی خوشبو سے بھی کچھ تسلّی ہوئی ہے
(سپاہی کے کراہنے کی آواز آتی ہے)
سپاہی:میں زندہ ہوں۔ زندہ ہوں
اِس بد نفس کو مرے سامنے سے ہٹاؤ
یہ ظالم چڑیل
اپنے بازو پسارے
نہ معلوم کب سے مری گھات میں ہے
میں زندہ ہوں
زندہ ہوں مجھ کو بچا لو
پہلا سپاہی:سنو جیسے کوئی یہیں پاس ہی ہو
دوسرا سپاہی: ترا واہمہ ہے۔ یہاں کون ہو گا
سپاہی:مرے پاس آؤ رفیقو
مرے سر پہ یہ بے حیا گدھ کی مانند منڈلا رہی ہے
پہلا سپاہی:سُنی تم نے آواز؟
دوسرا سپاہی: ہاں وہ۔۔۔اُدھر۔ برف میں
دفن لاشہ
پہلا سپاہی:چلو۔۔ بیلچہ لو۔۔ وہ زندہ ہے
دوسرا سپاہی:حیرت
اگر اس جگہ لاش ہوتی تو میں اتنا حیراں نہ ہوتا
مگر ایک زندہ سپاہی
یہاں معجزہ ہے
پہلا سپاہی:تو جلدی کرو۔ رات ہونے کو ہے
(دونوں سپاہی زخمی سپاہی
کے قریب آ جاتے ہیں)
دوسرا سپاہی:(چھوتے ہوئے)واقعی اس میں جاں
ہے ابھی
سنو تم میں اتنی سکت ہے
کہ اِس کو اُٹھا کر ہم اپنے ٹھکانے تلک جا سکیں
پہلا سپاہی:اگرچہ تھکن سے مری ہڈّیاں کڑکڑانے لگی ہیں
مگر اِس سپاہی کو دستِ اجل سے بچانا مقدّم ہے
آؤ اِسے ہاتھ دیں
دوسرا سپاہی:اچھا ہُوا ہم اِدھر آ گئے
ورنہ اِس باد و باراں کے طوفاں میں زخموں سے گھائل
مجاہد کبھی بچ نہ سکتا
شہیدوں کی فہرست میں یہ بھی ہوتا۔
پہلا سپاہی: بس اب وقت ضائع نہ ہو
بیلچے سے تہیں برف کی تم ہٹاؤ
میں اتنے میں کوئی دوا دیکھتا ہوں
دوسرا سپاہی:خدایا۔۔! ذرا اِس کے یخ بستہ جسم کو چھُو
کے دیکھو
پہلا سپاہی:نا معلوم یہ اب تلک کیسے زندہ بچا ہے
موت: (اپنے آپ سے) یہ کچھ بھی کریں۔ میرے چُنگل سے
اس کو نہیں چھین سکتے
یہ نخچیر میرا ہے۔ میں اس کو جانے نہ دوں گی
یہ ہمدرد
دو چار سانسوں کے ساتھی
اِسے راہ میں پھینک جائیں گے یا خود بھی بھوک اور تھکن
ہی سے دم توڑ دیں گے
میں اِن کا تعاقب کروں گی
میں اِن کا تعاقب کروں گی
یہ نخچیر میرا ہے
میرا ہے
میرا ہے
(دونوں سپاہی اِدھر اُدھر سے برف ہٹاتے
ہیں اور زخمی سپاہی کو اُٹھا کر کندھے پر
ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہوا کا شور
اور برف باری کی شدت بڑھ جاتی ہے۔)
پہلا سپاہی:ذرا ہاتھ دو تاکہ میں اِس کو کندھے پر آرام سے
ڈال لوں
سپاہی کا ہمدرد ساتھی سپاہی ہی ہوتا ہے۔ آؤ ذرا تم اِدھر سے
(زخمی سپاہی کراہتا ہے)
زخمی سپاہی:مرے ساتھیو! تم کو تکلیف ہو گی
یہ رستہ اندھیرا اور پُر خطر ہے
ذرا دیکھ کر۔۔۔۔
میرا کیا ہے کہ میں تو
فقط چند سانسوں کا مہمان ہوں۔۔۔
پر تمہارے لئے زندگی کے مہ و سال کی بے کراں
وادیاں ہیں
پہلا سپاہی:نہیں تم سلامت رہو گے۔ ہمارے وطن کے سپاہی
کہ اب زندگی سے اور محفوظ رستے پر تم گامزن ہو چکے ہو
(چلنے لگتے ہیں)
زخمی سپاہی:مگر ظلمتوں سے سبھی راستے ڈھک چکے ہیں
یہ گھاٹی نہایت خطرناک ہے
اپنی جانیں مری زندگی کے لئے مت گنواؤ
دوسرا سپاہی:یہی زندگی ہے۔ سپاہی ہمیشہ سپاہی ہی رہتا ہے
اِس کے لئے ہی خطر ناک رستے بنے ہیں
ہماری مسرّت یہی ہے
کہ ہم تم کو زندہ سلامت۔ گجر دم وہاں لے کے چلیں
جس جگہ اس مقدّس زمینِ وطن کے زن و مرد۔
پیر و جواں
یومِ نصرت کے موقع پہ غازی سپوتوں کو
فخر و عقیدت سے دیکھیں گے۔
توپوں کی گونجار میں ان بہادر جوانوں پہ
تکریم کے پھُول برسیں گے
جو جنگ سے سرخرو ہو کے آئے
زخمی سپاہی:مرے واسطےاِس سے بڑھ کر کوئی بھی
تمنّا نہیں ہے
کہ میں بھی وہاں ہوں
مگر دوستو
چند لمحے توسستا بھی لو۔ تم بہت تھک چکے ہو
پہلا سپاہی:تھکن؟
تم ہماری نہ پروا کرو
ایک بے جان لاشے کو دو گام بھی کھینچنا سخت اذیّت ہے
پر ایک زندہ سپاہی کو کندھوں پہ ڈالے اگر سینکڑوں میل کا
بھی سفر ہو تو کچھ بھی نہیں
دوسرا سپاہی: اور سپاہی اگر یوں تھکے تو سپاہی نہیں
پہلا سپاہی: ہوائیں بہت سرد ہیں اور تمہارے ٹھٹھرتے
ہوئے ہاتھ۔۔۔اُف کس قدر یخ زدہ ہیں
یہ دستانے لو۔۔۔میرے ہاتھوں میں کافی حرارت ہے
زخمی سپاہی:لیکن
دوسرا سپاہی:سنو! یہ تکلّف کا موقع نہیں
پہلا سپاہی:بس یہ ڈھلوان اب ختم ہونے کو ہے
اور ہم اپنی منزل کے نزدیک تر آ چکے ہیں
موت:یہ مخلوق کیسی ہے
اک دوسرے سے اِنھیں کس قدر اُنس ہے
یہ مجھے مات دے کر
"اُسے"
میرے نخچیر کو
مجھ سے چھینے لیے جا رہے ہیں
یہ کیسے سپاہی ہیں۔ کتنے نڈر ہیں
کہ میں تھک گئی
اور یہ جا رہے ہیں
مجھے مات دے کر
مجھے مات دے کر
مجھے مات دے کر
(موت منہ کے بل گر پڑتی ہے)
٭٭٭
خیال: ترادو وسکی