جنابِ حضرتِ احساسؔ کی غزل سن کر
جنابِ حضرتِ اظہر نذیر ؔ آتے ہیں ۔۔
اردو محفل کے خوب خوب مشق میں مستغرق جوان ولولہ سے سرشار شاعر جناب محمد اظہر ؔنذیر کو دعوتِ سخن دیتے ہوئے مجھے خوشی ہے کہ محمد اظہر ؔنذیر نے مشاعرے میں دوغزلہ کی روایت کو زندہ کیا ہے ۔۔
محمد اظہر ؔنذیر خاصے منکسرالمزاج ہیں اور عرب دنیا ، قطر میں برسرِ روزگار ہیں ۔۔
تو جناب تشریف لاتے ہیں ۔۔ محمد اظہر ؔنذیر۔۔۔ سماعت کیجے۔۔
غزل
میں کہوں، دو جہاں سے اٹھتا ہے
درد کہ جسم و جاں سے اٹھتا ہے
دیکھ مت یوں دھواں دھواں چہرہ
یہ تو پوچھو، کہاں سے اٹھتا ہے
رُوئے گل پر ہے شبنمی آنسو
درد جو گلستاں سے اٹھتا ہے
دل میں برپا ہے شور ماتم کا
درد کیا یوں بیاں سے اٹھتا ہے
آتش عشق سرد ہے کب سے
یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے
آہ بن جائے گا فنا ہوکر
جو دھواں سائباں سے اٹھتا ہے
بزم ہے چل چلاؤ کی جاری
جس کو دیکھو، یہاں سے اٹھتا ہے
بھر گئی ہے زمیں گناہوں سے
شور جو آسماں سے اٹھتا ہے
مختصر ذکر تھا ترا اظہرؔ
وہ بھی اب داستاں سے اٹھتا ہے
----------------------
میری آہ ُ فغاں سے اُٹھتا ہے
درد جو جسمُ جاں سے اُٹھتا ہے
درد جاتا رہے گا، شک کیا ہے
چن سکو گر جہاں سے اُٹھتا ہے
کون وقتوں سے گل پڑے گھائل
درد کیا گلستاں سے اُٹھتا ہے؟
درد الفاظ میں چھپانا سیکھ
یوں لگے نہ، بیاں سے اُٹھتا ہے
بیٹھتا اور ماں کے قدموں میں
باولے، سا ئباں سے اُٹھتا ہے
کون سا زہر مل گیا جگ میں
جی تو جیسے یہاں سے اُٹھتا ہے
ہو رہا کیا ہے اے زمیں والو؟
شور کیوں آسماں سے اُٹھتا ہے
کیا دبی رہ گئی تھی چنگاری؟
’’یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے‘‘
ایک کردار تھا ترا، اظہرؔ
ختم تو داستاں سے اُٹھتا ہے
محمد اظہر ؔنذیر
بزم ہے چل چلاؤ کی جاری
جس کو دیکھو، یہاں سے اٹھتا ہے
---------
سبحان اللہ سبحان اللہ کیا عمدہ شعر ہے ماشا اللہ بہت خوب ۔۔
اظہر بہت خوب۔۔۔واہ واہ واہ ۔۔۔۔۔۔واہ واہ واہ
بزم ہے چل چلاؤ کی جاری ---جس کو دیکھو، یہاں سے اٹھتا ہے
حاصلِ غزل شعر ہے ۔۔ سبحان اللہ۔۔۔ واہ واہ واہ