Learn Hindi From Urdu
اردو سے ہندی سیکھیے
उर्दू से हिंदी सीखें
ہندی رسم الخط کو ناگری اور دیو ناگری بھی کہتے ہیں۔ دیو ناگری میں کل 50 حروف ہیں ۔ جن میں حروف صحیح مفرد 33 اور مرکب 4 ہیں ، اور حروف علت13 ہیں۔ اسے انگریزی کی طرح بائیں سے دائیں کی طرف لکھا جاتا ہے۔ حروف صحیح کو ہندی میں "وینجن" اور مرکب کو سینیُکت وینجن کہتے ہیں . اور حروف علت کو " سوَر " کہا جاتا ہے۔ عام طور پر کسی بھی حرف کو "اکشر" یا "ورنڑ" کہتے ہیں۔ اور حروف تہجی کو اکشر مالا یا ورنڑ مالا کہا جاتا ہے.
سوَر :۔
اَ अ
آ
اِ
اِ یْ
اُउ
اُوْ ऊ
اےए
اَے ऐ
اوओ
اَوْऔ
اَنْ अं
اَہْ(صرف سنسکرت کے لیے) अः
رِ (صرف سنسکرت کے لیے) ऋ
_________________________
وینجن:۔
کَ क
کھَ ख
گَ ग
گھَ घ
اَنْگَ ङ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چَ च
چھَ छ
جَ ज
جھَ झ
نِیاں ञ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹَ ट
ٹھَ ठ
ڈَ ड
ڈھَ ढ
اَنْڑَ ण
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تَ त
تھَ थ
دَ द
دھَ ध
نَ न
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پَ प
پھَ फ
بَ ब
بھَ भ
مَ म
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
یَ य
رَ र
لَ ल
وَ व
شَ श
ششَ ष
سَ ۔ ثَ स
ہَ ۔ ھَ ۔ حَ ह
_________________________
سینیُکت وینجن:۔
क्ष کْشَ
त्र تْرَ
श्र شْرَ
ज्ञ گْیَ
..................................................................................
.........................................................
ہندی گنتی
ہندی نمبر:۔
हिन्दी अंक :-
१ 1
२ 2
३ 3
४ 4
५ 5
६ 6
७ 7
८ 8
९ 9
० 0
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک تحقیق "شیخ محمد اکرام کی آب کوثر" کے مطابق ساری دنیا میں ہند سے ہند ہی سے گئے یعنی ہندوستان سے۔ مسلم عباسی خلافت کے دور میں کسی ہندو پنڈت وغیرہ کی خدمات لے کر ہندوستانی حساب کی کتاب کا ترجمہ کیا گیا۔ وہاں سے ہندسے مسلمانوں میں آئے۔ پہلے صرف اَحَدَ عَشَرَ یعنی عربی بیانیہ طریقے سے گنتی لکھی جاتی تھی۔ اور یورپ میں صرف رومن
i ii iii iv v vi vii viii ix
گنتی رائج تھی۔
مسلمانوں سے دیگر مغربی ممالک وغیرہ نے تعلیمی استفادہ کیا۔ پس یہ جدید انگریزی نمبر بھی ہندی کی بگڑی ہوئی یا سدھری ہوئی شکل ہے۔ جیسے اردو عربی ہندسے بھی ہیں۔
‎ - ١‎ - ٢‎ - ٣‎ - ٤‎ - ٥‎ - ٦‎ - ٧‎ - ٨‎ - ٩‎)
........................................................
دو اکشر والے شبد
اب अब
تب तब
کب कब
جب जब
ٹب टब
گھر घर
...................................
چھت پر مت چڑھ
छत पर मत चढ़ |
نٹ کھٹ مت بن
नट खट मत बन |
...................................
اِس = इस
اُس = अस
اَس = उस
آس = आस
پس = पस
بس = बस
आग آگ
रब رب
सब سب
शर شر
रद رد
दर در
सर سر
रस رس
तप تپ
आब آب
पत پت
ईख ایکھ
ऒट اوٹ
................................
آم = आम
آج = आज
..............................................................................
ہندی اور اردو میں لکھنے کے حوالے سے بہت سے اختلافات ہیں۔ سوَر کو کسی بھی وینجن سے پہلے
اب अब
اِس = इस
اَس = अस
اُس = उस
آس = आस
آم = आम
آج = आज
आग آگ
आब آب
ईख ایکھ
ऒट اوٹ
اس طرح لکھا اور پڑھا جا سکتا ہے۔
جبکہ وینجن اکشر کے بعد سوَر کا معاملہ اور ہے۔
जआ جَ آ
یہ لفظ جا نہیں ہے۔
कई ک اِی = کئی ہے
یہ لفظ "کِی" نہیں ہے۔
मऊ مَ اُو = مئُو ہے ۔
مُو نہیں ہے۔
चओ چَ او = چئو ہے ۔
چو نہیں ہے ۔
....................................................................
ایک بڑا اختلاف
اُ उ
ऊ اُو
اور
ओ او
اَوْ औ
کا ہے۔
اُ उ اُلو جیسے لٍفظوں کے لیے
ऊ اُو اُون ، اُونٹ وغیرہ
ओ او او ٹ ، اوکھلی وغیرہ
اَوْ औ عَورت ، اَوسان وغیرہ کے لیے استعمال ہوتے ہیں
ان کی مکسنگ سے معاملہ گڑ بڑ ہو سکتا ہے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
دراصل بہت زیادہ محنت کر کے اور وقت نکال کر لکھنا ہوتا ہے۔ اس لیے رفتار آہستہ ہے۔ معذرت
پھر بھی بڑی ہمت ہے آپ کی کہ آپ نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اب یہ قارئین پر منھصر ہے کہ وہ آپ کی اس محنت سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

در اصل میرے خیال میں ہمارے لئے عربی فارسی کے بعد ہندی اور( پنجابیوں کے لئے گور مکھی پنجابی) سیکھنا از حد ضروری ہے کیونکہ برصغیر ہندو پاک کے ادبی ذخیرے کا ایک معتد بہ حصہ ان دو زبانوں میں ہے۔ ویسے تو سب علاقائی زبانوں کی اپنی اپنی جگہ خاص اہمیت ہے لیکن ایک آدمی کے لئے یہ ساری زبانین سیکھنا ذرا دشوار امر ہے۔
 
طارق راحیل ، استاد اعجاز عبید ، استاد تلمیذ(حقیقتا استاد جو ہوتا ہے وہ تلمیذ ہی ہوتا ہے)
آپ سب کا شکریہ۔ میں کچھ مصروف تھا۔ امتحانات میں۔ اب عید کے بعد ہی ان شاءاللہ اگلا سبق لکھنے کی فرصت ہو گی۔ جو کہ آدھے اکشر کے تصور کے حوالے سے ہے۔ اور ماترائیں ہیں۔
 
ہندی بھاشا میں آدھے اکشر کا تصور ہے۔ اردو اور عربی میں بھی ہم جزم والے یعنی ساکن حرف کو آدھا ہی پڑھتے ہیں۔ لیکن ہندی اہلِ زبان کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک "شرُت لیکھ" بھاشا ہے۔ یعنی جیسا لفظ سُنتا ہے ویسا ہی لکھا جاتا ہے۔ عربی میں بھی بہت بہتری ہے۔ لیکن وہاں خاموش الف اور خاموش لام اور واؤ وغیرہ بعض اوقات لکھے تو جاتے ہیں لیکن پڑھے نہیں جاتے۔ جبکہ ہندی میں جو لکھا جاتا ہے وہی پڑھا جاتا ہے۔ جیسے "ہندُستان" نہ کہ ہندوستان۔
اردو میں جزم کا نشان اکثر نہیں لگایا جاتا۔ عربی میں ہوتا ہے۔ جیسے اردو کی یہ مثالیں
اب
تب
کب
جب
ٹب
گھر
جبکہ ہندی دیوناگری رسم الخط میں جزم والا ساکن حرف آدھا لکھا جاتا ہے۔ اور یہ الفاظ
اب अब
تب तब
کب कब
جب जब
ٹب टब
گھر घर
دراصل
اَبَ
تَبَ
کَبَ
جَبَ
ٹَبَ
گھَرَ
ہیں۔ اور ان الفاظ کو آدھا کرنے کے ان کی ساخت کے لحاظ سے کئی طریقے ہیں۔ جن اکشروں کے ساتھ پائی ہے جیسے
بَ
کے ساتھ
پائی ा
ہے۔ اس کو ہٹا کر بَ کو آدھا لکھا جا سکتا ہے۔ یعنی صرف وہ چھوٹا سا گول حرف اور اس میں وہ لائن رہ جائے گی
 
اس سبق کے لیے اس ویب سائٹ سے مدد لی گئی
اس میں آزاد سوَر اکشر اور ان کی ماتراؤں کی مثالیں دی گئی ہیں۔
अ میں زبر کی ماترا ہے جو ہر تقریبا ہر ہندی اکشر میں خودبخود ہے
اور دوسرے سوَر آ کا بیان
آ کی ماترا سامنے دی گئی ہے اس سے با، تا، جا، سا، نا وغیرہ لکھنے میں مدد ملتی ہے ہر اکشر کے بعد
پائی ा
لگا کر الف کی آواز کا اضافہ کیا جا سکتا ہے
مثالیں
آ ، جانا، پانا، رانا، گانا
आ, जाना, पाना, राणा, गाना
 
تیسری ماترا اِ
ि
کی ہے۔
مثالیں
جِس ، کِس ، دِن
जिस, किस, दिन,
کھلے لفظوں میں
ि
زیر ِ کا کام دیتی ہے۔ لیکن اس کا استعمال حرف(اکشر) سے پہلے کیا جاتا ہے۔
جیسے
جِس
जिस
 
چوتھی ماترا
اِی
کی
ہے۔ جو کہ زیر+ی کا کام دیتی ہے
مثالیں
سِی ، پِی ، جِی
सी, पी, जी,
اور حرف کے بعد دائیں جانب لگائی جاتی ہے
 
پانچویں ماترا
اُ

کی ہے
اور پیش کا کام دیتی ہے۔
جیسے
سُنو ، رُکو
सुनो, रुको
میں "س" اور "ر" کے ساتھ
, रु اور सु کے ساتھ
کا اضافہ ہے
 

عدیل منا

محفلین
قادری صاحب! ہندی الفاظ میں "ز" "ذ" "ض" نہیں ہوتی اس لئے اس کا متبادل "ج" استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے ضرور کو جرور ، ذمہ داری کو جمہ داری بولتے ہیں۔ آج لگے ہاتھوں آپ ان کی ایجاد بھی کردیں تو تاریخ میں آپ کا نام گولڈن ہونے کا چانس بن سکتا ہے۔:)
 
قادری صاحب! ہندی الفاظ میں "ز" "ذ" "ض" نہیں ہوتی اس لئے اس کا متبادل "ج" استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے ضرور کو جرور ، ذمہ داری کو جمہ داری بولتے ہیں۔ آج لگے ہاتھوں آپ ان کی ایجاد بھی کردیں تو تاریخ میں آپ کا نام گولڈن ہونے کا چانس بن سکتا ہے۔:)
اس پر بحث فرمائیں
 
Top