محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
وہ ایک اداس سی شام تھی۔ ہم نے جونہی محفل میں داخلے کا کلمہ عبور لکھا اور اپنی جانی پہچانی محفل میں وارد ہوئے، ہم حیران رہ گئے۔ کیا ہماری ویرانی ء دل اور ہماری وحشت جاں کی کیفیت اس قدر عیاں تھی، کیا ہمارا راز یوں افشاء ہوچلا تھا تھا کہ ایک بے جان کمپیئوٹر کو بھی اس بات کا علم ہوچکا تھا۔ آج ہی ہم نے محفل پر اپنے ایک ہزار مراسلے مکمل کیے تھے۔ اس وقت اطلاعات کے خانے میں ایک سرخ عدد کو دیکھ کر ہم نے وفورِ شوق سے اسے کلک کیا اور ایک عجیب و غریب پیغام ہمارا منہ چڑا رہا تھا۔
آپ کو تمغہ فورم کا نشہ ہو گیا ہے دیا گیا ہے۔
کیا واقعی ایسا ممکن ہے۔ کیا آرٹی فیشیل انٹیلیجنس کا شعبہ اس قدر ترقی کرگیا ہے کہ ایک کمپئیوٹر ہزاروں میل دور سے بھی اپنے سحر میں گرفتار شخص کی ذہنی حالت کا ادراک کرسکتا ہے؟ واقعی حیرت انگیز!
کیا ہم اپنی اصل دنیا ء سے رفتہ رفتہ منہ موڑتے ہوئے اس سرئیل دنیاء میں اس قدر محو ہوچکے ہیں کہ اب یہی ہماری اصل دنیاء بن چکی ہے اور واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے؟ ہمیں تو واقعی فورم کا نشہ ہوگیا ہے۔ کوئی ہے جو ہمیں اس تخیلاتی دنیاء سے واپس لے جانے کی ہمت رکھتا ہو؟ ارے کوئی ہے؟
’’ سب سے پہلی چیز جس کا میں نے ادراک کیا وہ ارد گرد کے ماحول کا واضح پن اور غیر مبھم انداز تھا، یہی حال ارد گرد کی زمین کا تھا۔ جو انتہائی صاف ستھری اور چمکدار سبزی مائل مٹیالے رنگ کی تھی۔ کہیں کسی جانب بھی کسی خوابناک ابہام اور نرمی کا شائبہ تک نہ تھا۔ افق پر نظر آنے والے پہاڑ آسمان کے ساتھ ملتے ہوئے نظر نہیں آرہے تھے، بلکہ سخت اور گہرے انداز میں الگ الگ سر اُٹھائے کھڑے تھے۔ اور اتنے قریب تھے کہ میں چاہتا تو ہاتھ بڑھا کر انھیں چھو سکتا تھا۔ ان کی یہ قربت مجھے یوں حیرت میں ڈالے ہوئے تھی گویا ایک بچے کے وہ محسوسات جب وہ پہلی مرتبہ دوربین سے دور افق پر نظر آنے والے مناظر دیکھتا ہے اور انھیں بہت قریب محسوس کرتا ہے۔
وقوع پزیر ہونے والی اس تبدیلی کے بارے میں میرا خیال تو صرف اتنا تھا کہ میں صرف ایک دوسری قسم کی ہیئت کی تبدیلی کے امکانات پر غور کرتا رہا تھا۔ کیف و سرور کا ایک نشئی انداز، ایک خوابناک سی کیفیت جس میں ارد گرد کی ہر شے دھندلی ، مبھم اور غیر واضح سی ہوتی۔ نہ کہ یہ عجیب و غریب اور اچھوتا صاف شفاف پن، حقیقت کا پہلے سے زیادہ واضح انداز میں ادراک، جس کا میں نے ابھی تک سوتے یا جاگتے میں تجربہ نہیں کیا تھا۔اب تو میرا ہر احساس پہلے سے زیادہ حقیقی اور غیر مبھم انداز میں ذہن پر کچوکے لگارہا تھا۔ صرف لمس کے علاوہ، دیگر حواسِ اربعہ دیکھنے ، چکھنے سننے اور سونگھنے کی حسیں پہلے سے زیادہ قوی انداز میں میرے اندر جانگزیں ہوچکی تھیں۔ ، البتہ میں کسی مرئی شے کو محسوس نہیں کرپارہا تھا۔‘‘
(’’مٹی کا گھروندا ‘‘۔ از ڈیفنی ڈی موریئر)
اس طرح وہ ناول شروع ہوتا ہے جس میں ہیرو اپنے دوست پروفیسر میگنس کی ایجاد کردہ دوائی پی کر ماضی کی سرئیل اور غیر مرئی دنیا میں چلا جاتا ہے۔۔
یوں تو یہ ناول دوکہا نیوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، جن میں سے ایک کہانی پروفیسر میگنس اور اس کے دوست یعنی ہمارے ہیرو کی کہا نی ہے جو زمانہ حال میں جی رہے ہیں اور اسی طرح دوسری کہانی ماضی کی ہے جہاں پر ہیرو اس دوائی کے زیرِ اثر پہنچتا ہے۔ہمیں فی الوقت ان دونوں ہی کہانیوں سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ یہاں پر خاص طور پر اس ناول کا تذکرہ دراصل اس احساسِ شمولیت کا تذکرہ ہے جو ہیرو اُس ماضی کے لیے محسوس کرتا ہے ۔پہلے پہل وہ اس عجیب و غریب دنیا (ماضی) کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، اور پھر رفتہ رفتہ اس کا ذہن اس ماضی کا حصہ بنتا جاتا ہے۔ وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ اب وہ اس ماضی سے الگ رہ کر جی نہیں سکتا، یہی ماضی جواسکی پہچان بن چکا ہے۔
اسی طرح ہمارے مطالعے میں ایک اور ناول بھی رہا جس کا نام اسٹرینجرز ( یعنی اجنبی ) ہے۔ جو ایک جاپانی مصنف جناب تائی چی یامادا کا لکھا ہوا ہے اور اس کا انگریزی ترجمہ جناب وائن پی لیمرز نے کیا ہے۔
بہتر معلوم ہوتا ہے کہ ہم برسرِ مطلب آنے سے پہلے اس ناول کے فلیپ پر لکھے ہوئے تبصرے اور مختصر کہانی کا اردو ترجمہ آپ کی خدمت میں پیش کردیں۔
’’ٹیلیویژن کے لیے کہانیاں لکھنے والا ادھیڑ عمر ہیراڈا جو اپنی طلاق کے حادثے اور دیگر مایوس کن واقعات کے سبب زندگی سے اکتایا ہوا ہے، اپنے گھر کو چھوڑ کر اپنے دفتر میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتا ہےجو ایک اونچی عمارت کے اندر واقع ہے، جس کی بالکونی سے ٹوکیو کا مصروف کاروباری مرکز نظر آتا ہے۔ ایک رات اپنے کھوئے ہوئے بچپن کی یادوں میں غلطاں ، چلتے چلتے، وہ ٹوکیو کے بدنام علاقے میں جاپہنچتا ہے۔ وہیں ایک بائیسکوپ دیکھتے ہوئے اس کی ملاقات ایک پرکشش شخصیت سے ہوجاتی ہے جو ہو بہو اس کے باپ کی شکل کا ہے جو کئی سال ہوئے مرچکا ہے۔
اس طرح ہیراڈا کی زندگی کی اس کشمکش کا آغاز ہوتا ہے ، جس میں وہ اپنے مردہ ماں باپ سے یوں ہر روز ملاقات کررہا ہوتا ہے گو یا دونوں زندہ اسی شہر کی ایک گمنام اور غریب بستی میں ایک معمولی سے گھر میں رہ رہے ہیں۔ ان دونوں اجنبیوں کی شکلیں ہوبہو اس کے مردہ ماں باپ جیسی ہیں جب ان کا انتقال ہوا تھا۔ اگرچہ اسے علم ہے کہ یہ دونوں اسکے اصلی ماں باپ نہیں بلکہ شاید ان کے بھوت ہیں اسےان سے ملکر اور ان کی محبت کو دوبارہ پاکر ایک گونہ سکون و اطمینانِ قلبی حاصل ہوتا ہے۔ ان سے ہر ملاقات کے بعد وہ اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ کمزور محسوس کرتا ہے گویا وہ اسے رفتہ رفتہ زندگی کی بشاشت سے محروم کررہے ہیں اور اسے اپنے ماضی میں رہنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود وہ اپنے آپ میں اتنی قوت نہیں پاتا کہ ان سے جدا ہوکر ایک عام اور صحت مند انسان کی مانند اپنے ماضی سے رشتہ توڑ کر صرف اپنے حال میں جی سکے۔‘‘
(اجنبی از تائی چی یماڈا)
اب ذرا اسکرین پر اسکرول کرتے ہوئے اس مضمون کے شروع میں پہنچ جائیے جہاں ہم نے ’’مٹی کا گھروندا ‘‘ نامی ناول کے ابتدائی پیراگراف کا ترجمہ پیش کیا ہے۔
اس ناول کی کہانی بھی ہیرو کی اس کشمکش کی کہانی ہے جس میں وہ اپنے حال سے رفتہ رفتہ جدا ہورہا ہے۔ اور اپنے ماضی میں اس قدر محو ہوتا جارہا ہے گویا حال سے اس کا رابطہ منقطع ہورہا ہو۔ باوجودیکہ ماضی میں اس کا یوں کھویا جانا ، اسے اپنے حال سے دور کررہا ہے ، لیکن وہ ماضی میں اس قدر محو ہوچکا ہے اور اس قدر کشش محسوس کرتا ہے کہ اس کی زمانہء حال میں واپسی قریب قریب ناممکن معلوم ہوتی ہے۔
بہت سال گزرے، کہیں کسی ادبی رسالے میں ہم نے ایک ڈرامہ پڑھا تھا۔ ڈرامے کا اور مصنف کا دونوں نام گوذہن سے یکسر محو ہوچکے ہیں، لیکن اتنا یاد ہے کہ اس میں ہماری طرح کا ایک اینٹی ہیروجو شہرت کی شدید خواہش رکھنے کے باوجود اس سے کوسوں نہیں بلکہ برسوں دور ہے، ایک رات شہرت کی دیوی کو اپنی خواب گاہ میں موجود پاکر حیران رہ جاتا ہے۔ دیوی اسے یہ خوش خبری دیتی ہے کہ وہ ایک مشہور مصنف بن چکا ہے۔
دیوی اس سے اس کی پسندیدہ اشیاء کے بارے میں پوچھتی ہے، پھر بالکونی کا دروازہ کھول کر نیچےجھانکتی ہے اور اعلان کرتی ہے کہ لوگو! تمہارے پسندیدہ مصنف کو فلاں فلاں چیزیں بہت پسند ہیں۔ نیچے مجمع سے داد و تحسین اور مصنف کے لیے نعرے لگانے کی آواز آتی ہے۔
آج سے چھ سو نوری سال ( چھ سو دن) اور ایک ہزار پیغامات کی دوری پر ، ۲۳ دسمبر ۲۰۱۰ء وہ دن ہے جب ہمیں اپنے کمپئیوٹر پر اردو لکھنا سیکھے ابھی چند ہی روز ہوئے تھے اور ہم شاید اردو لکھ کر گوگل کررہے تھے کہ اچانک ہماری نگاہ اردو محفل پر پڑی اور ہم نے فوراً ہی رجسڑیشن کے مراحل طے کرلیے۔
اس کے بعد کی کہا نی ایک رولر کوسٹر رائیڈ ہے۔
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
ہم اپنے آپ کو اس جسم کی مانند محسوس کرتے ہیں جو ایک طوفانِ گرد باد میں پھنسا ، اپنے آپ سے بے خبر، اپنے مستقر کی جانب اڑا چلا جارہا ہو۔ یا ان اجرامِ فلکی کی مانند جو روشنی کی سی تیز رفتار کے ساتھ اپنے لمبے ہوتے ہوئے، کھنچتے ہوئے جسموں سمیت کسی بلیک ہول کے مرکز کی جانب بہے چلے جاتے ہوں۔ کوئی دن جاتا ہے کہ ہم ایونٹ ہورائزن کو پار کر جائیں گے اور ایک قصہء پارینہ بن جائیں گے۔
ہمیں فورم کا نشہ ہوگیا ہے۔ ہمیں فورم کا نشہ ہوگیا ہے۔ ہمیں نشہ ہوگیا ہے۔ ہمیں۔۔۔۔۔۔۔