قدر اُن سے مشابہ ہین مثلاً الف۔ الف کے معنی بیل کے سرکے ہین چونکہ ا کی آواز اس لفظ کے آغاز مین تھی۔ تو اس آواز کے ظاہر کرنے کے لیے گائے کا سر بنادیتے تھے۔ بعد ازان خود یہ لفظ بجائے ا کی آواز کے تحریر مین ایک حرف قرار پایا۔ اور یہی وجہ ہے کہ فارسی، عربی، عبرانی زبانوں کے حروف درحقیقت الفاط ہین۔ جس کی ابتدا کے حروف اسکی مناسب آواز کی بجائے کام دیتے ہیں۔
اسی طرح ب درحقیقت بیت سے ہے جس کی ابتدائی شکل ایک مکان مستطیل کی سی تھی اور سکے نیچے نقطہ ایک شخص تھا جو مکان کے دروازہ کے سامنے بیٹھا تھا اب رفتہ رفتہ اسکی شکل ایسی ہوگئی اور وہ آدمی نقطہ رہگیا۔
ج جمل لینے اونٹ ہے۔ اگر کوئی شخص اونٹ پر سوار ہو اور سکی نکیل زور سے کھینچے تو اسکے سر اور گردن کی شکل بعینہ ج کی ہوجائے گی۔
پ عبرانی مین منھ کے معنی ہین۔
د (عبرانی دالت) دروازہ۔
ہ۔ دریچہ۔
ع (عین کے معنے آنکھ کے ہین چناچہ (ع) کا سر بالکل آنکھ کے مشابہ ہے۔
ن (نون) مچھلی۔ مشابہت ظاہر ہے۔
ک (کف ہتھیلی) اگر ہتھیلی پھیلائی جائے تو انگلیان انگوٹھے کے ساتھ ملکر بالکل (ک) کی صورت بن جاتی ہین۔
م (میم پانی کی لہر) صورت سے ظاہر ہے۔
س عرانی مین دانت کو کہتے ہیں (س) کا دندانہ بالکل دانت کے مشابہ ہی۔
و (واؤ) کے معنی ہک یعنی کانٹے کے ہین جسکی صورت و سے ملتی ہے۔
غرض اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے حروف دراصل الفاظ ہین جو دو یا دو سے زائد آوازان سے مرکب ہین۔ اور ہر ایک بہ لحاظ اپنی اول سادہ آواز کے ایک علامت مقرر کرلیا گئا ہے مثلاً الف مین تین آوازین ا،ل،ف کی ہین مگر آواز اول ہی اس لیے اسے آ کے بجائے مقرر کرلیا اسی طرح دوسرے حروف کے متعلق قیاس کرلیا جائے۔ ابتداء مین اس سادہ آواز کے لیے اس شئے کی تصویر کھینچ دیجاتی تھی۔ مگر اب ایک چھوٹی سی علامت جو کسی قدر اصل اشیاء کے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے حروف تہجی بولنے مین درحقیقت الفاط ہین۔ اردو حروف تہجی کل چونتیس ہیں اور انمین ہر قسم کی آواز کے ادا کرنے کی گنجائش ہے اور اس خیال سے اردو ابجد کو دنیا کی تمام زبانوں پر ایک طرح تفوق حاصل ہے۔ مگر دنیا کی کوئی ابجد کامل نہین ہے ایک نہ ایک نقص ضرور رہ جاتا ہے۔ یا تو کل سادہ آوازون کے ادا کرنے کے لیے کافی حروف نہیں ہوتے یا ایک ہی آواز کے لیے کئی کئی حروف ہوتے ہین۔ کہتے ہین کہ اردو زبان بھی اس سے خالی نہین چناچہ یہ آخری نقص اردو زبان مین بھی پایا جاتا ہے لیکن بات یہ ہے کہ اردو کو علاوہ فارسی سنسکرت کے عربی سے بھی بڑا تعلق ہے اس لیے کثرت سے اسکے الفاظ زبان مین موجود ہین اور اس وجہ سے لامحالہ اسکے تمام حروف بھی اردو ابجد مین آگئے۔ ورنہ عربی الفاظ صحت تحریرہن قائم نہ رہتی۔ چناچہ ز ذ ض ظ چار الگ حروف ہین جن کی آواز قریب قریب یکسان معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح ث ص اور ت ط اور ح ہ۔ گو عرب کا باشندہ یا وہ شخص جو صحب زبان کا خیال رکھتا ہے ان حروف کے تلفظ مین فرق باسکی۔
مگر ہر ایک کے لیے اسکا امتیاز دشوار ہے، تاہم غورف سے دیکھا جائے تو علم اللسان کی رو سے اردو ابجد ہر طرح کامل ہے اور یہ کہا جانا کہ بعض حروف ایک سی آواز پیدا کرتے ہین درحقیقت ایسا نہین ہے۔ انمین نازک فرق ہے۔ اور یہ فرق ہی اسکی خوبی اور کمال کی دلیل ہے۔ کیونکہ ذرا ذرا سے فرق کے لیے بھی الگ الگ حروف موجود ہین۔
اعراب یا حرکات
سادہ آوازون کو ہم بلاتکلف ہونٹ اور زبان کی امداد سے ملا کر مرکب کرلیتے ہین۔ اور اس طرح فراٹے سے بتاین کرتے چلے جاتے ہین جیسے کسی نے کل کوک دی۔ زبان اور لب کی ذرا سی جنبش سے آواز کی مختلف صورتین پیدا ہوجاتی ہین۔ آواز کا پھیلنا، تند ہونا، بڑہنا، گھٹنا، گول ہوجانا، سب اسی پر منحصر ہے۔ اگرچہ بہت کوشش کی گئی لیکن اب تک کامیابی نہین ہوئی۔ بعض زبانوں مثلاً سنسکرت، انگریزی وغیرہ مین سادہ آوازون کے مرکب کرنے کے لیے جو جنبش لب و زبان کو ہوتی ہے اسکے لیے بعض حروف مناسب قرار دیے ہین اور جہاں دو یا دو سے زیادہ حروف کا ملانا منظور ہوتا ہے وہان انمین سے بہ لحاظ آواز کے ایک نہ ایک حرف ضرور آتا ہے اس لیے اس قسم کی ہر زبان مین حروف کی دو قسمیں کی گئی ہیں۔ ایک وہ جو دوسرے حروف کو ملا کر آواز قائم کرنے کے لیے آتی ہین۔ جنھیں عربی مین حروف علت کہتے ہین اور دوسرے وہ جو بغیر ان حروف کے آپس مین مل کر آواز پیدا نہیں کرسکتے وہ حروف صحیح کہلاتے ہین۔
اردو میں مثل عربی کے حروف علت دو قسم کے ہیں ایک محض علامات(حرکات)دوسرے اصل حروف ا د ی جنکی تفصیل ذیل مین لکھی جاتی ہے۔
زبر۔ (جسے عربی مین فتح کہتے ہین۔ جس کے معنی کھلنے کے ہین۔ یعنی کل آواز کھل کر نکلتی ہے) زبر کے معنی اوپر کے ہین۔ چونکہ یہ علامت حروف کے اوپر آتی ہے اس لیے زبر کہتے ہین اور درحقیقت الف کی آواز پیدا کرتا ہے۔ اس آواز کو لنبا کرنے سے الف کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ جیسے مَر اور مار۔
زیر۔ (جسے عربی میں کسرہ کہتے ہین جس کے معنی توڑ ڈالنے کے ہین۔ کیونکہ آواز مین ایک قسم کی شکن واقع ہوتی ہے)۔ زیر کے معنی نیچے کے ہین زیر اس لیے کہتے ہین کہ اسکی آواز خفیف ی کی سی ہوتی ہے۔ لیکن ی کے ساتھ آنے مین دو قسم کی آواز پن پیدا ہوتی ہین ایک زیادہ باریک اور طویل دوسری کسی قدر واضح اور کھلی ہوئی ہوتی ہے جیسے شیر (جانور) شیر (دودہ) یہان ی کی دو حالتین ہین پہلی حالت مین یائے خفی (محہجول) ہے اور دوسری حالت مین یا ے جلی (معروف)۔ محبول کے نیچے معمولی لکھا جائے اور معروف کے نیچے کھڑا زیر جیسے پیر، تیر۔
واؤ کی بھی حالتین ہین ایک خفی (مہجول) جیسے موم مین دوسرے جلی (معروف) جیسے روم مین۔
الف وادی کبھی حروف صحیح بھی ہوتے ہین۔ الف جب شروع مین آتا ہے تو ہمیشہ حروف صحیح ہوگا۔ واؤ جب لفظ کے شروع مین یا میسر کے درمیان۔ یون زبر الف کے ساتھ زیر ی کے ساتھ واؤ پیش کے ساتھ آتی ہے، اور بہ لحاظ آواز کے ان کا جوڑ بھی ہے لیکن بعض اوقات ایسا نہین ہوتا بلکہ مختلف حرکات کا اجتماع ہوجاتا ہے مثلاً زبر اور واؤ کا جیسے قوم۔ اس وت یہ دونون مختلف حرکات ایک ہی آواز دیتی ہین یہی حالت ی کی بھی جیسے خیر۔ اسے واؤ یا ئ ما قبل فتح کہتے ہین۔ واؤ مہجول پر معمولی پیش اور واؤ معروف پر الٹا پیش لکھتے ہین جیسے بوند، شور، نور، چور،۔
( ّ)جب کوئی حروف مکرر آواز دیتا ہے تو بجاے دو بارا لکھنے کے صرف ایک ہی بار لکھتے ہین۔ اور اسپر یہ علامت ( ّ) لکھدیتے ہین اسکا نام تشدید ہے۔ مثلاً مدّت بجائے مددت لکھنے کے د پر تشدید کی علامت لکھ دی اور اس سے مقصد حاصل ہوگیا۔ جس حروف پر تشدید ہوتی ہے اسپر علاوہ تشدید کے زبر زیر پیش مین سے کوئی علامت ضرور ہوتی ہے۔ تاکہ پڑہنے مین زبان سے وہی آواز نکالی جائے۔ لیکن جب تشدید ی ی واؤ پر آتی ہے تو لفظ کے پہلے جز کی حرکت کو گھمانا پڑتا ہے ورنہ تلفظ صحیح نہو ہوگا مثلاً نیّر اگر معمولی طور سے اسکے ہجے کیے جائین گے تو یہ ہونگے ( نے یر) مگر یہ صحیح نہو ہوگا اس لیے ے کے زبر کو گھما کر پڑھنا ہوگا۔ اسی طرھ نواب۔ معمولی طور سے ہجے کرین تو (نوواب) ہوگا۔ لیکن بوجہ تشدید و کو گھما کر پڑہنا چاہیے۔
جزم یا سکون (۸) جب کسی حروف پر کوئی حرکت زیر زبر پیش مین سے نہو جیسے دکم من م پر جزم ہے تو ایسے حرف کو ساکن کہتے ہین۔ ساکن کے معنی ٹھہرنے والے کے ہین یعنی اس حرف پر آواز ٹھہر جاتی ہے۔
مد (خالی مد کا نشان نہیں ملا مجھے) الف کو جب کھینچ کر پڑہتے ہین تو اس وقت اسپر یہ علامت لگا دیتے ہین جیسے آم۔ ایسے الف کو الف ممدودہ کہتے ہین مد کے معنی لمبا کرنے یا کھینچنے کے ہین۔
ہمزہ (ء) اسے غلطی حرف مین شامل کرلیا گیا ہے یہ درحقیقت ی کے ساتھ وہی کام دیتی ہے جو مد الف کے ساتھ (یعنی جہان ی کی آواز کھینچ کر نکالنی پڑے اور قریب دو ی کے ہو وہان اسے لکھ دیتے ہین) یہ ہمیشہ ی یا و کے ساتھ آتا ہے جیسے کئی۔ تئین۔ کھاؤ۔ جدائی۔ الف کا مد شروع اور درمیان دونون مین آسکتا ہے مگ ء ی یا و پر صرف درمیان یا آخر مین آتا ہے۔
تنوین ( ً ) کسی اسم کے آخر دو زبر یا دو زیر یا دو پیش آنے کو تنوین کہتے ہین۔ تنوین کا مادہ نون ہے چونکہ اس علامت کے دینے سے اس کے آخر حرف کی آواز نون پیدا ہوتی ہے اس لیے اسے تنوین کہتے ہین جیسے نسلاً بعد نسل اتفاقاً دفعتہً یہ صرف عربی الفاظ مین آتی ہے۔
نوٹ
ان علامات کو اعراب اس لیے کہتے ہین کہ اہل عرب کی ایجاد سمجھے جاتے ہین اور کسی دوسری زبان مین نہین پائے جاتے اعراب کے معنی ہین کہ کسی حرف پر انمین سے کسی علامت کا لگانا انہین حرکات بھی کہتے ہین کیونکہ ان علامات سے آواز مین حرکت پیدا ہوجاتی ہے لیکن چونکہ جزم سے سکوم حاصل ہوتا ہے اس لیے پورا نام حرکات و سکنات اعراتب کا لفظ مختصر ہونے کی وجہ سے زیادہ مناسب ہے۔
جس حرف پر کوئی حرکت ہوتی ہے اس متحرک کہتے ہین۔
بشکریہ فہیم